نظام تعلیم:
نظام تعلیم ایک جامع لفظ ہے اور وسیع الاطراف معانی کا حامل ہے۔ بالعموم یہ اس نظام یا سسٹم کے لئے بولاجاتا ہے جو تعلیمی اداروں کی پالیسی، مقاصد اور طریقہ کار طے کرتا ہے اور اداروں میں ان کے نفاذ کی رہنمائی کرتا ہے۔
تعلیمی نظام کی تشکیل و تربیت حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، حکومتیں حالات و ضروریات کے لحاظ سے پالیسی مرتب کرتی ہیں۔ فریم ورک بناتی ہیں۔ اور اس کام پر اس کے لئے خطیر رقم صرف کرتی ہیں، حکومت ہند نے اپنے شہریوں کو یہ حق بھی دے رکھا ہے کہ اپنی مرضی کا تعلیمی نظام بنائیں اور چلائیں، اس وجہ سے ہمارے ملک میں سرکاری نظام تعلیم کے ساتھ کئی متوازن نظام تعلیم بھی رائج ہیں، بالخصوص منفرد نظریات کی حامل مذہبی اکائیاں اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کو لا مذہبیت کے حوالے کرنا پسند نہیں کرتیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نئی نسل کی مذہبی شناخت برقرار رہے اور وہ مذہبی اقدار کی حامل بنیں۔ چنانچہ دیکھا یہ جارہا ہے کہ ہندوستان میں سرکاری نظام تعلیم کے شانہ بہ شانہ، ہندو، عیسائی، یہودی اور مسلمانوں کا علیحدہ تعلیمی نظام بھی چل رہا ہے،۔ عیسائی اور یہودی مشنریوں کی منظم تعلیمی سرگرمیاں تو جگ ظاہر ہیں۔ ہندوانہ مذہبی اقدار کے تحفظ اور فروغ کے لئے ہندو تنظیمیں بھی بہت حکمت اور منصوبہ بندی کے کام کر رہی ہیں، آر۔ایس۔ایس کا تشکیل کردہ Vidhya Bharti Akhil Bharatiya Shiksha Sansthan Educational System. (VBABSS)ملک کے چپے چپے پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے، اس سے 24300ادارے اور تنظیمیں ملحق ہیں، اس میں 30,02,820طلبہ زیر تعلیم ہیں، 1,30,278کا عملہ ان کی تعلیم و تربیت پر مامور ہیں، اس کے علاوہ سر سوتی ششو مندر، سشوواٹیکا، ودیا مندر اور سرسوتی ودھیالے کے نام سے پرائمری اور سکنڈری سطح کے ہزاروں ادارے اس کی سرپرستی میں محو عمل ہیں، ودیا بھارتی اپنے تمام اداروں کو مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، پالیسی، مقاصد اور طریقہ کار سے لے کر نصاب تعلیم، طریقہ تدریس و طریقہ تربیت گویا کوئی پہلو اس کی دسترس سے باہر نہیں(۱) انہی منظم کو ششوں کا نتیجہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں اس نظام کے پروردہ افراد چھاتے جارہے ہیں۔ اور مکمل قبضہ کے لئے کوشاں ہیں۔
مدارس کا نظام تعلیم:
ان نظامہائے تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا بھی ایک متوازی نظام تعلیم رائج ہے، ملک کے گوشے گوشے میں ہزاروں چھوٹے بڑے مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے، یہ مدارس تعلیم کے فروغ، عقیدہ و اخلاق کے تحفظ نیز مذہبی اقدار کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مدارس کسی ایسے وفاقی نظام سے یکسر محروم ہیں جو انہیں ایک لڑی میں پرو سکے، ان کے لئے مقاصد اور اہداف طے کرے اور ان کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے ؎
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
مدارس کے نظام کا سب سے بڑا Draw back یہی ہے، اس کے نقصانات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ وقت کا سب سے بڑا تقاضہ ہے کہ مدارس کے لئے ایک وفاقی نظام قائم کیا جائے جو دیگر نظامہائے تعلیم کی طرح تمام مدارس کو ایک لڑی میں پروئے اور ان کی سرپرستی و رہنمائی کرے۔
ایک وفاقی نظام کی ضرورت:
وفاقی کی نظام کی ضرورت کا احساس نیا نہیں ہے ، پورے سو برس پہلے ۱۹۱۲ء میں علامہ شبلی نعمانی ؒنے اربابِ دارالعلوم دیوبند کے سامنے اس کی تجویز پیش کی تھی، ایسی تجاویز بار بار سامنے آتی رہی ہیں، مگر بعض اندیشہ ہائے دور دراز کی وجہ سے عملی اقدام کی نوبت نہیں آپائی، کبھی قیادت و اقتدار کے چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے،(۲) کبھی انفرادیت کے ختم ہوجانے کا خوف ستاتا ہے کہ دریا سمندر سے مل جائے تو اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے اور کبھی جواب دہی کا احساس آڑے آجاتا ہے، یہ خدشات بہت سطحی ہیں اور وفاقی نظام کی ضرورت بہت بنیادی ہے۔ آج کا یہ مہتم بالشان اجلاس جس کی صدارت ملک کی نہایت با شعور اور منظم جماعت کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری فرما رہے ہیں اور جس میں کئی بڑی جماعتوں کے سربراہ یا نمائندے شریک ہیں، اس جانب پیش رفت کا فیصلہ کر یں تو ان شاء اللہ مدارس ایک نئے انقلاب کی لذت سے آشنا ہونگے اور ان کی قوت کارکردگی میں زبردست اضافہ ہوگا۔
وفاق کیسے وجود میں آتے ہیں:
وفاقی نظام کی تشکیل کا یہ مناسب موقع ہے، ملت کے ارباب وفکر دانش جمع ہیں۔ مہرجان انتظامیہ بھی ایک نئے تعلیمی نظام کی تشکیل و تنفیذ کے لئے کمر بستہ ہے، مناسب ہوگا کہ مدارس کے ذمہ داران اور جماعتوں کے قائدین پر مشتمل ایک عارضی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس کے امکانات کو تلاش کرے اور راستہ کی رکاوٹوں کو ہٹا کر عملی پیش رفت کرے۔ ان شاء اللہ بہت جلد اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور کوئی مستقل بالذات مستحکم نظام وجود میں آجائے گا۔
اجتماعی نظام کی تشکیل اور نفاذ بالاشبہ ایک صبر آزما کام ہے اور اس کے لئے ایسے باشعور افراد کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو اعلی مقاصد کے حصول کے لئے قربانی کا جذبہ رکھتے ہوں، ان میں شورائیت کا حقیقی شعور ہو اور خود کسی عہدہ یا منصب کے خواہش مند نہ ہوں۔
وفاق کی ذمہ داریاں:
یہ کمیٹی پہلے اپنے مقاصد، اہداف، ترجیحات اور میدان کار متعین کرے، پھر ان کی روشنی میں اقدام کرے، اس کے مقاصد اور دائرۂ عمل یہ ہوسکتے ہیں:
٭مدارس کے لیے ایک واضح تعلیمی پالیسی طے کرنا۔ جو مدارس کے مقاصد، ملت کی ضروریات، زمانہ کے تقاضوں کی ترجمان ہو جس میں معاصر تعلیمی نظام کی خطرناک پالیسیوں کا تدارک ہو۔
٭مدارس کے لیے زمانہ کے لحاظ سے نئی ترجیحات متعین کرنا مثلاً مدارس کے مثبت کردار کو اجاگر کرنا۔ اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینا، الزامات کا مؤثر دفاع کرنا، علوم کی قدیم وجدید کی تقسیم کی خلیج کو کم کرنا وغیرہ۔
٭تمام مدارس کے تعلیمی اوقات، تعلیمی ایام او رتعلیمی نصاب میں موافقت پیدا کرنا جیساکہ سرکاری اسکولوں میں عام طور سے پایا جاتا ہے کہ ہر بورڈ کا نصاب ونظام الگ ہوتا ہے۔ مگر سب کے تعلیمی اوقات، مراحل تعلیم، مدت تعلیم اور نصاب تعلیم کے معیار میں بالعموم موافقت ہوتی ہے۔
٭مدارس کے معیار کو بہتر بنانا،مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا، یکساں تعلیمی معیار مقرر کرنا، اساتذہ کے انتخابات اور تقرری کا فارمولہ طے کرنا اور امتحانی نظام کی رہنمائی ونگرانی کرنا۔
٭مدارس کے مفاد میں آنے والی تجاویز کا جائزہ لینا اور ان پر عمل در آمد کی تدابیر کرنا۔
٭بے جا سرکاری مداخلت روکنے اور رضاکارانہ افہام وتفہیم کو یقینی بنانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا۔
٭تعلیمی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے باقاعدہ معائنے کا اہتمام کرنا اور مقررہ معیار پر پورا نہ اترنے والے مدارس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام کرنا۔
٭مدارس میں آپسی روابط کے فروغ کے لیے تحریری، تقریری نیز کھیل کود کے مقابلے کرانا۔
٭مسائل حاضرہ سے بہتر آگاہی اور افہام وتفہیم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے علماء اور عصری علوم کے ماہرین میں تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری کرانا۔(۳)
اس وفاق کا سب سے اہم کام ایک معیاری مبسوط اور متحرک نظام تعلیم تشکیل دینا ہوگا جو دیگر نظامہائے تعلیم کی طرح مدارس کی ہمہ جہت رہنمائی کرے، اس نئے نظام کے سامنے وقت کا سب سے بڑا چیلنج تصور تعلیم میں دین و دنیا کی تفریق کو ختم کرنا ہے، تعلیم میں دوئی کا نظریہ کلیسا اور حکومت کی کشمکش کی دین ہے، ارباب کلیسا نے نہایت خاموشی کے ساتھ اسے مسلمانوں کے سر منڈھ دیا ہے اور مسلمان اُن کے لادے ہوئے بوجھ کو شوق سے ڈھو رہا ہے، اس بے لوث خدمت کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم ایک بہت ہی محدود دائرے میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ دوئی کا یہ نظریہ جب تک برقرار رہے گا، مسلمان علم کے بہت بڑے خزانے سے محروم رہے گا، اس لئے اس کا الزام اپنے اوپر لینے کے بجائے اسلام کے آفاقی تصور کو واضح کرنا اور اس کے مطابق اپنے نظام کو ڈھالنا مسلمان دانشوروں کی اولین ذمہ داری ہے۔
اس وفاق کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج مروجہ نصابہائے تعلیم کا تحلیلی جائزہ اور مناسب تجاویز مرتب کرنا ہے، تعلیم و تعلم سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ نصاب سازی اب ایک مستقل فن بن چکا ہے۔ کسی نصاب کی تشکیل سے پہلے اس کے مقاصد، وژن، عناصر، دائرہ عمل اور محتویات متعین ہوتے ہیں اور ان کی روشنی میں غور وفکر کا عمل برابر جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر معاصر دینی مدارس کے نصاب کا تجزیہ کیا جائے تو ان مقررہ معیارات پر ہمارے مروج نصاب کے کئی پہلو توجہ کے قابل ہیں۔ اس میں غور وفکر میں تسلسل کے بجائے جمود ہے۔ مقصد اور طریقہ میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، تدریس کے مواد اور اوقات میں توازن نہیں ہے۔ مواد اور طلبہ کی ذہنی ساخت و صلاحیت میں مناسبت بہت کم ہے۔ کچھ غیر ضروری مواد شامل نصاب ہے۔جب کہ کچھ بے حد ضروری موادا بھی شمولیت کا منتظر ہے۔ کمیٹی کو ہمت، حکمت، حوصلہ اور وسعت نظر کے ساتھ ان مسائل پر غور کرنا ہے اور جہاں ناہمواری دکھائی دے اسے ہموار وساز گار بنانا ہے۔ اس کے لیے پہلے ایک ٹھوس پالیسی وضع کرنا ہوگا۔ اس پالیسی کے چند نکات یہ ہوسکتے ہیں۔
٭ ماہرین تعلیمات نے نصاب سازی کے جو رہنما اصول بیان کیے ہیں، ان کا آسان خلاصہ مدرسہ کی نصاب ساز کمیٹیوں کے لیے فراہم کیا جائے۔
٭نصاب میں جو ناہمواریاں ہیں ، جس نصاب میں یہ نظر آئے اس سے متعلق افراد سے ان کی نشاندہی کی جائے، ساتھ ہی اس کے تدارک کی تدابیر بتائی جائیں تاکہ جو مدرسہ جتنی اصلاح چاہے قبول کرے۔
٭ہرمدرسہ اپنے یہاں رائج نصاب کو فی الحال برقرار رکھے، اسے اپنا نصاب چھوڑ کر کسی دوسرے نصاب کو اختیار کرنے کی دعوت دینا مناسب نہیں ہے۔
نصاب تعلیم کا جائزہ:
دینی مدارس کے اہداف، مقاصد اور اعلانات کے مطابق مثالی نصاب کا ایک خاکہ ارباب مدارس کے غور وفکر کے لیے پیش کیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں مدارس خود اپنے نصابات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں جو پہلو ان کے لیے قابل قبول ہو اسے اختیار کرلیں۔ اس خاکہ میں درج ذیل نکات رکھے جاسکتے ہیں۔
بنیادی مقاصد پر ارتکاز:
٭مدارس قرآن، حدیث اور فقہ جیسے بنیادی علوم کی تعلیم اور ان کی روشنی میں پاکیزہ سیرت واخلاق کے حامل افراد کی تعمیر وتشکیل کے لیے قائم ہوئے ہیں۔ مدارس کا نصاب اس مقصد اور دعویٰ کا مصداق ہونا چاہیے۔ غیر جانب دار جائزوں میں دعویٰ اور عمل میں تضاد سامنے آیا ہے۔اس لیے انہیں درج ذیل خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔(۴)
قرآن مجید:
علم کا اصل سرچشمہ قرآن مجید ہے، اس پاک کتاب میں وہ تمام اصول اور قوانین بیان کردیے گئے ہیں، جن پر اسلام کا دار ومدار ہے، اس لیے اسلامی تعلیمی نظام کا مرکز ومحور بہر صورت اللہ کی یہ پاک کتاب ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے قرآن مجید کی تعلیم وتدریس کے وقت درج ذیل نکات کا مدنظر ہونا ضروری ہے۔
٭قرآن مجید کا مکمل ترجمہ ۔
٭تجوید کے اصولوں کے ساتھ قرأت قرآن کی مشق
٭قرآن کریم کی تعلیم میں تفاسیر کو اولین حیثیت دینے کے بجائے طلبہ میں یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ قرآن حکیم کو اپنی کوشش اور شوق سے سمجھیں۔ تفاسیر سے مطالعہ اور استفادہ کے دوران اہتمام کیا جائے کہ طلبہ گروہی اور مسلکی عصبیت سے بالاتر ہو معتبر اور کلاسیکل تفاسیر سے استفادہ کریں۔
٭تعلیم قرآن کے ذریعہ کردار سازی کا اہتمام ہو۔
٭قرآن مجید ایک انقلاب انگیز کتاب ہے، اس میں قوموں کے عروج وزوال کے اصول اور کائنات کے اسرار اور قوموں کی عزت وذلت حاصل کرنے کے اصول تکرار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اس زندہ پیغام کی حقیقی روح کے ساتھ تعلیم وتفہیم۔
اس معیار پر اگر مدارس کے نصاب تعلیم کاجائزہ لیاجائے تو کافی افراط تفریط نظر آئے گا۔ کہیں اس کے لئے مناسب وقت نہیں فراہم کیا گیا ہے، کہیں تفاسیر پر انحصار ہے، کہیں تصحیح مخارج پر زیادہ توجہ ہے، کہیں اس جانب بالکل توجہ نہیں ہے جو مدرسہ قرآن مجید کو جس حیثیت میں بھی پڑھاتا ہو، اس کے سامنے غور وفکر کے لئے ایک منا سب خاکہ پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حدیث:
علم کا دوسرا سرچشمہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہے۔ آپ ﷺ نے ایک نبی کی حیثیت سے ۲۳ سال تک جو کچھ کیا اور جو کچھ کہا، وہ سب قرآن کی تفسیر ہے اور دراصل قرآن مجید کی حقیقی اور مستند تفسیر وہی ہے۔
مدارس میں تعلیم حدیث پر الحمد للہ کافی توجہ ہے، چند ہی مدارس ایسے ہیں ، جن کے اوپر بے اعتنائی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مگر تمام احادیث کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھانے اور متن حدیث پر توجہ مرکوز کرکے متعلقات حدیث سے پہلو تہی کرنے سے طلبہ اس سرچشمہ علم ونور سے پوری طرح مستفید نہیں ہوپاتے۔ بہتر ہوگا کہ ارباب مدارس تمام کتابوں کو صرف سال آخر میں پڑھانے کے بجائے پورے تعلیمی دورانیہ یا کم از کم مرحلہ اعلیٰ کے منتہی درجات میں تقسیم کردیں جیساکہ ندوہ اور سلفی مدارس میں ہے تو اس کی افادیت مزید بڑھ جائے گی۔
تدریس حدیث کے وقت اساتذہ کرام کو درج ذیل باتوں کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت دی جائے تو اس علم کی تعلیم وتدریس کا فائدہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔(۵)
- مناسب مقدار میں متن کی خواندگی، تصحیح عبارت اور صحیح ترجمہ کی مشق
- منتخب احادیث کا حفظ
- مفردات، تراکیب اور اشارات کی توضیح
- اوامرونواہی کا استنباط وتشریح اس طرز پر کی جائے کہ تعلیمات رسول کا مدعا واضح طور پر طلبہ کو معلوم ہوجائے اور اس سے اسلام کے مکمل نظام حیات ہونے کا تصور سامنے آئے اور انسانی معاشرہ کے ہرگوشے میں اس سے رہنمائی ملے۔
- عوامی مسائل اور چیلنجز کا تعلیمات رسول ﷺ کی روشنی میں شافی ومسکت جواب دینے کی مشق
- مسائل کے استخراج واستنباط میں قرآن وسنت کی حقیقی روح پیش نظر ہو جو فطری نتیجہ برآمد ہو وہی پیش کیا جائے۔ اس کی پوری احتیاط کی جائے کہ مسلکی تفوق ثابت کرنے کی کوشش میں روح حدیث مجروح نہ ہو۔
- امہات کتب حدیث اور ان کے عالی مرتبت مصنفین کے تعارف وامتیازات پر گفتگو۔
- علم حدیث کی تاریخ، اصطلاحات اور اصول پر خاطر خواہ مواد شامل کیا جائے، اس ضمن میں اصول جرح وتعدیل کا بھر پور اہتمام ہونا چاہیے۔
- حدیث پاک کے استناد کو منکرین ومستشرقین نے مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے، طلبہ علوم نبوت کو اس کی بھرپور آگاہی دلائی جائے، اور اس کے تدارک کی تدابیر سمجھائی جائیں۔(۶)
ان نکات کی روشنی میں مروجہ نصاب تعلیم کا تجزیہ کیا جائے تو خود بخود محسوس ہوگا کہ تدریس حدیث کے نصاب کو مزید بہتر مؤثر بنانے کے لیے ابھی کافی گنجائش ہے۔صرف نظریہ اور ترجیح کی تبدیلی سے فائدہ کئی گنا بڑھ جانے کا امکان ہے۔
فقہ اسلامی:
مدارس میں فقہ کی تعلیم کا بہت اہتمام ہوتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اسی تطبیقی علم کی ضرورت پڑتی ہے۔ فقہ کا نصاب بہت مرتبہ زیربحث آچکا ہے اور اس میں کئی پہلوؤں سے غور وفکر کے لیے توجہ دلائی گئی ہے۔ چند نکات درج ذیل ہیں۔
٭نصاب کی تیاری میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مضمون کے مختلف پہلوؤں کا محدود اوقات میں کیسے احاطہ کیا جائے، نصاب کی ناہمواری دور کرنے کے لیے سب سے پہلے اسی مسئلہ پر غور وخوض ہونا چاہیے، مناسب ہوگا کہ تجربہ کار اساتذہ، ماہرین تعلیم اور ماہرین نصابیات ایک ساتھ سرجوڑ کر بیٹھیں اور اس مضمون کی اہمیت اور حالات زمانہ کی رعایت سے مضامین کی از سر نو تعیین کریں۔
٭مضامین میں توازن پر غور وفکر ہو تو سب سے پہلے عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔ مروجہ نصاب میں زیادہ توجہ عبادات پر ہے، جب کہ معاملات ومعاشرت کی اہمیت کسی طرح بھی کم نہیں۔ عبادت کے مسائل روز مرہ کے معمولات سے بھی از بر ہوجاتے ہیں۔ لیکن دیگر پہلوؤں پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے فارغین مدارس معاشرہ سے کٹتے جارہے ہیں۔ زندگی کے ہرشعبہ میں دین کے غلبہ کے لیے ضروری ہے کہ حاملین دین متین اس سلسلہ میں رہنمائی فراہم کریں۔
٭عصر حاضر کے تازہ مسائل اور اقلیتوں کے مخصوص مسائل پر بھی خاطر خواہ مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کتابیں طلبہ کو پڑھائی جارہی ہیں ان میں سیکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کی اب ضرورت باقی نہیں رہی اور ہزاروں مسائل ایسے پیدا ہوگئے ہیں جن کی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ اس پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
٭ مسائل پر زیادہ زور صرف کرنے کے بجائے اصو ل اور متعلقات پر توجہ دی جائے تاکہ طلبہ کے اندر قرآن وسنت کی روشنی میں براہ راست فقہی مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
٭معمول بہ مسلک کی تعلیم کی افادیت اپنی جگہ پر مگر فقہ حنفی تک محدود رہنے کے بجائے باقی مسالک کے احترام کی ترغیب اور ان کی تعارفی تعلیم کا بھی نظم ہونا چاہیے تاکہ مسلکی عصبیت کا ازالہ ہو اور طلبہ کے اندر وسعت فکر ونظر پیدا ہو۔ اس کے لیے فقہ مقارن کا اہتمام ضروری ہے۔(۷)
دعوت دین:
ان بنیادی مضامین کی تعلیم کے علاوہ کہا یہ جاتا ہے کہ مدرسہ کا بنیادی مقصد داعی دین تیار کرنا ہے۔ مدارس کے نصاب تعلیم وتربیت کے جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعویٰ ضرور بلند آہنگ ہے مگر نصاب میں دعوت کے اصول، طریق کار اور مشکلات کی تفہیم کے لیے بہت کم گنجائش نکالی گئی ہے۔ (۸) اس لیے مدارس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نصاب میں ایسے مواد کے لیے گنجائش نکالیں۔
جس سے طلبہ کے اندر دعوت دین کا جذبہ موجزن ہو۔
دعوت دین کی تاریخ سے حاصل کردہ اسباق سے شناسائی ہو۔
مدعو قوم سے دشمنی اور عناد کے بجائے لطف ومحبت کا تعلق قائم ہو۔
عملی دعوت کی تربیت کے مواقع فراہم کرائے جائیں۔
قدیم مناظرانہ اسلوب کی افادیت اب ختم ہوگئی ہے۔ افہام وتفہیم اس زمانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے مذاہب ومسالک کی تردید کی تربیت کے بجائے تفہیم کا اسلوب اختیار کیا جائے۔(۹)
عربی زبان وادبـ:
قرآن مجید ، احادیث اور فقہ اسلامی کا سارا علمی سرمایہ عربی زبان میں ہے۔ اس لیے امہات کتب تک رسائی کے لیے عربی زبان وادب میں مہارت ناگزیر ہے۔ اسی لیے دینی مدارس میں اس پہلو پر کافی زور دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی کئی پہلو قابل توجہ ہیں:
۱-عربی نحو وصرف کی تعلیم کے لیے نہایت مشکل زبان اور قدیم زمانے کی کتابوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبا کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت زیادہ وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ عربی قواعد کی تعلیم کے جدید طرز پر عرب ممالک میں جو کتابیں مرتب ہوئی ہیں یا اسی طرز پر ہندوستانی علماء نے ترتیب دی ہیں، ان سے استفادہ کیا جائے اور کم وقت میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جائیں۔
۲-ادبی متون کے انتخاب میں بھی ماضی قریب میں اکابر علماء نے زبردست خدمات انجام دی ہیں، عربی ادب کی امہات کتب کا نچوڑ، مختارات، منثورات، نخبۃ الادب، نفحۃ الیمن وغیرہ جیسی کتابوں میں جمع کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی بہترین شعری مجموعے بھی منظر عام پر آگئے ہیں۔ انہیں شامل نصاب کیا جاسکتا ہے۔ اب مقامات حریری جیسے دقیق مباحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
۳-ادبی متون کے علاوہ عربی ادب کی تاریخ، فن بلاغت وعروض اور تنقید پر بھی توجہ کی ضرورت ہے، مدارس کے نصاب میں یہ پہلو بہت کمزور ہے۔
۴-زبان کے طریقہ تدریس میں انقلابی تبدیلیاں ہوئی ہیں اب قواعد کی بنیاد پر زبان سکھانے کے بجائے براہ راست متون کی خواندگی، القاء اور مشق کے ذریعہ زبان اور قواعد پر گرفت بنائی جاتی ہے۔ اس کے لیے مارکیٹ میں نئی کتابیں، آڈیو/ ویڈیو C.D بھی موجود ہیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ البتہ منتہی درجات میں کلاسیکل لٹریچر پر دسترس کے لیے قواعد واسالیب کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
ہندوستانی تہذیب اور مغربی علوم وافکار کا تعارفی مطالعہ:
علماء کرام کا فرض منصبی دینی نقطۂ نظر سے معاشرہ کی رہبری اور رہنمائی کرنا ہے۔ رہبری اور رہنمائی کے لیے اہلیت اور استحقاق حاصل کرنے کے لیے تیاری کرنا ضروری ہے، تیاری کا ایک اہم رُخ یہ ہو کہ علماء ہدایت الٰہی اور دینی علوم سے پوری طرح فیض یاب ہوں،جس کا ذکر اس سے قبل ہوا ہے۔ تیاری کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جس معاشرہ میں رہنمائی کے فرائض ادا کرنے کے وہ ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں۔ اس معاشرہ سے وہ پوری طرح باخبر ہوں۔ عالم اور فقیہ شریعت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے حالات اور افکار ونظریات سے پوری طرح واقف ہو۔اس لیے نصاب میں اس کے لیے گنجائش نکالی جائے اور اس کے لیے تحریکات اسلامی کے لٹریچر سے استفادہ کیا جائے۔
معاصر علوم:
معاصر علوم کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے ضرورت ہے۔ کہ کم از کم جونیئر ہائی یا ہائی اسکول کی سطح تک سماجی علوم اور سائنس دونوں پڑھائے جائیں۔ سماجیات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مدارس کو اپنی ضروریات کے لحاظ سے تاریخ، جغرافیہ، معاشرت، معاشیات وسیاسیات وغیرہ کو شامل نصاب کرنا چاہیے۔ اس میں بھی تاریخ کے ساتھ اسلامی تاریخ، جغرافیہ میں جغرافیہ قرآن اور جغرافیہ عالم اسلام اور معاشرت میں اسلامی نظام معاشرت کو پڑھانا چاہیے۔ مدارس کی ضروریات کے لحاظ سے لٹریچر کی بھی کمی ہے۔ اس سلسلے میں نئے لٹریچر کی تیاری کی بھی ضرورت ہے۔ (۱۰)
سائنس کی تعلیم کے وقت خاص طور سے یہ بات پیش نظر رکھنے کی ہے کہ طلبہ کو سائنسی نظریات پڑھانے کے ساتھ ساتھ سائنس کی فکر یات پڑھانے پر خصوصی توجہ دینا چاہیے تاکہ قرآن وسنت کی تعلیمات پر ان کا انطباق ہوسکے۔
زبانیں:
اس وقت یہ کیفیت ہے کہ کئی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، بلکہ اردو بھی نہیں پڑھائی جاتی۔ عربی زبان وادب پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس میں لیاقت صرف پڑھنے اور سمجھنے کی حد تک پیدا ہوتی ہے،بولنے اور لکھنے کی صلاحیت کم ہی طلبہ کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ باستثناء ندوۃ العلماء زیادہ تر مدارس کا یہی حال ہے۔ زبانوں کی تعلیم وتدریس کے بارے میں بھی ایک نئی پالیسی کی ضرورت ہے جو درج ذیل خطوط پر مرتب کی جاسکتی ہیں۔
دینی مدارس کے طلبہ کو عربی کے علاوہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی چار زبانوں کی واقفیت ہونی چاہیے۔ عربی اس لیے کہ ہماری امہات کتب اسی زبان میں ہیں اور موجودہ عالم عرب سے ہمارے دین ودنیا کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ انگریزی اس لیے کہ یہ جدید علوم اور جدید دنیا کی کنجی ہے اور ہندی اس لیے کہ یہ ہماری قومی زبان ہے اور مستقبل میں اس کی توسیع کے کافی امکانات ہیں اور مادری یا مقامی اس لیے کہ مادری زبان ہی حصول علم کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
نظام امتحانات:
امتحان طلبہ کی صلاحیتوں کی آزمائش اور ترقی کے لیے ہوتے ہیں۔امتحانات کا یہ نظام اب کافی ترقی کرگیا ہے، اب طلبہ کی قوت حافظہ کے ساتھ، قوت فہم، قوت غور وفکر نیز اعلیٰ ذہنی اور جذباتی صلاحیتوں کی بھی جانچ کی جاتی ہے، مدارس کے امتحانی پرچوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں قوت حافظہ کی پرکھ پر زیادہ زور ہے باقی پہلوپر اب تک توجہ نہیں ہوسکی ہے۔ کمیٹی کو معاصر امتحانی نظاموں سے استفادہ کر کے مدارس کے لئے ایک مبسوط نظام امتحان مرتب کرنا ہوگا۔
نظام مالیات:
دنیا جانتی ہے کہ مدارس اہل خیر حضرات کے تعاون سے چلتے ہیں اور تعاون کا بڑا حصہ زکوۃ اور صدقات کی مد سے آتا ہے اور طلبہ کے بیشتر مصارف مثلاً تعلیم، رہائش، کتاب، کھانا اور روشنی وغیرہ کے اخراجات مدرسہ بر داشت کرتا ہے۔ مدرسۃ الاصلاح اور جامعۃ الفلاح کو چھوڑ کر باقی مدارس میں فیس کا رواج کم ہی ہے، مستطیع طلبہ سے صرف کھانے کی معمولی فیس لی جاتی ہے۔ یہ نظام کئی پہلوؤں سے قابل توجہ ہے، اس کی وجہ سے مدرسہ پر کافی بوجھ پڑتا ہے، زکوۃ کی رقم دیگر مدات میں خرچ کرنے کے لیے حیلہ حوالہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ مفت خوری کی عادت کو فروغ ملتا ہے، حیثیت مند والدین زکاتی نظام میں اپنے بچوں کو ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے اس نظام میں بڑے پیمانے پر غور وفکر اور اصلاح کی ضرورت ہے۔پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے اس سلسلے میں بہت قیمتی تجاویز پیش کی ہیں (۱۱)۔ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ:
دینی مدارس کے نظام ونصاب کے تعلق سے یہ گزار شات بڑی پس وپیش کی حالت میں مرتب کی گئی ہیں۔ ان گزارشات پر غور وفکر ارباب مدارس ومفکرین ملت کو کرنا ہے جن کے ہاتھ میں قوم وملت کا مستقبل ہے۔ مدارس کے نظام ونصاب پر غور وفکر تاریخ کے ہر دور میں ہوا ہے اور ہمارا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزر کر گذشتہ ایک صدی سے تعطل کا شکار ہوا ہے۔ تعطل کی اس کیفیت پر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے یہ الفاظ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔
’’ جو نصاب تعلیم ہندوستان میں برابر بدلتا رہا اور تغیر وترقی کے مدارج طے کرتا رہا، اس کا ایسے عہد میں جو سب سے زیادہ پُر از انقلابات ہے نہ بدلنا، ایک غیر معقول اور غیر طبعی فعل ہے۔ علمی تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ اس نصاب کی زندگی میں وقوف وجمود کا سب سے طویل عہد وہ ہے جو سب سے زیادہ تغیر وانقلابات کا طالب ہے‘‘۔
وقت آگیا ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں، دنیا اسلام کی طرف بڑھ رہی ہے، عالم اسلام ایک نئے انقلاب سے آنکھیں ملارءہے ہیں اور ظالم وجابر مغربی تہذیب کے دلدادہ حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ علماء ہند نے ایسے مشکل حالات میں ہمیشہ رہنمائی کی ہے، اب ہماری صلاحیت، ہمت اور حوصلہ کا امتحان ہے۔
اٹھو وگر نہ حشر نہ ہوگا پھر بپا
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
حواشی و حوالہ جات
۱-www.vidyabharati.org
۲-حیات شبلی، سید سلیمان ندوی، دار المصنف، اعظم گڑھ ۱۹۹۹، ص ۴۳۰
۳-مقاصد اور دائرہ عمل کی نشاندہی میں ڈاکٹر قمر الدین اور جناب سلیم منصور خالدکی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دیکھئے ڈاکٹر قمر الدین ہندوستان کی دینی درس گاہیں، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی، نئی دہلی، ۱۹۹۶ اور جناب سلیم منصور خالد کی کتاب دینی مدارس میں تعلیم وکیفیت، مسائل، امکانات، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد ۲۰۰۵ء
۴-دینی مدارس میں تدریسِ قرآن- ایک جائزہ، اشہد رفیق ندوی، ششماہی علوم القرآن، خصوصی اشاعت ’’قرآنی علوم بیسویں صدی میں‘‘ جلد نمبر ۱۹-۲۰ ص ۴۸۶ تا ۵۰۰
۵-دینی مدارس میں تدریسِ حدیث- ایک جائزہ، اشہد رفیق ندوی ماہنامہ زندگی نو، نئی دہلی جون ۲۰۱۰ ء
۶-ان نکات کی ترتیب میں ڈاکٹر قمر الدین اور جناب سلیم منصور خالد کی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔
۷-حوالہ مذکورہ
۸-دعوت اسلامی اور مدارس دینیہ مرتبین مقبول احمد فلاحی، انیس احمد مدنی، ادارہ علمیہ بلیریاگنج ۲۰۰۶ تمام مقالات میں اس کمزوری کا تذکرہ ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دیکھئے دینی مدارس کے نصاب میں دعوت دین – ایک تجزیاتی مطالعہ، اشہد رفیق ندوی ص۹۰-۱۰۲
۹- دار العلوم دیوبند اور دیگر درس نظامی کے مدارس میں ابھی مناظرہ تربیت کا رواج ہے۔ ۲۰۱۱ میں دار العلوم وقف نے بہت بڑے پیمانے پر مناظرہ منعقد کرایا۔
۱۰-اس سلسلے میں اقرا انٹر نیشنل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، شکاگو نے بہت معیاری کام کیا ہے۔ اس نے سنگاپور کے دینی مدارس کے لیے پری یونیورسٹی سطح تک مکمل مبسوط نصاب اور نصابی کتابیں تیار کرائی ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ استفادہ کے لیے رجوع کریں۔ www.iqrafoundation.com www.iqra.org
۱۱-دیکھئے پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کی کتاب دینی مدارس مسائل اور تقاضے، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2013