نظریاتی قوت (ideological power)کو انسانی گروہوں کی تمکین و ترقی اور ان کی قوت و اثر پذیری میں ایک اہم اور طاقتور عامل کی حیثیت حاصل ہے۔ اہل اسلام کے لیے، یہ صرف ایک اہم قوت نہیں ہے بلکہ ان کی اصل قوت (core strength )اور قوت و طاقت کی دیگر تمام اقسام کا اصل سرچشمہ ہے۔ ان کے سابقہ عروج میں اصل کردار اسی قوت کا تھا اور آج بھی یہی قوت ان کو عروج وسربلندی عطا کرسکتی ہے۔[1] بدقسمتی سے تمکین و ترقی کی بحث میں سب سے زیادہ یہی اصل قوت نظر انداز رہتی ہے۔ ذیل کی سطروں میں ہم واضح کریں گے کہ نظریاتی قوت کی کیا اہمیت ہےاور ہندوستانی مسلمان کیسے اس قوت کو کارگر بناسکتے ہیں۔
نظریاتی قوت کیا ہے؟
زندگی میں معنویت کی تلاش انسانی سماجوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ایک نظریاتی گروہ، اس تلاش میں سماج کی مدد کرتا ہے۔لوگوں کے عقائد، افکار، ورلڈ ویو، اقدار، معمولات ( norms) اور مثالی نظام حیات سے متعلق ان کے تصورات کو متاثر کرنے کی صلاحیت نظریاتی قوت کہلاتی ہے۔ جو گروہ نظریاتی قوت کا حامل ہوتا ہے وہ پوری سوسائٹی کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ وہ لوگوں کی سوچ اور ان کے طرز فکر کو متاثر کرتا ہے۔سوچ اور نظام فکر لوگوں کے تمام رویوں کا اصل سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس لیے نظریاتی قوت رکھنے والا گروہ، سماج کی روایتوں، رواجوں اور معمولات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ریاست کی پالیسیوں اور قوانین کا رخ متعین کرتا ہے۔ لوگوں کے معتقدات، رہن سہن اور طور طریقوں کو سمت دیتا ہے۔نظریاتی قوت دیگر تمام قوتوں سے کہیں زیادہ کارگر، موثر، ہمہ گیر اور دیرپا اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سیاسی، معاشی، اور فوجی قوتوں میں جبر کا عنصر شامل ہوتا ہے یعنی قوت کے زور پر بالجبر لوگوں کو خاص رویوں کا پابند بنایا جاتا ہے۔ہر سماج میں جبر کی مزاحمت کرنے والی ایک قوت ضرور موجود ہوتی ہے اس لیے جبر سماج کے کارگر یعنی بہادر اور جری حصے پر زیادہ دنوں تک چل نہیں سکتا۔ عام لوگوں پر بھی جب جبر کی پکڑ کم زور ہوتی ہے وہ آزادانہ سوچنے اور عمل کرنے لگتے ہیں۔اس لیے جبر کے ذریعے پیدا کیے جانے والا اثر و رسوخ اکثر عارضی اور غیر پائیدار ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں نظریاتی قوت عقلی، استدلالی اور جذباتی ترغیب سے کام لیتی ہے۔ نظریاتی قوت کے حاملین کی بات لوگ برضا و رغبت مانتے ہیں۔ اس لیے اس کا دائرہ اثر وسیع تر بھی ہوتا ہے اور زیادہ گہرا اور دیرپا بھی ہوتا ہے۔
نظریاتی قوت اور معاصر ماہرین سماجیات
معاصر سماجی نظریات میں یہ بات عام طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ نظریاتی قوت کسی سماجی گروہ کی اہم قوت ہوتی ہے اور اس قوت کے حامل سماجی گروہ بااثر اور طاقت ور ہوتے ہیں۔
علم عمرانیات کے بانی علامہ ابن خلدون ؒ کے افکار اس سلسلۂ مضامین میں متواتر زیرِ بحث آتے رہے ہیں۔ ‘عصبیة’کےتصور کو، ابن خلدونؒ کا اہم ترین فلسفہ سمجھا جاتا ہے۔ ابن خلدون کے نزدیک عصبیة کسی انسانی گروہ کی ترقی اور تمکین کا سب سے اہم سرچشمہ ہے۔[2]
ہم اس سے قبل واضح کرچکے ہیں[3] کہ ابن خلدونؒ نے جن معنوں میں عصبیة کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے اس کے لیے جدید سماجیات میں مناسب ترین متبادل تعبیر ‘سماجی اتفاق’ (social solidarity)ہے۔ یعنی وہ گہری باہمی رفاقت جو کسی مشترک فلسفہ حیات، کسی مشترک ذمے داری کے احساس اورکسی مشترک وژن کے نتیجے میں انسانوں کے کسی گروہ میں پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ نظریاتی قوت کا اولین اور سب سے اہم حصہ ہے۔
مسلمانوں کے بارے میں ابن خلدونؒ نے بڑی وضاحت سے یہ بات لکھی ہے کہ ان کی ترقی اور قوت و طاقت کا مکمل دارو مدار، اسلام اور اس کے آئیڈیلز سے گہری وابستگی پر ہے۔ اپنے مقدمے کی ایک فصل (کتاب اول، باب دوم کی ستائیسویں فصل) کا انھوں نے عنوان ہی رکھا ہے:’’عربوں کو غلبہ و حکومت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ دینی رنگ میں نہ رنگ جائیں، نبوت کی وجہ سے، ولایت کی وجہ سے یا کسی دینی تحریک کے اثر کی وجہ سے’’[4] اور یہ کہ مشترک ذمے داری کا جو احساس ایک دینی فریضہ پیدا کرتا ہے وہ کہیں اور سے پیدا نہیں ہوتا اس لیے اگر یہ صحیح معنوں میں بیدار ہوجائے تو ترقی کا سب سے طاقتور محرک بنتا ہے۔ اس بحث کو انھوں نے مقدمے میں جگہ جگہ چھیڑا ہے۔ مثلاً باب سوم فصل چہارم کا عنوان ہے: ‘‘ہمہ گیر اور وسیع حکومتوں کی ابتدا دین سے ہوتی ہے، خواہ نبوت سے ہو یا کسی دینی دعوت سے’’[5]، فصل پانچ کا عنوان ہے: ‘‘ دینی دعوت عصبیۃ کی قوت کو بے پناہ بڑھادیتی ہے۔’’[6] وغیرہ۔
پروفیسر ٹائن بی کے یہاں تہذیبوں کے عروج کا آغاز ہی افکار سے ہوتا ہے۔ تخلیقی صلاحیت کی حامل کوئی اقلیت (یعنی ایک چھوٹا سا بااثر نظریاتی گروہ) جب انوکھے افکار اور مسائل کے انوکھے حل پیش کرتا ہے تو یہی تہذیبوں کے عروج کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔
نظریاتی گروہ موجود افکار اور معمولات کو چیلنج کرتا ہے اور نئے افکار اور معمولات تجویز کرتا ہے۔[7]
ہمارے زمانے میں سماجی گروہوں اور ریاستوں کی قوت و طاقت اور اثر پذیری پر کام کرنے والے ایک ممتاز محقق برطانوی ماہر سماجیات مائیکل مان (Michael Mann , b. 1943)ہیں جن کی چار جلدوں پرمحیط کتاب[8] ( The Sources of Social Power)اس موضوع پر لکھی جانے والی معاصر کتابوں میں مشہور ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔مائیکل مان کے مطابق انسانی تاریخ میں انسانی گروہوں کی قوت کے سرچشمے اصلاً چار رہے ہیں، جسے اس نے IMEPماڈل کا نام دیا ہے۔ نظریاتی قوت (ideological power)، فوجی قوت (military power)معاشی قوت (economic power)اور سیاسی قوت (political power)۔[9] فاضل مصنف کے نزدیک ان قوتوں کی اہمیت اسی ترتیب میں ہےیعنی سب سے زیادہ اہمیت نظریاتی قوت کو حاصل ہے۔ نظریاتی قوت، کیسے فوجی، معاشی اور سیاسی قوت سے زیادہ اہم ہوتی ہے؟اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:
‘‘نظریات جغرافیائی تنگنائیوں سے پرے پھیلنے اور نفوذ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ (دیگر قوتوں کی طرح) معاشی، فوجی اور سیاسی نیٹ ورکوں میں محدود تعاملات کے پابند نہیں ہوتےء، جہاں جہاں بھی انسان سے بات ہوسکتی ہے وہاں وہ پھیل سکتے ہیں اور اپنا اثر پھیلاسکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ان کے اندر انقلاب انگیزی اور نجات دہندی کی پرکشش خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے۔ لوگ (نئے افکار کو قبول کرتے ہیں تو ان میں ) طاقت کے مقامی ڈھانچوں سے نجات پانے کا فرحت بخش احساس جنم لیتا ہے۔’’ [10]
نظریاتی قوت پر کام کرنے والوں میں ایک اہم نام برطانوی ماہر سماجیات و سیاسیات اسٹیون لیوکس (Steven Micheal Lukes , b. 1941) کا ہے۔ لیوکس کے نزدیک قوت کا اصل مطلب باقی سماج کے خیالات اور خواہشات پر اس طرح اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا نام ہے کہ وہ بھی وہی چاہنے لگیں جو آپ چاہتے ہیں۔ [11]اس کے نزدیک قوت کے تین ابعاد(dimensions)ہوتے ہیں۔ پہلابُعد (dimension) راست اور محسوس کیا جانے والا اور نظر آنے والا اثر و رسوخ ہے جس کے نتیجے میں فیصلوں پر راست طریقے سے اثر انداز ہوا جاتا ہے اور نتائج کو متاثر کیا جاتا ہے۔ دوسرا بُعد، ایجنڈا سیٹنگ قوت ہے۔ یہ نسبتاً غیر محسوس اور لطیف (subtle)اثر و رسوخ ہے جس کے ذریعے کچھ امور و معاملات(جو قوت کے حامل گروہ کو ناپسند ہیں) عوامی مباحث سے خارج ہوجاتے ہیں یا حاشیے پر چڑھ جاتے ہیں اور طاقت ور لوگوں کی مرضی کے مطابق عوامی مباحث کے موضوعات یا ان کا دائرہ طے پاتا ہے۔ تیسرا بُعد زیادہ گہرے اثرات کا حامل اور زیادہ لطیف اور غیر محسوس ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے طاقت ور گروہوں کو یہ قوت مل جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے شعور کی تشکیل کرسکیں۔ ان کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرسکیں اور لوگ برضا و رغبت طاقت ور گروہ کے طے کردہ حدود میں سوچ سکیں اور عمل کرسکیں۔ یہی اصل نظریاتی قوت ہے۔[12]
گذشتہ صدی کے اواخر میں، امریکی سفارت کار اور امریکی وزیر خارجہ کے سابق مشیر خصوصی جوزف نائے(Joseph Nye, b. 1937) نے قوت ناعمہ (soft power)کا تصور دیا تھا جو اب عالمی سفارت کاری میں ایک معروف تصور بن چکا ہے۔ قوتِ ناعمہ کی جو تفصیل جوزف نے بیان کی ہے، وہ کم و بیش وہی ہے جسے ہم نظریاتی قوت اور تہذیبی قوت کہہ رہے ہیں۔ جوزف لکھتا ہے:
‘‘قوتِ ناعمہ اس صلاحیت کا نام ہے کہ جو آپ چاہتے ہیں، وہی چاہت آپ دوسروں کے اندر پیدا کردیں۔ لوگوں کے اندر آپ کی قدروں کے لیے ستائش اور پسندیدگی پیدا ہوجائے۔ وہ آپ کے نمونے کی نقل کرنے میں خوشی اور اطمینان محسوس کرنے لگیں۔ قوتِ ناعمہ کے وسائل ایک کشش پیدا کرتے ہیں۔ جاذبیت اور کشش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ترغیب (seduction) جبر اور لالچ کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر اور کارگر ہوتی ہے۔’’[13]
نظریاتی قوت اور اسلام
اہلِ اسلام کے نزدیک تو عقیدہ و نظریہ کی اہمیت ان کے عقیدے اور دینی مسلمات کا جزو ہے۔قرآن و حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ اہلِ اسلام کی قوت و طاقت کو ان کے دین و ایمان کے ساتھ وابستہ قرار دیا گیا ہے۔وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ (اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔النور :55) وَمَنْ یتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔المائدہ :56)فَمَنْ یكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ(س نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ البقرہ: 256) وَیاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیهِ یرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیكُمْ مِدْرَارًا وَیزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ (اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ ہود: 52)اس جیسی متعدد آیات ہیں جن میں واضح طور پر اسلامی عقیدے اور اس سے وابستگی کو اہل ایمان کے غلبہ و عروج کی اصل شرط قرار دیا گیا ہے۔حدیث رسولﷺ میں بڑی وضاحت کے ساتھ تیقن دیا گیا ہے کہ: لا یزَالُ مِنْ أُمَّتِی أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِاللهِ. لَا یضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتّٰی یأْتِیهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ عَلٰی ذَالِکَ(میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی۔ جو انھیں ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا یا اُن کی مخالفت کرے گا وہ انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا امر(یعنی قیامت کا دن) آجائے گا اور وہ اِسی حال پر قائم ہوں گے )۔[14]
اسلامی فکر و نظریہ کا اصل سرچشمہ قرآن مجید ہے۔اہل ایمان کی طاقت و قوت کو قرآن سے بھی وابستہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن اپنےبارےمیں کہتا ہے کہ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِیزٌ (وہ ایک طاقتور کتاب ہے۔ حم السجدہ: 41 )وہ اہل ایمان کے لیے باعث رحمت ہے اوران کے جملہ مسائل کا حل ہے۔وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ(اور ہم قرآن میں سے جو اتارتے ہیں وہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔الاسراء :82)۔ قرآن یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو اچھے انجام کی طرف لے جائے گا۔إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ(بے شک جس نے تم پر قرآن کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ تمھیں ایک اچھے انجام تک پہنچا کے رہے گا۔القصص: 85) قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ باطل کے مقابلے میں اہل اسلام کا سب سے اہم ہتھیار قرآن ہے،وہ جہاد کبیر کا ذریعہ ہے۔فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِینَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِیرًا(پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہر گز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔الفرقان: 52)۔ ایک مشہور حدیث میں کہا گیا کہ قرآن سے وابستگی ہلاکت سے حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔ فإن هذا القرآن سبب طرفه بید الله وطرفه بأیدیكم فتمسكوا به، فإنكم لن تضلوا ولن تهلكوا بعده أبدًا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘یہ قرآن ایک رسی ہے، اس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمھارے ہاتھ میں ہے، اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، کیوں کہ اس کے بعد تم ہرگز نہ گم راہ ہو سکتے ہو اور نہ ہلاک۔’’)[15] آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت بہت سی اقوام کو بلندی عطا کرے گا اور اس کے ترک کرنے کی پاداش میں انھیں خوار کرتا ہے۔[16]
نظریاتی قوت اس وقت کارگر ہوتی ہے جب نظریے کے فروغ کے لیے سنجیدہ جدوجہد کی جائے۔ قرآن مجید میں اہل اسلام کی قوت و طاقت اور اللہ کی مدد و نصرت کو اس دین کی دعوت کے ساتھ بھی وابستہ قرار دیا گیا ہے۔ یاأَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ یعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمھارے مقابلہ میں) کام یابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔المائدہ: 67) یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ ینْصُرْكُمْ وَیثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ(اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا۔سورہ محمد: 7)یہاں اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے جس کو اللہ کی جانب سے مدد و نصرت کی اہم شرط قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث سے اس مضمون کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ والذی نفسی بیدہٖ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عذابًا من عندہ، ثم لتدعنہ ولایستجاب لکم (قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے رہو یا پھر ایسا ہوگاکہ اللہ تم پر اپنا کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے اور تمھاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔’’[17]
موجودہ احوال اور اسلام کی نظریاتی قوت
نظریاتی قوت کے تین عناصر ہوتے ہیں۔ ایک خود نظریے کی اندرونی طاقت یعنی اس کا دلیل کی قوت سے آراستہ ہونا اور دیگر لوگوں کے لیے پرکشش اور دل و دماغ کو اپیل کرنے والا ہونا، دوسرے زمان و مکان (time and space)کے احوال کا اس نظریے کی قبولیت کے لیے ساز گار ہونا اور تیسرے نظریاتی گروہ کا نظریے کو پیش کرنے اور اس پر قائل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونا۔جب کوئی نظریہ ان تین خصوصیات کا حامل ہوجاتا ہے تو وہ اپنے حاملین کو سماجی قوت اور اثر و رسوخ عطا کرتا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور دنیا کے ہر انسان کے لیے ہر زمانے میں، اس میں فطری کشش پائی جاتی ہے۔ یہ حقیقت مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا حصہ ہے اور تاریخی شواہد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس طرح اسلام کی نظریاتی قوت کے حوالے سے پہلا عنصر ہمیشہ موجود رہا ہے اور آج بھی یقیناً موجود ہے۔
اسلام میں پائی جانے والی فطری کشش اور معقولیت کے باوجود بعض حالات اسلامی فکر کی تیز رفتار اشاعت کے مواقع پیدا کردیتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اسلامی تاریخ سے واضح ہے۔موجودہ عالمی احوال بھی یہ موقع فراہم کرتے ہیں۔
یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا ایک بے نظیر قسم کی افراتفری اور کنفیوژن کی زد میں ہے۔روحانی خلا، نفسیاتی بے سکونی، خاندانی نظام کا انتشار،معاشی عدم استحکام اور بے نظیر عدم مساوات، جمہوری راستوں سے نسل پرست پاپولسٹ حکم رانوں کا عروج، ماحولیاتی بحران، دہشت گردی اور اس جیسے متعدد مسائل ہیں جنھوں نے انسانی زندگی کو اجیرن کررکھا ہے اور عصر حاضر کے انسان کو رائج افکار و نظریات میں ان پیچیدہ مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔پوری دنیا نظریاتی کنفیوژن کے ایسے دور سے گزررہی ہے جس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔[18] ایسے احوال ہمیشہ نظریاتی تحریکوں کے لیے سازگار احوال ہوتے ہیں۔ ایک نیا نظریہ ایسے ہی زمانوں میں تیزی سے عوامی مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ مائیکل مان لکھتے ہیں:
‘‘نظریات خاص طور پر بحرانوں کے زمانے میں زیادہ ضروری ہوجاتے ہیں جب موجود ادارہ جاتی نظریات پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہونے لگتا ہے اور متبادل نظریات کا کوئی ٹریک ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ایسے زمانوں میں نئے (یعنی سماج کے موجودہ اجتماعی نظریات سے مختلف) نظریات کی قوت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو زمانے کے پیچیدہ مسائل کے انوکھے اور معقول حل لے کر سامنے آتے ہیں۔ نظریاتی کنفیوژن کے ایسے ادوار ہی میں ایسے نئے اور طاقت ور نظریات کا ظہور ہوتا ہے جن کے علم بردارسماج میں بڑی اور بنیادی تبدیلیاں لے کر آتے ہیں اور لانے کی کوشش کرتے ہیں۔’’[19]
ہمارے ملک میں بھی فرقہ پرستوں نے اُن ادارہ جاتی نظریات (institutionalized ideologies)—یعنی وہ نظریات جن پر نظام زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور جو ملک کے پورے نظام کو چلارہے ہوتے ہیں— کی بنیادیں ہلادی ہیں جن پر ملک کے عوام کو یک گونہ اطمینان حاصل تھا۔ فرقہ پرستوں کے پیدا کردہ فتنہ و فساد نے نہ صرف پیچیدہ عملی مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ سیریس نظریاتی کنفیوژن کو بھی جنم دیا ہے۔ ہمارے خیال میں ان احوال نے، ہراُس گروہ کے لیے جو ایک متبادل نظام فکر کا علم بردار ہو، غیر معمولی مواقع پیدا کیے ہیں۔[20]
اسلامی دعوت کی خصوصیت بھی یہی رہی ہے کہ وہ مشکل حالات میں زیادہ تیزی سے پھیلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت کے لیے بھی ایسے زمانوں کا انتخاب کیا ہے جو افراتفری اور کنفیوژن کے زمانے تھے اور انسانیت خود ایک نئے راستے کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ بعد کے زمانوں میں بھی، اسلام کی دعوتی تاریخ کی ایک بڑی اہم خصوصیت اس موضوع پر لکھنے والے ممتاز مورخ پروفیسر آرنلڈ(T.W.Arnold 1864-1930) اس طرح بیان کرتے ہیں:
‘‘(اسلام کی دعوتی تاریخ کے مطالعے سے) ہمیں بالیقین یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے اپنی عظیم ترین اور سب سے زیادہ دیرپا دعوتی فتوحات، اُن زمانوں اور مقامات میں حاصل کی ہے جن میں اس کی سیاسی قوت کم زور ترین تھی۔۔۔سیاسی زوال کی انتہا کے زمانوں ہی میں اسلام نے اپنی شاندار ترین روحانی فتوحات حاصل کی ہیں۔’’[21]
ان احوال کےعلاوہ بھی عالمی اور ملکی احوال کے کئی پہلو ہیں جوہمارے زمانے میں اسلام کی کشش میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان احوال و ظروف کا تفصیلی تجزیہ اس مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ اس موضوع پر اپنے تجزیے ہم متعدد مضامین میں پیش کرچکے ہیں۔[22]
اس طرح نظریاتی قوت کا دوسرا عنصر یعنی زمان و مکان کے احوال کا نظریے کی قبولیت کے لیے ساز گار ہونا ، یہ بھی اہل اسلام کو اس وقت بھرپور طور پر میسر ہے۔ اس کے باوجود مسلمان اگر اسلام کی نظریاتی قوت سے پوری طرح مستفید نہیں ہوپارہے ہیں تو اس کی اصل وجہ ہمارے خیال میں تیسرے عنصر کی کمی ہے۔ یعنی اسلامی نظریے کو پیش کرنے اور اس پر دنیا کو قائل کرنے کے لیے نظریاتی گروہ یعنی اہل اسلام کو جن خصوصیات اور صلاحیتوں سے متصف ہونے کی ضرورت ہے، ان میں مسلمان پیچھے ہیں۔
نظریاتی قوت اور مسلمان
نظریاتی قوت کے کارگر ہونے کے لیے نظریاتی گروہ میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ عام طور پر تین خصوصیات ، انگریزی حرف ‘C’سے شروع ہونے والے تین الفاظ (consistency, consensus, communication) میں بیان کی جاتی ہیں جس کے اردو متبادلات ‘الف ‘سے شروع ہونے والے تین الفاظ ‘استقلال’، ‘اتفاق’، اور ‘ابلاغ ‘ہیں۔ ان خصوصیات پر اس سے قبل بھی ہم لکھ چکے ہیں۔[23] یہاں موضوع کی مناسبت سے پھر ایک دفعہ ہم ان خصوصیات کی وضاحت کریں گے۔
استقلال
اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریاتی گروہ پوری مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے نظریے کی وکالت اور اس کی ترسیل و نفاذ کے لیے کھڑا ہو۔سخت سے سخت مخالفت کے ماحول میں، اور شدید مایوس کن حالات میں بھی نہ اس کے پیر ڈگمگائیں اور نہ اس کی دل چسیاں بدلیں۔ ہرصورت میں فکر و نظریہ اس کی سب سے بڑی دل چسپی اور اس کی جہد و کاوش کا اصل محور و مرکز بنا رہے۔ یہ استقلال مضبوط ایمان کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔مضبوط ایمان کے نتیجے میں اہل ایمان اپنے فکر و نظریے کے سلسلے میں ثبات و پائیداری (stability)کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ یثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَفِی الْآخِرَةِ وَیضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِینَ وَیفْعَلُ اللَّهُ مَا یشَاءُ (ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ سورہ ابراہیم 27 ) قرآن مجید نے استقلال کی اس صفت کے لیے مختلف تعبیرات استعمال کی ہیں۔ حنیفیت، قرآن کی ایک اہم اصطلاح ہے۔علامہ راغب الاصفہانیؒ نے اس کے معنی گم راہی کے مقابلے میں (حق پر) استقامت بیان کیے ہیں۔[24] اردو کے متعدد مترجمین نے اس کا ترجمہ یکسوئی کیا ہے وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ. حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَیرَ مُشْرِكِینَ بِهِ(جھوٹی باتوں سے بچو۔ یکسو ہوکر اللہ کے بندے بنو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔سورہ حج : 30-31)
ہرنظریےکو مزاحمت کے دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب نظریے کے حاملین اس مزاحمت کے مقابلے میں پائیداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اسی کے نتیجے میں نظریے کی سچائی نکھر کر سامنے آتی ہے۔ لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ نظریے کے علم بردار اپنے فکر کے معاملے میں سنجیدہ اور سیریس ہیں۔ اس سنجیدگی کو دیکھ کر ہی لوگ اس نظریے کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ نظریے کے قوت بننے کے یہ فطری مراحل ہیں۔ حالات کی سختی سے گھبرا کر جب نظریے کے علم بردار مداہنت کا شکار ہوجاتے ہیں یا نظریے کی اشاعت کے بجائے دوسرے کاموں میں دل چسپی لینے لگتے ہیں یا محض اپنی حفاظت و دفاع کے وقتی تقاضوں میں پوری طرح الجھ کر رہ جاتے ہیں تو وہ اپنے نظریے کو بے اثر کردیتے ہیں۔ اس وقت وہ مخاطبین میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ یہ کوئی گہرا اور سنجیدہ فکر نہیں ہے۔ اس طرح علم بردار گروہ کا عدم استقلال اور غیر سنجیدگی عظیم سے عظیم نظریے کو بھی قوت بننے نہیں دیتا۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان، اسی عدم استقلال کی وجہ سے، تاریخ کے ایک نہایت سازگار موڑ پر، اسلام جیسی عظیم نظریاتی قوت کے فیوض سے محروم ہیں۔ بے شک بحیثیت مجموعی مسلمان، اسلام سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ اسلامی اصولوں پر عمل کے معاملے میں بھی وہ بالعموم استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔لیکن اسلام سے ان کی یہ وابستگی صرف ملت کے اندر محدود ہوتی ہے۔ باقی معاشرے میں وہ اسلامی فکر کے داعی، علم بردار اور سفارت کار بن کر بہت کم سامنے آتے ہیں۔ بیرونی محاذ پر اسلام کے حوالے سے اور اسلام کے نام پر وہ کسی کشمکش کا حصہ بھی بنتے ہیں تو وہ محض اپنے ملی حقوق کے حوالے سے بنتے ہیں۔ پورے معاشرے اور ملک کے لیے ایک متبادل تصور حیات کے داعی بن کر ابھرنے کی وہ کوشش نہیں کرتے۔
ان کی یہ شناخت ابھی بھی نہیں بن پائی ہے کہ وہ ملک کے لیے ایک منفرد نظام فکر کے علم بردار ہیں۔ ایک نئے سولوشن کو تجویز کرنے والے اور اس تجویز کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی دل چسپی ایک نظریے اور ایک نظام فکر میں ہے۔ یہ شناخت تمام مسلمانوں کی تو کجا، مسلمانوں کے کسی بااثر گروہ کی بھی نہیں بن پائی ہے۔ یہ ہماری نظریاتی کم زوری کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اتفاق
یعنی نظریے کا علم بردار سماجی گروہ اپنے نظریے پر مکمل اتفاق رائے کا مظاہرہ کرے۔ جو لوگ اس کے علم بردار ہیں، ان کے درمیان اس کی اساسیات پر کم از کم مکمل اتفاق رائے ہو۔ اور وہ بیک زبان اس نظریے کی وکالت کے لیے آگے آئیں۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو جہاں بھی اتحاد و اتفاق کی تاکید کی گئی، اتفاق اور اتحاد کی بنیاد اسلامی عقیدےکو اور اس عقیدےکے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مشن اور نصب العین کو بنایا گیا ہے، کسی عارضی خطرےیا مشترک دنیوی مفاد کو بنیاد بناکر اتحاد کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اْس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اْس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔آل عمران 103)اس آیت میں اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید کو بنائے اتفاق قرا ردیا گیا ہے۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّینِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَینَا إِلَیكَ وَمَا وَصَّینَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَى وَعِیسَى أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ (اْس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اْس نے نوح کو دیا تھا، اور جسے (اے محمد) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم، اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اْس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔الشوریٰ :13)اس میں بھی دین اور اس کے قیام کو بنائے اتفاق قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی کم زوری ہے کہ ان کے یہاں طرح طرح کے اجتماعی مقاصد ہیں۔مسلمانوں کا دفاع و تحفظ، ان کی مادی ترقی و خوش حالی، وغیرہ محض ثانوی مقاصد اور ذرائع نہیں ہیں بلکہ اصل مقصد بن گئے ہیں۔ ان کے خواب مشترک نہیں رہے۔ دین سے وابستگی کے باوجود دین ان کی زندگی کا نصب العین اور ان کی سب سے بڑی اجتماعی آرزو نہیں بن سکا۔ جب تک نظریہ ایک قابل لحاظ گروہ کا متفقہ خواب نہیں بن جاتا وہ قوت نہیں بنتا ہے۔
ابلاغ
اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا نرم یعنی سافٹ پہلو ہے جسے ہم استدلال کہہ سکتے ہیں۔ یعنی نظریے کو قابل فہم، قائل کرنے والے اور متاثر کن الفاظ اور پیرایوں میں سامنے لایا جائے۔ اسے معاصر مسائل اور جاری مباحث سے جوڑا جائے۔مخاطب سماج کے ذہن کو سامنے رکھ کر استدلال کی عمارت کھڑی کی جائے۔ نظریے کو ایک بااثر نریٹیو (narrative) کی شکل دی جائے۔ اس کی بنیادوں پر ایک طاقتور ڈسکورس تشکیل دیا جائے۔
ان تمام پہلوؤں سے خاص طور پر ہندوستانی مسلمان آج بھی بہت پیچھے ہیں۔ہندوستان کے سماج کو اور یہاں کے اجتماعی ذہن کو دعوتی نقطہ نظر سے سمجھنے کی بہت کم کوشش ہوسکی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ملک کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا سنجیدہ حل پیش کرنے کی کوششیں بھی بہت کم ہوسکی ہیں۔ ہمارا دعوتی بیانیہ آج بھی زیادہ تر یا تو محض انھی روایتی بیانیوں تک محدود ہے جو ہم مسلمانوں کے درمیان زیر گفتگو لاتے رہے ہیں یا پھر ان بیانیوں پر مشتمل ہے جو نو آبادیاتی دور میں جدیدیت کے مقابلے کے لیے ہمارے عہد ساز مفکرین نے تشکیل دیا تھا۔[25] ان دونوں کی اہمیت آج بھی ہے۔ لیکن ان کے علاوہ بدلتے ہوئے ہندوستانی ذہن کو سمجھنا اور اس کو مخاطب بنانا بھی ضروری ہے۔ جس کی بہت کم کوشش ہوسکی ہے۔
قرآن مجید نے اپنی دعوت کو ٹھوس دلائل کی بنیادوں پر پیش کیا ہے۔ مختلف مخاطبین کی رعایت کرتے ہوئے طرح طرح کے دلائل دیے ہیں۔ کہیں آفاق و انفس کی نشانیوں کو دلیل بنایا ہے تو کہیں تاریخ اور تاریخی آثار سے استدلال کیا ہے۔ مخاطب قریش مکہ ہوں تو ان کے لیے ان تاریخی آثار کو دلیل بنایا ہے جو ان کی گذرگاہوں میں ان کی نگاہوں کے سامنے بکھرے پڑے تھے اور جب اہل کتاب کو مخاطب کیا تو بنی اسرائیل اور انبیائے بنی اسرائیل کی تاریخ سے نیز ان کے مذہبی اساطیر سے خاص طور پر استدلال کیا ہے۔’ تصریف آیات ‘ یعنی ایک ہی مضمون کو مختلف پیرایوں میں اور مختلف دلیلوں سے واضح کرنےکو قرآن اپنے طرز بیان کی ایک اہم خصوصیت قرار دیتا ہے وَكَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآیاتِ وَلِیقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَینَهُ لِقَوْمٍ یعْلَمُونَ (اِس طرح ہم اپنی آیات کو بار بار مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہیں تم کسی سے پڑھ آئے ہو، اور جو لوگ علم رکھتے ہیں ان پر ہم حقیقت کو روشن کر دیں۔الانعام 105)
قرآن کہتا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِیبَینَ لَهُمْ (ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ سورہ ابراہیم :4) لسان قوم سے اصل مراد زبان یعنی عربی، عبرانی، فارسی وغیرہ ہے۔ لیکن زبان کے مفہوم میں اصطلاحات، الفاظ، اساطیر، تمثیلات، اسلوب وغیرہ بھی داخل ہے۔ قرآن مجید نے ان معاملات میں بھی مخاطب قوم میں رائج ‘زبان ‘ ہی استعمال کی ہے۔ چناں چہ مفسرین کے نزدیک قرآن کی زبان کو سمجھنے کا ایک اہم مصدر جاہلی ادب ہے۔[26]
آج جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان اس ملک کی زبانوں میں اظہار خیال پر قدرت پیدا کریں وہیں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زمانے کے طرز استدلال اور طرز پیش کش کا بھی گہرا شعور پیدا کریں۔ ہمارے زمانے میں ایک زبان علمی و اکیڈمک زبان ہے۔اکیڈمک بیانیوں میں بھی سائنسی بیانیہ الگ ہے اور سماجی علوم کا الگ ہے۔ ہر ایک کا مخصوص طرز استدلال ہے۔ اس کی اپنی اصطلاحات اور اپنا اسلوب ہے۔ پھر ایک زبان ادب اور لٹریچر کی زبان ہے۔ ایک زبان میڈیا اور صحافت کی زبان ہے۔ایک عوامی تقریروں اور سیاسی بیانیوں کی اور نعروں اور جذباتی اپیل (rhetoric)کی زبان ہے۔ ان سب حوالوں سے لسان قوم کا گہرا شعوراور اس کو استعمال کرنے پر قدرت ابلاغ کی ایک اہم ضرورت ہے اور اس لیے نظریاتی قوت کا اہم تقاضاہے۔
معاصر ابلاغیات میں علمی و منطقی طرز بیان (rational world paradigm)اور روایت مرکوز طرز بیان (narrative paradigm)میں فرق کیا جاتا ہے۔[27] اول الذکر طرز بیان میں واقعات، مشاہدات، اعداد و شمار وغیرہ سے استقرائی اور استخراجی منطق (inductive and deductive logic)کے مسلمہ طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں اور عقل کو اپیل کرتے ہوئے مخاطب کو اپنی بات کا قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہےجب کہ دوسرے طریقے میں واقعات و حوادث کی مخصوص منصوبہ بند پیش کش کے ذریعے جذبات کو اپیل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے مطلوب ذہن کی تشکیل کی کوشش کی جاتی ہے۔قرآن مجید میں ان دونوں طریقوں کی طرف رہ نمائی کی گئی ہےادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ(اپنےربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سےمباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔) الْمَوْعِظَة الْحَسَنَةکی تشریح میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
‘‘مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گم راہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں ان کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلًا ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔’’
معاصر نریٹیو پیراڈائم میں یہی کیا جاتا ہے۔
ہمارے زمانے میں مباحثے کو رخ دینے کا فن ایک بہت اعلیٰ درجے کا فن بن چکا ہے۔یہ زمانہ پرفریب بیانیوں اور شاطرانہ تکنیکوں سے ذہن سازی کا زمانہ ہے۔کس طرح مطلوب موضوعات (issues)کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جاتا ہے؟کس طرح افکار و خیالات کا ایک مخصوص قابل قبول دائرہ (acceptable spectrum)تشکیل دے کر خیالات اور مباحث کو اسی دائرے میں محدود رکھا جاتا ہے؟ کس طرح واقعات و حوادث کی مخصوص طرز پیش کش کے ذریعے ذہن کو خاص رخ دیا جاتا ہے؟ یہ سب طریقے اب باقاعدہ فن چکے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارا نظریاتی مقابلہ جاہلیت کے اصل فکری مشمولات سے کم اور پروپیگنڈے کے فریبی ہتھکنڈوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے ان تمام حوالوں سے منصوبہ بند تیاری اور ٹھوس کاوشوں کے بغیر لوگوں کے افکار کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن و سنت کی اصولی رہ نمائی اور ابلاغیات کے مروج طریقوں اور علوم کی روشنی میں ابلاغ و استدلال کے سائنٹفک عصری طریقے کی تشکیل ہماری ایک اہم دعوتی ضرورت ہے۔ اس کی تفصیلات کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ کسی وقت اس موضوع کو ہم تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔ اس وقت صرف یہ وضاحت مقصود ہے کہ اسلام کی نظریاتی قوت کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے میں اصل کم زوری، اہل اسلام کی جانب سے ہے۔ اگر ہم صرف اپنی وقتی اور مدافعتی ضرورتوں سے اوپر اٹھ کر ان مسائل کی اہمیت کو محسوس کریں اور اس طرح کے کام جس علمی، تحقیقی، اکیڈمک اور پروفیشنل بیک اپ کا تقاضا کرتے ہیں، اس کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوں تو اسلام کی نظریاتی قوت ہماری سب سے بڑی سماجی قوت بن سکتی ہے۔
ابلاغ کا دوسرا پہلو ذرائع ابلاغ ہے۔ اس سلسلے میں ہم اپنے ایک سابقہ مضمون کا اقتباس پیش کرنا چاہیں گے:
‘‘کسی معاشرے میں جب میڈیا کا اثر بڑھ جاتا ہے تو واقعات اور احوال اپنے حقیقی تناظر (real perspective)سے محروم ہوجاتے ہیں۔شعور کی حرکت اور فہم و ادراک کی تشکیل کا عمل فرد کی اپنی خودی و لاشعور کے بجائے، ایک بیرونی مصنوعی تناظر کے تابع ہوجاتا ہے۔احوال و واقعات سے وہ وہی مطلب اخذ کرتا ہے جو میڈیا کرانا چاہتا ہے۔ اس طرح بظاہر مکمل آزادی ضمیر کے باوجود، اس کا ضمیر ایک بیرونی قوت کے تابع ہوجاتا ہے۔اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ(اے اللہ ہم کو سچ بات کو سچ دکھا اور اس کے اتباع کی توفیق عطا کر اور جھوٹ کو جھوٹ دکھاا ور اس سے اجتناب کی توفیق عطا کر) اس دعا میں جس عظیم نعمت کی خواہش کی گئی ہے، ایک میڈیا گزیدہ معاشرہ، اس سے محروم ہونے لگتا ہے۔
انسانوں کی معلومات، اُن کی رائے اور ان کے ضمیر پر یہ غیر معمولی کنٹرول، جدید تہذیب کی لعنتوں میں سے ایک ہے۔ حریتِ فکر اور آزادی ضمیر، انسانی عز و شرف کی اہم ترین بنیادوں میں سے ہے۔ تہذیب جدید نے ان پر کئی طرح کے پہرے بٹھا رکھے ہیں اور ان پہروں کا سب سے اہم اور کارگر واسطہ میڈیا ہی ہے۔ جو کام پرانے زمانوں میں، ظالم حکم رانوں کے استبدادی پنجے بھی پوری طرح نہیں کرسکے،دور جدید کی ٹکنالوجی اور ٹکنالوجی کے ذریعے چلنے والے میڈیا نے آسانی سے کردکھا یا ہے اور انسانوں کو بظاہر بھر پور آزادی دے کرکیا ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ میڈیا کی یلغار اور اُس کا کنٹرول سسٹم صرف وقتی سیاسی مسائل تک محدود ہے۔ اگرچہ وقتی سیاسی اور معاشی مفادات، اس کنٹرول سسٹم کے اہم محرکات میں شامل ہیں لیکن اس کی گہری نظریاتی اور تہذیبی بنیادیں بھی ہیں۔میڈیا کی پوری اسکیم میں نہایت خاموش اور غیر محسوس طریقے سے مغربی قدروں اور فلسفہ حیات کی ترویج کا سامان موجود ہے۔۔ اب میڈیا کا اثر صرف اس بات تک محدود نہیں ہے کہ صحیح باتیں معلوم نہیں ہورہی ہیں، یا کچھ قدریں پامال ہورہی ہیں یا کسی معاملہ میں رائے عامہ غلط رخ پر تشکیل پارہی ہے، بلکہ یہ پستی کی طرف لے جانے والے ایک مکمل تہذیبی انقلاب کی راہ ہم وار کررہا ہے۔ صرف سوچ نہیں بدل رہا ہے بلکہ سوچنے اور دیکھنے کا زاویہ اور ذہن کا سانچہ بدل رہا ہے۔ فرد اور سماج کی نفسیات اور لاشعور کو متاثر کررہا ہے۔اس طرح میڈیا، صرف رائے عامہ پر نہیں بلکہ رائے عامہ کے پیراڈائم پر اثر انداز ہورہا ہے۔’’[28]
میڈیا پر ہمارے یہاں جب بھی بحث ہوتی ہے، اپنے اخبار، اپنے رسالے اور اپنے چینل پر آکر بحث ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اوپر کے مباحث ہمارے اس خیال کی تائید میں ٹھوس شواہد کا کام کرتے ہیں کہ ہماری اصل ضرورت میڈیا ماہرین کی ہے۔ ایسے ‘رجال’ کی ہے جو میڈیا کے ڈائنامکس کو اس کی گہرائیوں کے ساتھ سمجھ سکتے ہوں۔ معاصر میڈیا ڈسکورس اور میڈیا نریٹیو کی تکنیکوں اور باریکیوں کا شعور رکھتے ہوں اور جدید جاہلیت کے پر فریب طریقوں کو سمجھتے ہوئے اسلامی فکر کے اقدامی اور دفاعی بیانیوں کی ڈیزائننگ کرسکتے ہوں۔ ایسے افراد موجود ہوں تو موجود وسائل سے بھی کافی کچھ کام ہوسکتا ہے اور دوسروں کے ہاتھوں میں موجود میڈیا پر بھی کافی کچھ اثرا نداز ہوا جاسکتا ہے اور ایسے افراد موجود نہ ہوں تو ‘ہمارا میڈیا’ چند سطحی معاملات میں ہمارے جذبات کی تسکین تو کرسکتا ہے لیکن زیادہ گہرے اور دیرپا امور میں وہ نہ صرف مروج نریٹیو کو چیلنج نہیں کرسکتا بلکہ بسا اوقات، غیر محسوس طریقے سے، اسی کی خدمت میں مصروف ہوجاتا ہے۔
حواشی و حوالہ جات
[1] اس موضوع پر اردو زبان میں ایک نہایت اہم کتاب مولانا علی میاں کی درج ذیل کتاب ہے:
سید ابوالحسن ندوی (1992) انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر؛ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام؛ لکھنو۔
[2] عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون (2006)مقدمة ابن خلدون (المحقق: عبد اللہ محمد الدرویش)؛ الجزء الاول؛ دار یعرب؛ دمشق؛ ص 261
[3] سید سعادت اللہ حسینی، ‘مقصد کا اشتراک اور امت کی ترقی،’ اشارات، ماہ نامہ زندگی نو، دہلی، فروری 2023۔
[4] مقدمة ابن خلدون ،ص 289
اصل عربی فقرہ اس طرح ہے۔ ‘‘أن العرب لا یحصل لهم الملك إلا بصبغة دینیة من نبوة أو ولایة أو أثر عظیم من الدین على الجملة ‘‘
[5] ایضاً ص 313
اصل عبارت اس طرح ہے: ان الدول العامۃ الاستیلاء، العظیمۃ الملک، اصلھا الدین، اما من نبوۃ او دعوۃ حق
[6] ایضاً ص 314
اصل عبارت یہ ہے: ان الدعوۃ الدینیۃ، تزید الدولۃ فی اصلھا قوۃ علی قوۃ العصبیۃ التی کانت لھا من عددھا۔۔۔
[7] Arnold J Toynbee (1948)A Study of History; Oxford University Press London; Vol 2 pages 299-477
[8] Michael Mann (2012) The Sources of Social Power Vol 1-4; Cambridge University Press; New York.
[9] Ibid volume 1 page xxv (Preface)
[10] Ibid volume 3 page 8
[11] Steven Lukes(1974) Power: A Radical View;Macmillan Press; London p. 24
[12] Ibid (See the full book for complete theory of three dimensions of power)
[13] Joseph Nye (2009) Soft Power: The Means To Success In World Politics; Public Affairs; New York, page 5
[14] صحیح مسلم؛ کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتی ظاهرین علی الحق لا یضرهم من خالفهم، رواہ معاویۃ بن ابی سفیانؓ؛ یہ روایت صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔
[15] الطبرانی فی الكبیر: حدیث/ 491، 22/ 108، والبیهقی فی شعب الإیمان: حدیث/ 201/، 2/ 352؛ صححہ الالبانی
[16] صحیح مسلم ؛ كتاب صلاة المسافرین وقصرها ؛ باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمه وفضل من تعلم حكمة من فقه أو غیره فعمل بها وعلمها؛ رواه عمر بن الخطابؓ
[17] سنن الترمذی؛ کتاب الفتن عن رسول اللہ؛ باب ما جاء فی الامر بالمعروف والنھی عن المنکر؛ حدیث ٢١٦٩ رواہ حذیفة بن الیمانؓ ۔۔حسنہ الالبانی
[18] مثلاً ملاحظہ ہو:
Yuval Noah Harari(2019) 21 Lessons for the 21st Century; Penguin Random House UK; London; pages 11-28
[19] Michael Mann (2012) vol 3 page 6
[20] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سید سعادت اللہ حسینی (2022)ہندتو انتہاپسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ص 7-8
[21] T.W.Arnold (1913) The Preaching of Islam; Constable and Company Ltd. London page 263
[22] مثلاً ملاحظہ ہو: سید سعادت اللہ حسینی (2020) اشارات؛ زندگی نو؛ نئی دہلی؛ اکتوبر 2020 ص ۵
[23] سید سعادت اللہ حسینی (2018) اقامت دین کی شاہراہ؛ ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی ص ۸۲
[24] الراغب الاصفهانی (2009)؛ المفردات فی غریب القرآن؛ مکتبة نزار مصطفی الباز; مكة المكرمة؛ ص 176
[25] اس موضوع پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: سید سعادت اللہ حسینی (2018)
[26] مثلاً ملاحظہ ہو: مولانا امین احسن اصلاحی (2009) تدبر قرآن (مقدمہ)؛ جلد اول؛ فاران فاونڈیشن؛ لاہور؛ ص14-17
[27] Walter Fisher(1987) Human Communication as Narration: Toward a Philosophy of Reason, Value, and Action;University of South Carolina Press.
[28] ملاحظہ ہو، سید سعادت اللہ حسینی، اشارات، زندگی نو؛ مارچ 2020 ص 9
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2023