﴿یہ خطبہ ۹مئی ۲۰۱۰ کو دھنباد میں ادارۂ ادب اسلامی ہند کے پہلے سمینار میں پیش کیاگیاتھا﴾
ریاست جھارکھنڈ کی تشکیل کو تقریباً دس سال ہوچکے ہیں اور بہار سے علاحدہ جماعت کاتنظیمی حلقہ بنے ہوئے بھی سات برس ہورہے ہیں۔ آج ہم لوگ پہلی دفعہ ادارہ ادب اسلامی کاایک اہم پروگرام کررہے ہیں۔ پہلی میقات میں ہمارے سامنے اصل مسئلہ تعلیم اور سیاست کے میدان میں مداخلت کاتھا۔ جھارکھنڈ میں پہلی حکومت NDAکی بنی تھی۔ اس وقت ملک میں تعلیم کے بھگوا کرن کی ایک فضا بنائی جارہی تھی۔ چنانچہ ہم لوگوں نے فی الفور اس بحث میں حصہ لینا ضروری سمجھا۔ دہلی سے جناب ایش پال جی اور دوسرے ماہرین تعلیم کے ساتھ NCERTکے تعاون سے ایک ورکشاپ رکھاگیا، جس میں مرکزِ جماعت اسلامی ہند سے سکریٹری تعلیم جناب محمد اشفاق احمد بھی شریک ہوئے تھے۔ کوشش کی گئی کہ مسابقتی دور کے اس نئے تناظر میں تعلیم اور اس کے مسائل کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہماری تعلیمی کوشش دھیرے دھیرے چنداداروں کی مانگ سیدھی کرنے کی حد تک محدود ہوگئی تھی اور معائنہ کے لیے کچھ دورے ہوجاتے تھے۔ پوری تعلیمی فضا اور اس کے مسائل پر غورو فکر اور بحث ومباحثے میں ہماری مداخلت نہیں کے برابر تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس سلسلے میں ہم لوگوں نے دو تعلیمی اور فلاحی ٹرسٹ قائم کیے۔
دوسرا مسئلہ ریاست کی سیاسی صورت حال کاتھا۔ آدی باسی کلچر اور سیاسی عزائم کی تکمیل کی بنیاد جھارکھنڈ کی تشکیل ہندوستانی سیاست میں ایک اہم فیصلہ تھا۔ایک طرف ہمارے سیاسی جمود نے سیاسی شعور کو جتنا کند کردیاتھا اور ہمیں اس سلسلے میں جتنا غیرحساس بنادیاتھا اس کے پیش نظر ضروری تھا کہ ہم سیاسی محاذ پر بلاتاخیر اللہ کے بھروسے پر اقدام کریں۔ چنانچہ UMFجھارکھنڈ کے ذریعے ہم نے متبادل سیاست کھڑی کرنے کی غرض سے ہر سطح پرکوششیں کیں۔ ضلعی کنونشن اور ایک بڑا ورک شاپ چترپور میں کیا، جس میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری اور قیم جماعت محمد جعفر صاحب شریک ہوئے تھے۔ اس ورکشاپ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں غیرمسلم دانشور اور سیاسی سرگرم کارکن بھی شریک ہوئے تھے۔ گزشتہ سال پوری ریاست میں کاروان امن ومحبت کے نام پر جمہوری سیاسی عمل کو مستحکم کرنے کے لیے تمام اضلاع کے دورے کیے گئے اور اس فرنٹ پر بھی عام انسانوں بالخصوص نوجوانوں کو بنیادی اہمیت دے کر سیاست میں آگے آنے کے لیے آزادی گئی تھی۔ اس علاقے میں حقوق انسانی اور دیگر عوامی مسائل پر کام کرنے والے حلقوں کابھی تعاون حاصل کیاگیا۔ ابھی ۲مئی کو اس کا دوسرا آل جھارکھنڈ کنونشن کیاگیاہے۔
تیسرا مسئلہ داخلی طورپر ہماری ذہنی ساخت وپرداخت (Mind set)کاتھا اور ہے۔ اپنے دامن کو بے داغ رکھنے کی فکر نے ہمیں سماج کی آگ اور پانی، کیچڑ اور بالو سے آہستہ آہستہ دور کردیاہے۔ ہمارا جذبہ صحیح تھا، خلوص میں کوئی کمی نہ تھی۔ اصل مسئلہ حکمت عملی کاتھا۔ ہوا یہ کہ ہم ایوان سیاست سے نہیں زندگی کے اصل ہنگامے، ہجوم، بازار، چوک، چوراہے، فٹ پاتھ اور چائے خانوں سے دور ہوگئے اور اپنے دفتر، دالان اور بالکونی تک محصور رہنے کی عادت ہوگئی۔ اس پہلو سے گزشتہ میقات اور اس میقات میں بھی کارکنوں کی تربیت ہمارا بڑا مسئلہ رہاہے۔ تنظیم اجتماعی آلہ ہے، فردکا زینہ نہیں ہے۔ ہم نے زندگی کی دھوپ میں اس کو چھتری کی طرح استعمال کیاہے اور ہم سائے کے عادی ہوگئے ہیں۔
ان حالات میں اس نئی ریاست میں تعلیم و سیاست کے ساتھ تربیت و تنظیم، میقات اول میں ہماری ترجیح رہی اور ہم ادب کے محاذ پر کچھ کرنے کی پوزیشن ہی میں نہ ہوسکے۔ ا س کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ بہار و جھارکھنڈ میں پہلے سے بھی باضابطہ ادبی حلقہ نہیں تھا اور نہ کوئی قابل ذکر اجتماعی ادبی کاوش ہی تحریک اسلامی کے حلقے میں ہورہی تھی کہ تقسیم بہار کے بعد خود بخود یہ سلسلہ جاری رہتا۔ مزید یہ کہ ادب اسلامی کے اس محدود حلقے میں جن ناموں کے ساغر اٹھائے جاتے تھے وہ بھی اپنی ذات میں آہستہ آہستہ سمٹے چلے گئے، پھر اپنی ذات کے سحر میں ایسے مبتلا ہوئے کہ کوئے یار سے بے خبر ہوگئے۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ سارا قصہ دوسروں کا ہے، اس میں ہم سبھوں کی کوتاہی کو بھی دخل ہے۔ البتہ ایک بات اور ہے جس کاذکر کرنا ضروری ہے کہ افراد کی قلت کی وجہ سے جو مفید مخلص افراد تولیہ ، جائے نماز، خان پوش، دسترخوان اور عمامہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں انھی میں سے کسی کو ادب کا پرچم بنانے میں تامل ہوتارہا، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جھارکھنڈ بننے کے بعد ادب کے محاذ پر آگے بڑھنے میں ہماری کچھ مجبوری بھی رہیں اور کچھ کوتاہیاں بھی۔
بہرحال آج جب کوئلا نچل کے قلب اس شہر دھنباد میں جہاں غیاث احمد گدی اور الیاس احمد گدی نے اپنی تخلیق کے جوہر دکھائے ہیں، ہم ادب اسلامی کے اس پروگرام سے بجاطور پر امید رکھتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں ادبی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیت کے حامل افراد ٓگے بڑھیںگے۔ کچھ ایسے باصلاحیت نوجوان بھی ہماری نظر میں ہیں، جن سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس قافلے میں شریک ہوکر ادب اسلامی کی قیادت کریںگے۔
اس موقع پر جب کہ ہم ادبی تحریک و تنظیم کا باضابطہ آغازریاستی سطح پر کررہے ہیں، چند باتیں ہم کہنا چاہتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہر میدان کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، ادب کامیدان دوسرے میدانوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ حسن کو ہر رنگ میں دیکھنے دکھانے کا میدان ہے۔ اس میدان میں ادبی تنظیم کا کردار بھی ذرا مختلف ہوتاہے۔ حسن بے پروا ضرور ہے لیکن بے نقابی اس کی فطرت ہے۔ ادبی تنظیم اس کی اس فطرت کی پرورش کرتی ہے۔ فن اظہار چاہتاہے، فن کو اظہار کا مناسب ماحول فراہم کرنا ادبی پلیٹ فارم کی ذمّے داری ہے۔ ہر فن کارباشعور قاری چاہتا ہے۔ فن کار کو باشعور قاری سے رابطے میں رکھنا، ادبی انجمن کے لیے ضروری ہے۔ فنکار پھل پر نہیں پھول پر نظر رکھتا ہے۔ کبھی کبھی ادبی انجمنیں پھل تولنے لگتی ہیں۔ پھول تولنے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہوتی ہے۔ حسن نگاہ سے تولا بھی جاسکتاہے۔ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب ہم پھول اور پھل کو تولنے بلکہ کبھی کبھی باغ ادب میں پتے گننے لگتے ہیں۔
افادی ادب کے علمبردار اداروںاور تنظیموں کے ساتھ اکثر یہ دھرم سنکٹ پیداہوجاتاہے، پھر سچا ادیب اور جنوئن فنکار دور ہونے لگتاہے۔ تنظیمی فارمولا بندی اور ضابطہ بندی فنکار کو بیڑی لگنے لگتی ہے۔ ادبی تنظیموں کو ادب وفنکار کی نازبرداری بھی کرنی پڑتی ہے۔ ادبی تنظیم شاخ گل کی طرح لچکدار ہوتی ہے۔ یہ اس کا حقیقی کردار ہے۔ لہٰذا ادبی تنظیم و تحریک چلانے والوں کو دلبری کی کسی خاص ادا پر حد سے زیادہ اصرار نہیں کرناچاہیے۔
دوسری بات ہمیں آج ادب کے میدان میں پھر تازہ کاری اور نئے سماجی سروکار کی ضرورت ہے۔ اِسی لیے ہم نے سمینار کاموضوع ’’ہمارا سماج اور آج کا ادب‘‘ رکھاہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب اسلامی ادب کی بحث رومانی ترقی پسندی اور جدیدیت کے پس منظر میں چل رہی تھی، اس وقت ہم سب لوگ حسن کے ایک نئے معیار کے متلاشی تھے، سب کا اپنا اپنا محبوب تھا اور کوچہ یار بھی جداتھا۔ لیکن آج ہم بالکل نئی صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ تخلیقی عمل پہلے بھی پیچیدہ عمل تھا اور آج بھی اس کا تعلق تخیل، احساس ، جذبات اور وجدان سے اسی طرح قائم ہے، جیسے پہلے تھا۔ عقل وجنون، عرفان الہام، شعور ولاشعور دونوں سے اس کا رشتہ اسی طرح پایاجاتا ہے جیسے پہلے تھا۔ آج پھر یہ بحث ہوسکتی ہے کہ تخلیقی عمل میں وماتشاؤن الآَّ أَنْ یَّشآئَ اللّٰہ کی کیا کارفرمائی ہے۔ تخلیقی عمل میں یہ دومدار مشیت الٰہی اور مشیت فنکار کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ وجدان اس تخلیقی عمل میں نورالٰہی سے کیسے اکتساب کرتا ہے۔ لیکن ان بحثوں سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آج پوری تخلیقی فضا بدل گئی ہے۔ دنیا بالکل ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ تمام معاشروں اور تقاضوں کو ایک نیا چیلنج درکار ہے اس لیے آج اصل مسئلہ کمپیوٹر گزیدہ انسان اور گلوبل سماج کا ہے۔ آج شعرو ادب کو انسان کے باطن اور سماجی سروکار دونوں سے ازسرنو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ آج حسن وعشق کا تصور بالکل بدل چکاہے۔ ایک سماج وہ تھا جب کبیر نے کہاتھا
پریم نہ باڑی اُپجے پریم نہ ہاٹ بکائے
راجا پرجا جوہی روئے سیس دیے لے جائے
لیکن آج پریم کھیرا ککڑی ، دال مسور کی طرح مصنوعی کھاد اور پانی کے ذریعے جہاں چاہے اپجایاجاسکتا ہے اور پریم جوتا ، ٹوتھ پیسٹ، منجن، صابن کی طرح بازاروں میں مول بکنے لگا ہے۔ اب اس کے لیے سر کی نہیں زر کی ضرورت ہے۔ مارکیٹ نے ساری حسین ادائوں کو خرید لیاہے۔ علم وفن ، دل وضمیر، عقل و شعور سب بازار کی چیزیں ہیں اور ہر چیز سرعام خریدی اور بیچی جارہی ہے۔ مارکیٹ کے طلسم نے سب کو اپنا اسیر بنالیاہے۔ اسی صورت حال کی عکاسی سلیم احمدنے اس طرح کی ہے
حسن جب سے ہوا ہے کم آزار
عشق بھی ہوگیا ہے دنیا دار
حسن کو بازارکی چیز بنادینے اور سرعام نیلام ہونے سے بچانا ادب کی ذمّے داری ہے اور اس طرح عشق کو دنیا داری سے نکال کر نئے آداب وفاداری سکھانا فنکار کا فریضہ ہے۔
مشہور افسانہ نگار انتظار حسین نے اپنے افسانہ ’شہرافسوس‘میں لکھاہے :
’اے کم نصیب تو شہر افسوس میں ہے اور ہم سیہ بخت یہاں موت کا انتظار کررہے ہیںیہاں جسے حق کہتے ہیں وہ بھی باطل ہے۔‘‘
میں کہتاہوں ہماری سیہ بختی اور زیادہ سیاہ ہوچکی ہے۔ آج ہم شہر افسوس میں نہیں شہر صدافسوس میں جی رہے ہیں اور موت کا نہیں قیامت کاانتظار کررہے ہیں۔ اس لیے اس سے آگے نیا افسانہ گھڑنے کی ضرورت ہے۔ آج کا انسان انتظار حسین کے زرد کتے سے بھونکنے کا ہنر سیکھ رہاہے۔ انسان کو اس سطح سے اٹھاکر حقیقی عزت و شرف کے مقام پر لانا ادیب پر لازم ہے:
توہینِ ذوق، مرگ تمنا، ضیاعِ حُسن
تھا کون سا عذاب جو دل نے نہیں سہا
آج انسانوں کی کمائی نے ہمیں مستقل فتنہ و فساد کی آگ میں مبتلاکردیاہے۔ یہ سفر اسی عہد کی ترجمانی کررہاہے اور ہم ہر دن ایک نئے عذاب کو جھیلتے ہیں۔ لہٰذا آج اسی عذاب سے انسان کو نجات دلانا ہماری، آپ کی اور ہمارے ادب کی ذمّے داری ہے۔ اسلامی ادب کو بھی اس نئی صورت حال میں فرد اور سماج دونوں سے ایک نئے ادبی مکالمے کاآغاز کرنا ہے۔ تب ہی ہم اپنی افادیت ، معنویت اور تحریکیت کا سچا ثبوت دے سکتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2010