پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی نے اپنے مضمون ’’ریاست کے حقوق (شہریوں کے فرائض) ‘‘میں جو روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن کے ۱۱؍نومبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے، بڑی معتدل اور متوازن بات کہی ہے کہ ’’اگر کوئی طالع آزما فرددھونس اور دھاندلی کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرلے مسلمانوں کو بھیڑ اوربکریوں کی طرح ہا نکنے لگے اور دعویٰ کرے کہ اللہ نے مجھے صاحب امر بنایا ہے۔ لہٰذا تم سب لوگ مانو میرا حکم اور میری اطاعت کرو۔ ‘‘ تو اُس کا یہ دعویٰ اِسلامی مزاج سےیکسر متصادم ہوگا۔
آج شام اور مصر میں ہونے والے خون آشام واقعات کے پس منظرمیں یہ نہایت حقیقت پسند ‘ معتدل اور متوازن بات ہے۔ ان دو مسلم ملکوں میں اور دیگر مسلمان ملکوں میں قوت کے بل بوتے پر قابض حکمراں عام مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح خونخوار فوجی دستوںکی مدد سے نہ صرف ہانک رہے ہیں بلکہ بھیڑیوں کی طرح چیر پھاڑکر رہے ہیں۔ یہ حکمت بھرے الفاظ غالباً پروفیسر ملتانی صاحب کے قلم سے فاروق اعظم کے اس دستوری اور قانونی فتوے کی روشنی میں نکلے ہیں جس کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب’’ رجم الحبلیٰ با بالزنا اذا راحصنت‘‘(زنا سے حامل عورت کو زحم کرنا اگر وہ شادی شدہ ہو) کے تحت نقل کیا ہے۔ اس تاریخی خطبہ میں سیدنا عمرؓنے فرمایا کہ مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر جو شخص اپنے آپ کو حاکم بنالیتا ہے وہ اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے قصور وار ہیں۔ پھر پہلے شخص کو موت کی سزاء کی بشارت دی ہے کیونکہ یہ دونوں مسلمانوں کے حق انتخاب امیر پر ڈاکہ ڈالنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منتخب ہونے کے لیے امیر میں کیا صفات اور خصوصیات ہونی چاہئیں۔
منتخب ہونے والے امیر کی صفات و خصوصیات
منتخب ہونے والے امیر کی پہلی اور سب سے بڑی صفت اس کا مومن و مسلم ہونا ہے بلکہ امام المتقین ہوناہے۔ مسلمان معاشرے کےافراد سب کے سب مومن و مسلم ہیں اور تقویٰ کی صفت سے متصف حسب استطاعت بھی ہیں یہ ان سب کا امام ہے اور اب ’سیاسی امامت‘ کے منصب کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ یہاں تقویٰ ہی اہم ترین خصوصیت ہے جو اسلام اور ایمان کے درجے کا حتمیٰ نتیجہ ہے تقویٰ قول اور عمل میں تصاد نہ ہونے کی بنیاد ہے۔ یہ نور بصارت کے ساتھ ایک ایسا نور بصیرت بھی اس کے دل و دماغ میںپیدا کردیتا ہے پھروہ پیچیدہ ترین ملکی اور عالمی مسائل میں راہ ہدایت روز روشن کی طرح دیکھ لیتا ہےاور اپنی غیر معمولی فطری صلاحیتوں اور تجربات کی بنا پر اپنی قوم ریاست اور معاشرہ کی اسلامی بنیاد وں پر صحیح رہنمائی کرسکتا ہے۔
اسلامی اصطلاح میں ا س غیر معمولی دینی بصیرت کو ’’مطلق اجتہادی صلاحیت‘ ‘ اور اس کے حامل کو ’’مجتہد مطلق‘‘ کہا جاتا ہے۔ مجتہدکتاب و سنت اور فقہ اسلامی اور دیگر بنیادی اسلامی علوم پر غیر معمولی گہری نظر رکھتا ہے اوروہ دنیاوی امور ومسائل کا گہرا علم اور ادراک رکھتا ہے۔ ان مسائل کو سلجھانے اور ان کا عملی حل تلاش کرنے اور حل کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے امیر کا تجربہ کار ہوناضروری ہے۔ اجتماعی صلاحیتوں میں سے ایک صفت بروقت مسائل کو فکری گرفت میں لانا ان کی فکری اور تاریخی جڑوں تک پہنچنا اور ان کے ایسے حل تلاش کرناہے جو اسلام اور مسلمانوں اور بحیثیت مجموعی انسانیت کے حق میں باعث فلاح و بہبود ہوتے ہوں۔ ان صلاحیتوں میںسے اس کا اچھا خطیب ،اچھا سیاست داں،اچھا سفارت کار، ہونا بھی شامل ہے۔ کسی خاص کام اور خاص مہم کومناسب افراد کے حوالےکرنے کی صلاحیت بھی ضروری ہے۔
(۲) آج کل اکیسویں صدی کے حالات میں امیر کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں متنوع تجربات حاصل ہوناچاہئے۔ وہ اپنے علم اور سابقہ تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حکمت وقائدانہ صلاحیتوں کو ثابت کرچکا ہو۔
یہ امر اس لیے اہم ہے کہ عصر حاضر میں شیاطین جن و انس مادی، مالی اور عسکری قوتوں سے مسلح ہیں آج دنیا کو ان کے تسلط سے آزاد کرنے اور اسلام کو نظام حیات کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے دائرہ وسیع ترکرنا کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے اس کام سے عہدہ برآہونے والے شخص کی صفات اور خصوصیات بھی کڑی اور سخت ہیں۔
شورائیت کی برکات
امیر کی مدد کرنے اور اس کو راہ حق پر چلنے کے لیے بروقت صحیح اور عملی تجاویز کا انتظام اسلام نے اپنے شورائی نظام کے ذریعہ کیا ہے۔ یہ شورائی نظام نہ صرف منتخب مجالس نمائندگان پر مشتمل ہوگا بلکہ ہروزارت اور ہر وزیر کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے عالم، تجربہ کا ر اور متقی حضرات کی ٹیمیں ہوںگی تاکہ فوراً صحیح اور مناسب حال فیصلے کیئے جائیں اور ان کو عملاً نافذ کیاجاسکے۔ یوں مرکز سے لیکر صوبوں ‘ ضلعوں اور گاؤں تک شورائی نظام،میدان عمل میں اپنی برکات کو ظاہر کرتا رہے گا۔ اسلام تاقیامت انسانی ہدایت کا ضامن ہے۔ دین کی تکمیل بتدریج انسانی تاریخ کے ارتقاء کے ساتھ ہوئی تکمیلِ دیںکا اعلان خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیا ہے : (سورۃ:المائدہ۔ آیت نمبر‘۴) آج میں نے تمہارے نظام حیات کو تمہارے لیے مکمل کردیا (اس طرح) میں نے تم پر میری نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور نظام حیات تمہارے لیے پسند کیا۔
امریکی تجربہ
انتخاب حاکم میں امریکی تجربہ ایک بڑی انفرادیت پر مبنی ہے۔ اس تجربے میں انتخابات میں حصہ لینے والی ہرپارٹی کا کام ہے کہ وہ حلقہ انتخاب کے عوام سے اس ہونے والے حاکم کے بارے میں رائے حاصل کرے۔ اس میں امیدوارکو اپنے آپ کو ان دیگر امیدواروں کے مقابلے میں پیش کرنا ہوتا ہے جن کا خود ان کی اپنی پارٹی سے تعلق ہے۔ اسلام کسی عہدہ کے طلب کرنے والے کواس کا مطلوب عہدہ دینا نہیں چاہتا ہے‘ اس لیے اس نکتہ پرغور کی ضرورت ہےکہ اس شرعی قباحت کا ازالہ کرکے اس تجربے سے کتنا فائدہ اُٹھایاجاسکتا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ بالکل ابتدائی و حدتوں Basic Units سے لے کر مرکزی قیادت تک کی آراء معلوم کرنے کے ذرائع اور وسائل پر غور و فکر کیاجائےپھر مرکزی قیادت کے حوالے یہ کام ہو کہ وہ عوام سے صوبوںاور ضلعوں کی سطح پر چند اراکین کا انتخاب کرائے پھروہ اپنے انتخابی منشور کی بنیاد پر عوام کے ووٹ طلب کریں۔ اس طریقہ انتخاب کا فائدہ یہ ہے کہ ہر امید وارکا صاحب رائے شخص ہونا ثابت ہوجاتا ہے اس کا اچھا خطیب ہونا بھی ضروری ہے پھر مناسب مشیروں اور کارندوں کو چننے کی صلاحیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آخر میں پارٹی اپنا ایک امید وارچن لیتی ہے جس کو کامیاب کرنے کی ذمہ داری اُس کے اراکین کے اوپر تفویض ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں مرکزی قیادت کو ملکی اور عالمی سطح پر غور و فکر کرکے ایک قومی منشور انتخابات تیار کرنا ہوگاجس میں دیگر امید واروں کی مثبت اور کارآمد تجاویز کو شامل کیاجاسکتا ہے۔ قومی رائے عامہ کے رجحانات کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ جب قومی سطح پرحاکم کے انتخاب کے لیے مقابلہ ہوگا تو ملک کے سارے باشندے ہر پارٹی کے منشور‘ اس کے امیدوار کی شخصیت صلاحیت اور کارناموں کو پیش نظر رکھ کہ اپنا ووٹ پورے احساس ذمہ داری کیساتھ استعمال کریںگے اور صحیح اور مناسب شخص بالآخر منتخب ہوگا۔ اس منتخب حاکم کی اطاعت نہ صرف فوج‘پولیس‘ عدلیہ اور انتظامیہ پر پوری دیانت داری اور غیر جانبداری سے لازم ہے بلکہ ساری مخالف جماعتوں اور عوام کو اس کی حکومت قبول کرکے اس کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے تاکہ اپنے منشور کے نفاذ میں وہ کامیاب ہوکر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے۔ یہ انتخاب حاکم کے طریقہ کار کے سلسلے میں ابتدائی نوعیت کے خیالات ہیں۔ اہل علم کو غوروفکر کرکے اپنی اپنی آراء ظاہر کرنا چاہئے تاکہ بتدریج کسی ایک یا ایک سے زائد طریقہ انتخاب پر اتفاق رائے ہوسکے۔
شوریٰ کا رول
ایک عام سوال شوریٰ اور امیر کے باہمی تعلقات کے بارے میں کیاجاتا ہے کیا امیرحال اور ہر وقت شوریٰ ا وراراکین شوریٰ کی رائے کا پابند ہے؟ چونکہ اختلاف رائے ہمیشہ وقوع پذیر نہیں ہوتا ہے اس لیے کوئی لگی بندھی فیصلہ کن بات کہنا مشکل ہے۔ حالات ان کی پیچیدگی اور ان میں بعجلت فیصلے کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر کوئی فیصلہ کیاجاسکتا ہے۔ اگر حالات معمول کے ہوں دونوں رایوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنے میں بڑے نقصانات کا خدشہ نہ ہو تو دونوں میں سے کسی ایک کے فیصلے کو نافذ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نقصانات کے اندیشے کے سلسلے میں کوئی اتفاق نہ ہوسکے اور حالات نارمل ہوں اور وقت میں گنجائش بھی ہوتو رائے عامہ کو معلوم کرنے کے لیے عوام کی رائے معلوم کی جاسکتی ہے جس کے فریقین پابند ہوںگے۔ آج نقل و حرکت میں اور وسائل مواصلات میں زبردست ترقی ہوئی ہے۔ ساری مجالس ‘ صوبائی مجالس بلکہ ضلعی سطح تک کی مجالس فوراً چند گھنٹوں میں طلب کیاجاسکتا ہے اس اہم اورہنگامی اجلاس میں کوئی فیصلہ کیاجاسکتا ہے۔ چونکہ سارے ہی علاقوں کی نمائندگی ہوگی اس لیے فیصلہ خواہ وہ موافق ہو یا مخالف،سب کو قبول کرنا اور اسے نافذ کرنا ہوگا۔ پھر بھی خاص خاص حالات میںحاکم کو اپنا فیصلہ نافذ کرنے کا حق و اختیار حاصل ہونا چاہئے تاکہ انتظامی امور تعطل کا شکار نہ ہوں اور عوام کو بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے جیساکہ تعطل (Shutdown) کی حالت میںامریکہ میں اکثر دیکھا اور محسوس کیاگیا ہے۔ یہاں مرتدین اور مابغین زکوٰۃ کے مسئلہ میں سیدنا ابوبکر ؓکے فیصلے کو ہر وقت اور ہر حالت میں پیش کرنا نامناسب ہے کیونکہ اس میں مالی پہلو سے زیادہ اصولی پہلو غالب تھا۔ کچھ مسائل میں اس مثال سے استفادہ کیاجاسکتا ہے مگر اس کو ہروقت قابل استدلال اور قابل عمل تصور کرنا صحیح نہیں ہے ہر امیر سیدنا ابوبکر ؓ نہیں ہوتا ہے ان کے درجہ فہم دین اور اخلاص کی اعلیٰ ترین سطح تک وہ نہیںپہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جسکو غیر جذباتی انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
عمر:یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق انسانی تجربات سے ہے۔ اس میں کسی نص کی تلاش سعی لا حاصل ہے اور غیر موثر بھی ہے۔ ڈیڑھ دو صدی میں عالمی پیمانے پر تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ ۵۵۔ ۷۰ کی عمر کے بعد انسان کے عقلی اور جسمانی قوی کمزور پڑجاتے ہیں۔ تازہ خون اور قوی لوگوں کی ضرورت ہر میدان عمل میں ہوتی ہے ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے والوں کے سلسلے میں یہ بات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ انہیں ایمانی ‘ عقلی فکری اور جسمانی اعتبارسے تروتازہ اور باصلاحیت ہونا چاہئیے۔ ان وجوہات کی بناء پر ۵۵ سال سے زیادہ عمر والوں کو انتخابات کےمیدان میں اترنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئیے۔
ایک سے زائد بار انتخابات میں حصہ لینا
تا حیات امیرہونا یا ایک سے زائد بار انتخابات میں حصہ لینا ایک اہم مسئلہ ہے سوال یہ ہے کہ حاکم تاحیات ہو یا کسی معینہ مدت کے لیے ایک باریا زیادہ سے زیادہ دوبارکے لیے ہوناچاہئیے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ یہ بھی تجربات انسانی سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے اس میں تلاش نص ایک بے سود عمل ہے۔ تجربات انسانی یہ بتاتے ہیں زیادہ سے زیادہ دوباران اہم مناصب پر فائز ہونے کا موقع فراہم کرنا قرینِ مصلحت نہیںہے نئی قیادتوں کو میدان میںآنے تجربات حاصل کرنے اور نازک مناصب کی ذمہ داریاں اٹھانے کا موقع ملناچاہئے اور اس طرح قوم تازہ خون اور تازہ دماغوں سے استفادہ کرسکتی ہے۔ تاحیات حکومت کرنا سیاسی جمود کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے۔
حاکم کومعزول کرنا
ایسا ہوسکتا ہے کہ حاکم کو معزول کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس صورت میں :
(1) اخلاقی الزامات ہوں تو غیر جانبدار کمیشن کا تعین کیاجائے تاکہ حقیقت تک پہنچنے کی ضمانت دی جاسکے۔
(2) مالی واقتصادی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا جائے تو ان کی تحقیقات کے لیے اس میدان کے ماہرین سے عبارت ایک کمیشن مقرر کیاجائے جو معاملے کے مختلف پہلوؤں پر اپنی رپورٹ پیش کرسکے۔
(3) طبی عجزکی صورت میں ماہر اطباء کی رپورٹ پر اعتماد کیاجائے گا۔
(4) بڑی سنگین خیانتوں خصوصاً وہ خیانتیں جن سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہو تو ان کی نوعیت کے لحاظ سے عدالتوں یاکمیشنوں کا تعین کیاجاناچاہئے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں مناسب شرعی سزاتجویز کی جانی چاہئے۔
مذکورہ تمام حالتوں میں اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے دستور میں مناسب طریق کار درج کیاجانا چاہئیے۔
عدالتوں اور کمیشنوں کا تعین منتخب مجالس کے ذریعہ ہوگا۔ بعض خاص امور میں ان مجالس کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی جاسکتی ہے یا ان کو مختلف کمیٹیوں اور کمیشنوں کے کا رکن بھی مقرر کیاجاسکتا ہے۔ اس طرح نصب و عزل حاکم کا حق عام مسلمان عوام کو واپس دلایاجاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2014