آزادی اسلام کا سب سے بڑا تحفہ ہے جو دراصل انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔ چنانچہ آزادی کے تعلق سے اسلام کا موقف روز اول سے بہت واضح اور دو ٹوک رہا۔ اسلام نے صرف آزادی کی نعمت سے نوازا نہیں بلکہ آزادی کے تعلق سے بہت واضح تعلیمات دیں۔ آزادی کا مفہوم کیا ہے۔ آزادی کا مقصد کیا ہے اور آزادی کے اصول وضوابط کیا ہیں۔ اور آزادی کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں۔ چنانچہ آزادی کے حوالے سے سب سے پہلا اور بڑا سنگ میل انسانی تاریخ میں کوئی ہو سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ دوسرا سنگ میل بھی ہے آزادی کے سفر کا اور وہ بھی بہت اہم ہے اور وہ ہے انقلاب فرانس۔ لیکن اس کے پیچھے کارفرما عوامل سامنے ہوں تو آزادی کے اس پورے ڈسکورس کو سمجھنا آسان ہوگا۔ انقلاب فرانس سے نکلنے والی آزادی جو آج مغربی دنیا بلکہ پوری جدید دنیا میں رائج ہے اس کے دو اہم عوامل یا اسباب ہیں۔ ایک رد عمل یعنی استبداد اور استحصال کی انتہا ہوجانے کے باعث اور سماج سے آزادی کے عناصر بالکل سلب کر لئے جانے کے باعث اس پوری صورتحال کے خلاف رد عمل۔ دوسرا اہم سبب جس نے کسی طور سے رد عمل پر ابھارنے کا بھی کام کیا وہ ہے اسلام کے تصور آزادی سے واقفیت اور اس سے استفادہ۔ لیکن بدقسمتی سے اس استفادہ میں آزادی کے مظاہر سے تو پورا استفادہ کیا گیا لیکن آزادی کا جو اصل فلسفہ اور غرض وغایت تھی یا وہ اصل روشنی جہاں سے آزادی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں اس سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں مغربی دنیا میں آزادی کی پوری فراوانی کے باوجود انسان یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ اس آزادی کا صحیح استعمال کیسے کرے اور اس کا مقصد کیا ہو۔ دوسری طرف وحی کی روشنی سے ناواقفیت کی وجہ سے اس آزادی کے نتیجے میں زندگی سے متعلق جو اہم فیصلے طے ہونے چاہئیں چاہے وہ اقتصادی اور سیاسی نظام کے حوالے سے ہو یا پھر روز مرہ کی زندگی سے متعلق دوسرے مسائل ہوں ان سب میں بھی پوری طرح بے راہ روی کا شکار ہیں۔اسی طرح مغربی دنیا میں آزادی کے حوالے سے غیر معمولی بے اعتدالی کی کیفیت ہے۔ ایک طبقہ ہے جو صرف انفرادی آزادی کا گن گاتاہے اور اس کی نظر میں سماج اور اجتماعیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو دوسری طرف اجتماعیت پر اس قدر زور ہے کہ انفرادی آزادی اپنا مقام کھو بیٹھتی ہے۔
آزادی کا مفہوم
آزادی کا مفہوم کیا ہے اور اس کی تعریف کیا ہے اس تعلق سے مختلف لوگوں نے مختلف ملتی جلتی آراء پیش کی ہیں ۔جس میں سے ایک مشہور تعریف مغربی دنیا کے ایک نامور فلسفی اور آزادی کے حوالے سے بنیادی مرجع کی حیثیت رکھنے والے مصنف جان جاک روسو کی ہے کہ ہر انسان کو یہ طے کرنے کی آزادی ہو کہ اسے کیا کرنا ہے اور وہ یہ صرف اپنے لیے طے کرے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے نہ کسی کی پسند خود پر تھوپنے کی مجبوری ہو اور نہ ہی اپنی پسند کسی دوسرے پر ڈالنے کا موقعہ ملے۔ کانٹ جو مغربی دنیا اور جدید تہذیب کے ایک اہم معمار کے طور پر جانا جاتا ہے وہ آزادی کی تعریف میں ایک نئے عنصر کا اضافہ کرتا ہے۔ اس کے مطابق آزادی کی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے عمل کے تعلق سے صرف وہی فیصلہ لے جو اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور عقلی طور سب سے اچھا ہو۔ یعنی انسان پر کسی کے ذریعے کوئی چیز تھوپی نہ جائے، نہ تو کسی دوسرے انسان کے ذریعے اور نہ ہی رسم ورواج اور سماجی اور تاریخی روایت کے ذریعے اور نہ ہی خواہشات وتوہمات کے ذریعے بلکہ وہ عقل کی روشنی میں اپنا راستہ اور اپنی پسند طے کرے۔ اگر وہ عقل استعمال کئے بغیر خود سے بھی کوئی راستہ پسند کرتا ہے تو یہ آزادی کے خلاف ہوگا کیوں کہ اس نے گرچہ کسی خارجی دباؤ میں تو اپنا راستہ طے نہیں کیا لیکن وہ داخلی طور سے خواہشات اور توہمات کی غلامی کا شکار رہا۔ آزادی کا تعلق بنیادی طور سے دو عناصر پر مشتمل ہوتا ہے، ایک غور فکر پر اور دوسرا غور وفکر کے مطابق عمل آوری پر۔ آزادی کو مزید سمجھنے کے لیے اس کی اضداد سے بھی سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آزادی کی سب سے واضح ضد غلامی ہے یعنی کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی ملکیت بن جائے اس طور سے کہ وہ اس کو مویشیوں کی طرح اپنی خدمت میں استعمال کرے اور جب چاہے انھیں فروخت کرے یا کسی کو ہدیہ کردے۔ آزادی کی ایک اور اہم ضد استبداد ہے۔ اور استبداد کا مطلب کسی ایک فرد یا افراد کے ایک مجموعے کا بقیہ تمام انسانوں پر مسلط ہونا اور ان پر اپنی پسند کے مطابق قوانین تھوپناہے۔ مشہور اسلامی مفکر عبدالرحمان الکواکبی کے مطابق کسی بھی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ اس میں استبداد اور خصوصا سیاسی استبداد کا ہونا ہے۔ کواکبی کے مطابق استبداد کا تعلق زندگی کے کئی اہم گوشوں سے ہے۔ سیاسی استبداد جہاں ملک کی سیاست پر ایک مخصوص گروہ قابض ہو، دینی استبداد جہاں کوئی مخصوص طبقہ دین پر اجارہ داری قائم کرلے اور اس کو اپنے مخصوص مصالح کے لیے استعمال کرے، علمی استبداد جہاں علمی دنیا میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کچھ با اثر افراد کے ہاتھ میں ہو۔مالی استبداد جہاں پوری دولت پر چند گنے چنے افراد ہی قابض ہوں وغیرہ۔آزادی کی ایک اہم ضد استعمار ہے یعنی کوئی قوم یا ملک دوسرے ملکوں اور قوموں پر زبردستی حکومت کرے جس کی بڑی مثالیں انگریزی استعماراور فرانسیسی استعمار ہیں، جنہوں نے ماضی قریب میں متعدد ممالک پر زبردستی اپنا تسلط قائم رکھا اور وہاں کی ثروت کا بڑا حصہ لوٹنے کے بعد کسی حد تک ہی ان کو آزاد کیا۔ آزادی کی ایک ضد اکراہ ہے یعنی زبردستی کرنا اور کسی چیز کو کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرنا۔
ژاں ژاک روسو (1712ء – 1778ء) نے آزادی کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ فطری آزادی یا نیچرل فریڈم، سول آزادی یا سوشل فریڈم، سیاسی آزادی یا ڈیموکریٹک فریڈم اور اخلاقی آزادی یا مورل فریڈم۔ روسو کے مطابق آزادی کی پہلی قسم انسان کی اس حالت سے متعلق ہے جب کہ وہ سماج کا حصہ نہیں بنتا ہے۔ بلکہ دوسرے لفظوں میں وہ انسانیت کے پورے مفہوم پر پورا نہیں اترتا۔ یہ آزادی وہ ہے جس میں کوئی قید ہو نہ کوئی قانون اور نہ کوئی اخلاقیات۔ چنانچہ یہ آزادی کا وہ تصور ہے جو کسی انسانی سماج میں قابل عمل ہے اور نہ ہی قابل قبول۔ بلکہ روسو نے یہ قسم بنائی ہی ہے انسانی سماج کے ایک سماج کی شکل اختیار کرنے کے تاریخی عوامل اور وجوہات کو سمجھنے کے لئے۔ گویا اس کی ضرورت اور معنویت محض فلسفیانہ سطح تک ہے۔ بقیہ تینوں قسمیں ہی دراصل اس موضوع سے متعلق ہیں اور الگ الگ پہلوئوں سے اس کا احاطہ کرتی ہیں۔ سول یا سوشل فریڈم سے مراد وہ آزادی ہے جو معاشرے کے ہر فرد کو اپنے بارے میں حاصل ہونی چاہیے۔ غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مذہب کی آزادی، اور اپنی شخصیت سے متعلق فیصلے لینے کی آزادی اس میں شامل ہے۔ سیاسی آزادی سے مراد سیاسی امور کا لوگوں کی مکمل شمولیت سے طے پانا اور آزادی میں اجتماعیت کا خیال رکھنا ہے۔ چنانچہ سوشل فریڈم کا زیادہ فوکس انفرادیت پر ہے اور سیاسی آزادی میں زور اجتماعیت پر زیادہ ہے۔ تیسری اہم قسم مورل فریڈم کی ہے اور اس سے مراد انسان کا اخلاقی اور قانونی زاویے سے اپنی آزادی کو ضوابط اور اصولوں کا پابند بناناہے ۔ اسی کے تحت یہ اصول بھی پیش نظر رکھنا کہ آزادی کے تحت ہم صرف وہ کام کریں جو کسی اور کے کرنے سے ہمارے لیے قابل ملامت یا دشوارکن نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کے حوالے سے اخلاقیات کا پورا لحاظ کرنا۔ چنانچہ روسو کے مطابق سوشل کنٹریکٹ یا سماجی معاہدہ دراصل ایک حل ہے اس بنیادی مسئلے کا کہ کیسے اکٹھا ہونے کی اور مل جل کے رہنے کی ایسی کوئی شکل نکالی جائےکہ ہر فرد باوجود یکہ وہ سب کے ساتھ رہے وہ خود میں آزاد رہے اور اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے۔ چنانچہ اس چیز کو ممکن بنانے کے لیے لوگ باہمی رضامندی سے قانون بناتے ہیں ۔اور ان قوانین کی تشکیل اور تنفیذ میں اخلاقیات کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ گرچہ کہ روسو نے آزادی کے حوالے سے آزادی کے تمام پہلوؤں کو شامل کیا اور ان پر گفتگو کی لیکن بعد کے اکثر مفکرین نے ان پہلوؤں میں سے کسی مخصوص پہلو ہی پر پوری توجہ دی اور بقیہ کو نظر انداز کر دیا جس کے نتیجے میں خالص انفرادیت یا خالص اجتماعیت والے تصورات ہی زیادہ رائج رہے۔ جون رولز جو جدید فلسفے اور سیاسیات کے اہم ماہرین میں شمار ہوتا ہے آزادی کے حوالے سے دو اہم آزادیوں کو ذکر کرتا ہے۔ ضمیر کی آزادی (liberty of conscience) اور سیاسی آزادی۔ پہلی آزادی میں غور وفکر کی آزادی، مذہب کی آزادی اور طرز زندگی کی آزادی شامل ہے اور سیاسی آزادی میں سیاست میں یکساں اور مکمل شمولیت آتی ہے ،چاہے وہ قانون سازی کا معاملہ ہو یا حکومت چلانے اور حکومت بنانے کا معاملہ ہو۔ البتہ آزادی کے حوالے سے رولز کے نزدیک عدل اور اجتماعی مصالح پر زیادہ ترجیح ہونی چاہیے ۔دوسرے لفظوں میں آزادی کو انفرادی حیثیت کے بجائے سماجی پیرائے اور پورے سسٹم کے طور پر دیکھنے کو ترجیح ملنی چاہیے۔
مذہب اور آزادی
آزادی کی تعریف پر نظر ڈالتے ہی یہ سوال ابھر کر آتا ہے کہ کیا مذہب اور آزادی میں مطابقت ممکن ہے؟ یعنی کیا مذہب اور آزادی ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں ؟ عموما مغربی دنیا کے جدید مفکروں کے یہاں آزادی کے حوالے سے گفتگو میں یہ احساس ابھر کرسامنے آتا ہے کہ مذہب آزادی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے اور اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں آزادی اور حقوق حاصل کرنے کے لیے معاشرے کو مذہبی پیشواؤں اور اداروں بالخصوص چرچ کی سخت گیر بیڑیوں سے لمبی لڑائی کے دور سے گزرنا پڑا ہے۔ ماقبل جدید کی تاریخ میں یوروپ مذہبی اداروں کے تحت اس قدر جکڑا ہوا تھا کہ زندگی کے ہر ہر شعبے کے تعلق سے انسان بے بس لاچار اور مذہبی پیشواؤں کا مرہون منت تھا۔ علمی وفکری معاملات ہوں یا عائلی اور سیاسی ، سماجی مسائل ہوں یا معاشی ہر سطح پر اسی مذہبی طبقے کی اجارہ داری اور قبضہ تھا۔ ایسے پس منظر میں اس تصور کا پیدا ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن سوال اسلام اور آزادی کی باہمی نسبت کے حوالے سے اہم ہے کہ کیا اسلام اور آزادی باہم ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ اہل مغرب تو اس تعلق سے مذاہب کے درمیان فرق نہیں کرتے مگر خود مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ یہی گمان کرتا ہے کہ اسلام اور آزادی یکجا نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ تحریک اسلامی کے مشہور مفکر ڈاکٹر راشد غنوشی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا مذہب اور آزادی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں جب کہ مذہب کا مطلب ہی سپردگی اور غلامی ہے؟ آگے وہ لکھتے ہیں: مسلمانوں میں سے بہت سے افراد اور جماعتیں سمجھتی ہیں کہ یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور اس کی ایک مثال حزب التحریر ہے، لیکن یہ تصور سراسر غلط ہے۔ کیوں کہ شریعت کا لازمی تقاضاہی یہ ہے کہ انسان کو پوری آزادی حاصل ہو ورنہ تو اعمال اور احکام کا پورا فلسفہ ہی بے معنی ہو جائے گا۔ امام فراہی اور علامہ طہ جابر علوانی نے بھی خلافت انسانی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ انسان کو خلافت کی ذمہ داری دینے کا لازمی تقاضاہی یہ ہے کہ اسے پوری آزادی میسر ہو۔ علامہ ابن عاشور آزادی کو مقاصد شریعت میں سے ایک مقصد شمار کرتے ہیں ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ سبحانی لا اکراہ فی الدین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آزادی کو دین کی بنیادی تعلیمات اور مسلمہ اصولوں میں قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ یا نبی ﷺ کے مشن کا سب سے جامع اور خوب صورت بیان اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ آزادی ہے چنانچہ ڈاکٹر حاکم مطیری کہتے ہیں کہ آزادی ہی دراصل توحید کی روح ہے اور اسلام آیا ہی انسانوں کو مکمل طور سے آزادی دلانے (ملاحظہ ہو تحریر الانسان، ڈاکٹر حاکم مطیری)۔ بلکہ قرآن کے پرانی رسالتوں کے تذکرے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہر رسالت کے پیش نظر اہم ترین مشن انسانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنا ہوتا تھا جس کی سب سے بڑی اور واضح مثال بنی اسرائیل اور فرعون کا قصہ ہے جو متعدد بار قرآن مجید نے بیان کیا ہے ۔ لیکن ہر قوم اس سبق سے بہت جلد روگردانی کرکے غلامی اور استبداد کی زنجیروں میں خود کو جکڑ لیتی تھی اور پھر خود مذہب ہی سے اپنی اس روش کوجواز بھی مہیا کرتی تھیں۔ چنانچہ مغربی مفکرین کے لیے یہ چیز کوئی عجیب نہیں تھی کہ انھوں نے آزادی کے لیے مذہب کو یا مذہب کے اس پیرہن کو ایک رکاوٹ کے طور پر تسلیم کیا اور آزادی کے لیے مذہب سے بھی دوری لازمی سمجھی جانے لگی۔ البتہ حیرت اس بات پر ضرور ہونی چاہیے کہ اسلام میں آزادی کی بے شمار واضح اور صاف صاف تعلیمات اور ہدایات ہونے کے باوجود اسلامی تاریخ آزادی کا وہ نظریاتی اور عملی نمونہ کیوں نہیں پیش کر سکی جو قرآن وسنت کا لازمی تقاضاتھا؟ یہاں تک کہ مسلم مفکرین کو آزادی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےتاریخ سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے یا یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تاریخ نے قرآن وسنت کی عملی تصویر پیش نہیں (ملاحظہ ہو الازمۃ الدستوریۃ فی الحضارۃ الاسلامیۃ، ڈاکٹر مختار شنقیطی اور الحریۃ والطوفان، ڈاکٹر حاکم مطیری)۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی جس قدر مضبوط بنیاد مذہب بالخصوص اسلام کے اندر سے پیش کی جاسکتی ہے وہ مغربی دنیا میں پیش کی گئی بنیادوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور پائدار معلوم ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ مغربی مفکرین کے یہاں آزادی دراصل تقاضا ہے انسانی شرف کا۔جب کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی تخلیق کا لازمی تقاضا ہی یہ ہے کہ ہر کوئی آزاد ہو اور اپنی آزادی کے ساتھ اپنے چنے ہوئے راستے کے ثمرات سے مستفید بھی ہو اور ان کے متعلق جوابدہ بھی ہو۔
سماجی آزادی اور اسلام
سماجی آزادی یا سول فریڈم آزادی کے ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جوسماج میں رہتے ہوئے انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہوں۔اس میں انسان کی آزادی (غلامی کے ملکیت والے تصور سے)، غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی ، عقیدے کی آزادی، ، جیسی تمام آزادیاں شامل ہیں۔اس موقع پر سماجی آزادی کے ہر عنصر پر تفصیلی گفتگو کرنا مشکل ہے۔اس لیے دو اہم ترین آزادیوں پر جو دراصل بقیہ تمام کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں ، قدرے تفصیل سے گفتگو کرنا مناسب ہوگا۔ ایک انسان کی ذاتی آزادی یعنی غلامی کے ملکیت والے تصور کا بالکلیہ خاتمہ اور دوسری ضمیر کی آزادی۔
ملکیت والی غلامی انسانی تاریخ کی شرف اور آزادی کے حوالے سے بد ترین حالت رہی ہے۔ اور ایک زمانے تک یہ کم وبیش ہر انسانی سماج کا حصہ رہی، اپنی شکل وصورت میں معمولی اختلاف کے ساتھ ۔ تقریبا ایک صدی قبل عالمی سطح پر اس کے خاتمے کی قرار داد منظور ہوئی اور اس کے بعد سے یہ مانا جانے لگا کہ اب عملی طور سے غلامی کا پوری دنیا سے خاتمہ ہوگیا۔ اس بات کے پورے اعتراف کے ساتھ کہ غلامی کی ایک مخصوص اور بدترین شکل کا خاتمہ مغربی دنیا کے ذریعے ہوچکا، یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا واقعی اب غلامی کا مکمل خاتمہ ہوچکا؟ کیا اب تمام انسان مکمل طور سے آزاد ہیں؟ کیا اب کوئی بھی انسان کسی بھی شکل میں کسی کی ملکیت یا کسی کے تئیں مجبور نہیں ہے؟ اس حوالے سے مشہور مسلم مفکر اور ماہر سماجیات علی شریعتی کا یہ تجزیہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ سرمایہ داری بھی استحصال کے ذریعے کسی نہ کسی شکل میں کچھ انسانوں کو دوسرے انسانوں کا غلام ہی بناتی ہے فرق صرف غلامی کی شکل وصورت کا ہے۔بہر کیف ملکیت والی غلامی کا خاتمہ ایک اہم اور بڑا واقعہ ہے۔ غلامی کے تعلق سے اسلام کا موقف کیا رہا ہے؟اس سلسلے میں عموما اور مغربی دنیا میں بالخصوص غلط فہمیاں عام ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام نے بھی کسی نہ کسی حد تک اس سلسلے میں گنجائش باقی رکھی اور غلامی کو قبول کر لیا اور بد قسمتی سے یہی رائے زیادہ عام اور مشہور ہے۔لیکن فکر اسلامی کے حوالے سے کئی بڑے علما ءومفکرین نے اس سلسلے میں واضح اور اطمینان بخش گفتگو کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو ایک غیر انسانی حرکت کے طور سے دیکھا اور اس کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی۔ تفصیل یہ ہے کہ تاریخی طور پر یہ معلوم ہے کہ غلام بنانے کا اصل ذریعہ یا سب سے اہم ذریعہ جنگ میں گرفتار قیدی ہوتے تھے۔ اسلام نے اس حوالے سے اپنا موقف بالکل صاف کر دیا کہ جنگ میں گرفتار قیدیوں کے ساتھ صرف دو میں سے کوئی اختیار دیا گیا یا تو یوں ہی احسان کے طور پر رہائی یا کچھ فدیہ لے کے رہائی(سورہ محمد بحوالہ تفسیر منار ، سید رشید رضا)۔ دوسری جانب اس نے موجود غلاموں کو آزادی دلانے کے لیے ہر موقعے کو استعمال کیا اور ان کو آزادی دلائی جس کی مثال مختلف کفاروں میں ترجیحی طور پر غلاموں کی آزادی رکھنا ہے۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ ان تمام قرآنی احکام کے باوجود اسلامی تاریخ میں نظریاتی یا فقہی طور سے بھی اور عملی طور سے غلامی کا تسلسل کیوں کر رہا؟ ڈاکٹر شنقیطی اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ممکن ہے کچھ لوگ تاریخ سے حسن ظن کی بنیاد پر یہ سوال کریں کہ اتنی واضح اور صریح قرآنی نصوص کے ہوتے ہوئے بھی پوری اسلامی تاریخ میں غلامی کا سلسلہ بر قرار کیوں رہا؟ اور اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سماجی غلامی تاریخی حوالے سے اسی سیاسی غلامی کے مانند ہے جو ملوکیت کی شکل میں مستقل اسلامی تاریخ کا حصہ بنی رہی۔ چنانچہ ہمارے سامنے یہ واضح ہونا چاہیے کہ تاریخ وحی پر حجت نہیں بنے گی بلکہ وحی ہی تاریخ پر حجت قائم کرے گی (الازمۃ الدستوریۃ فی الحضارۃ الاسلامیۃ، مختار شنقیطی)۔ اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ ڈاکٹر محی الدین غازی نے پیش کیا ہے کہ جب قرآن نے صاف صاف کہا کہ جنت کا راستہ غلاموں کو آزاد کرنے میں ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسی آزاد کو غلام بنانا اس کے عین برعکس جہنم کا راستہ بنے گا۔مکی دور کی اس قطعی قرآنی تعلیم نے جنگ یا جنگ کے علاوہ کسی بھی طریقے سے غلام بنانے کا دروازہ مکمل طور سےبند کر دیا۔
ضمیر کی آزادی کے حوالے سےتین اہم پہلو زیر بحث آسکتے ہیں۔ ایک غور وفکر کی آزادی ، دوسرااظہار رائے کی آزادی اور تیسرا مذہب اور عقیدے کی آزادی۔ اور یہ تینوں ہی وہ آزادیاں ہیں جو عموما مغربی مفکرین اور فلسفیوں کے یہاں ملتی ہیں اور بیشتر ممالک دستوری طور پر اس کو مہیا کرتے ہیں۔ البتہ ضمیر کی آزادی کے حوالے سے مغربی دنیا میں عملی طور سے غیر معمولی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں۔ ضمیر کی آزادی بلاشبہہ ایک ضروری آزادی ہے۔ لیکن اس آزادی میں اخلاقیات کا کردار غیر معمولی ہوجاتا ہے۔اسلام نے بھی ضمیر کی آزادی پر پورا زور دیا لیکن اسلام کے تصور میں دلکشی اور رعنائی نظر آتی ہے۔ اعلی مقصدیت اور مثبت عوامل سامنے ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ اسلام نے غور وفکر اور اظہار رائے کی آزادی کو قبول کیا اور سراہا ہے۔ بلکہ آزادی غور وفکر کی جو تاکید قرآن مجید میں ملتی ہے اس کا تصور جدید سے جدید کسی تحریر میں بھی پایا جانا ناممکن ہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں نے ان آزادیوں کو نہ صرف فراموش کیا بلکہ کسی حد تک اس کے مخالف بھی بن گئے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تاریخی اور سماجی حقائق سے قطع نظر موجودہ دور کے اسلامی مفکرین کی تحریروں میں یہ بات بالکل وضاحت سے پیش کی گئی ہے کہ اسلام نے ان تمام آزادی کو نہ صرف پوری طرح قبول کیا بلکہ ان کو خوب خوب سراہا ہے اور ان کی راہ کی رکاوٹوں کو ختم کرنا ضروری قرار دیا۔ عموما غورو فکر کی آزادی کے حوالے سے مسلم سماج میں جواندیشے ذکرکیے جاتے ہیں وہ دو ہیں ایک تو یہ کہ غورو وفکر کی آزادی سے مختلف نتائج فکر سامنے آئیں گے اورانجام کار مسلمانوں میں اختلاف بڑھے گا، دوسرا یہ کہ غورو فکر کو اگر بے لگام چھوڑ دیا تو دین میں خرافات پیدا ہونے لگیں گی اور دین خالص محفوظ نہیں رہے گا۔ عالم اسلام کے مشہور اور قدآور مفکر اور مصنف عبدالمجید نجار نے اس تعلق سے قرآن وسنت کے حوالے سےواضح کیا ہے کہ غور وفکر اور اس کے اظہار کی آزادی نہ صرف یہ کہ اختلاف کا سبب نہیں بنے گی بلکہ یہ آزادی کی پائیدار اور مستحکم وحدت اور ہم آہنگی پیدا کرے گی مسلمانوں کے درمیان(ملاحظہ ہو: فکری وحدت میں آزادی رائے کا کردار)۔ دوسرے اندیشے کے تعلق سے علامہ رشید رضا گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بدعات وخرافات تو تقلید کے بازار میں رواج پاتی ہیں جہاں کہ لوگ ہر کس وناکس کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن آزادی اور دلائل کی بنیاد پر قائم ہونے والی مارکیٹ میں بدعات کبھی نہیں پنپ سکتیں۔ یعنی جب ہر کسی کو غورو فکر کی آزادی ہوگی تو ہر کسی کو یقینی طور پر غور وفکر کے نتائج کے تعلق سے اپنا رویہ یا موقف طے کرنے کی بھی مکمل آزادی ہوگی ایسے میں اگر کوئی غیر معقول بات پیش کرتا بھی ہے تو اس کو کیونکر قبول کیا جائے گا؟ دوسری طرف طہ جابر علوانی نے بڑی دل چسپ بات لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں جب قرآن نے لا اکراہ فی الدین کہہ کر مذہبی معاملات سے ہر طرح کا اکراہ اور زبردستی ختم کر دی تو کیونکر ممکن ہوگا کہ وہ غور وفکر کے دوسرے پہلوؤں پر کسی طرح کی قدغن لگانے کی بات کرے؟ بلکہ قرآن نے تو جنگ کے اہم مقاصد میں سے غور وفکر کی راہ یا ضمیر کی آزادی میں کسی طرح کی رکاوٹ کو ختم کرنا بھی رکھا ہے۔ البتہ اس حوالے سے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ عموما مسلمانوں کے یہاں یہ تصور عام ہے کہ اسلام اصولی طور سے تو مذہب کے تعلق سے پوری آزادی دیتا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اپنا مذہب تبدیل کرے تو واجب القتل ہوگا۔ یوں تو جمہور علماء کی یہی رائے ہے لیکن یہ مسئلہ اختلافی رہا ہے ، اور دور حاضر میں مسلم علماء ومفکرین اور عالمی تحریکی قائدین میں سے ایک بڑی تعداد نے جس میں امام رشید رضا، امام ابن عاشور، علامہ ابوزہرہ، علامہ طہ جابر علوانی، علامہ حسن ترابی، راشد غنوشی، عنایت اللہ سبحانی، علی قرہ داغی اور جاسر عودہ وغیرہ قابل ذکر ہیں اس تعلق سے اپنا موقف یہ پیش کیا ہے کہ ارتداد پر بھی کوئی سزا نہیں ہوگی بلکہ جس طرح اسلام عام مذہبی آزادی دیتا ہے اسی طرح یہاں بھی اسلام مکمل طور سے آزادی دیتا ہے ۔ راشد غنوشی اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جو واقعات پیش آئے تھے (ارتداد کے) وہ تبدیلی مذہب کے نہیں بلکہ حکومت کے خلاف بغاوت کے تھے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی گروہ حکومت کو ٹیکس دینے سے صاف انکار کردے تو اس سے جنگ تو کی ہی جائے گی اور اسے حکومت سے بغاوت بھی قرار دیا جائے گاخاص کر اگر وہ گروہ اسلحہ اٹھا لے پھر تو جنگ لازم ہو جائے گی۔ اسی طرح ارتداد کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کا عقیدے سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کا ایک طبقہ اسے تعزیری سزا قرار دیتا ہے اور حاکم کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہے تو سزا میں تخفیف کرے اور چاہے تو معاف کر دے۔ ساتھ ہی دوسرا ایک طبقہ اسے حد مانتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی واضح نص موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کا پہلا واقعہ بھی رسول ﷺ کی وفات کے بعد پیش آیا(الدیموقراطیۃ وحقوق الانسان فی الاسلام، راشد الغنوشی)۔
اس حوالے سے آزادی کا فریم ورک اور اس کی منطق بھی اسی رائے کی تائید کرتی ہے کہ اگر کسی کا یہ مطالبہ ہو کہ اس سے متاثر ہوکر اگر کوئی دوسرا اس کا دین قبول کرلے تو اسے اس کی آزادی ہونی چاہیے تو اسی طرح اگر اس کے مذہب کا کوئی متبع کسی اور کی تبلیغ سے مطمئن ہوکر دین بدلنا چاہے تو اسے اس کی آزادی ملنی چاہیے۔ بہر کیف اسلام نے سماجی آزادی کو پوری طرح قائم کیا اور اسی آزادی کی بنیاد پر انسانوں سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اسلام کو اس کی قوت استدلال کی بنیاد پر پیش بھی کریں اور قبول بھی۔
سیاسی آزادی اور اسلام
سیاسی آزادی کا مفہوم جیسا کہ کواکبی، روسو اور رولز کی تحریروں سے صاف طور واضح ہے کہ حکومت کو بنانے، چلانے اور ختم کرنے تک تما م ا مور میں ہر کسی کو مکمل شرکت کا موقعہ ملے ۔ کوئی فرد یا گروہ بقیہ تمام کی قسمتوں کے فیصلے کرنے کا ٹھیکہ نہ لے لے۔ ہر کسی کو یہ بھی آزادی ہو کہ وہ حکومت کی تشکیل میں اپنا رول ادا کرے ، حکومت میں ہر کسی کے آنے کے بھی مکمل مواقع ہوں ، برخلاف اس کے کوئی مخصوص خاندان یا طبقہ ہی اس کا حقدار بن بیٹھے۔ حکومت بننے کے بعد حکومت کا مکمل جائزہ اور احتساب لینے کی بھی مکمل آزادی ہر ایک کو حاصل ہو۔ سیاسی آزادی کا یہ تصور عملی اور نظریاتی طور سامنے تو جدید دور ہی میں آیا ہے ،مغربی دنیا کے ذریعے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اس تعلق سے پہلے دن سے نہ صرف مکمل تعلیمات اور اصول واضح کردیےتھے بلکہ عملی طور پر اس کا ایک بہترین نمونہ بھی خلافت راشدہ کی شکل میں پیش کر دیا تھا۔ اسلام کے تصور سیاسی آزادی میں شوری ایک مرکزی اصطلاح ہے جو ایک لفظ ہونے کےباوجود سیاسی آزادی کا وہ پورا تصور جو مغرب نے دریافت کیا بلکہ اس سے بھی بہت آگے کا تصور اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مزید برآں خلافت راشدہ نے اس لفظ کی غیر معمولی اور دلکش عملی تصویر پیش کردی۔ سیاسی آزادی کے تعلق سے اسلام کے موقف کو شوری کے تحت ایک مستقل مضمون میں پیش کیا جائے گا۔
اخلاقی آزادی اور اسلام
اخلاقی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آزادی کے استعمال میں معاشرے کا لحاظ رکھا جائے۔ اور اس لحاظ کا لازمی تقاضاہے کہ قانون سازی کے ذریعے اس کو منظم طریقے سے پابند کیا جائے۔ چنانچہ آزادی کا تقاضا ہے کہ آزادی کی اخلاقیات بھی طے کی جائیں۔ اور آزادی ہی کا تقاضاہے کہ قانون کی بالادستی بھی تسلیم کی جائے۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس سلسلے میں بہت خوب صورت تعلیمات دی ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال قرآن کی اہل ایمان کویہ تلقین ہے کہ ان لوگوں کے معبودوں کو تم برا بھلا مت کہو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ لاعلمی میں اللہ کو برا بھلا کہیں۔ اسی طرح وہ تمام علامتیں اور چیزیں جن کا تعلق کسی قوم کے جذبات سے ہو، آزادی کے نام پر ان کے حوالے سے کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے، اس کے لیے افراد کو اخلاقی طور سے اور سماج کو قانون کے ذریعے اس بات کا پابند بنانا چاہیے۔
آزادی کے لازمی تقاضے
یوں تو آزادی اسلامی شریعت کا لازمی مطالبہ بھی ہے اور شرف انسانی کا لازمی تقاضا بھی ،لیکن آزادی کے سفر کو شروع کرنے کے لئے، غوروفکر کے راستے پر نکلنے کے لیے، سماج اور سیاست کے تعلق سے اپنے کردار کو آزادی کے ساتھ ادا کرنے کے لیے کچھ پیشگی شرطیں (preconditions) بھی ہیں، جن کے بغیر آزادی ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس تعلق سے تین نہایت ہی اہم اور بنیادی شرطیں ہیں ۔ پہلی شرط: انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل۔ کوئی بھی انسان اگر اس کے پاس بھوک مٹانے کو کھانا نہ ہو، پیاس بجھانے کو پانی نہ ہو، رات گزارنے کے لیے کوئی چھت نہ ہوتو اس کے لیے آزادی ایک بے معنی چیز ہوگی۔ چنانچہ انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا انتظام کسی بھی معاشرے کے اجتماعی نظم کے لیے ضروری ہے۔اسی طرح اگر کسی ملک کا دستور وہاں کے شہریوں کو مکمل آزادی دینے کا وعدہ کرتا ہو،لیکن وہاں کی حکومت ان شہریوں کی بنیادی ضروریات کے تعلق سے توجہ نہ دے تو اس دستور میں دی گئی آزادی کا کیا حاصل؟ دوسری اہم شرط: تعلیم کا انتظام۔ تعلیم کے بغیر آزادی اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ تیسری سب سے اہم شرط: عدل وقسط پر مبنی سماج۔ روسو کے مطابق آزادی اسی وقت اخلاقی اور قانونی قدروں کی پابند ہوگی جب سماج عدل پر قائم ہو۔ بصورت دیگر آزادی اپنی اہمیت اور وقار کھونے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
خلاصہ
آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور اس کے انسانی سفر کی پیشگی شرط۔ آزادی کے انسانی سفر میں دو بڑے سنگ میل واضح طور سے نظر آتے ہیں۔ پہلا سنگ میل اسلام کی ابتدا میں دیکھا جا سکتا ہے جب کہ خالق کائنات نے آخری وحی کے ذریعے انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل کی طرح آزادی کے حوالے سے بھی صاف اور مکمل تعلیمات فراہم کردیں۔ دوسرا سنگ میل دور جدید میں انقلاب فرانس یا روشن خیالی میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں عقل کے راستے سے انسانوں نے اپنی آزادی کا راستہ متعین کیا۔ بنیادی طور سے دونوں راستے بڑی حد تک ایک ساتھ ملتے ہیں۔ البتہ مغرب میں وحی کی روشنی واضح نہ ہونے کی وجہ سے آزادی کااصل محرک ،اور اس کے مطالبات، اسی طرح اخلاقیات کے حوالے سے ضروری اقدار، اور پھر آزادی کے معاملے میں انفرادی اور اجتماعی آزادی کے درمیان اعتدالی رویہ وغیرہ جیسے مختلف موضوعات پر واضح طور پر منفی طرز عمل نظر آتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کی نظریاتی اور عملی سطح پر قابل قدر کامیابی پانے کے باوجود، اخلاقی، روحانی اور فلسفیانہ سطح پر ایک بڑا خلا صاف موجود ہے مغربی دنیا میں ۔ دوسری طرف اسلامی دنیا میں تمام تعلیمات کے موجود ہوتے ہوئے بھی نظریاتی اور عملی سطح پر آزادی کے مفہوم اور تقاضوں سے بہت دور اور بہت پیچھے ہیں ۔ یہاں تک کہ عالم اسلام کے بڑے مفکر اور تحریک اسلامی کے بڑے قائد راشد غنوشی کو کہنا پڑا: آج عالم اسلام میں جس چیز کا فقدان ہے وہ یہی آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان مسلم ممالک چھوڑ کر آزادی کی خاطر یوروپ چلے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ ہجرت اسلام سے کفر کی طرف نہیں بلکہ استبداد اور ظلم سے آزادی اور احترام انسانیت کی طرف ہے(الدیموقراطیۃ وحقوق الانسان فی الاسلام، راشد الغنوشی)۔ ■
مصادر ومراجع
الدیموقراطیۃ وحقوق الانسان فی الاسلام، راشد غنوشی
الازمۃ الدستوریۃ فی الحضارۃ الاسلامیۃ، م محمدختار شنقیطی
طبائع الاستبداد ومصارع الاستعباد، عبدالرحمان الکواکبی
لا اکراہ فی الدین، طہ جابر علوانی
الحریۃ والطوفان، حاکم مطیری
ارتداد کی سزا اسلام میں، عنایت اللہ سبحانی
فکر ی وحدت میں آزادی رائے کا کردار، عبد المجید نجار، ترجمہ محی الدین غازی
A Theory of Justice, John Ralws
Machiavelli, Hobbes, and Rousseau by John Plamentaz
Rousseau’s Theory of Freedom, Matthew Simpson
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2020