قانونی پابندیوں کے باوجود انسانی قربانی کے متعدد واقعات اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنے رہتے ہیں ، ہندوستان کی ریاست اتر پردیش میں ہونےوالے انسانی قربانی کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان ٹائمس نے ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس میں صرف ۲۰۰۳ کے آخری چند مہینوں میں انسانی قربانی کے واقعات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھا گیا کہ :۔
” There have been 25 human sacrifices in western uttar pardesh in the Last six month alone: (Hindustan times 29 Nov 2003)
یعنی مغربی اترپردیش میں اس سال کے صرف آخری چھ مہینوں میں 25انسانی قربانی کے واقعات پیش آئے۔
اسی طرح یوپی کے خورجہ ضلع کی پولیس کے مطابق 2006ء میں درجنوں انسانی قربانی کے واقعات روشنی میں آئے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے:۔
(The observer, dinmak dogol in khorja, india, sunday 5 march 2006)
حال ہی میں 23جنوری 2016کوبنگلور کے ویاپانا علاقہ کے ایک شخص کو گرفتار کیاگیا ہے ۔ پولیس کے مطابق تانترک کے ذریعے چھپے ہوئے خزانے کی اطلاع دینے پر اس شخص نے اپنے تین بچوں کو قربان کردیا ، پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے اورتین سالہ بیٹی کوجنگل میں لے جا کر کلہاڑی سے ان کا سرکاٹ دیا ، اور تین سال پہلے اس شخص نے اپنی پہلی اولاد کوپانی کی ٹنکی میں ڈُبا کر ہلاک کردیا تھا۔ (ویب دنیا ، ۲۳ جنوری ۲۰۱۶ء)
(Online-Hindi. webdunia.com/regional-hindi news)
اسی طرح راجستھان میں الور ضلع کے پہل گاؤں میں بھی زمین کے نیچے دبے خزانے کے حصول کیلئے در جنوںبچوں کوقتل کردیاگیا ، اس سلسلے میں گرفتار لوگوں نے پولیس کو بتایا کہ ایک تانترک نے انہیں بتایا کہ ایک ہی ماں کے سات ، دس سال کے دوبچوں کی ایک ساتھ قربانی کرنے پر ہی دفنائی ہوئی دولت نکالی جاسکتی ہے ۔ (BBC Jaipur, 5 June 2015)
(onile-: www.bbc.hindi/india/2015/17/150705)
اولاد کی خواہش کیلئے دوسرے بچوں کی قربانی کا رواج بھی زوروں پر ہے، مہاراشٹر کے ہنگولی ضلع میں دو مہینے کے اندر پانچ بچوں کوقربانی کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس کے مطابق وند نا موکلے اوروٹل موکلے کی ۱۳سال پہلے شادی ہوئی ، لیکن کوئی اولاد نہ ہوسکی، پر شورام نامی تانترک نے ۱۱بچوں کوقربان کرنے پر اولاد ہونے کا یقین دلایا ۔ موکلے نے ابھی پانچ بچوں کو ہی قربان کرپایا تھا کہ یہ خبر عام ہوگئی۔(Ibn khabar 20 March 2010)
(online:- khabar.Ibn live.com/news/city-khabren,57717) N. aaj tat. in/vedio. JSP? id=28089
نسلی تفاوت
ہندوستان کے روایتی معاشرہ کا اہم بنیادی پہلو یہ ہے کہ معاشرہ برہمنوں کی سوچ وفکر کی پیداوار ہے ، اس کی تمام اکائیاں اوراس کے تمام اجزاء ترکیب میں برہمیت کی عظمت وتقدس اوراس کی بالادستی کوملحوظ رکھتے ہوئے ذات پات کی تفریق پر معاشرہ کے تمام امور کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ آج بھی نسلی تفاوت کو فریضہ سمجھا جاتا ہے جس کا عملی اظہار پوری قوت کے ساتھ کیا جاتا ہے ، نسلی تفاوت اوربر ہمنوں کی تعظیم وتکریم کی تعلیم کتابوں میں موجود ہے ، مشہور قانون داں اور ہندوستان کا آئین مرتب کرنے والے ڈاکٹر امبیڈ کر نے ورن آشرم کی اس سنگینی پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا، اور اس کے رد میں نہایت معلوماتی کتاب تصنیف کی ، جس کے تعارف میں مصنف نے واضح لفظوں میں کہا کہ :۔
’’ یہ کتاب ان تصورات کی وضاحت ہے جن کوبرہمی مذہب کہا جاسکتا ہے ، — ہند وعوام کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے، تاکہ وہ خود جان لیں کہ برہمنوں کے حربےکیا ہیں ، اوروہ کس طرح برہمنوں کے ذریعے فریب میں مبتلا رکھے گئے ہیں ۔‘‘ (ڈاکٹر امبیڈ کر ، ہندودھرم کی پہیلیاں ، پیش لفظ ، طبع 1988، گورنمنٹ آف مہاراشٹر )
مذہبی گرنٹھوں میں نسلی تفریق
منوسمرتی اہم کتاب ہے ، اس میں متعدد جگہوں پر برہمنوں کی برتری اورعظمت وتقدس کا ذ کر کیا گیا ہے ، ایک جگہ برہمنوں کوتمام ورنوںکاپربھو (خدا) قرار دیتے ہوئے کہاگیا کہ :۔
’’بڑی ذات اور اتم جگہ سے پیدائش ،نیم کا دھارن اوربڑاسنسکار ، (ادھیائے : ۱۰، شلوک:۲)
یجروید میں نسلی تفریق کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔
’’برہمن ایشور کے منہ سے ، کشتری بازوؤں سے، ویش رانوں سے اور شدر پاؤں سے پیدا ہوئے۔‘‘
(یجروید ، ادھیائے ۳۱، منتر: ۱۱)
منوسمرتی میں نسلی تفریق کے ساتھ تمام ورنوں کی ایک الگ الگ ذمہ داریاں بھی مقر ر کی گئیں جن کا تفصیلی تذکرہ اس طرح کیا گیا کہ :۔
’’ اس سمپورن جگت (سارے جہاں ) کی رچھا (حفاظت ) کیلئے اس مہا تیجوسی برہما نے منہ، بانہ، جانگھ اورچرن سے پیدا ہوئے ورنوں کے کرم (کام) الگ الگ مقرر کئے، وید پڑھنا ، وید پڑھانا، یگیہ کرنا، یگیہ کرانا ، دان دینا، دان لینا یہ چھ کرم برہمن کیلئے بنائے‘‘۔
رعایا کی حفاظت کرنا ، دان دینا ، یگیہ کرنا، ویدپڑھنا، دنیا کی نعمتوں میں دل نہ لگانا ، یہ پانچ کرم چھتری کیلئے مقرر کئے۔شودر کیلئے پر بھونے ایک ہی کرم ٹھہرایا ، یعنی صدق دل سے ان تینوں ورنوں کی خدمت کرنا ‘‘۔ (منوسمرتی ، ادھیائے : ۱، شلوک : ۸۷تا ۹۱)
شدید نسلی امتیاز کے ساتھ ساتھ برہمنوں نے یہ فلسفہ بھی وضع کرلیا کہ دنیا کی تمام چیزیں ان کی ذاتی ملکیت ہیں، برہمن کے علاوہ کسی کودنیا کی کسی شی پر ملکیت کا اختیار نہیں ہے ۔ منوسمرتی میں ہے کہ :۔ ’’ جوکچھ چیز دنیا میں ہے وہ سب گویا برہمنوں کی نجی چیز ہے کیونکہ وہ برہما جی کے مکھ سے پیدا ہوئے اورسب سے افضل ہیں، اسلئے سب چیزوں کا مالک برہمن ہی ہوسکتا ہے ‘‘۔ ( ادھیائے :۱، شلوک : ۹۰)
تفوق وتذلیل کا برہمنی فلسفہ لوگوں کے ساتھ مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ تمام ورنوں کے مُردوں کوآخری رسوم کی ادائیگی کے لئے لے جانے کے راستے بھی الگ الگ مقر ر کئے گئے ۔ منوسمرتی میں درج ہے کہ :۔ ’’ شہر کے پشچم ، اتر ، پورب ، دکشن دروازوں سے حسب سلسلہ اول ودوم وسوم وچہارم دروازہ سے برہمن ، کشتری، ویشیہ اورشدر کا مردہ لے جانا چاہئے‘‘۔ (ادھیائے : ۵، شلوک: ۹۲)
فریب کاریاں
معاشرہ پورے طور پر برہمنوں کے پر فریب تخیلات کا شکار ہے ، انہوںنے پورے معاشرہ کو توہمات اورباطل تخیلات میں الجھا کر یر غمال بنالیا، ویدوں اور مختلف دھرم ساشتروں کے ذریعے اپنی تعظیم وتکریم کومذہبی فریضہ قرار دیا ، اور اسی میں انسانوں کی کامیابی کا راز سمجھایا ، ساتھ ہی سیاسی قوتوں اور مظالم کےذریعے ان خرافات کوقبول کرنے پر مجبور کیا ، زمانے کے تغیرات نے حالات کوبدلنے کی کوشش بھی کیں، بہت سی تحریکات وجود میں آئیں، ان سب کے باوجود آج بھی برہمنی قوتیں اسی نہج پر کام کررہی ہیں ، اور قدیم ویدک نہج پر لیجانے کیلئے منظم طریقے سے کوشاں ہیں، معاشرہ انہیں کی فریب کاریوں اور خرافات کا شکار ہے ۔
کمہار، کائستھ اورنائی کی خلقت
صرف شودر کے ساتھ ہی تفریق اور توہین کا معاملہ نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ شودر کے علاوہ اورانسانی گروہوں کوبھی اسی تفریق توہین اورظلم وبربریت کا سامنا ہے ، شنکر آچاریہ کی اوشس اسمرتی میں ان کی خلقت اس طرح بیان کی گئی ہے :۔ ’’ یعنی برہمن مرد کے ذریعے کوئی ویشیہ عورت خفیہ طور پر حاملہ ہوجائے تواولاد کمہار ہوتی ہے ۔ لہٰذا وہ مٹی کا برتن بنا کر اپنا گزر بسر کرے ، اور اس طرح کا کام کرنے والا نائی پیدا ہوتا ہے ، وہ خود کو کائستھ کہہ کر اورکائستھوں کا مشغلہ اختیار کرکے ادھر اُدھر پھرتا رہے ‘‘۔
(شنکر آچاریہ ، اوشس المرتی ، شلوک : ۳۲ تا ۲۴)
ذات پات کی تفریق اور اس بنیاد پر اہانت آمیز روپے صرف مذھبی گرنتھوں کے افسانے نہیں ہیں ، بلکہ آج بھی ملک کے اعلیٰ شعبوں میں بھی اس کا خوب چلن ہے ۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں کہا کہ بہار کی کائستھ برادری شودر ہی ہے ، اورکسی کائستھ کی شادی تانتی برادری کی پاڈوم برادری کی عورت سے بھی ازروئے شاستہ جائز ہے ۔ بہار کے مشہور سیاست داں جے پرکاش نارائن نے کائستھوں کوشودر قرار دینےکے لیے عدالت میں اپیل دائر کی تھی ۔ (بحوالہ سہ روزہ دعوت ، نئی دہلی ، ہندوستانیات نمبر ، کائستھ برادری از ڈاکٹر محمد احمد ۔ ۱۶ فروری ۱۹۹۵ء)
چھوا چھوت
چھوا چھوت نہایت خوفناک عمل ہے ، جو سماج میں آج بھی بکثرت پایا جاتا ہے ، ساتھ ہی اسے مذہبی حمایت حاصل ہے ، برہمنوں نےجو تعداد کے اعتبار سے کم ہیں اپنی چالاکی سے سماج کی ایک بڑی تعداد کو مشقِ ستم کا سامان بنا رکھا ہے ۔ شودروں کوورن آشرم کے پیچ وخم مقید کرکے صدیوں سے ان پر ظلم وجبر کا طویل سلسلہ قائم کیا ہے۔ گرنتھوں کےذریعے انہیں اچھوت قرار دے کر ان پر ہر طرح کے مظالم کواپنا حق قرار دیا ہے ، شودروں کو تعلیم وتربیت سے دور رکھنے انہیں معاشرہ میں سنورنے اور ترقی کے دھار ے میں آنے پر پابندی وغیر ہ کے قوانین بنائے گئے ۔
تیسیا کرنا صرف برہمنوں کا حق ہے ، شودر کا حق تو صرف برہمنوں کی خدمت کرنا ہے ۔ (بالمیکی رامائن، سندر کانڈ، سرگ: ۲) اسی کانڈ میں کہا گیا کہ :۔’’ کسان ، ذات سے گرے ہوئے ، چوپائے اورعورتیں سب کوسخت جوتے تلے رکھنا چاہئے ‘‘۔ چھوا چھوت کا رواج معاشرہ میں اس کا خوب چلن ہے ، عبادات سے لے کر تمام سماجی معاملات میں شدروں کے ساتھ سختی سے چھوا چھوت کا معاملہ کیا جاتا ہے ، مندروں میں داخلہ پہ پابندی ، بڑی ذاتیوں کی رہائش کے قریب مکان خریدنے پر پابندی ، نلوں اورا س طرح کی مشترکہ چیزوں سے استفادہ پر پابندی ، اونچی ذاتی کے افراد کے سامنے اپنی عظمت کا اظہار پرروک جیسے سنگین معاملات ہردن پیش آتے ہیں ، اورمعاشرہ کی تمام اکائیوں کا اٹوٹ حصہ بنے ہوئے ہیں۔
ETV کی ایک رپورٹ کے مطابق جونسار باور نامی علاقہ میں دلت لوگوں کے استحصال کا معاملہ سنگین صورت اختیار کیا ہوا ہے ، مندروں میں دلت لوگوں کے داخلہ پر پابندی ہے ، خلاف ورزی کی صورت میں خوفناک سزادی جاتی ہے ، ETV UP- Utrakhand 29 Dec 2015
امر اجالا کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایک دلت آدمی بڑی ذاتی کی بارات میں کھانا لیا، اِس جرم میں اس دلت کی ناک کاٹ لی گئی، اوروجہ یہ بتائی گئی کہ اس شخص نے ایسا کرکے ہماری ذات کے تقدس کو برباد کیا،اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک وزیر دھرم پرشاد نے کہا کہ :۔
آزادی کے70 سالوں بعدبھی قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکی اورآج بھی منو کا ہی قانون نافذ ہے۔ (امر اجالا جھانسی 17فروری 2015ء)اس تعلق سے سماج کے اعلیٰ ذات کے لوگوں کی جوبھی نفسیات ہیںوہ اپنی جگہ لیکن حکومتیں جن میں اعلیٰ ذات کے افراد کا کردار نمایاں ہوتا ہےوہ بھی اس طرح کے تصورات سے اب تک محفوظ نہیں ہوسکیں ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں جواس طرح کی نفسیات کی گواہی دیتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی گندگی کی صفائی کا کام دلت سماج کیلئے ہی ریزرو کرتی ہے ، اور اس طرح کے جتنے اشتہارات نکالے جاتےہیں سب میں یہ شرط ہوتی ہے کہ یہ عہدہ صرف درج فہرست لوگوں کیلئے ہی ہے ، اس طرح کے اشتہارات کیلئے دیکھئے: (Indiatimes 12 Dec 2013)
Online:- readerblogs.com, nav bharat times.india times.com/ akroshit
چھوت چھات کا معاملہ تعلیم یافتہ لوگوں او ر تعلیمی اداروں تک میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے ۔ اورملک کے باوقار عہدوں پر براجمان افراد میں بھی یہ نفسیات عام ہیں ،متعداد اخباروں میں اس طرح کی خبریں اکثر سرخیوں پہ رہتی ہیں ، حال ہی میں اتر پردیش کے کانپور میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دلت خاتون پردھان کسی اسکول میں گئی ،وہاں کرسی پر بیٹھ جانے کی وجہ سے شدید مخالفت کی گئی ، اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے جن کا تعلق اونچی ذاتی سے ہے پانی سے کرسی دھلوائی ، تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ اسکول میں زیر تعلیم دلت بچوں کے ساتھ بھی تفریق کا سنگین برتاؤ کیا جاتا ہے ۔
۲۲ دسمبر ۱۹۹۲ء کوراجستھان کی دلت خاتون بھنوری دیوی کی اعلیٰ ذات کے لوگوں نے اجتماعی آبروریزی کی ، پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے منع کردیا، معاملہ ہائی کورٹ پہنچ گیا ، لیکن اس واقعہ کے تعلق سے مؤقر جج نے جوفیصلہ صادر کیا وہ انتہائی اہم ہے ، فاضل جج نے ملزموں کوبری کرتے ہوئے کہا کہ :۔ ’’ جب کوئی اونچی ذات کا شخص دلت کوچھو نہیں سکتا تو بھلا وہ دلت خاتون کی آبروریزی کیسے کرسکتی ہے ، یہ عورت کی طرف سے چھوٹا الزام ہے ‘‘۔
www.Humsamvetd.in- lekt dk Lo:i 27 oct 2014 (جاری )
مشمولہ: شمارہ فروری 2017