اسلام معروف معنیٰ میں کوئی مذہب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے، جو اس لئے آیا ہے انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی و غلامی میں داخل کرے۔اسلام زندگی کاایک مکمل نظام ہے جو حیات انسانی کے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لینا چاہتا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ سیدنا رسول اللہ ﷺ،صحابہ کرامؓ اور اسلاف عظامؒ کی انتھک جدوجہد و مساعی سے اسلام دنیا کی ایک غالب قوت کی صورت میں ابھرا اور پوری انسانیت کو اپنے فیوض وبرکات سے مستفید کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اور ہر دور میں اپنے دین کے غلبہ و نفاذ کے لیے ایسے رجال کو پیدا کیا ہے، جنھوںنے تیز و تند مخالف ہوائوں کی پروا کیے بغیر جاری رکھا۔
دور حاضر میں اسلام کے ان سپوتوں میں نمایاں نام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، امام حسن البنائ شہیدؒ سید قطب شہیدؒعلامہ اقبالؒ اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒکے ہیں ۔مجددین اور مصلحین کے انھی ناموں میں ایک اہم نام ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا بھی ہے۔ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کسی اختلاف کی وجہ سے جماعت اسلامی سے الگ ہوگئے تھے، مگر مولانا مودودیؒ کی نگاہِ حقیقت شناس نے ان کے بارے میں یہ معنی خیز جملہ کہا:
’’ اس شخص کے بارے میں مجھے یہ اطمینان ہے کہ وہ جہاں بھی رہے گا دین کا کام کرتا رہے گا‘‘
﴿اسلام اور پاکستان از ڈاکٹر اسرار احمدؒص:۵﴾
مرد مومن کا یہ ‘‘اطمینان’’ پوری امت کے ‘‘اطمینان’’میں اس وقت تبدیل ہوا جب ڈاکٹر اسرار ؒ ایک داعی، ایک مصلح ،ایک مفکر اور سب سے بڑھ کرنظام خلافت کے قیام کے لیے جد وجہد کرنے والے ایک مجاہد کی صورت میں سامنے آئے۔ڈاکٹر صاحبؒ نے اقامت دین اور غلبۂ اسلام کی انقلابی جد جہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور مقصد وحید بنایا ۔وہ دور حاضر کے کئی علمائ اور دانشوروں کی طرح دین کو اس کے محدود معنیٰ میں نہیں لیتے۔ بلکہ ان کاتصور دین مولانا مودودیؒ کی طرح انقلابی ہے۔وہ ‘‘دین’’کو ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ‘‘دین’’کی تعریف کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں:
’’ایک پورا انظام زندگی اور مکمل ضابطہ حیات جس میں ایک ہستی یا ادارے کو مطاع،مقنن ﴿law giver﴾ اور حاکم مطلق﴿sovereign﴾مان کر اس کی جزا کی امید اور سزا کے خوف سے اس کے عطا کردہ قانون اور ضابطے کے مطابق اس ہستی﴿یا ادارے﴾کی کامل اطاعت کرتے ہوئے زندگی بسر کی جائے‘‘ ﴿مطالبات دین ص:۷۶و۷۷﴾
ڈاکٹر اسرار احمددین کے اس محدود تصور کو کہ وہ صرف چند عقائد و عبادات کا مجموعہ ہے،امت مسلمہ کے حق میں برگ حشیش قرار دیتے ہیں اور اسے مغربی استعمار کی غلامی اور مسلمانوں کے زوال کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ صدیوں کے مسلسل زوال کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کا بحیثیت دین تصور ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔چنانچہ مغربی استعمار کی غلامی کے دور میں بھی ہم مسلمانوں کو عقائد، نماز،روزے،زکوٰۃ،حج وغیرہ کی پوری آزادی تھی۔ہمیں اجازت تھی کہ بچے کی پیدایش پر عقیقہ کریں،شادی کے موقع پر نکاح کا طریقہ اختیار کریں ،فوت کی صورت میں تجہیز و تکفین کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تمام چیزیں عقائد، عبادات ، رسومات‘تو ہماری نظروں میں رہیں ،لیکن چوں کہ اس دور غلامی میں ہمارا سماجی،معاشی اور سیاسی نظام برقرار نہ رہا،لہٰذا اسلام کے یہ پہلو ہمارے اجتماعی شعور سے غائب ہوگئے ’’۔ ﴿اسلامی نظم جماعت میں بیعت کی اہمیت،ص:۷﴾
ڈاکٹر اسرار احمدکا ماننا ہے کہ ‘‘دین’’کے ‘‘دین’’ ہونے کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ وہ نافذ و غالب ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ دین کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے ۔آپؒ لکھتے ہیں:
’’یہ دین اپنا نفاذ اور غلبہ چاہتا ہے۔وہ دستور اور قانون بے معنیٰ ہے جوکہیں نافذ نہیں۔ہمارے ملک کے۴۵۹۱ اور۶۵۹۱ کے جو دستورر کھے ہوئے ہیں ،کیا وہ واقعی دستور کہلائے جاسکتے ہیں۔جبکہ وہ نافذ ہی نہیں’’ ﴿مطالبات دین،ص:۸۳﴾
ڈاکٹر اسراراحمدؒ ایک مصلح کی حیثیت سے امت مرحومہ کی موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی دورخی پالیسی پر یوں تنقید کرتے ہیں :
’’یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کے نام سے جو قوم بس رہی ہے، وہ دعویٰ تو اس بات کا کرتی ہے کہ اصل دستور اور قانون خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت ہے،لیکن یہ عجیب شتر گربگی ہے کہ ان کا عمل اس دعوے کے بالکل برعکس ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کا عطا کردہ دستور و قانون ان کی عملی و اجتماعی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتا‘‘﴿ایضاً ص: ۸۳و۸۴﴾
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے یہاں ہم فقط دین کا یہ جامع اور واضح تصور ہی نہیں پاتے بلکہ ان کے یہاں اس دین کو غالب و نافذ کرنے کی تڑپ اور اسے معاشرے میں غالب کرنے کے حوالے سے واضح ہدایات بھی موجود ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ فقط علمی ہی نہیں بلکہ ایک عملی مفکر اور مجاہد بھی تھے ۔اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے‘‘تنظیم اسلامی’’ اور ‘‘تحریک خلافت’’ کے نام کی تنظیمیں بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ فقط ‘‘کہنے’’کے ہی نہیں بلکہ عملی میدان میں کچھ‘‘کرنے’’کے بھی قائل ہیں ۔
ایک انقلابی جماعت کی تشکیل اور پھر اس جماعت کے منہج کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی سیرت نبویہﷺ سے ماخوذ ایک باقاعدہ کتاب‘‘منہج انقلاب نبویﷺ’’ کے نام سے موجود ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اسلام کے غلبے کے لیے اٹھنے والی انقلابی جماعت جامعیت کی حامل اور‘‘رھبان بااللیل و فرسان با النھار’’کا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ وہ دعویٰ تو پوری دنیا میں رب کے نظام کو غالب کرنے کا کرے مگر اپنی ذات کے حوالے سے ‘‘خود را فضیحت دیگراں را نصیحت’’کے بمصداق احکامات الٰہی سے فرار کی راہ اختیار کرے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’پہلا مرحلہ ہے تیاری کا۔اس کیلئے درویشی چاہئے۔خاک میں ملنا پڑے گا ۔آگ میں جلنا ہوگا ۔آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزرنا پڑے گا،نفس کے ساتھ مجاہدہ کرنا ہوگا۔ان سب سے گزر کر پھر جب پختہ ہوجاوتو پھر اپنے آپ کو سلطنت جم پر دے مارو۔یعنی اسلام یہ نہیں چاہتا کہ بس اپنی ذاتی اصلاح ہی کو مقصدو و مطلوب بنالو۔یہ نہ ہو کہ خانقاہی مزاج ہی پختہ تر ہوتا چلا جائے اور میدان میں آنے کا مرحلہ ہی نہ آئے بلکہ وہ نظروں سے بالکل اوجھل ہوجائے۔باطل سے تصادم کیلئے تیاری بھی بہت ضروری ہے،بغیر تیاری کے میدان میں آگئے تب بھی ناکامی ہے ۔لیکن اگر محض تیاری ہی ہوتی رہے اور باطل کے خلاف نبرد آزما ہونے کا خیال بھی دل میں نہ آئے تو وہ تیاری بے کار ہوجائے گی ‘‘﴿منہج انقلاب نبویﷺ ص۵۲﴾
ڈاکٹر صاحبؒ کا ماننا ہے کہ تزکیہ و طہارت کے بعد طاغوتی حکومتوں سے تصادم کا مرحلہ آنا بہر حال لازمی ہے اور اس تصادم اور ٹکراؤکے بغیر اسلامی انقلاب کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ آپ ؒ لکھتے ہیں :
’’معاشرہ چاہے سرمایہ دارانہ ہو یا جاگیردارانہ،کمیونزم کو مانتا ہو یا سوشلزم کو ،ظالمانہ ہو یا آمرانہ،یعنی اللہ کے سوا کسی اور کا قانون چل رہا ہو،تو اگر ایمان موجود ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہوگا کہ ایسے فاسد نظام سے ٹکرا جاؤ۔اب بات نظریاتی نہیں رہے گی ،کیونکہ اس نظام کے ساتھ مراعات یافتہ طبقات کے مفادات اور vested interestsوابستہ ہیں۔وہ ٹھنڈے پیٹوں آپ کی بات نہیں چلنے دیں گے۔بلکہ وہ اس نظام کا ہر قیمت پر تحفظ و دفاع کریں گے،اور آپ کو ان سے ٹکرانا ہوگا۔یہ طاقت کا طاقت سے بالفعل ٹکراؤ ہوگا ۔یہی جہاد کی بلند ترین منزل ہے،جہاں پہنچ کر جہاد قتال کی شکل اختیار کر لیتا ہے‘‘۔﴿حقیقت ایمان ،ص۱۳۴﴾
الغرض ڈاکٹر اسرا ر احمدؒ ایک عظیم اسکالر اور مفکرتھے اور ایک مفکر ہماری تعریفوں اور خراجِ عقیدت کا محتاج نہیں ہوتا ۔ایک مفکر کے لیے خراج عقیدت یہ ہے کہ اس کے افکار و نظریات کو لے کر اٹھا جائے اور انہیں دنیا میں عام کرنے کی تاحد امکان سعی و جہد کی جائے۔ڈاکٹر صاحب کا ماننا تھا کہ مولانا ابولاکلام آزادؒ جہاں پر اپنے انقلابی کلام سے ‘‘یہ صور پھونک کر تم سوگئے کہاں آخر’’کے مصداق دستبردار ہوئے،وہاں مولانا مودودی ؒ نے اسے آگے بڑھایا اور اب وہ خود مولانا مودودیؒ کے انقلابی مشن اور احیاء اسلام کی جد وجہد کو آگے بڑھا رہے تھے۔
میں تحریک اسلامی کے مخلص و بے باک نقیب مولانا عامرعثمانی رحمتہ اللہ علیہ ﴿ایڈیٹر ماہ نامہ تجلی، دیوبند﴾ کے اِن اشعار پر اپنی بات ختم کروںگا۔ یہ وہ اشعار ہیں، جو انھوں نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ کے سانحۂ ارتحال پر فرمائے تھے:
وہ ایک تارا جو ضوفگن تھا ، حیات کے مغربی افق پر
سیاہی شب کے پاسبانو! خوشی مناو ٔ کہ وہ بھی ڈوبا
وہ اک سفینہ جو ترجماں تھا بہت سی غرقاب کشتیوں کا
ہماری حالت پہ ہنسنے والو! ہنسی اڑاؤ کہ وہ بھی ڈوبا
وہ ایک دل جو دمک رہا تھا،خلوص و ایماں کی تابشوں سے
خلوص و ایماں کے دشمنوں کو ِخبر سناؤکہ وہ بھی ڈوبا
مشمولہ: شمارہ اگست 2010