لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور امور خانہ داری

اسلام میں علم کی بڑی اہمیت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝۱ۚ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۝۲ۚ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۝۳ۙ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵(علق:۱تا۵) (پڑھ اے نبی اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا ،جمے ہوئے خون کے ایک  لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی،پڑھ اور تمہارارب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا)

اس طرح اسلام کا پہلا حکم پڑھنے کے سلسلے میں ہے۔ اور یہ حکم دوبار ان آیات میں دیا گیا ہے جس سے علم کی مزید اہمیت اجاگر ہوتی ہے، اور علم کو رب کے نام کے ساتھ مربو ط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکہ یہ علم تعمیر کا ذریعہ بنے۔ اور تخریب سے دور کرے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں غور وفکر کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اس میں جگہ جگہ تدبر وتفکر کی دعوت دی گئی ہے، قرآن  پاک میں ہے ۔(اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (سورہ بقرۃ  : ۴۴) ۔(کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے  )۔ (اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا)( بقرۃ۔۲۱۹ ) ۔(کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا )۔ (اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا)(اعراف ۱۸۵ )۔(کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا)۔

الغرض اسلام نے ہمیشہ علم وحکمت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ رسولِ اکرمؐ نے اپنے اصحاب کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی، اہلِ علم کو امتیازی مقام عطا فرمایا۔ اور علم و تقوی کو عزت وفضیلت کا معیار قرار دیا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے : شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ(  آل عمران : ۱۸)۔(اللہ تعالیٰ ،فرشتے اور اہلِ علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے)۔ یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ابتدا اپنی ذات سے کی ہے، دوسرے نمبر پر فرشتوں کا ذکر کیا اور تیسرے نمبر پر اہلِ علم کا اور ان سب کو اپنی وحدانیت پر گواہ بنایا ہے۔ جس سے اہلِ علم کی فضیلت عیاں ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے :(ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ’’جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے کیا برابر ہوسکتے ہیں‘‘۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ اہلِ علم اور غیر اہلِ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اسلام کی نظر میں جہالت اندھے پن کی مثل ہے۔ اور علم بینائی کی طرح ہے،جہالت تاریکی ہے اور علم نور ہے،جہالت ہلاکت خیز گرمی ہے ،علم حیات بخش چھائو ں ہے، جہالت موت ہے ،علم زندگی ہے،اور یہ ناممکن ہے کہ دو متضاد چیزیں یکساں مرتبے کی حامل ہوں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:  وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُوَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ  (فاطر ۱۹۔ ۲۲) ’’نابینا اور بینا برابر نہیں، نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں۔ اور نہ ٹھنڈی چھائوں ،دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے۔ اور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں ‘‘۔

اسلام کی نگاہ میں علم حقیقی سے اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔اور اللہ سے صرف وہی علم والے ڈرتے ہیں۔ جو اس کی ذات عظمت اور کبریائی اور بڑائی کی پہچان رکھتے ہیں، ارشاد ہے : اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا (فاطر:۲۸)’’اللہ کے بندوں میں سے علم رکھنے والے لوگ ہی ڈرتے ہیں ‘‘ ۔  اللہ رب العزت نے اس آیت کو اپنی پیدا کردہ اشیاء، آسمان ،پانی،نباتات اور پہاڑ،انسان ،چوپائے اور دیگر جانوروں کا ذکر کرنے کے بعد بیان کیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نظرمیں علم کا تصور عام ہے۔ اور ایک شخص طبعیات ، کائنات،زمین وآسمان،نباتات ،حیوانات اور انسانی علوم میں مہارت پیدا کرکے اور ان کا صحیح استعمال کرکے اللہ کی ذات وکبریائی کی شناخت حاصل کرسکتا ہے۔

حدیثِ پاک کے ذخیرے میں بھی بہت سی ایسی روایات ہیں جو علم اور اہلِ علم کی فضیلت کو اجاگر کرتی  ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ؐ نے ارشاد فرمایا’’من سَلَکَ طریقاً یلتمِسُ فیہِ علماً سھَّل اللہ بِہِ طریقاً اِلی الجنَّۃ۔(صحیح مسلم ،حدیث نمبر۲۶۹۹ )۔(جو شخص علم کی تلاش میں چلے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرمادیگا )۔

نیز حضرت ابو ہریرۃؓ ۔رضی اللہ عنہ ۔سے ایک دوسری روایت ہے کہ سرکار دو عالم ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے ارشاد فرمایا: ’’اِذامات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث :صدقہ جاریۃ، ا وعلم ینتفع بہ،او ولد صالح یدعو لہ، )صحیح   مسلم  حدیث نمبر۱۶۳۱)(جب انسان کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں،لیکن تین چیزیں باقی رہتی ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ ،دوسری شئے وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔تیسری چیز صالح اولاد جو اس کے لئے دعاکرے)اور حضرت ابو ہریرۃؓ کی ایک تیسری روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:’’ الدنیا ملعونۃ،ملعون مافیہا الا ذکر اللہ وماوالاہ،وعالم اومتعلم(سنن ترمذی حدیث نمبر ۲۳۲۲،اور یہ حسن درجہ کی حدیث ہے۔ ) (دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب اللہ کی رحمت سے دور ہے،سوائے اللہ کے ذکراور اس سے تعلق رکھنے والی چیز کے،اورعالم اور متعلم کے)اس حدیث سے معلوم ہواکہ دنیا اگر اللہ سے غافل کردے تو یہ مذموم ہے ، البتہ اگر یہ آخرت کی کھیتی کا ذریعہ اور علم وعمل سے وابستہ رہنے کا وسیلہ بنے تو یہ بہتر چیز ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم

اسلامی نقطۂ نگاہ سے علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ چنانچہ یہ مردوں کی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ خواتین کا بھی حق ہے۔ جس سے ان کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسلئے کہ قرآن کریم اور حدیث شریف میں علم اور اہل علم کی فضیلت پر دلالت کرنے والی نصوص عام ہیں جو مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہیں۔ اور یہ علماء اسلام کے نزدیک ایک اتفاقی مسئلہ ہے۔ ابن حزم ؒ،رقمطرازہیں: ـ ـ  ’’اور ہر عورت پر ان اسلامی احکام کاعلم حاصل کرنا فرض ہے۔ جو اسکے ساتھ مخصوص ہوں ،جس طرح یہ علم مردوں پر فرض ہے،چنانچہ مالدار خاتون پر زکوۃ کے احکام جاننا فرض ہے۔ اور تمام خواتین پر طہارت،نماز اور روزے کے احکام جاننا فرض ہے۔ اورمردوں کی طرح ان پر بھی فرض ہے کہ وہ کھانے پینے اور پوشاک وغیرہ  میں سے حلال اور حرام کو جانیں۔ اور اگر کوئی خاتون شرعی علوم میں مہارت پیدا کرلے، اور فقیہ بن جائے تو اس کی خبر کا قبول کرنا ہم پر لازم ہوجائے گا، اور گذشتہ ادوار میں ایسا ہی ہوا ہے۔ چنانچہ نبی کریمؐ کی شریک حیات خواتین سے دین کے احکام نقل کئے گئے۔ اور ان کے نقل کرنے کے ذریعے حجت قائم ہوئی۔ اور اس سلسلے میں ہمارے علماء اور ہمارے مذہب اسلام کے اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ ازواجِ مطہرات کے علاوہ بھی بہت سی خواتین شرعی علوم کی ماہر تھیں۔ ،مثلاً:ام سلیم، ام حرام ، ام عطیہ،ام کرز،ام شریک،ام درداء،ام خالد ،اسماء بنت ابی بکر،فاطمہ بنت قیس ارو بسرہ وغیرہن،پھر تابعین میں عمرۃ،ام الحسن ، رباب،فاطمۃ بنت منذر ،ہندفراسیہ، جیبہ بنت بسرہ، حفصہ بنت سیرین،اور ان کے علاوہ دیگر خواتین ‘‘۔(۳/۳۳۷،قاہرہ ،دارالحدیث، ط: ۱،۱۴۰۴ھ،عدد الاجزاء:۸) خود نبی کریمؐ نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ فرض علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرداور عورت پر فرض عین ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ، سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’طلب العلم فریضہ علی کل مسلم‘‘(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۲۲۴،اور یہ تلقی بالقبول کی وجہ سے صحیح حدیث ہے)ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے) اس حدیث میں آپؐ نے ’’مسلم‘‘کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس سے مراد مسلم انسان ہے خواہ مرد ہویا عورت۔

ضروری دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی اتنی مقدار میں ضروری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وجود  ووحدانیت کے منکرین کے سامنے دلائل پیش کئے جاسکیں،نبوت وآخرت کے متعلق دینی حقائق کو ان کے سامنے رکھا جاسکے۔

اور اسمیں بھی مرد وعورت دونوں حکم کے لحاظ سے برابر ہیں۔

فرض کفایہ علوم اور خواتین

فرض کفایہ دینی علوم میں وہ علوم ہیںجو فرض عین نہیں ، اس کو حاصل کرنا اور ا سمیں کمال پیدا کرنا فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ امت میں کچھ افراد ایسے ہوں کہ وہ شرعی علوم وفنون میں مہارت رکھتے ہوں تاکہ بہ وقت ضرورت ان کی طرف رجوع کیا جاسکے۔ اور ایسے افراد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۝۱۲۲(التوبۃ:۱۲۲)(ایساکیوںنہ  ہوا کہ انکی آبادی کے ہر حصہ میں سے لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اورواپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ) روش سے پرہیز کرتے)۔

دنیا وی علوم میں فرض کفایہ یہ ہیکہ ہر وہ علم جس سے اسلامی سماج مستغنی وبے نیاز نہ ہوسکے، چنانچہ امام غزالی ؒ ،لکھتے ہیں:

’’ بہر حال فرض کفایہ تو یہ وہ علم ہے جس سے دنیوی معاملات کو انجام دینے میں بے نیازی نہ  برتی جا سکے،جیسے طب (میڈیکل سائنس) کیوں کہ وہ انسانی جسم کی صحت و بقا کے لئے ضروری ہے، اور جیسے حساب اس کی ضرورت خرید و فروخت اور دیگر معاملات اور وصیت و میراث کی تقسیم میں پڑتی ہے ،یہ وہ علوم ہیں کہ اگر ان سے کوئی شہر خالی ہو جائے تو وہاں کے لوگ دشواری میں پڑ جائیں  …۔لہٰذا ہماری اس بات سے کہ طب اور حساب فرض کفایہ میں سے ہیں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے، اس لئے کہ صنعت و حرفت کے اصول بھی فرض کفایہ ہیں جیسے زراعت بنائی سیاست بلکہ حجامت (پچھنے لگانا) ٹیلرنگ بھی فرض کفایہ میں شامل ہیں اسلئے کہ اگر کسی  شہر میں حجام (پچھنے لگانے والا : خراب خون نکالنے والا) نہ ہو تو لوگ تیزی سے ہلاکت کے شکار ہو جائیں گے ، چنانچہ جس پاک ذات نے بیماری بنائی اسی نے دوا بھی پیدا کی اور اس کے استعمال کے طریقے کی رہنمائی بھی فرمائی اور اسکے لینے کے اسباب کو بھی مہیا فرمایا ، لہذا اس سے غفلت برتنے کی وجہ سے ہلاکت کا نشانہ بننا جائز نہیں ۔‘‘ (غزالی،احیاء علوم الدین۱/۱۶  بیروت ،دار المعرفہ، عدد الاجزاء : ۴ )

لہٰذا دنیوی علوم میں سے جو علم فرض کفایہ ہے اسے حاصل کرنے کا حق مردوں کی طرح خواتین کو بھی ہے خاص طور سے وہ علم جس کا تعلق عورتوں سے ہو  جیسے امراض نسواں کا علاج ، بچوں کی تولید اور خون ٹیسٹ وغیرہ۔

لڑکیوں کی تربیت

لڑکوں کی تربیت جس طرح فرض ہے اسی طرح لڑکیوں کی تربیت بھی فرض ہے، اس جگہ تربیت سے مراد یہ ہے کہ لڑکیوں کو شائستہ ، خوش اخلاق  بنایا جائے اور انہیں عمدہ اوصاف اور اچھے طور طریقے سے آراستہ کیا جائے، ان کے اندر ایمان و عقیدہ کی پختگی ،اسلام سے گہرا  تعلق ، با مقصد زندگی کا شعور ، خوش گوار خاندانی زندگی کا فہم و ادراک پیدا کیا جائے اور ان کے ہمہ جہتی ارتقاء کی کوشش کی جائے ،ان کو تکبر گھمنڈ اور بری عادتوں اور خصلتوں سے دور رکھنے کی سعی کی جائے  ، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (یا ایہا الذین آمنو قو انفسکم واہلیکم نارا)  (۶۶،  سورہ تحریم ۔ آیت:  ۶ ) ( اے ایمان والو ،  اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاو )اورامام بیضاوی   اس کی تفسیر میں رقم طراز ہیں : ( واہلیکم بانصح و التادیب) (بیضاوی ،انوار التنزیل واسرار التاویل ۵؍۲۲۵)،بیروت دارالاحیاء، ط: ۱،۱۴۱۸ھ)(اور اپنے اہل و عیال کو خیرخواہی اور ادب سکھا کر جہنم کی آگ سے بچائو)  اور علامہ آلوسی تحریر فرماتے ہیں :والمراد بالاہل علی ما قیل : مایشمل الزوجہ والولد والعبد والامہ و استدل بہا علی انہ یجب علی رجل تعلم مایجب من الفرائض و تعلیمیہ لھولاء) (الوسی ، روح المعانی ۱۴ ؍ ۱ ۵ ۳اور بعض کے نزدیک اہل کی مراد سے بیوی بچے غلام اور باندی سب شامل ہیں۔ اور اس آیت کے ذریعے اس بات پر استدلال کیاگیا ہے کہ مرد پر واجب ہونے والے فرائض کا سیکھنا  اور ان لوگوں کو سکھاناواجب ہے)اور حضرت عمرو بن سعید بن عاص ؒ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ؐنے ارشاد فرمایا:’’مانحل والد ولداً من نحلِ افضل من ادب حسن‘‘(سنن ترمذی ،حدیث نمبر ۱۹۵۶،مسند احمد ،حدیث نمبر۱۵۱۰۳،اور اس کی سند میں کچھ کلام ہے )(کسی والد نے اپنی اولاد کو عمدہ اخلاق اور اچھی تربیت سے بہتر اور قیمتی کوئی تحفہ نہیں دیا)

اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہیکہ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:’’من عال ثلاث بنات فادبہن وزوجہن واحسن الیھن فلہ الجنۃ‘‘(سنن ابو دائو ،حدیث نمبر ۵۱۴۷،اور یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) (جو تین بیٹیوں کی پرورش کرے اور ان کو شائستہ بنائے اور ان کی شادی کردے اور ان کے ساتھ  بہتر سلوک کرے تو اس کیلئے جنت ہے)۔اسی لئے حکم یہ ہے کہ والدین خود اپنی اولاد کو دین کے ضروری احکام سکھائیں اور ان کو ایمان کے اصول اور اسلام کے ارکان سے واقف کرائیں۔ وضو اور نماز کا طریقہ بتائیں روزہ اور حج کا مطلب سمجھائیں اور عمدہ اخلاق سے آراستہ کرنے کی سعی کریں، اور اگر ان کو قدرت نہ ہو ، تو اہل علم سے مدد لیں ، اور ان کومکاتب اور مدارس روانہ کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’فاسئلو اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون‘‘(سورئہ نحل :۴۳)(سو اہل علم سے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے ہو)،بیضاوی ؒ اس کی تفسیر میں رقم طرازہیں(وعلی وجوب المرجعۃ الی العلماء فی ما لایعلم)( تفسیر البیضاوی ۳؍۲۲۷ )نیز آیت کے اندر اس بات کی دلیل ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے سلسلے میں اہلِ علم کی طرف رجوع واجب ہے) ۔ الغرض قرآن کریم کی آیتِ شریفہ اور احادیث پاک سے واضح ہے کہ والدین کو چاہئے کہ بچپن سے ہی اولاد کو خوش اخلاق اور عمدہ صفات کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں، خاص طور پر اس وقت مزید کوشش کریںجب وہ اچھی اور بری صفات کو سمجھنے لگیں۔ چنانچہ امام جصاص رازی ؒ تحریر فرماتے ہیں ’’فمن کان سنہ سبعاً فھومامور بالصلاۃ علی وجہ التعلیم والتادیب لانہ یعقلہا، فکذلک سائر الادب الذی یحتاج الی تعلمہ ‘‘(جصاص، احکام القرآن۱ ؍۴۹۰ ) (سوجس کی عمر سات سال ہو تو تعلیم وتربیت کے طور پر اسے نماز کا حکم ہے اس لئے کہ وہ اسے سمجھتا ہے،تو دیگر عمدہ طور طریقے جسے سیکھنے کی اسے حاجت ہے۔اس کابھی یہی حکم ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ لڑکوں کی تربیت کی طرح لڑکیوں کی تربیت بھی ضروری ہے، بلکہ ایک گنازیادہ اہم ہے۔ کیونکہ مرد کی تربیت ایک فرد کی تربیت ہے۔ اور عورت کی تربیت ایک خاندان کی تربیت ہے۔

لڑکیوں کے لئے امور خانہ داری کی اہمیت

اسلام دین فطرت ہے،چنانچہ اس نے انسانی جذبات اور خواہشات کا اپنی تعلیمات اور قوانین میں بھر پور خیال رکھا ہے۔اور انسان کی مختلف خواہشات میں سے شہوانی خواہشات کی نفی نہیں کی ہے اور رہبانیت کی تعلیم نہیں دی ہے ۔بلکہ اسے ضابطہ کا پابند بنا کر جائز طریقے سے جنسی خواہشات کی تسکین کی رغبت دلائی ہے،چناچہ ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَا جِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۝۶ۚ(مومنون: ۵۔۶) ’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفا ظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ،سو اس بارے میں ان کو کوئی ملامت نہیں ۔‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا(یا معشر الشباب: من استطاع منکم الباء ہ  فلیتزوج ،  فانہ اغض للبصر، و احصن للفرج ،و من لم یستطع فعلیہ بالصوم ، فانہ لہ وجاء)(صحیح البخاری حدیث نمبر ۵۰۶۵،  صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۴۰۰)(اے جوانوں کے گروہ!تم میں سے جو نان و نفقہ کی قدرت رکھے وہ شادی کرلے، کیونکہ اس سے نگاہ زیادہ پست رہتی ہے اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے، اور جسے قدرت نہ ہو، تو وہ مسلسل روزہ رکھے، کیونکہ اس سے اس کی شہوت ٹوٹ جائے گی)۔اس طرح اسلام نے خاندان کی تشکیل کی طرف انسانی سماج کی توجہ منعطف کی،اورانسانی نسل کی بقاء اور استمرار کاذریعہ بننے کا شعور بخشا ، چنانچہ قرآن کریم نے اپنی مختلف سورتوں میں خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام  میں خاندان ہی اسلامی معاشرے کی اساس اور  بنیاد ہے اور اس کے بغیر اس معاشرے کا وجود نہیں ہو سکتا ہے۔

اصلا خاندان وہ ادارہ ہے جو شوہر بیوی اور ان کے ہونے والے بچوں سے تشکیل پاتاہے۔

چونکہ ہر لڑکی کو مستقبل میں امور خانہ داری سنبھالنا گھر بار کے کام کاج دیکھنا ،گھر کے معاملات چلانا اور انتظام خانہ کرنا ہے۔لہذا امور خانہ داری میں مہارت پیدا کرنا ہر دوشیزہ کے لئے سماجی، دینی اور صحت کے نقطہ نظر سے ضروری ہے جہاں تک سماجی پہلو کا تعلق ہے تو ہر مہذب سماج شادی بیاہ کے رشتے میںاس لڑکی کو ترجیح دیتا ہے جو گھریلو کام کاج میں سلیقہ مند اور امور خانہ داری میں چابک دست ہو۔رہا دینی پہلو تو اہل ایمان خواتین کے لئے حضرت فاطمہ ؓ کی زندگی قابل تقلید نمونہ ہے،جو گھر کے تمام کام خود ہی انجام دیتی تھیں ۔اسی طرح صحت بحال رکھنے کے نقطہ نظر سے بھی امور خانہ داری کی اہمیت ہے۔چنانچہ جو خاتون گھر کا کام کاج خود کرتی ہیں وہ بہت سے امراض سے محفوظ رہتی ہیں کیونکہ جسمانی حرکت سے ایک طرح کی ورزش ہو جاتی ہے۔

 ایک اشکال اور اس کا جواب

اگر یہ اشکال کیا جائے کہ اصولی اعتبار سے بیوی پر شوہر کی خدمت واجب نہیں ہے چنانچہ عمر و بن الاحوص جشمی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا (الا ، واستو صوا بالنساء خیرا، فانما ہن عوان عندکم ، لیس تملکون منہن شیئا غیر ذلک)(سنن ترمذی حدیث نمبر ۱۱۶۳، اور یہ صحیح حدیث ہے ) ۔( خوب سن لو میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں تم اس نصیحت کو قبول کرلو اس لئے کہ یہ خواتین تمہارے پاس محبوس و مقید رہتی ہیں ، اس کے علاوہ شرعا ان پر تمہارا کوئی اختیار نہیں )

اور اسی حدیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے یہ مسئلہ لکھا ہے کے گھر کا کھانا پکانا عورت کی شرعی ذمہ داری نہیں ہے ۔چنانچہ (ہندیہ  ) میں ہے :

’’اور اگر بیوی منع کرتی ہے کہ وہ روٹی اور کھانا نہیں پکائے گی تو اسے روٹی اور کھانا پکانے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا اور شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اسے پکا پکا یا کھانا پیش کرے، یا  ایسی خادمہ کا انتظام کرے جو اسے کھانا پکانے اور روٹی بنانے سے بے نیاز کر دے ،فقیہ ابواللیث کا کہنا ہے کہ اگر خاتون روٹی پکانے اور کھانا بنانے  سے باز رہے تو شوہر پرپکا پکایا کھانا پیش کرنا اس وقت واجب ہوگا جب کہ وہ شریف زادی اور اعلی خاندان سے تعلق رکھنے والی ہو جو اپنے میکے میں کام کاج نہیں کرتی ( بلکہ اس کا کام کاج نوکر چاکر کرتے تھے ) اور اگر شریف زادی نہ ہو لیکن اسے کوئی ایسی بیماری ہو جو اسے کھانا پکانے اور روٹی بنانے سے باز رکھے( تو ایسی حالت میں بھی اسے مجبور نہیں کیا جائے گا)  البتہ اگر وہ ذکر کردہ خاتون میں سے نہ ہو تو شوہر پر پکا پکایا کھانا پیش کرنا واجب نہیں ہے ، فقہاء کرام کا یہ بھی قول ہے کہ یہ کام یعنی کھانا پکانا وغیرہ اس پر دیانۃ واجب ہے ،اگرچہ قاضی اسے مجبور نہیں کرے گا ۔‘‘(ہندیہ۱  ؍۵۴۸)۔

اس فقہی اقتباس سے واضح ہے کہ جو خاتون اپنے گھرمیں کھانا نہیں پکاتی تھی نوکر چاکر کھانا پکاتے تھے تو  ایسی عورت پر کھانا پکانا واجب نہیں ہے  نہ دیانۃ ، نہ قضاء  ،نہ اخلاقانہ شرعا ،بلکہ وہ اپنے شوہر  سے مطالبہ کر سکتی ہے کہ میرا نفقہ تمہارے ذمہ واجب ہے بجائے اس کے کہ میں کھانا پکاوں تم مجھے پکا پکایا کھانا لاکر دواورجو خاتون اپنے گھر میں کام کاج کیا کرتی تھیں تو شادی کے بعد شوہر کے گھر اس کے ذمہ کھانا پکانا قضاء  واجب نہیں ہے لیکن دیانۃ واجب ہے یعنی اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کھانا خود پکایے اس صورت میں شوہر کے ذمہ یہ ہے کہ وہ کھانا پکانے کا سامان لاکر دیدے لیکن ایسی خاتون شوہر اور بچوں کے لئے کھانا پکانے کے لئے انکار کر دے تو اس سے عدالت کے زور پر کھانا پکانے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔البتہ اگر شوہربیوی کو کھانا پکانے کے لئے کرایے پر لے تو کیونکہ اخلاقی اعتبار سے  یہ عمل اس پر واجب ہے لہٰذا اس کے لئے اجرت لینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی حالت میں اجرت ایک گونہ رشوت کے درجہ میں ہوگی۔ مشہور شافعی فقیہ ابو اسحاق ابراہیم بن علی (:۴۷۶ھ۔ ۱۰۸۳ء) نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ بیوی پر شوہر کی خدمت واجب نہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ولا یجب علیھا خدمتہ فی الخبز والطحن والطبخ والغسل وغیرھا من الخدم، لان المعقود علیہ من جھتھا ھوالاستمتاع فلا یلزمھا ماسواہ‘‘ (شیرازی، المھذب ۲/۶۷،بیروت،دارالفکر ،عدد الاجزاء : ۲)(روٹی بنانے، آٹا پیسنے ، کھانا  پکانے اور کپڑے دھونے وغیرہ کام کاج کے سلسلے میں بیوی پر شوہر کی خدمت واجب نہیں،اس لئے کہ اس کی طرف سے جس چیز پر عقد کیا گیا ہے، وہ اس سے لطف اندوز ہونے کی اباحت ہے۔ لہٰذااس کے علاوہ دیگر امور اس پر لازم نہیں ہوں گے)۔

جواب

فقہاء کرام نے قانونی پہلو کو بیان کیا ہے،چونکہ میاں بیوی کی شراکت ہمیشہ کیلئے ہوتی ہے، ان کی حیثیت ایک دوسرے کے رفیق حیات وشریک حیات کی ہے ،لہٰذا وہ زندگی کی گاڑی کے دو پہییے ہیں۔ جن کے باہمی تال میل سے ہی یہ گاڑی صحیح سمت میں دوڑ سکتی ہے۔ اسلئے میاں بیوی کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے معاون بنیں۔ اور اپنی بہتر ہم آہنگی کے ذریعے خوشگوار خاندانی زندگی گزاریں، خاص طور سے ایک بیوی کو سوچنا چاہئے کہ میرا شوہر پورے دن گھر سے باہر تگ و دو کرکے معاش کا انتظام کرتا ہے۔ لہٰذامجھے بھی خوشی خوشی گھر کے کام کاج انجام دے کر اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔ مجھے مغربی تہذیب سے متاثر اور نام نہاد آزادی نسواں کے جام سے مخمور نہیں ہونا چاہئے اور بے کاری کے دن گزار کر اخلاقی برائیوں کے چوبچوں میں غوطہ زن نہیں ہونا چاہئے۔ اور بے کام رہ کر مختلف امراض کا نشانہ نہیں بننا چاہئے، اور یہ سوچناچاہئے کہ صحابیہ خواتین کے سامنے بھی قانونی پہلو تھے لیکن انہوں نے شوہر کی خدمت اور گھر کے کام کاج میںان کا پورا تعاون کیا۔ چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ  سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں’’تسالہ خادما،فقال:الا اُخبرکِ ماھو خیرلک منہ،تسبیحن اللہ عند منامک ثلاثا وثلاثین،وتحمدین اللہ ثلاثا وثلاثین،وتکبرین اللہ اربعا وثلاثین‘‘(صحیح البخاری حدیث نمبر۵۳۶۲،صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۲۷)(وہ آپؐ سے خادم کی درخواست کررہی تھیں، سونبی کریمﷺ نے فرمایا:کیا میں تجھے اس سے بہتر چیز نہ بتائوں ؟وہ یہ ہے کہ سوتے وقت ۳۳بار سبحان اللہ ،۳۳بار الحمداللہ اور ۳۴بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو)۔اس سے پتہ چلا کہ بیوی کو شوہر کے گھر کے کام کاج انجام دینا چاہئے۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت علی کو خادم فراہم کرنے کا حکم نہیں دیا۔ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں:

’’طبریؒ،کا کہنا ہے کہ حدیث شریف سے یہ فائدہ نکلتا ہے کہ خواتین میں سے جس خاتون کو روٹی بنانے یا آٹا پیسنے وغیرہ کے سلسلہ میں اپنے گھر کے کام کاج کی طاقت ہو، اس خدمت کی فراہمی شوہر پرلازم نہیں، جبکہ عرف کے لحاظ سے اس جیسی خاتون وہ کام خود کرتی ہو،اور اس فائدے کے حاصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے جب اپنے باپ حضورﷺ سے خادم کی درخواست کی ، تو نبی کرم ؐ نے ان کے شوہر علی کوخادم فراہم کرنے یا نوکرانی اجرت پر رکھنے یا خود کام کاج انجام دینے کے ذریعے بیوی کو کام کاج سے بے نیاز کرنے کی ذمہ داری نہیں دی، اور اگر یہ حضرت علیؓ کی ذمہ داری ہوتی تو، آپﷺ حضرت علیؓ کو اس بات کا ضرور حکم دیتے‘‘۔(ابن حجر ،فتح الباری۹/۵۰۶۔ ۵۰۷، بیروت، دارالمعرفۃ ،۱۳۷۹ھ)

۲۔حضرت اسماء بنت ابی بکر،ؓ سے مروی ہے وہ کہتی ہیں:’’مجھ سے حضرت زبیر نے شادی کی ،اس حال میں کہ زمین میں نہ ان کا کوئی مال تھا نہ غلام نہ ہی کوئی چیز،سوائے پانی لے جانے والے اونٹ اور ان کے گھوڑے کے،سو میں ان کے گھوڑے کو چارہ کھلاتی اور پانی لاتی اور ان کے ڈول میں سیتی اور آٹا گوندھتی ،اور مجھے عمدہ طریقے سے روٹی بنانا نہیں آتا تھا۔ اور میری کچھ انصاریہ پڑوسن روٹی بنادیتی تھیں، اور وہ نیک خواتین تھیں، اور میں حضرت زبیر کی اس زمین سے گٹھلیاں لاتی جو رسول ؐ نے انہیں عطا کیا تھا۔ اوروہ زمین ہمارے گھر سے دو میل پر تھی… یہاں تک کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اس کے بعد میرے پاس ایک خادمہ بھیج دی جو مجھے گھوڑے کی دیکھ بھال سے بے نیاز کردیتی تھی۔ سوگویا حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے آزاد کردیا۔‘‘(صحیح البخاری حدیث نمبر ۵۲۲۴،صحیح مسلم حدیث نمبر۲۱۸۲)

سوآپؐ نے حضرت اسماء کو اپنے سرپرگٹھلیاں لاد کر لاتے ہوئے دیکھا جیساکہ اسی حدیث میں مذکور ہے۔لیکن اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرف وعادت کے لحاظ سے جو کام وکاج خواتین کرسکتی ہوں، اس کا انجام دینا کوئی معیوب چیز نہیں ہے۔ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں: ’’والذ ی یظھر ان ھذہ الواقعۃ وامثالھا کانت فی حال ضرورۃ …والذی یترجح حمل الامر فی ذلک علی عوائد البلاد،فانھا مختلفہ فی ھذا الباب ‘‘(ابن حجر ،فتح الباری ۹/۳۲۴) (بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ واقعہ اور اس جیسے دیگر واقعات حالت ضرورت پر محمو ل ہیں… اور راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ گھریلو کام کاج کے معاملہ کوملکوں کے عرف عادت پر محمول کیا جائے کیونکہ اس سلسلے میں عرف مختلف ہیں)۔

۳۔حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: ’’میرے والد کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے سات یا نوبیٹیاں چھوڑیں، سومیں نے ایک شوہر دیدہ خاتون سے شادی کرلی، پھر مجھ سے رسول کریمؐ نے پوچھا ،اے جابر تم نے شادی کرلی ، تو میں نے جواب دیا۔ ہاں۔تو آپﷺ نے پوچھا کنواری یا شوہر دیدہ  خاتون سے شادی کی؟ میں نے کہا:بلکہ شوہر دیدہ سے ۔یہ سن کر آپ ؐ نے کہا کیوں تم نے دوشیزہ خاتون سے شادی نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی ،اور تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ہنسی مذاق کرتی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے آپ ؐ کو جواب دیا کہ میرے والد عبداللہ اللہ کو پیارے ہوگئے ، اور انہوں نے لڑکیا ںچھوڑیں، سو میں نے پسند نہیںکیا کہ ان کے پاس ان جیسی کسی خاتون کو لے آئوں ،لہٰذا ایک ایسی خاتون سے میں نے شادی کرلی جو ان کی دیکھ بھال کرے اور ان کے معاملات درست کرے۔‘‘(صحیح البخاری ،حدیث نمبر ۵۳۶۷،۶۳۸۷)

اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرف وعادت کے لحاظ سے شوہر کے گھروںکے جو کام وکاج ایک خاتون کرسکتی ہو، اسے وہ کام انجام دینا چاہئے کہ اسی میں اس کی سعادت مندی کا را ز مضمر ہے لہٰذا اسے اپنے شوہر کی خدمت اور اس کے گھر کے کام و کاج اپنی سعادت اور باعث اجر سمجھ کر انجام دینا چاہئے۔ اور شوہر کو بھی چاہئے کہ بیوی کی خدمت کی قدر کرے ،اور اس کا بدلہ دینے کی کوشش ہدیہ وغیرہ کی شکل میں کرے، ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں ’’وکانہ استنبط قیام المراۃ علی ولد زوجھا من قیام امراۃ جابر علی اخواتہ،ووجہ ذلک منہ بطریق الاولی ، (ابن حجر ، فتح الباری ۹/۵۱۳)(گویا کہ امام بخاری نے بیوی کے شوہر کی اولاد کی دیکھ بھال کی بات کو حضرت جابر کی بیوی کے ان کی بہنوں کی دیکھ بھال کی بات سے اخذکیا ہے۔اور یہ بات اس سے بدرجہ اولی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک خاتون جب شوہر کی بہنوں کی دیکھ بھال میں اس کی مدد کرسکتی ہے تو اس کی اولاد کی دیکھ بھال میں اسے بدرجہ اولی مدد کرنا چاہئے )خلاصہ یہ ہے کہ مرد وعورت کو جفا کش ہونا چاہئے نہ کہ کام چور اور سست وکاہل، اور ہر ایک کو اپنی ذمہ داری خواہ اخلاقی ہی کیوں نہ ہو بہ حسن خوبی انجام دینا چائیے،خاص کر مومنہ خواتین کو مغرب اور آزادی نسواں کی تحریک سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو گھریلو کام کاج سے مستثنی نہیں سمجھنا چاہئے۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223