معاشی عمل اور تکوین ثروت

 معاشیات اصلاً زمین پر انسانی حیات کی بقا اور ترقی کے لیے مادی وسائل اور ضروری خدمات کی پیداوار اور فراہمی سے متعلق علم ہے۔ زمین پر انسان افراد، ان کے مجموعے خاندان اور ان سب کے مجموعے سماج کی شکل میں رہتا ہے۔ ان کے لیے ان دنوں معیشت کی اصطلاح مستعمل ہے جب کہ اکونومکس کے ابتدائی لٹریچر میں households(یعنی خاندانوں کا مجموعہ) استعمال ہوتا تھا۔ [اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ اکونومکس یونانی زبان کے جس لفظ سے مشتق ہے اس کا معنی household management ہے۔ تقریباً اسی مفہوم میں شاہ ولی اللہ ؒ نے تدبیر منزل کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ]

معیشت میں اشیا و خدمات کی پیداوار و تقسیم، درکاروسائل کی فراہمی اور اس پورے عمل میں فریقین کے درمیان آمدنی کے بہاؤ کو درج ذیل نقشہ کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔

اشیا و خدمات کے پیداواری عمل میں سرگرم اداروں کو فرموں (firms)کا نام دیا گیا ہے۔ ان فرموں کو اپنے کام کے لیے جن وسائل کی حاجت ہوتی ہے انھیں عوامل پیداوار کہا جاتا ہے۔ معیشت کی جانب سے یہ عوامل پیداوار فراہم کیے جاتے ہیں ۔ فرموں کو درکار عوامل کے فراہم کرنے کو درج بالا نقشہ میں ’عوامل کی خدمات‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس عمل کو ’الف‘لکھ کر اس کی سمت کی نشان دہی کے لیے اس کے اخیر میں تیر کا نشان لگایا گیا ہے۔ فرمیں ان وسائل یعنی عوامل پیداوار کی فراہمی کے عوض ادائیگیاں کرتی ہیں۔ عوامل کی ان ادائیگیوں کو ‘ ب’کے ذریعے واضح کرتے ہوئے اس کی سمت کے لیے اس کے اخیر میں بھی تیر کا نشان لگایا گیا ہے۔اس طرح فرموں کی طرف سے معیشت کو اپنی خدمات کے بدلے میں آمدنی حاصل ہو جاتی ہے۔ فرمیں ان عوامل کے ذریعے پیداوار کرتی ہیں ۔ اس طرح پیدا شدہ اشیا و خدمات کو معیشت، فرموں کے ذریعے فراہم کردہ آمدنی سے خرید لیتی ہے۔ اشیا و خدمات کے فرموں کی جانب سے معیشت کی سمت جانے کے عمل کو ‘ ج’کہا گیا ہے اور اس کے اخیر میں بھی تیر کے نشان سے سمت سفر کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ معیشت کی جانب سے ان پیداوار کے خریدنے کے سبب فرموں کو آمدنی حاصل ہو جاتی ہے۔ فرموں کے اس طرح آمدنی حاصل ہونے کو ‘ د’کا نام دیا گیا ہے اور اس کے اخیر میں بھی تیر کا نشان دے کر اس عمل کے سمت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس طرح معاشی عمل کی ایک گردش مکمل ہوتی ہے اور اگلا سفراز سر نو شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی فرمیں فروخت کے ذریعے حاصل شدہ آمدنی سے اگلی معاشی گردش کے لیے معیشت سے عوامل پیداوار کی خدمات حاصل کر لیتی ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اس پورے معاشی عمل کو سادہ انداز میں درج ذیل طریقہ سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔

1۔ معاشی سرگرمیوں میں مشغول ادارے سماج سے عوامل پیداوار حاصل کرتے ہیں۔

2۔ان عوامل پیداوار کے ذریعے اشیا و خدمات کی پیداوار ہوتی ہے۔

3 سماج کے پاس عوامل پیداوار کے فروخت کے سبب جو آمدنی حاصل ہوتی ہے اس سے وہ پیدا شدہ اشیا و خدمات کو صارفین کی حیثیت سے خرید لیتا ہے۔

4۔ صارفین کی طرف سے اشیا و خدمات کی خریداری کے سبب معاشی سرگرمیوں میں مشغول اداروں کوجو آمدنی ہوتی ہے اس سے وہ اپنے پیداواری عمل کو دوبارہ جاری کر دیتے ہیں۔ اس طرح معاشی عمل دائرہ نما شکل میں چلتا رہتا ہے۔

عوامل پیداوار (factors of production) اور ان کی ادائیگیاں (payments)

اشیا و خدمات کی پیداوار میں جو عوامل لگتے ہیں ان کو ان کی خدمات کے عوض معاوضہ ملتا ہے جسے ان کی ادائیگیاں کہا جاتا ہے۔ مروجہ معاشیات میں چار عوامل پیداوار اور ان کی ادائیگیوں کا جواز پیش کیا جاتا ہے جب کہ اسلامی معاشیات میں ان میں سے ایک عامل کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ چار عوامل: زمین، سرمایہ، مزدور اور کاروباری ہیں۔

زمین

معاشیات میں قدرتی ذرائع پر مشتمل پیداوار کے عامل کو زمین کہتے ہیں۔یہ قدرت کاانسان کے لیے خصوصی تحفہ ہے۔ جدید معاشیات میں اس میں وہ تمام چیزیں شامل کی گئی ہیں جو فطرت فراہم کرتی ہے، بشمول معدنیات، جنگلاتی مصنوعات، اور پانی اور زمینی وسائل۔ اس کی کل مقدار طویل مدت میں تبدیل ہو سکتی ہے لیکن مختصر مدت میں اس کی کل فراہمی میں زیادہ تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے نسبتاً مقررہ فراہمی کا معاشی وسیلہ متصور کیا جاتا ہے۔ [2]پیداواری عمل میں زمین کی ادائیگی یعنی اس کے استعمال کا عوض بطور کرایہ دیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں آگے ہم کرایہ کی جگہ،اجارہ، کی اصطلاح استعمال کریں گے۔

سرمایہ

پیداوار کا وہ ذریعہ ہے جو انسانی محنت سے پیدا ہوتا ہے اسے سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس میں اوزار، مشینیں، عمارتیں اور پیداواری عمل کے لیے درکار رقم، وغیرہ شامل ہیں۔ پیداواری عمل کی ضرورت کے لیے ان اشیا کی فراہمی کے لیے نقد رقم بھی سرمایہ کے بطور فراہم کی جا سکتی ہے تاکہ یہ اشیا بازار سے حاصل کی جا سکیں۔ چوں کہ پیداواری عمل میں مشغول ادارےکے کھاتوں میں سرمایہ کا اندراج رقم کی صورت میں کیا جاتا ہے، اس لیے لفظ سرمایہ کا عام طور پر مفہوم پیداواری عمل کے لیے درکار نقد سمجھا جاتا ہے۔ [3] اس وجہ سے ہم سرمایہ کے لیے، زر، کی اصطلاح بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پیداواری عمل میں زمین اور زر کی معنویت اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ اول الذکر قدرت کی طرف سے انسانوں کے لیے خصوصی تحفے کے طور پر فراہم کردہ ہے جب کہ آخر الذکر انسانی کاوش کا ثمرہ ہے۔ سرمایہ کی پیداواری عمل میں شرکت کے عوض مروجہ معاشیات میں سود دیا جاتا ہے۔ اسلامی معاشیات میں اس ادائیگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

مزدور

پیداواری عمل میں لگنے والے انسانی وسیلہ (human resource)کو مزدور کہا جاتا ہے۔ ہم اس مضمون میں اسے آجر سے موسوم کریں گے۔ اس کی خدمات کے عوض جو مزدوری دی جاتی ہے اسے اجرت کہنا زیادہ مناسب ہے۔

کاروباری

پیداواری عمل کے لیے منتظم کی حاجت ہوتی ہے جوخطرات مول لے کر مستقبل میں منافع کی امید پر یہ کام کرتا ہے۔ ہم اسے تاجر کہہ سکتے ہیں۔ پیداواری عمل کا منافع تاجر کی محنت بشمول خطر مول لینے کا عوض ہے۔ یہ منافع زیادہ یا کم بھی ہو سکتا اور اس میں صفر یا منفی ’یعنی نقصان ہو جانے ‘کا بھی امکان ہے۔

عوامل پیداوار ان کی ادائیگیوں کے سلسلے میں اسلامی اور مروجہ معاشیات کے رویوں کودرج ذیل طریقہ سے دکھایا جا سکتا ہے۔

عوامل پیداوارادائیگیمروجہ معاشیاتاسلامی معاشیات
زمیناجارہجوازجواز
زرسودجوازعدم جواز
آجراجرجوازجواز
تاجرمنافعجوازجواز

ہم نے قصداً عربی حروف تہجی الف،ج،اور ر کے مادہ سے مشتق الفاظ آجر، تاجر، اجارہ اور اجر کے استعمال کو ترجیح دی ہے تاکہ اسلامی رویہ کی تفہیم میں آسانی ہو۔ اس مادہ سے بنے الفاظ میں جزا اور بدلہ کا مفہوم ہوتا ہے۔ معاشیات میں ادائیگی کا تعلق حق الخدمت (usufruct)سے ہے۔ جس عامل نے خدمت کی ہے اس کو اس کا اجر مل جائے گا۔ زمین اور آجر کی متعین مدت کی خدمات کا بدلہ (عوض) بالترتیب اجارہ اور اجر ہے۔ دونوں کی ادائیگی کا تصور ایک ہی ہے۔ زمین کی ملکیت کا اجارہ کی ادائیگی کے سبب تبادلہ نہیں ہوتا ہے۔ ملکیت محفوظ ہوتی ہے اور ادائیگی صرف استعمال کے حق کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ یہی صورت حال آجر کی بھی ہے۔ مزدور نہیں خریدا جاتا ہے بلکہ اس کی خدمت کا عوض دیا جاتا ہے۔اجر کی ادائیگی کے باوجود اپنی جان و شخصیت پر اس کے مالکانہ حقوق محفوظ رہتے ہیں۔

جہاں تک تاجر (entrepreneur)کا تعلق ہے اس کے منافع کا سبب اس کی محنت کے ساتھ اس کا کاروبار میں خطر ہ مول لینا ہے۔ کاروبار کی کام یابی کا پتہ ایک مدت کے اختتام پر چلتاہے۔ اس خطر ے کومول لینے والے کا منافع اور اس کی مقدار اجر اور اجرت کی طرح یقینی نہیں ہو سکتی ہے۔ منافع زیادہ، کم، صفر یا منفی بھی ہو سکتا ہے۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ تاجر صرف اپنے وقت کے ضیاع کا خطر ہ نہیں مول لیتا ہے بلکہ اس زر کا بھی خطر ہ جو اس نے کاروبار میں لگاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں زر لانے کی ذمہ داری اس کی ہےاس لیے اس پر منافع کے علاوہ کسی دوسری ادائیگی حاصل کرنے کا جواز اسے نہیں ہے۔

بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سرمایہ پر سود کے معاملہ میں اسلامی اور مروجہ تصورات میں بعدالمشرقین ہے۔ لیکن اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے۔ مروجہ معاشیات میں بھی ’حقیقی سرمایہ‘ پر سود کا تصور یا رواج نہیں ہے۔حقیقی سرمایہ سے ہماری مراد ایکوٹی کیپیٹل(equity capital) سے ہے۔ سود کا تصور قرض کے طور پر حاصل کی گئی رقم پر ہے جسے پریفرنس کیپیٹل (preference capital) اور ڈیٹ کیپیٹل (debt capital)کہہ کر جواز پیدا کیا جاتا ہے۔ اس لئےجہاں تک ایکوٹی کیپیٹل کا تعلق ہے اسمامی معاشیات اور مروجہ معاشیات کا رویہ یکساں ہے۔ دونوں جگہ اس کا عوض منافع ہے۔البتہ اسلام میں قرض پر اضافہ ممنوع ہے۔

یہ سوال کہ پیداواری عمل میں قرض کی حیثیت لازمی ہے یا نہیں؟ تکوین ثروت (capital formation) کے تصور اور طریقہ کار سے جڑا ہوا ہے۔

تکوین ثروت (capital formation)

درج بالا “آمدنی کی دائرہ نما گردش” میں معیشت اور معاشی سرگرمیوں کے اداروں کے درمیان عوامل کی خدمات، عوامل کی ادائیگیاں، اشیا و خدمات کی پیداوار، اور ان کی خریداریوں کے عمل کو یکساں رکھ کر مطالعہ کیا جا تا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حقیقی معیشت ایسی نہیں ہو سکتی ہے۔ اشیا و خدمات سے متعلق انسانی حاجتیں یکساں نہیں رہتی ہیں۔ نہ آبادی ایک جیسی رہتی اور نہ انسانوں کے عرف و عادات اور معیار زندگی یکساں رہتا ہے۔ انسانی ضرورتیں بڑھتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ اس کے سبب معیشت کو ہمیشہ ترقی کرتے رہنا چاہیے۔ ایک صحتمند معیشت کی شکل بنے گی جودرج ذیل نقشہ میں دکھائی گئی ہے۔ معاشی عمل کا دائرہ بڑھتا رہے گا۔ بظاہردائرہ نما ہو گا لیکن عملًا اس کا منہ ایک دوسرے سے نہیں ملے گا اور دائرہ پھیلتا جائے گا۔

اس عمل کو آسان مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کرایے پر مکان لے کرایک پیداواری عمل شروع کرتا ہے۔ کاروبار میں نفع ہوتا ہے۔ اس یافت سے وہ مکان، مشین اور اپنے پیداواری عمل کو بہتر بنانے کےلئےمزید سہولیا ت حاصل کر کے اپنے کام کو بہتر بنا تا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح معیشت میں آمد و رفت کا نظم، عمارات، بجلی کی سہولیات، بینک، بازار، مشینیں، فیکٹریاں اور دیگر وہ انتظامات جو پیداوار کے عمل اور اشیا و خدمات کو صارفین تک پہنچانے کو بہتر بنا سکیں، معیشت کی رفتار کو تیز سے تیز تر بناتے جاتے ہیں۔ اس طرح معیشت کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔

معیشت کے اس طرح بڑھنے اور پھیلنے کو سببِ تکوینِ ثروت (capital formation)کہتے ہیں۔ معاشیات کی کتابوں میں، جنھیں اسٹینڈرڈ ٹیکسٹ بک (Standard Text Book) کا درجہ حاصل ہے، تمویل ثروت کے طریقہ پر گفتگو کی جاتی ہے۔ ذیل میں ایسا ہی ایک حوالہ درج ہے۔[4]

In modern community incomes are earned in terms of money and savings are accumulated in terms of money. Capital comes into existence when the money-savings are converted into new capital assets like machinery and buildings.

“There are three well-recognised stages in the process of capital formation in a country, viz.

(a) creation of savings by surplus of income over expenditure;

(b) mobilisation of the savings, and their canalisation into productive channels; and

(c) the conversion of the mobilised money-savings into new capital assets.”

“جدیدمعیشت میں آمدنی، رقم کی شکل میں حاصل کی جاتی ہے اور بچت بھی رقم کی شکل میں کی جاتی ہے۔ سرمایہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب رقم کی صورت میں کی گئی بچت کو نئے سرمائے، مثلاً مشینری اور عمارتوں میں، تبدیل کیا جاتا ہے۔

کسی ملک میں سرمائے کی تشکیل کے عمل میں تین معروف مراحل ہوتے ہیں، یعنی۔

 (الف) اخراجات سے زیادہ آمدنی کے ذریعے بچت کی تخلیق؛

 (ب) بچتوں کو آمادہ کر کے پیداواری ذرائع میں لانا ؛ اور

 (ج) آمادہ پذیر بچت کو نئے اثاثوں میں تبدیل کرنا”

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تکوین ثروت کے عمل کی ابتدا بچت سے ہوتی ہے۔ مگر مروجہ معیشت کی حقیقی صورت حال یہ ہے کہ اس میں بچت کم ہوگئی اور اس کی جگہ قرض نےلے لی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ قرض زیادہ تر سود کا بوجھ لیے ہوئے ہوتا ہے۔ مروجہ معیشت میں نظری اور عملی صورت حال کا یہ بہت بڑا فرق ہے۔ ابھی بھی اسکولوں و کالجوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے اور ٹکسٹ بکس میں یہی درج ہوتا ہے کہ تکوین ثروت کی ابتدا بچت سے ہوتی ہے۔ لیکن عمل کی دنیا میں یہ صرف ایک حسین خیال ہے۔ قرض نے بچت کی جگہ لے لی ہے جو معیشت میں فساد کا بڑا سبب ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں اسلامی معاشیات ٹیکسٹ کی کتابوں میں پڑھائی جانے والی خالص معاشیات کے اصول سے قریب تر ہے۔

دراصل مروجہ معیشت کو اپنے اصل کی طرف لوٹنے (Back to Basics)کی دعوت دی جا سکتی ہے۔

حوالہ جات

شاہ ولی اللہ،حجةاللہ البالغہ، جلد اول، ترجمہ سعید احمد پالنپوری، زم زم پبلشرز، دیوبند، صفحات 441،455

https: //www.britannica.com/topic/land-economics

Mitra, Jitendar Kumar 2010), Economics, Micro and Macro, The World Press Private Limited, Kolkata, pp39-41

Mitra, Jitendra Kumar 2010), Economics- Micro and Macro, The World Press Private Limited, Kolkata, P 48

مشمولہ: شمارہ اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223