تعلیم اور اُس کا طریقۂ کار

تعلیم کے معنیٰ ‘درس حیات اور تعلیم سے مراد وہ شعبہ بھی ہے جہاں ایک خاص عمر کے بچوں کی ذہنی جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہو۔  براہ راست منبع و سر چشمہ وحی اِلٰہی ہے ۔

البتّہ اہل ِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دین ِ مروت کے خلاف  پہلے آدمی کو جب زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا گیا تو وہیں وعلم آدم الاسما ءسے اس طریقہ کار کا ذکر کر دیا گیا۔ آدم کے علم کی ابتدا  اسم (NOUN) سے کی گئی۔چیزوں کی معرفت یا identification of things ہی وہ بنیاد ہے جو کسی جاندار میں شعور کو بیدار کرتی ہے۔ لیکن انسان اس شعور کے ساتھ ساتھ خود شعوری بھی رکھتا ہے۔ جو اسے دوسرں سے ممتاز کرتی ہے۔ انسانوں کے درمیان تعلیم کے ارتکاز کی صورت اس وقت بنتی ہے جب انسان اپنی سماعت بصارت اور عقل (سمع بصر اور فواد ) کو بروے کار لائے اور قوت گویائی کا استعمال کر کے علم کا ارتکاز کرے۔ قوت گویائی ایک فطری عمل ہے اور فطرت سے انحراف بچے کی شخصیت عزائم اور قوت ارادی کے لئے سم ّ قاتل ہے۔

اسٹڈی ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کو رحم ِمادر پہلے سماعت اور پھر بصارت دی گئی۔ طریقہ تعلیم میں بھی یہی STEP ہو گی۔لیکن چونکہ یہ تینوں ( سمع بصر فواد ) لازم و ملزوم ہیں اس لئے یہ مدرس کا نہج ہونا چاہیئے کہ وہ بچوں کو ایک اچھا سامع اور بصیر بنائے اور فواد (عقل ) کے استعمال سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے ۔ایک اہم سوال یہ کہ بچوں کو اچھا سامع کس طرح بنایا جائے۔ اس کی ابتدا ء ماں کی گود سے ہونا چاہیے لوریاں اور اس کی منظوم صورت جو زبان کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے جب بچوں کے کان سے ٹکراتی ہے تو صوتی حسن بچوں کو بہتر سامع بنانے کے لئے معاون ہوتی ہے۔اسی کے ساتھ جب بڑی عمر کی عورتیں رات کے پر آسیب ماحول میں کہانیوں کے سنانے کے ساتھ جب اپنی آواز میں اتار چڑھائو کرتی ہیں تو بچے کا تخیّل لا محدود حدوں میں تیرتا ہوا ایک دنیا بناتا ہے اسطرح اس کی عقل تدریجاً آگے کی جانب اپنا سفر طئے کرتی ہے۔ جو کہ  TV اور دوسرے ذرائع سے ممکن نہیں کیونکہ فلم بندی  picturization  کے ذریعے ہم ان کی تخیل کی وسعتوں پر روک لگا دیتے ہیں۔

ایک اچھا سامع بنانے کے لئے ضروری ہیکہ بچوں میں تحمل برداشت کی قوت پیدا کی جائے۔ اسی طرح دوران کلاس سوالات بچوں میں تجسس پیدا کرنے اور دماغ کو متحرک کرنے کے لئے سود مند ہوتا ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ عمومی طور پر وہ سوالات جس کے جواب ہاں یا ناں ( verbal questions )سے احتراز کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ بچوں میں تحقیق اور جواب کے  route cause کی بجائے انداز اور قیاس کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ سماعت کی ضمن میں آخری بات جو اساتذہ اور والدین سے تعلق رکھتی ہے کہ وہ بچوں کو طعن و تشنیع کی بجائے مثبت باتوں کو ان کی سماعت سے گذاریں۔ ورنہ بچہ اپنی خود اعتمادی کو کھو کر احساسِ کمتری کا شکار ہوجائے گا۔اس ضمن میں یہ ملحوظ رہے کہ انسانوں کی ایک اقلیت ہے جو ذہین اور حساس ہوتی۔ ان کے اندر قبض pessimist اور بسط optimist کی کیفیات کچھ زیادہ پائی جاتی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھئے بچہ جتنا ذہین ہو گا تو اس کیفیات کی   amplitude  یا لہر اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی انتہائی pessimist کبھی انتہائی optimist ۔ ان ہی مراحل سے وہ زندگی میں ترقی کے مدارج طئے کرتا ہے۔ سماعت کے بعد بصارت کا ذکر اہم ہے جس کو ہم آسان زبان میں مشاہدہ observation  کہہ سکتے ہیں۔عام طور سے مانا جاتا ہے کہ سائنسی علوم کی بناء دو طرح کے علوم  پر ہے۔

(1) مشاہدہ observation

(2) تجربہ experiment

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

علوم طبیعی  physics کے بارے میں معلومات جمع کرنا خواہ وہ صرف مشاہدات سے ہوں یا تجربات کے ذریعے۔بنیادی طور پر ہر بچہ اپنے اطراف ہونے والے طبیعی تغیرات کا نہ صرف مشاہدہ کرتا ہے بلکہ اس کو شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنے ذہن کے پنہا خانے میں جگہ دیتا ہے۔ یہی مشاہدات اسے ایک مخصوص نتیجہ conclusion تک لے جاتے ہیں۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے نتیجے کی تصدیق و تردید کریں۔ کیونکہ شئے کی حقیقت تک پہنچنا ہی اصل علم ہے  ؎

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شئے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

وہ علوم جو مشاہدات میں نہ آئیں ان کو مابعدالطبیعات Metaphysics کہا جاتا ہے۔ اگر چہ اس میں بہت زیادہ غور کرنے سے منع کردیا گیا مثلا روح کیا ہے؟ وحی کیا ہے؟ وغیرہ۔ لیکن معرفت الہٰی کے لئے جتنا ضروری تھا اتنا بہرحال بتا دیا گیا۔ان السمع والبصر والفواد کل اولیک عنہ کان مسئولہ ۔۔سورہ اسرا ء:ہم نے تمہیں سماعت بصارت اور عقل دی اور یقینا ہم ان نعمتوں کے بارے میں سوال کریں گے۔اہل بصر کے لئے قرآن نے ایک راز ان الفاظ میں افشاء کیا کہ سنیریھم آیاتنا فی الافاق وفی انفسھم ۔یہ آفاق و انفس کی نشانیاں ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ان چیزوں کا صحیح اور غائر نظر سے مشاہدہ اپنے خالق حقیقی کی معرفت کا سبب ہوگا۔ اگر یہ مشاہدہ وحی الہٰی کی چھائوں میں رواں دواں رہے تو علم اپنے معراج پر پہنچ سکتا ہے لیکن جیسے ہی یہ مشاہدہ لادینی کے ساتھ سفر کرے تو ڈارون جیسے جہلا تعلیم کے سفر کو ایک گمراہ سمت میں موڑ کر انسانیت پر وہ ظلم کرتے ہیں کہ جس کا کوئی مداوا نہیں۔ آج کے نصاب تعلیم میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء  theory of evolution کا کتنا حصہ ہے یہ کوئی کہنے کی ضرورت نہیں۔بلکہ ہماری نظروں سے تو ایک تحریر ایسی بھی گزری جس میں illuminate کے لوگوں نے مانا کہ انسانی دماغ کو گمراہ کرنے کیلئے ہم نے ڈارون کو بڑھاوا دیا اور اس کا observation ایک universal truthکی طرح اسکولوں میں رائج کیا۔ایک اصطلاح کو سمجھ لیں کہ انسانی دماغ کسی چیز کو تخلیق نہیں کرسکتا کیونکہ یہ صفت خالق کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن کہتا ہے بدیع السموات والارض۔بدع کہتے ہیں کسی چیز کی ابتدا جو بالکل نئی ہو جیسے لوہے کے بغیر لوہا بنانا پہاڑوں کے بغیر پہاڑ کو کھڑا کر دینا۔انسان اپنی ضرورت کے مطابق ان تخلیقات کا استعمال کر کے چیزوں کا اختراع کرتا ہے جسے عرف عام میں modification کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ جیسے لوہے کا استعمال کر کے سواریاں بنانا۔ یعنی گاڑیاں بنانے کے لیئے جو لوہا درکار تھا اسے انسان نے نہیں بنایا بلکہ اس کی ہییت تبدیل کر کے اپنے استعمال کے قابل بنایا ۔اس modification اور اختراعی دور کی ابتداء اس وقت شروع ہوئی جب انسان نے توحید monotheism کو پالیا۔ ورنہ اس سے پہلے ہر طرح کی توہمات اور superstitious مزاج اس اختراع پر مانع تھا۔ مثلاً اگر انسان چاند کو اپنی سمجھ کے مطابق معبود کا درجہ دے رکھا ہو تو یہ اس کے لیئے ناممکن ہے کہ وہ چاند یا دوسری چیزوں کو مسخر کرنےکی بابت غور کرے۔ اب یہ والدین و اساتذہ کا کام ہیکہ وہ توحید کے سبق کو بچے کے دل میں جاگزیں کر دیں کیونکہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر تخلیقی صلاحیت کی عمارت کھڑی ہونی ہے۔یہی وجہ ہیکہ توحید کا سبق پڑھنے کے بعد قرون وسطی اور اسپین کے مسلمانوں نے ایجادات کا وہ سلسلہ شروع کیا جو مغرب میں نشاۃ الثانیہ کا باعث بنا۔ آج بھی پورا مغرب انہی کی اختراعات میں توسیع کرتا جا رہا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم نے اس بنیاد کو کمزور کیا تو سیادت ِعالم سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اقبال نے کہا   ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

یہ تخلیق یا اختراع ہر کس و ناکس کی بات نہیں کیونکہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی۔ اسی لئے ہنری فورڈ Ford کار بنانے والی کمپنی کے مالک نے تعلیمی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہر آنے والا بچہ نئے خیالات اور صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن بد قسمتی سےبہت ہی کم افراد اپنی انفرادیت سے آشنا ہوتے ہیں۔ معاشرہ اور تعلیمی نظا م اس بات کی تگ ودو کرتے ہیں کہ اس کی انفرادیت کو ختم کر دیں کیونکہ وہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔لیکن جہاں تک ہو سکے آپ اپنی انفرادیت کو ضائع ہونے سے بچائے رکھیں کیونکہ آپ کی اہمیت بھی اسی ذریعے سے قائم رہ سکتی ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ یا صلاحیتوں کی نشوونما ایک قدرتی عمل ہے جو کبھی رکتا نہیں ایک مخصوص رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ اس کے مشاہدہ کے لئے نگاہ کا ٹھہرائو ضروری ہے۔ نشونمائی عمل کو اگر روکا جائے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔کبھی کبھی تعلیمی نظام اس پر بندھ کا کا م کرتا ہے۔ اس ضمن میں اپنے ایک معاصر کی بات ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں کہ تعلیمی میدان میں کام کرنے والے intellectual اب دانا و بینا نہیں رہا بلکہ اپنے اس intellectual یا trend setter ہونے کے زعم میں وہ قوم کی تعمیر نہیں کر رہا وہ انوکھی باتیں پیش کرنے کے زعم میں ملت کو مایوسی اور اضطراب دے رہا ہے۔ جبکہ دانشور intellectual اپنی حکمت سے ہر دور میں تہذیب کے حالات کے تحت اپنی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے تعمیری مراحل سے گزارتا ہے۔انسانی جسم میں عقل کی حیثیت ایک یادداشت خانہ memory card کی ہے جو کہ  نا صرف نئے مشاہد و تجربات کو محفوظ کرتی ہے۔بلکہ اس نئے input کا پرانے input سے مطابقت تلاش کرتی ہے اگر کوئی براہ راست مطابقت connectivity مل جائے تو اپنا قطعی فیصلہ سنا دیتی ہے۔لیکن اگر کوئی مطابقت نا ملے تو اپنی عمارت ظن قیاس و گمان پر قائم کرتی ہے۔ اسی کو اقبال نے کہا   ؎

علم ہے تخمین ِظن(علم و عشق (نظم) سے مراد عقل ودل ہے )

اس تمہید کے بعد یہ ضروری ہو جاتا ہے عقل کی اس فطرت کے مدنظر تعلیم اور تعلم میں کسطرح اس کی نشوونما کی جائے کہ بچہ خود اپنی عقل کا تدریجاً ارتقاء کرے۔ اس کے متعلق میری سمجھ یہ ہیکہ بچوں میں مطالعہ کی عادت اس ضمن میں اہم پیش رفت ہوگی۔ لفظ مطالعہ، طلع سے ماخوذ ہے جس کے معنی طلوع ہونا۔ جس طرح رات کی تاریکی میں چیزیں چھپی ہوتی ہیں لیکن جیسے ہی سورج طلوع ہوتا ہے ساری چیزیں اپنے وجود کے ساتھ آشکارا ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح انسانی عقل بہت سارے توہمات اور قیاسات کے دبیز پردوں میں پروان چڑھتی ہے لیکن کتابوں کا مطالعہ اسے ان توہمات کے اندھیروں سے نکال کر اولی الا لباب کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔یہاں آکر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہیکہ اس کا طریقہ کار کیا ہو۔ اس کے متعلق میں کامکس comics طرز کی کہانیاں ابتدائی مرحلے میں اہم ہو گی۔ یا وہ نظمیں جو خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کرتی ہوں۔مثلاً علامہ اقبال کی نظم ایک آرزو میرے بچپن کی یادوں میں سے ہے جسے میں غیر شعوری طور پر گنگنایا کرتاتھا۔ اسی طرح تصوراتی دنیا میں دماغ کو لے جا کر چھوڑ دینے والی نظم شہر ہنسا اور ہنستے ہنستے گائوں سے بولا سنو سنو (گائوں اور شہر) میرے دماغ پر ثبت ہے۔ اگر عقل ناکام ہو جائے اور انسانی وجدان یا دل متعلقہ باتوں کے حق ہونے پر گواہی دے تو دل کو فوقیت دی جائے گی۔ اس عقل و دل کی کشمکش کو اقبال نے کیا خوب بتایا  ؎

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن

عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ ظن

بندہء تخمین ِ ظن سرِّ کتابی نہ بن

علم سراپا حضور عشق سراپا حجاب

 اس بحث کے بعد میں واپس اسی منطق و فلسفہ پر آتا ہوں کیونکہ آج اسکولوں میں مروجہ تعلیمی نظام میں ایمانیات کا کتنا حصہ ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک عقل کے ارتقاء کا تعلق ہے اس کے لئے Arithmetic reasoning،حسابیاتی وجہیں۔ Logical reasoning منطقی وجہیں blood relation complexity،خونی رشتوں کے پہچاننے والی مشقیں direction solutions،سمتوں کا تعیین کرنے والی مشقیں،aptitude test،بچے کی فطری ذہانت ناپنے کا طریقہ وغیرہ اہم ہونگی۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223