مشترک خاندان کے بعض مسائل
سوال: براہ مہربانی میرے درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیے:
(۱) ہم تین بھائی اور ایک بہن مشترک خاندان میں رہتے تھے۔ بہن کا نکاح ہم نے دس برس قبل کردیا تھا۔ اپنے باپ کی موجودگی میں ہم تین بھائیوں نے مشترکہ طورپر دوکنال زمین خریدی تھی۔ کیا بہن کو وراثت میں اس زمین میں سے بھی حصہ دینا ہوگا؟
(۲) ہم دو بھائی سرکاری ملازم ہیں، جب کہ تیسرا بھائی مزدوری کرتاہے۔ ہمارے اکاؤنٹ میں جی پی ایف کی خاصی رقم جمع ہے، جب کہ مزدور بھائی کے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہم تینوں بھائی ساتھ رہتے تھے۔ چند برس قبل ہم نے علیٰحدگی اختیار کی۔ جی پی ایف کی موجودہ رقم ہم تینوں بھائیوں کے درمیان تقسیم ہوگی؟
(۳) مشترک خاندان میں رہتے ہوئے ہم جو کچھ کماتے تھے، بڑے بھائی کے ہاتھ میں دیتے تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا تو اس میں ڈیڑھ لاکھ روپے قرض لیے گئے۔ علیٰحدگی کے وقت بڑے بھائی نے ہم دو بھائیوں سے ایک لاکھ روپے قرض کی ادائیگی کے لیے وصول کیے۔ کیا ازروئے شریعت ہم پر ایک لاکھ روپے کی ادائیگی لازم تھی؟
جواب: مشترک خاندانی نظام فی نفسہ جائز ہے۔ بشرطے کہ حدودِ شریعت کی پاس داری کی جائے اور والدین، ساتھ رہنے والوں اور دیگر زیر کفالت افراد کے حقوق کی حفاظت ہو۔ ساتھ رہنے والوں کی ذمے داری ہے کہ تمام معاملات میں عدل و انصاف کو قائم رکھیں اور اپنے معاملات میں ایثار و قربانی اور تعاونِ باہمی کو ترجیح دیں۔ اس صورت میں ان کے تعلقات میں خوش گواری باقی رہ سکتی ہے۔
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
(۱) باپ کی موجودگی میں بیٹوں نے کوئی چیز خرید کر اگر باپ کے حوالے کردی تو اس کا مالک باپ کو تصور کیاجائے گا اور اس کے انتقال کے بعد اس میں وراثت جاری ہوگی۔اسی طرح اگر بیٹوں نے کوئی زمین خرید کر اس کی رجسٹری باپ کے نام سے کروائی توبھی وہ باپ کی ملکیت سمجھی جائے گی۔اسلامک فقہ اکیڈمی کے ایک اجلاس میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر غور وخوض کرکے جو تجاویز منظور کی گئی تھیں ان کی ایک شق یہ تھی:
”باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طورپر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تواس صورت میں باپ کو اداکردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔”
(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کی فیصلے، طبع ۲۰۱۷ء،ص۲۵۶)
البتہ اگر بیٹوں نے مشترک طورپر کوئی زمین خریدی اور اس کی ملکیت اپنے پاس ہی رکھی تواسے باپ کی وراثت میں شامل نہیں کیاجائے گا اور اس میں بہن(باپ کی بیٹی)کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اس زمین کو بیٹے آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
(۲) کسی ملازم کو ملازمت کے نتیجے میں جو فنڈ ملے، اس کا وہی مالک ہوگا، دوسرے کا اس میں حصہ نہ ہوگا۔ جی پی ایف ملازم کو ریٹائر منٹ کے بعد دیا جاتا ہے۔ مشترک خاندان سے علیٰحدگی کے وقت تک اس فنڈ میں جتنی رقم جمع ہوئی ہو اسے بھی تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا مالک وہی ہے جس کے اکاؤنٹ میں وہ جمع ہے۔
(۳) بیٹی کے نکاح کے مصارف باپ کے ذمہ ہوں گے، اس بناپر اس مناسبت سے جو قرض لیاگیا اس کی ادائیگی بھی باپ ہی کو کرنی چاہیے، البتہ اگر مشترک خاندان کے افراد کے درمیان یہ معاہدہ یا مفاہمت ہو کہ ہر طرح کے مصارف کی ذمے داری سب پر ہوگی اور وہ مل کر اسے پوراکریں گے تواس صورت میں کسی ایک کی بیٹی کے نکاح کے مصارف اور اس سلسلے میں لیے گئے قرض کی ادائیگی سب کو مل کر کرنی ہوگی۔
مشترک خاندان میں رہنے والے تمام افراد کے اندر اگر تعاون باہمی کا جذبہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، بلکہ ایثار کی روش اپنائیں تو تمام مسائل بہت خوب صورتی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔
طلاق کا ایک مسئلہ
سوال: ایک جوڑے کے نکاح کو دو برس ہوئے ہیں۔ ان کا ایک لڑکا ہے۔ نکاح کے بعد ہی سے ان کے درمیان جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔ چند دنوں قبل کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے دونوں خاندانوں کے لوگ اکٹھا ہوئے۔ سنجیدگی سے بات چیت ہو رہی تھی کہ اچانک لڑکے نے لڑکی سے کہہ دیا: ” تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے۔ ”سب لوگ سکتے میں آگئے۔ لڑکی والے خاموشی سے لڑکی کو اپنے ساتھ لے گئے۔
چند گھنٹوں کے بعد لڑکے کا غصہ ختم ہوا تو وہ بہت پریشان ہے۔ اسے پچھتاوا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرا منشا طلاق دینے کا نہیں تھا۔ میں قرآن کی قسم کھاتا ہوں۔ وہ اہلِ حدیث دار الافتاء سے فتویٰ بھی لے آیا ہے کہ یہ طلاق رجعی ہوئی، دونوں اب بھی میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں، جب کہ لڑکی والے کہتے ہیں کہ ہم حنفی مسلک کو ماننے والے ہیں۔اس کے مطابق تین طلاق کے بعد رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔ وہ حلالہ کے بھی خلاف ہیں۔ لڑکی کے گھر کے بعض افراد کا کہنا ہے کہ اہلِ حدیث فتویٰ کو مان کر رجوع کرادینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
براہِ کرم اس معاملے میں رہ نمائی فرمائیں۔ کیا کیا جائے؟
جواب: نکاح کی دو سالہ مدّت کچھ زیادہ نہیں۔ ابتدا ہی سے زوجین کے درمیان لڑائی جھگڑا افسوس ناک ہے۔ عام طور سے شوہر بیوی کو دبانے اور اس پر دھونس جمانے کے لیے طلاق کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو قابلِ مذمّت ہے۔ اسلام کی عائلی تعلیمات کے بارے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔
فقہ حنفی میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر شوہر لفظ طلاق کو دہرائے اور بعد میں حلفیہ طور پر کہے کہ اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کی بات مانی جائے گی اور ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترتیب کردہ ‘مجموعۂ قوانین اسلامی’ کے نئے ایڈیشن (جنوری ۲۰۲۳ء ) کی دفعہ ۲۷۴ میں ہے:
”اگر کسی شخص نے طلاق دیتے ہوئے عدد کی صراحت نہیں کی، مگر بار بار طلاق کا جملہ دہرایا، مثلاً تجھے طلاق دی، تجھے طلاق دی، تجھے طلاق دی، یا یوں کہا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق۔ تو ایسی صورت میں اگر طلاق دینے والا یہ اقرار کرے کہ اس نے دو یا تین بار لفظ طلاق دہراکر دو یا تین طلاق دینی چاہی ہے تو ایسی صورت میں دو یا تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور اس نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ ِطلاق دہرائے ہیں، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔” (ص ۲۳۳)
اس صورت میں اگر طلاق کے مذکورہ واقعہ کو زیادہ عرصہ (تین ماہ واری) نہیں گزرا ہے تو شوہر کا رجوع کافی ہے۔ اگر زیادہ عرصہ ہوگیا ہے تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
مشمولہ: شمارہ اگست 2023