کتاب اللہ قرآن پاک نے سربلندی کا رشتہ ایمان سے جوڑا ہے ۔ ایمان یعنی اِس وسیع وعریض کائنات اوراِس انسان جیسی اشرف مخلوق کے خالق ، مالک اور آقا اللہ پر یقین رکھنا۔ دیکھنا یہ ہے کہ قرآن نے انسانوں کی سربلندی کا رشتہ ایمان سے کیوں جوڑا ۔ یا بالفاظ دیگر ایمانِ لانے سے انسان کا مقام بلند کیسے ہوجاتا ہے؟
دو طرح کے لوگ:
انسانوںکا ایک حصہ یا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کے اندرعظیم درجہ کی انسانیت نظر آتی ہے جسے دیکھ کر کہا گیا ہے کہ اگر
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ایسے ہی انسان کے متعلق اللہ نے کہا ہے کہ :
’’ بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پرپیدا کیا ہے ‘‘۔ (سورۂ التین)
دوسرا طبقہ انسانوں کا وہ ہے جس پر انسانیت شرمسار ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیںجن کی حرکات بتاتی ہیںکہ وہ انسان نہیں حیوان ہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بد ترا ور جن کے مرنے یا مارے جانے کے بعد دنیا راحت کی سانس لیتی ہے۔
اگرہم ان دونوں قسموں کے انسانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ اول الذکر نےاپنے خالق، مالک اور آقا کوتسلیم کیا ہے اوراُسی خالق ، مالک اورآقا کے احکام کی ہیروی میں زندگی گز ارنے کی کوشش کی ہے ۔ برخلاف اس کےثانی الذکر طبقہ کے انسانوں نے اپنے خالق ، مالک اورآقا کویاتو تسلیم ہی نہیں کیا یا اگر تسلیم کیا بھی ہے تو وہ اپنی من مانی سےباز نہیں آئے اورجو جی میں آیاوہی کرتے رہے ۔
ان دونوںقسم کے لوگوں کے رویوں میں فرق قرآن نے بیان کیا ہے۔ایمان لانے والے انسانوں کی خصوصیات جاننے کے لئے سورۂ المومنون کی چند ابتدائی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔
’’یقیناً فلاح پائی ہےایمان لانےو الوں نے جواپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں ، لغویات سے دوررہتے ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اوران عورتوں کے جوان کے مِلک یمن میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جواُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنےعہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ (المومنون-آیات ۱تا۹)
ایمان لانے والوں کی جوصفات بیان کی گئی ہیں وہ دعوے کی دلیل ہیں کہ انہوںنے ایمان لا کر در حقیقت فلاح پائی ہے ۔
نماز اور زکوٰۃ
نماز میں خشوع اختیار کرنے والے مومن انسانوں کادل خشیتِ اِلٰہی سے پُر ہوتا ہے چنانچہ زندگی کے ہر موڑ پر انسان احکامِ اِلٰہی کی پیروی کرتا ہےاوراللہ کی ناراضگی سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اللہ اوراللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے او ر بھلائی کرنا اس کا مشن ہوتا ہے ۔ لغویات سے دو ررہنے کا مطلب یہ ہے کہ مومن فضول اورلایعنی باتوں سےبچتا ہے جن کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ ایمان لانے والے اُن تمام کاموں سے پرہیز کرتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہ ہواور ایسی جگہوں سےبھی دور رہتے ہیں جہاں لغو کام ہورہے ہوںاگر کہیں ان سے سابقہ پیش آہی جائے تو وہ کترا کر نکل جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ اچھے کام کے بارے میں سوچتے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں۔
زکوٰۃ کا تعلق مال اور نفس دونوں کے تزکیہ سے ہے۔ یہاںتزکیہ کے فعل پر عامل ہونے کی بات کہی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ صرف مالی ز کوٰۃ ادا کرنے تک محدود نہیں رہتے بلکہ تزکیۂ نفس ، تزکیۂ اخلاق، تزکیۂ زندگی، تزکیۂ مال ، غرض ہر پہلو کے تزکیے میں مصروف رہتے ہیں۔ تزکیہ کے نتیجے میں انسانی معاشرہ میں معاشی ، اخلاقی اورمعاشرتی نظام کا جونمونہ سامنے آتا ہے اس کی مثال کہیں دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔ کمزوروں ، بیماروں، یتیموں اوربے کسوں کے ساتھ ہمدردی اورغمگساری کا ایسا جذبہ کہیں اورنظر نہیں آتا ۔ ایسے معاشرے میںتمام انسانوں کو آگے بڑھنے اورپھلنے پھولنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور معاشرے کا ہرفرد ایک دوسرے کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
شرمگاہوں کی حفاظت ایک مشکل کام ہے ۔ جس معاشرے کے افرادجنسی خواہشات پرلگام نہ لگا سکے اور آزاد شہوت رانی کے شکار ہوگئے وہ معاشرہ انسانی معاشرہ نہیں رہ سکا ۔ اسی لیے ایمان لانے والوں کی ایک صفت یہ بھی بتائی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اورجنسی خواہشات پوری کرنے کے جو حدود شریعت نے متعین کیے ہیں ان حدود سے وہ باہر نہیں ہوتے۔
امانت
مومن کی ایک اہم صفت یہ بھی بتائی گئی کہ وہ امانتوں اور عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں ۔ ’امانت ‘ کا لفظ جامع ہے ۔ اُن تمام امانتوں کا احاطہ کرتا ہے جوخدا وند عالم نے ، یا معاشرے نے ، یاافراد نے کسی کے سپرد کی ہوں۔عہدوپیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں ، جوانسان اورخدا کے درمیان ، یا انسان اور انسان کے درمیان یا قوم اورقوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا اورکبھی اپنے قول وقرار سے نہ پھرے گا۔
انسانوں کے بارے میں زمانے کی قسم کھا کر یعنی زمانہ کوگوا ہ بنا کر سورۃ ’’العصر‘‘ میں کہا گیاہے کہ دیکھو تمام انسان خسارے میں، گھاٹے میں اورنقصان میں ہیں ما سوا ان کے جوایمان لائے، جنہوں نے عمل صالح کیا ، حق کی وصیت کی اورصبر کی تلقین کی۔
’’زمانے کی قسم، انسان در حقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے اورایک دوسرے کوحق کی نصیحت اورصبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔
نیک اعمال ، اور حق کی نصیحت اورصبر کی تلقین سے صالح معاشرہ وجود میںآتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی ۔ یہ وہ معاشرہ ہوتا ہے جس کے افراد اچھے کاموں میں لگے رہتے ہیں ، برے کاموں سے بچتے ہیں اوردوسروں کو بچاتے ہیں ۔ حق اور سچی باتوں پر خودبھی عمل کرتے ہیں اورحق بات دوسروں کو بتاتے بھی ہیںاور نیک کام اور حق پر چلنے میں جودشواریاں پیش آتی ہیں توان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں اوردوسروں کی بھی ہمت بڑھاتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے انسانوں پر مشتمل معاشرہ ایک مثالی معاشرہ کہلائے گا ۔ اس کے برعکس جس سماج میں اچھے اور نیک کاموں کا کوئی واضح تصور نہ ہو، اچھے اورنیک کاموں کا چلن نہ ہو اوربرائی پر کوئی ٹوکنے والا نہ ہو، وہ سماج ظاہر ہے کہ اول الذکر معاشرہ سے بالکل مختلف ہوگا بلکہ وہ سرے سے انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہی نہ ہوگا۔
طاغوت کا انکار
سورۃ البقرۃ میں کہا گیا :
’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جوکوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا ، جوکبھی ٹوٹنے والا نہیں اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے۔ جولوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مدد گار اللہ ہے اوروہ ان کوتاریکیوں سے نکال کرروشنی میں لے آتا ہے اور جولوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، ان کے حامی ومدد گار طاغوت ہیں اوروہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے ‘‘۔ (البقرۃ آیات ۲۵۶ اور ۲۵۷)
یہاں تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاںہیں، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح وسعادت کی راہ سے دور نکل کر جاتا ہے اورحقیقت کے خلاف چل کر اپنی قوتوں اورکوششوں کوغلط راستوں میں صرف کرنے لگتا ہے ۔نور سے مراد علم حق ہے ، جس کی روشنی میںانسان اپنی اورکائنات کی حقیقت کو پہنچانتا ہے اور علیٰ وجہہ البصیرت صحیح راہِ عمل پر گامزن ہوتا ہے:
مندرجہ بالا آیات میں ایمان اورکفر کے تعلق سے اللہ کے بالمقابل طاغوت کا ذکر ہوا ہے ۔ بہترہے کہ طاغوت کی حقیقت بھی سمجھ لی جائے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن میں اس کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’’طاغوت یہاں طواغیت کے معنیٰ میں استعمال کیاگیا ہے ، یعنی خدا سے منھ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا بلکہ بہت سے طواغیت اس پرمسلط ہوجاتےہیں ۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جواس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے ، جواسے جذبات وخواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے اوربے شمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بیوی، بچے، اعزاء واقربا، برادری اور خاندان، دوست اورآشنا، سوسائٹی اورقوم، پیشوا اوررہنما، حکومت اورحکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقاؤں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کوخوش کرے اور کس کی ناراضگی سے بچے‘‘۔
اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا طاغوت کا انکار ہے ۔ یعنی کوئی شخص صحیح معنیٰ میںا للہ کا مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہ طاغوت کا منکر نہ ہوجائے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ پرایمان رکھنے والے افراد سے جومعاشرہ وجود میں آتا ہے وہ طاغوت کے غلاموں پرمشتمل معاشرہ سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ایک معاشرہ علم ویقین کے نور سے منور ہوتا ہے جبکہ دوسرا معاشرہ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ پہلےمعاشرے کا حامی ومددگار قادرِ مطلق اللہ ہوتا ہے جبکہ دوسرے معاشرے کی سربراہی اللہ کے باغیوں اورسرکشوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
خیر امت
انسان کی سربلندی کے لیے شرطِ لازم ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے۔ قرآن میں کہا گیا ہے ۔
’’تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اوراللہ کا رسول اوروہ اہل ایمان ہیں، جونماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اوراللہ کے آگے جھکنے والے ہیں اور جواللہ اوراس کے رسول اور اہل ایمان کواپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ‘‘۔(المائدہ: ۵۵۔ ۵۶)
اللہ پر ایمان کے نتیجے میں اہلِ قرآن کے اندر اخلاقی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیںجن سے کام لے کر وہ ترقی کی منزلیں طے کرتےہیں۔ اہلِ ایمان کی اُمت کو قرآن نے ’’خیرامت‘‘ سے ملقب کیا ہے ۔ سورہ آل عمران میں کہا گیا :
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اوربدی سے روکتے ہو اوراللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آیت:۱۱۰)
’’خیرامت‘‘ کے لیے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی لازمی ہے۔ یہ ایمان کا تقاضہ ہے ۔اس تقاضہ کو پورا کرنا ایمان کی علامت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب اہلِ ایمان نے ایمان کے تقاضوں کوپورا کیا قوموں کی امامت ان کے حصے میں آئی اوروہی سربلند اورغالب ہوئے ۔
مومن بندوں کو اللہ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے ۔ایمان والوںکا تعلق اللہ کی پارٹی ’’حزب اللہ‘‘ سے ہے اوروہ اللہ کے مددگار یعنی انصار اللہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کواللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ اپنے پر ایمان لانے والے بندہ کو آزماتا ہے اورجواس کی آزمائش میںکامیاب اترتا ہے اس پر اللہ کی رحمت اورسلامتی نازل ہوتی ہے اوروہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتاہے۔
تمام اہلِ ایمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ مومن انصاف کے علمبردار ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جونعمتیں انہیں دے رکھی ہیںان پر اللہ کا شکر بجالاتے ہیں ۔ وہ اللہ کویاد کرتے ہیں اس لیے اللہ بھی انہیں یاد رکھتا ہے ۔ اللہ کی یاد مومن کی کامیابی کی ضامن ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018