رپورٹوں اورمفکرین کے تشویشناک اقتباسات سے بآسانی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغربی معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ، وہاں کے تمام طبقات مختلف قسم کے جرائم کے عادی بھی ہیں اوربُری طرح متاثر بھی ،یہاں خواتین کے اغوا اورخریدو فروخت کے علاوہ شیر خوار بچوں کا اغوا اوراس کے قیمتی اعضاء کی خریدوفروخت عام ہے ۔ مغربی معاشرہ ایسے مختلف قسم کے گھناؤنے جرائم میں مبتلا ہے جو انسانوں کی بنیادی حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ امریکی خفیہ الطوائف بی آئی کے سپر وائزر انچارج ’’باب جورڈن‘‘ کے مطابق ہرسال امریکی اور میکسیکی ایجنٹس کوبے شمار بچوں کے اغوا کی رپورٹ موصول ہوتی ہے ۔ میکسیکن سینٹر مور چلڈرن رائٹس کے ایک ترجمان ’’ولفریڈ گوزمین‘‘ نے پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ اندرون اور بیرون ممالک سے اغوا کئے ہوئے بچوں کے اعضا ء امریکہ میکسیکو سرحد پر قائم خفیہ کلنکوں میں نکال لئے جاتے ہیں اورپھر یہ اعضاء دولت مند امریکی بچوں کے جسموں میں بھاری رقم کے عوض لگادیئے جاتے ہیں ۔ میکسیکو کے ایک معتبر ہفت روزہ اخبار “Prossesive”نے بچوں کی اسمگلنگ کے بارے میں حقائق کا تجزیہ اورمکمل تحقیقی وتفتیش کے بعد یہ رپورٹ شائع کی کہ بچوں کے اعضاء کی اسمگلنگ کیلئے انہیں کثیر تعداد میں اغوا کیا جاتا ہے ۔اسی رپورٹ میں میکسیکی اور امریکی سرحد پر ایسے سترہ کلنکوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں اغوا شدہ بچوں کے اعضاء نکالے جاتے ہیں ۔‘‘ (بحوالہ : سہ روزہ دعوت، ۱۷؍ اپریل ۲۰۰۵ء
بعنوان : مہذب دنیا میں شیر خوار بچوں کی خریدوفروخت )
خاندان کے تصور کا خاتمہ
مغربی نظریات وافکار نے معاشرہ پر جہاں بہت سے خوفناک اثرات مرتب کئے وہیں ادارہ خاندان کوتباہ وبرباد کرنے میں زبردست کردار انجام دیا ، مغربی معاشرہ میں خاندان کا تصور تقریباً ختم ہوچکا ہے، جبکہ دنیا کاہرذی ہوش انسان یہ تسلیم کرتا ہے اور یہی حقیقت بھی ہے کہ معاشرہ کی اہم بنیاد خاندان ہے ۔ خاندان کے تصور کے بغیر معاشرہ کا وجود ممکن نہیں ، ایک مشہور مغربی سوسیالجسٹ “I.N. Rodortson”معاشرہ کی بنیادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’کوئی بھی معاشرہ پانچ بنیادوں پر ہی وجود میں آسکتا ہے ، خاندان ، نظام تعلیم، مذہب ، ملک کا اقتصادی نظام اورملک کا سیاسی نظام ‘‘ (سوشیالوجی کی بنیادی اساس ، ص : ۲۰)
مغربی معاشرہ تعلیم، دولت اورمستحکم حکومتوں کے باوجود کلچر وثقافت اورتہذیب کے باب میں ہمہ نوع خرابیوں کا شکار ہوکر لا تعداد قباحتوں اور ان گنت جرائم میں مبتلا ہوچکا ہے ، وہاں کے تمام طبقات حقیقی سکون سے یکسرمحروم ہورہے ہیں ، اس صورتحال کا سب سے بڑا سبب مغرب کی پیچیدہ اورغیر مستحکم نظریات حیات ہیں ، جن کی وجہ سے مغربی سماج کے اکثر طبقات میں خاندانی نظام کوغیر ضروری قید وبندتصور کیا جانے لگا، اورمنظم تحریکوں کے ذریعے خاندانی نظام کی شدید مخالفت کی گئی ، جس کا نتیجہ یہ ہواکہ آج مغربی معاشرہ اورمغرب زدہ معاشروں میں ادارہ خاندان پوری طرح شکست وریخت کا شکار ہے ۔BBCکی ۲۰ ہزار افراد سے گفتگو کے بعد شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق مغربی سماج میںصرف ایک چوتھائی گھرانے ایسے ہیں جہاں روایتی کنبے رہتے ہیں ، باقی دو تہائی بغیر شادی کے اکٹھے رہتے ہیں، یا تنہا زندگی گزارتے ہیں ۔ (بحوالہ : ڈاکٹرعبدالغنی فاروق، یہ ہے مغربی تہذیب ، طبع: میٹرو پرنٹر لاہور ، بیت الحکمۃ لاہور،۲۰۰۷، ص :۹)
رشتۂ ازدواجیت
خاندان کی اہم بنیاد رشتۂ ازدواجیت ہے، صنعتی انقلاب کے بعد بے محابہ کثرت اختلاط ، عریانیت ، بے حیائی اور معاشی استقلال کے ساتھ مغربی معاشرہ میں انفرادیت خوفناک حد تک سرایت کرچکی ہے، جس کی وجہ سے وہاں رشتۂ ازدواجیت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے ، برطانیہ کی نیشنل وومینز کونسل کی ایک خاتون رکن کہتی ہے :۔
’’مغربی معاشرہ میں یہ خیال مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ شادی کرکے شوہر کی خدمت کے جھمیلے میں کیوں پڑ ا جائے ، بس پر لطف زندگی کوتعیش کے ساتھ گزارا جائے ، بہت سی خواتین اب یہ فیصلہ کرچکی ہیں کہ ان کی بقا کیلئے مردوں کے سہارے کی قطعاً بھی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ (بحوالہ ہفت روزہ تکبیر ۴؍ستمبر ۱۹۹۷)
لیوان ریلیشن شب کا فروغ
مغربی معاشرہ جہاں ایک طرف رشتۂ ازدواجیت کوقید وبند اورشوہر کی طرف سے ذلت سمجھ کر ختم کررہا ہے وہیں Live in Relationکو تیزی کے ساتھ بڑھاوا دے رہا ہے ، بلکہ مغربی معاشرہ میں Live in Relation shipاور ہم جنس پرستی کورشتہ ازدواجیت کی جگہ اختیار کرلیا گیا ہے ۔ امریکہ “Health Development Agency”نے ۲۰۰۳ء میںTeenage Pregnancy and Parenthoodکے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہاگیا کہ :
’’امریکہ اوربرطانیہ میں ۱۵سالہ لڑکیوں کی ۲۵ فیصد تعداد رشتۂ ازدواجیت کے بغیر حاملہ ہوجاتی ہیں ، جب کہ ۱۷سالہ لڑکیوںکا تناسب ۵۰ فیصد ہے ،اور ۲۰ سالہ لڑکیوںکا تناسب ۸۰ فیصد ہے ، تفصیل کیلئے دیکھئے: www.hda-online org.uk
مغربی تحقیقی ادارہ کے مطابق یہ تعداد اس صور ت میں ہے جبکہ یہاں مانع حمل کی گولیاں بڑی تعداد میں استعمال کی جاتی ہیں ، امریکہ میں سالانہ ۱۰ لاکھ بالغ لڑکیاں حاملہ ہوکر ادویات استعمال کرتی ہیں، یہ تعداد کل کے مقابلہ میں ۴۰ فیصد ہے ۔
www.womenshealthchanal.com/teen pragnancy
ایک اورسروے کے مطابق برطانیہ میں شادی کے باہر حاملہ ہونے والی لڑکیوں کی تعداد سالانہ ۲۹ ہزار ہے ، ان میں ۸ ہزار ایسی لڑکیاں ہیں جن کی عمر یں۱۶ سال سے کم ہیں ۔ اسکاٹ لینڈ اور ویلز کو بھی شامل کرلیاجائے تویہ تعداد سالانہ ۶۰ ہزار سے تجاوز کرجائیںگی ، اورشمالی آئر لینڈ میں سالانہ ۹۶ ہزار لڑکیاں بغیر شادی کے ماں بن جاتی ہیں ۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجئے:۔
US Today. June.3,2003, study Links: Depression suiciderates to teen sex.
ایک اورجدید تحقیق رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سالانہ ۳؍ لاکھ ستر ہزار عورتیں اسقاطِ حمل کرواتی ہیں ، جن میں ۶۷ فیصد عورتیں غیر شادی شدہ ہوتی ہیں ، برطانیہ اور ویلز میں ۱؍لاکھ ۹۱ ہزار خواتین اسقاطِ حمل کرواتی ہیں ، ان میں ۷۵ فیصد غیر شادی شدہ ہوتی ہیں:۔
www.care org.uk, Abortion statistice Fact sheet 2005.
www.agi-us.org,Abortion statistics, England & weels, Department of health publication & stuatistics 2003,
فرانس کی صورتحال بھی اسی طرح کی ہے ۔ نیشنل فرنچ انسٹی ٹیوٹ فارڈیموگرافک ریسرچز نے فرانس کے مختلف اسکولس کالجز یونیورسٹیز اور عوامی اداروں سے متعلق ایک سروے رپورٹ شائع کی ، جس میں انکشاف کیا گیا کہ یہاں پر دس جوڑوں میں نو جوڑے دینی یا عرفی نکاح کے بغیر زندگی گزارتے ہیں ، اور آدھے سے زیادہ بغیر کسی قانونی ضابطے کے ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ اب صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ۵۳ فیصد ولادتیں ایسے ہی جوڑوں کے یہاں ہوتی ہیں۔اورحیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً دس ہزار بچیاں دس سے تیرہ سال کی عمر میں ہی ماں بن جاتی ہیں۔ (المجتمع ، کویت، ۲۳۰؍صفر ۱۴۲۱ھ )
اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ فرنچ انتظامیہ نے بڑی کوشش کے باوجود کم عمر ماؤں کی تعداد دس ہزار پر محدود کررکھی ہے ، جس کے لئے انتظامیہ کوداد وتحسین سے نوازا گیا ، انتظامیہ نے کم عمر ماؤں کی تعداد پر کنٹرول رکھنے کے لئے اسکولوں میں مانع حمل ادویات کے خصوصی میڈیکل اسٹورس کھول رکھےہیںاور ماہر نرسوں اورڈاکٹروں کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔ (حوالہ سابق)
طلاق کی کثرت
انفرادیت اور مرد وعورت کے درمیان تعلقات کومحض جنسی نقطہ نظر سے اختیار کرنے کے نتیجے میں نکاح کی اہمیت وضرورت کو تیزی سے ختم کیا جارہا ہے ، اور مغربی معاشرہ میں نوجوان نسل کی اکثریت نکاح جیسے دائمی تعلق کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگی ہے۔
اوپر کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مغربی سماج میں ازدواجی تعلق کی کوئی وقعت باقی نہیں رہ گئی ہے ، وہاں زیادہ تر لوگ آزادانہ طریقے سے ہی جنسی ضرورتوں کی تکمیل کو ترجیح دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہاں نکاح کی تعداد میں کمی کے باوجود طلاق کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جنسی آزادی ، انفرادیت اوردوسروں کو اپنی زندگی میں شریک نہ کرنے کے رجحانات کی وجہ سے معاشرہ میں مختلف سماجی خرابیوں کے ساتھ ساتھ طلاق کا سیلاب عظیم امڈ پڑا ہے ۔The Statement yearlook 1991-1993کے ایک سروے کے مطابق 1990ء میں امریکہ میں ۲۱لاکھ باسٹھ ہزار (2162000) شادیاں ہوئیں جبکہ ۱۱ لاکھ ستر ہزار(1170000) طلاقیں ہوئیں۔ڈنمارک میں ۳۰ ہزار آٹھ سو چورانوے شادیاں ہوئیں اور ۱۵ ہزار ایک سوباون (15152) طلاقیں ہوئی ، سوئزر لینڈ میں ۴۶ ہزار چھ سوتین شادیاں اور ۱۳ ہزار ایک سوتیس (۱۳۱۳۰) طلاقیں ہوئیں۔
سید قطب ، اسلام اورجدید مادی افکار ، مترجم سجاد احمد کاندھلوی
Office of National Statesticکے حوالے سے پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اورویلز میں 2010ء کے اندر ۲؍لاکھ ۴۱ ہزار ایک سو (241100) شادیاں ہوئیں جبکہ ایک لاکھ ۱۹ ہزار پانچ سو نواسی (119589) طلاقیں ہوئیں ، اسی رپورٹ میں کہاگیا کہ اسٹریلیا میں ہر تیسری شادی طلاق پر منتج ہوتی ہے ۔ جاپان میں صرف 2002ء میں دو لاکھ ۹۰ ہزار (290000) طلاقیں ہوئیں ، یہاں ہر دو منٹ سے قبل ایک طلاق کا واقعہ پیش آجاتا ہے ۔
Hifungton post Bertania 11 Apr 2012
(تعلیم اورطلاقAvailable online: www.express.pk/story/26802)
اوپر کے اعدادو شمارسے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغربی معاشرہ میں شادی کی شرح جہاں پوری طرح گراوٹ کا شکار ہے وہیں طلاق کی شرح تین گنا اضافہ کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔
لاس اینجلس ٹائمز ۲۷ مئی ۱۹۹۶ء صفحہ A16پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴ء میں یہاں2:1 ملین شادیاں طلاق کا شکار ہوئیں ، جو۱۹۶۰ء کی تعداد کا تین گنا ہے ۔
Availavle online: calvarychopal. com /library/ Divorce statistic.htm, 15 March 2002.
سویڈن میں ۶۵ فیصد شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیں، امریکہ میں ۴۵ فیصد ، جرمنی میں ۳۵ فیصد اور روس میں یہی تناسب ۳۳ فیصد ہے ، (بحوالہ مجلۃ البیان : لندن اپریل ۔ مئی ۲۰۰۰ء)
سنگل پیرینٹس
نکاح کی تعداد میںشدید کمی، طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافے اورمعاشرہ کی اہم رکاوٹیں (خاندان ) کے تتر بتر ہوجانے کے نتیجہ میں جہا ں بہت سے سنگین بحران پیدا ہوئے وہیں سنگل پیرینٹس کا مسئلہ مغربی معاشرہ میں پورے زور وشور سے جنم لے لیا ہے ، اور اب اس میں دن بدن خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ برطانیہ کے قومی شمار پاتی ادارہ ‘‘
Office of national statisticکے ذریعے one Parent Families on the Riseکے عنوان سے شائع شدہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ :۔
’’ برطانیہ میں صرف ماں یا صرف باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں کی تعداد ۱۹۷۲ء کی نسبت ۲۰۰۷ء میں تین گنا ہوچکی تھی ، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ۲۰۰۶ء میں ماں باپ میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے والے بچوں کا تناسب برطانوی بچوں کی کل تعداد کی ایک چوتھائی تک پہنچ گئی ہے ، جبکہ ان میں سے ۹۰ فیصد بچے صرف ماؤں کے ساتھ رہتےہیں ۔ (BBC.com,11 APr 2007)
اسی طرح امریکی معاشرہ میں بھی سنگل پیرینٹس کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے ، چنانچہ US census Beureoکی جانب سے نومبر ۲۰۰۹ء میں custodial mothers and Fathers and Thier Child support 2007کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی ، جس میں کہا گیا کہ ۲۰۰۷ء میں امریکہ کے اندر ۱۳۰۷ میں خواتین اورمرد ۲۱۰۸ میں بچوں کی تنہا والدین کی حیثیت سے پرورش کررہے تھے ، صرف ماں یا صرف با پ کی نگرانی میں پرورش پانے والے بچوں کی تعداد اس وقت امریکی بچوں کی مجموعی تعداد کا ۳۔۲۶ فیصد ہے جبکہ تنہا والدین میں عورتوں کا تناسب ۸۴ فیصد ہے اور مردوں کاتناسب ۱۶ فیصد ہے ۔
سنگل پیرینٹس کے خوفناک اثرات
سنگل پیرینٹس کے معاشرہ پر نہایت سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں ، خاص کر سنگل پیرینٹس کے تحت پرورش پانےوالے بچے جرائم ومنشیات سے لے کر ہر طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں بکثرت ملوث ہوجاتے ہیں۔ National centre for Health statistic 1988کے جائزے کے مطابق single parentsخاندانوں کے بچے ان پر مکمل توجہ نہ ہوپانے کی وجہ سے اسکول کی تعلیم سے محروم رہتے ہیں ، اکثر منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں اور لڑکیاں زندگی کی دوسری دہائی میں ہی حاملہ ہوجاتی ہیں۔
(Availeble online calvarychapel.com/library/divorce statistic.htm)
’’Kristin kettering hom ‘‘ کی تحقیقی رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ :۔’’ یہ دیکھا گیا ہے کہ Single Parentگھروں میں پرورش پانےو الے نوجوان دوسرے نوجوان کی نسبت تین گناہ ڈپریشن کا شکا ہوتے ہیں ، اسی طرح امریکہ میں Single Parentوالے گھرانے مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی زیادہ ملوث پائےگئے ، جن میں ۷۲ فیصد ٹین ایچ قتل اور ۶۰ فیصد ریپ جیسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مبتلا ہیں۔
(Available online:- www.yahoo.com/kristin kettringhom2002 the us census Beoreu) (جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016