لبرل ازم سے ہٹلر ازم تک

مغرب نے فلسطین میں نسل کشی کو کیوں روا رکھا؟

7 اکتوبر 2024 کو فلسطین میں خوف ناک جنگی جرائم کو ایک سال مکمل ہوئے۔ جرائم کا سلسلہ اسی شدت کے ساتھ اس کے بعد بھی جاری ہے۔ یہ دراصل نسل کشی کی ایک عملی شکل ہے، ایک اور ہولوکاسٹ کی تیاری ہے جسے براہ راست Live TV پردیکھاجارہا ہے۔ تقریباً 42,000 فلسطینی جن میں نصف سے زیادہ تعدادعورتوں اور بچوں کی تھی، حصار بند کرکے قتل کیے گئے۔[1] قتل عام کا یہ سلسلہ اسی بربریت کے ساتھ تادمِ تحریر جاری ہے۔ یہ گویا آشوٹز (Auschwitz)کی طرز پر قائم کردہ دور جدید کی اجتماعی قتل گاہ ہے جہاں سب کچھ مغربی لبرل اقدار کے تحفظ کے نام پر ہورہا ہے۔ ہمیں آج یہ اہم سوال کرنا چاہیے کہ لبرل ازم اس قسم کی بربریت کی حمایت کیسے کرسکتا ہے اور اس ظلم اور نسل کشی کو کیسے جائز قرار دے سکتا ہے؟

لبرل ازم (Liberalism) دراصل ان مظالم کا طبعی رد عمل تھا جن کا ارتکاب قدیم سلطنتوں اور مذہبی اداروں کی جانب سے کیا گیا۔ اس نے عوام کو بادشاہوں کے خداوندی حق سے آزاد کیا۔ لبرل ازم انفرادی آزادی، دعوت استدلال اور انصاف پسند معاشرے کی بنیادی اقدار پر کھڑا تھا۔ یہ تقریر، مذہب اور فکر کی آزادی دیتا ہے۔ یہ انسانوں کو قطع نظر ان کی حیثیت، دولت اور پس منظر سے مساویانہ برتاؤ کی وکالت کرتا ہے۔ سیاہ ہو یا گورا، امیر ہو کہ غریب، سب برابر ہیں۔ یہ قانون کی حکم رانی اور جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ ان اقدار نے انگلینڈ کی خانہ جنگی، 1688 کے شاندار انقلاب، امریکی اور فرانسیسی انقلابات اور انیسویں صدی کی اصلاحی تحریکوں جیسے سیاسی انقلابات برپا کیے۔

ان بلند اقدار اور عظیم انقلابات جیسے مثبت پہلوؤں سے لے کر ہم آپ کو لبرل ازم کے منفی پہلو کی طرف لے چلتے ہیں۔ اس نظام میں پائی گئی موروثی خامیاں اسی طرح کے مظالم اور نسل کشی کے رجحانات کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ سب سے پہلے ہم لبرل ازم کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

لبرل ازم کی تاریخ

لبرل ازم کی تاریخ کو پانچ مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول کلاسیک لبرل ازم جس کا دور سترہویںسے انیسویں صدی تک رہا۔ اس دوران امریکہ اور فرانس میں عظیم انقلابات برپا ہوئے۔ جون لوک (John Locke) جیسے مفکرین نے جنھیں لبرل ازم کا باوا آدم کہا جاتا ہے، زندگی، آزادی اور خوشحالی جیسے حقوق کے تئیں بحث کی۔[2] اس طرح آئینی جمہوریتیں وجود میں آئیں۔ دوسرا مرحلہ 19 ویں صدی میں صنعتی انقلاب (industrialization) کے ساتھ شروع ہوا، جس دوران معاشی مساوات، مزدوروں کے حقوق وغیرہ سے نمٹنے کے لیے نئے چیلنجز درپیش ہوئے۔ جون اسٹیورٹ مل[3]  (John Stuart Mill) اور ٹی ایچ گرین[4] (T.H. Green) جیسے دانش وروں نے ان مسائل کو حل کرنے میں ایک فعال حکومتی کردار کی وکالت کی اور اس طرح جدید لبرل ازم کا جنم ہوا۔ بیسویں صدی نے اس لبرل ازم کو ایک تیسرے مرحلے میں منتقل کیا جس میں فاشزم، کمیونزم اور عالمی جنگوں جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور بین الاقوامی تعاون کی اقدار اسی دوران ظاہر ہوئیں۔ ان اقدار کا مقصد دنیا میں انصاف کا قیام تھا تاہم اگلے مراحل میں یہ زوال پذیر ہونے لگا۔ نو لبرل ازم اس کا چوتھا مرحلہ تھا۔ یہ نظام آزاد منڈیوں(Free Market)، نجی کاری (privatization)، تنظیمی بندشوں سے آزادی (deregulation) اور ریاستی رول میں کمی (reduced role of the state) پر زور دینے سے وجود میں آیا۔ انسانی حرص ولالچ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور مالیاتی تنظیموں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے اس کا استحصال کیا جارہا ہے جو محروم انسانوں کی جان اور خون چوسنے لگے ہیں۔ آخری مرحلہ اکیسویں صدی کا لبرل ازم ہے جسے پاپولزم (Populism)، آمریت (authoritarianism)، عالمی عدم تحفظ اور عدم مساوات جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

’’The history of liberalism is a tale of gradual moral decline. Once it was a philosophy of liberty; today it is merely a mask for power. ‘‘

— John Gray, False Dawn: The Delusions of Global Capitalism (1998)

اس سے پہلے کہ ہم اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھائیں، آئیے ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ ہٹلر ازم (Hitlerism)کیا ہے؟

ہٹلر ازم کیا ہے اور یہ لبرل ازم پر کیوں کر غالب ہوا

ہٹلر ازم جرمن نازی حکومت کی آئیڈیا لوجی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ اصطلاح فاشزم کی ایک انتہا پسند شکل ہے۔ دوسری اصطلاحات جیسے نازی ازم یا قومی سوشلزم سرحدی تحریک پر دلالت کرتی ہیں جہاں یہ پھلی پھولی اور نشونما پائی۔ اس نے نسلی قوم پرستی (racial nationalism) کا نعرہ دیا جس کی جڑیں آریائی نسل و خون کی برتری، مطلق العنانیت اور سام دشمنی میں پیوست ہیں۔ یہ نظریہ جرمن قوم کے لیے قابل رہائش مقام (Lebensraum) بنانے کا داعی تھا۔ [5] ہٹلر کے اقتدار میں آجانے کے بعد یہ نظریات حقیقت کے روپ میں ڈھلنے لگے اور باضابطہ گورنمنٹ اور اداروں کی پالیسی کا حصہ بننے لگے۔ اس کی وجہ سے جارحانہ توسیع پسندی(aggressive expansionism) ، عسکریت پسندی (militarization) اور بالآخر ہولوکاسٹ (Holocaust) وقوع پذیر ہوا۔

ہٹلر ازم ایک ایسی طاقتور پیش رفت تھی کہ اس کی گونج دنیا کے کونے کونے میں سنائی دی۔ آریائی احیا نے ہندوستانی ہندوتو میں بھی مناسب جگہ پائی۔ ساوتری دیوی ہندوستان میں ہٹلر کی بڑی پرستار تھیں اور ہندوستان میں نو نازی ازم کی مشعل بردار بھی۔ انھوں نے (Hitlerism and Hindudom) کے عنوان سے مضمون لکھا تھا جسے R.G. Fowler کے ذریعے ترمیم کرکے دی نیشنل سوشلسٹ (The National Socialist) میں Hitlerism and the Hindu Worldکے نام سے شائع کیا گیا، اگرچہ اس کا اصل عنوان Hitlerism and Hindudom ہی تھا۔

ساوتری دیوی ہٹلر اور نازی ازم کی تبلیغ کے مقدس مشن پر تھیں۔ یہ ناتواں اور ضعیف خاتوں، آریائیوں کے احیا کی پیغامبر، ہٹلر کے کائناتی مقصد کی نمائندہ اور دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن سلطنت کے کھنڈرات کی قاصدہ، کلکتہ اور دہلی میں برسوں تک غربت اور گمنامی کی زندگی گزارتی رہیں۔ نومبر 1978 میں آریائی مشن کے لیے وقف کردہ ایک طویل زندگی کے اختتام پر، انھیں ایک نیا پبلشر مل گیا۔ 1982 کے اواخر میں ٹورنٹو میں neo-Nazi Samisdat Publishers کے بانی ومالک ارنسٹ زنڈیل (Ernst Zundel)نے ساوتری دیوی کے ساتھ براہ راست انٹرویو کیا، دو دو گھنٹے کی پانچ کیسٹوں کے سیٹ اور اس کے علاوہ ( The Lightning and the Sun 1958)کا بالکل نیا ایڈیشن شائع کیا۔[6] اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہٹلر ازم کی اپیل کس قدر وسیع تھی۔ آج ہمیں یہ جاننے اور اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ یہ انتہا پسندانہ نظریات کیونکر لبرل ازم میں داخل ہوئے اور دنیا بھر میں اسلامو فوبیا اور خاص کر فلسطین میں نسل کشی کو ہوا دے رہے ہیں۔

لبرل ازم کے آزادی کے تصور میں سب سے بڑی خامی اس کا قدرت سے الگ تھلگ ہونا اور تخیل پر انحصار (reliance on the abstract) ہے۔ مغربی فلسفہ ا ٓزادی عام طور پر آزادی کو فطرت اور جسمانی بدن سے کنارہ کشی کے مفہوم میں دیکھتا ہے۔ اس کے تصورات تجریدی اور فطرت سے دور ہیں[7] جن پر معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس کے لیے جسم یا مادے کی وساطت سے طبعی تعلق قائم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو تصورات دماغ میں محض اپج کی حیثیت رکتے ہیں جو ہوسکتا ہے مثالی اور جذباتی ہوں لیکن عملا ناقابل اعتبار ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہاں ایک خلاء تھا جسے پُر کیا جانا تھا اور اور ہٹلرازم نے اسے پُر کردیا۔ اس نے وجود اور مادی دنیا کے درمیان ربط فراہم کیا۔ اس نے انسانی وجود اور مادی دنیا کے تئیں ابھرتے سوالات کے جوابات دیے۔ لبرل ازم کی یہی سب سے بڑی خامی ہے کہ وہ انسانوں کو تجریدی ہستیوں کے طور پر دیکھتا ہے، اس طرح کہ وہ طبیعیات سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں ۔ اس طرح یہ تصور آزادی خودی کی ناقص تفہیم کا باعث بنتا ہے۔ طبعی وجود کو نظر انداز کرنے کی بنا پر یہ تصور آزاد ہونے کے حقیقی معنی مسخ کرکے رکھ دیتا ہے۔

تجریدیا تجسید کی اس فلسفیانہ پیچیدگی کو واضح کرنے کے لیے مروجہ جدید طبی طریقہ علاج کی مثال دی جاتی ہے ۔یہ طریقہ مجموعی جسمانی تعامل کا تجزیہ کیے بغیر ظاہری علاماتی سطح پر بیماری کے علاج پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ اس نقطہ نظر میں بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں انسان کی مجموعی بہبود (holistic bodily experience)کے تئیں جسم کے بنیادی کردار کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح تجریدی تصورات کا خیال انسانی تخلیق ووجود کی ٹھوس طبعی حقیقتوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ لبرل ازم کے انفرادی حقوق کے تصور نے لوگوں کو سماجی تنہائی کا شکار بنا دیا اور انسانی وجود کے تصورات کو منقطع کر دیا۔

فرانسیسی انقلاب کا تثلیثی نعرہ ’’آزادی، مساوات اور بھائی چارہ‘‘[8] تھا۔ یہ وہ نظریہ تھا جس پر مغربی معاشرے کی تشکیل ہوئی، لیکن لبرل ازم نے اس معاشرے میں بھائی چارے کے فروغ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ لبرل ازم نے آزادی اور مساوات کے فروغ پر تو زور دیا لیکن بھائی چارے کی اہمیت کو کمتر کردیا جو ایک ایسی قدر ہے جس کے ذریعے انسان اپنے وجود کے معنی کو پاتا ہے۔ اس قدر کو سیاسی فریم ورک میں بقیہ دو اقدار کے ماتحت کردیا گیا، جس سے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ ہٹلرازم نے اس خلاکو پر کیا اور بھائی چارے کو اعلیٰ ترین سیاسی اصول کے طور پر فروغ دیا۔ لیکن اس بھائی چارے کی تعریف نسبی و نسلی یکجہتی سے کی گئی تھی۔ اسے قوم پرستی کے ساتھ بہم آمیز کرکے عوام کو پیش کیا گیا۔ لبرل ازم کے بھائی چارے کے تجریدی تصور کا حقیقت یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لبرل ازم نے بھائی چارہ کو ایک ریاستی قومیت کا پابند بنا دیا جس کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے سے مربوط ہونے اور یکجہتی کے لیے کسی وسیلہ کی ضرورت پیش آگئی۔ ہٹلر ازم نے اس کی دوبارہ تشریح کی اور باور کرایا کہ وہ وسیلہ نسلی توحّد ہے جس کا تعلق نسب و نسل سے ہے۔ ان خیالات نے قومی تعمیر کے منصوبے کے تحت لبرل معاشروں کے ساختی عناصر کو تشکیل دیا۔

ان مغربی لبرل معاشروں میں نسل، مذہب یا نسب کی بنیاد پر سماجی اخراج کے بنیادی میکانزم کے طور پر زینوفوبیا (Xenophobia) اور سام دشمنی (Anti-Semitism)پائی جاتی تھی۔ 1894کو فرانس میں معروف ڈریفس کے قضیہ (Dreyfus Affair) نے سر اٹھایا جس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ یہ میکانیزم کس طرح کام کرتا ہے۔ ایک یہودی فرانسیسی فوجی افسر الفریڈ ڈریفس (Alfred Dreyfus) پر جرمن فوج کو عسکری راز افشا کردینے کا الزام لگایا گیا اور ثبوت کی کمی کے باوجود اسے شیطانی جزیرے (Devil‘s Island)میں قید وبند کی سزا سنادی گئی جو گوانتانامو بے جیسی بدنام زمانہ جیل تھی۔ آخر کار سچ سامنے آیا اور وہ بے گناہ ثابت ہوا اور پتہ چلا کہ اصل مجرم کوئی اور افسر تھا جس کی فرانسیسی فوج اور حکومت نے پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعہ نے فرانسیسی معاشرے میں گہری خلیج حائل کردی جس کے ایک طرف ڈریفس کے حمایت کرنے والے تھے اور دوسری طرف اس کے مخالف۔ اس واقعہ نے قوم پرستی کی آڑ میں پنپ رہی بڑے پیمانے پر سام دشمنی، ناانصافی اور نسل پرستی کو بے نقاب کیا۔[9]

لبرل ازم کے سماجی اخراج کے تعامل کی وجہ سے جنم لینے والی اس سام دشمنی کا ہٹلر ازم نے فائدہ اٹھایا اور قوم پرستی کو بڑھاوا اور نسل کشی کو فروغ دیا اور ان انسانوں کو نشانہ بنایا جو بھائی چارے کی اس تعریف کے دائرے سے باہر تھے۔

اسرائیل ہو یا ہندوستان، دونوں میں میکانیزم اور اساس ایک ہی ہیں: مسلمانوں کے لیے انفرادی حقوق، آزادی یا انصاف نہیں ہے۔ یہی زینو فوبیا (Xenophobia) ہے۔ یہ فلسطین میں جدید ہولوکاسٹ کا غماز ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قوم پرست ہندو اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرنے لگے ہیں۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ریپبلکن، امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی مکمل سرپرستی لبرل مغرب کے اندر پنہاں ہٹلر ازم کو بے نقاب کرتی ہے۔

لبرل ازم، اسلامو فوبیا اور فلسطین میں جاری نسل کشی

صنعتی انقلاب، یوروپ کی نشاة ثانیہ اور امریکی وفرانسیسی انقلابات نے لبرل فکر کی راہیں ہم وار کیں تو مذہبی محاذ پر اس سے دو الگ قسم کی تصوراتی شکلیں سامنے آئیں۔ ایک سیکولر نظریہ یعنی چرچ اور ریاست کے دائرہ کار کی علیحدگی، دوسرا داخلی مذہبی محاذ، یعنی پروٹسٹنٹ کی اصلاحی تحریک۔ اس مذہبی تبدیلی کا آج کی حرکیات میں اہم رول ہے۔ یورپ کم و بیش کیتھولک تھا، دوسری طرف امریکہ پروٹسٹنٹ تھا اور ان انقلابات نے ایک نئی تبدیلی کا عندیہ دیتے ہوئے لبرل اقدار پر استوار معاشرہ تشکیل دیا۔ ان اقدار کو کسی بھی خطرے یا دشمن کی چالوں سے محفوظ اور مامون رکھنے کی ضرورت تھی۔ ایسے کسی بھی خطرے کو عفریت (Monster)کا نام دے دیا جاتا ہے۔ چناں چہ امریکی نفسیات عفریت (Monster)کے تئیں تشہیر و ترویج کی عادی ہوگئی ہے۔ ایسی کوئی بھی طاقت جو ان کی اقدار اور ثقافت کو خطرے میں ڈال دے اسے اس جدید مرکز قوت کے لیے عفریت سمجھا گیا۔

1800 میں، برطانیہ اور آئرلینڈ میں Catholic Emancipationکی تحریک نے جنم لیا جس میں کیتھولک کو ایک خطرہ اور لبرل پروٹسٹنٹ اقدار کے خلاف ایک چیلنج کے طور پر دیکھا گیا۔ اس عفریت کا اتنا اثر ہوا کہ 1855 میں کیتھولک پر الیکشن کے دوران ووٹنگ میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے اور اس کے ساتھ فسادات اور خونریزی شروع ہوگئی۔ اسے ’’Bloody Monday ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونزم کو عفریت تسلیم کرلیا گیا۔ آج مسلمان ہیں جو لبرل اقدار کے لیے عفریت بنے ہوئے ہیں۔ یہی مغرب میں اسلامو فوبیا کی بنیاد ہے۔ آج مغرب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسی عفریت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ لبرلوں نے مسلمانوں کے خلاف بربریت کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک کوڈ ورڈ اسلام ازم (Islamism) وضع کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لبرل جو اپنے ملکوں میں بڑے روادار ہوتے ہیں وہ مسلم ممالک پہنچ کر ظالم وحشیوں کا روپ اختیار کرلیتے ہیں۔ آج مغرب کی داخلی کام یابی کا دارومدار غیر لبرل خارجہ پالیسی پر ہے۔ جس کے نتائج امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (CIA) کے منظم کردہ 1953 میں ایران، 1963 میں عراق، 1965 میں انڈونیشیا کے خونی انقلابات، ویتنام میں بڑے پیمانے پر جارحیت، گیارہ ستمبر 9/11 کے بعد افغانستان وعراق کی تباہی، مشرق وسطیٰ میں سیاسی اشرافیہ کی بربادی اور اب فلسطین میں مکمل نسل کشی کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔

ہانا آرینڈ (Hannah Arendt) کی کتاب [10] The Origins of Totalitarianism آمریت کے تئیں لبرل بنیادوں پر تجزیہ کرتی ہے۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے جسے مختلف مراحل میں لکھا گیا اور بعد میں ایک جلد میں شائع کیا گیا۔ اس کی پہلی اور دوسری جلدیں 1943 سے 1946 کے درمیان لکھی گئی تھیں، ان میں نازی ازم یا ہٹلر ازم کے تین اسباب وعلتوں کا تجزیہ ہے: یوروپی نوآبادیات، سام دشمنی اور جنوب امریکی نسل پرستی۔ اس کتاب کی تیسری جلد 1951 میں مکمل سیریز کی اشاعت سے پہلے لکھی گئی تھی۔ اس آخری جلد میں اس کا طریقہ تجزیہ اور توجہ کی مرکزیت بالکل بدل گئی ہے۔ یہاں مصنف کی ساری توجہ نازی ازم سے سوویت یونین، نسل پرستی سے مارکسزم، آشوٹز (Auschwitz) سے گلاگ (Gulag) اور آخرکار فاشزم سے کمیونزم کی طرف منعطف ہوگئی ہے۔[11] یہاں مغرب کو عفریت کا روپ دھارنے کے لیے پچھلے دروازے سے راستہ فراہم کیا گیا ہے۔ آج اس کتاب کے جدید قارئین اور اسکالر تیسری جلد کا بہت حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ خود لبرل غیر لبرل بن گیا۔ مصلح فاشسٹ بن گیا اور جمہوریت پسند بت پسند بن گیا۔

1984 میں بنیامین نیتن یاہو نے جو اس وقت اقوام متحدہ کا مستقل نمائندہ تھا، کانفرنس میں مضامین کا ایک مجموعہ پیش کیا جس کا عنوان تھا (Terrorism, How the West Can Win)۔ 1986 میں اسی کانفرنس کے مقالوں کو پڑھنے کے بعد رونالڈ ریگن نے لیبیا پر حملہ کردیا۔ دونوں واقعات کے درمیان تعلق صاف اور واضح طور پر نظر آتا ہے۔ لبرل ازم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں کہ اس کی پوزیشن پرتشدد سیاسی تنازعات کو ہوا دینے والے کے طور پر ہے، یا پھر اس امر کے تئیں مغربی خارجہ پالیسی کو مورد الزام ٹھہرادیا جاتا ہے۔ مغرب کے سیاسی رواداری کے نعرے نے لبرلوں کو ظاہری طور پر معصومیت کی جھلک دیدی ہے، جو شیطانیت سے دفاع کے نام پر اپنے نظریات اور طرز عمل کو جانچ پڑتال سے بچائے رکھتے ہیں۔

کارل پاپر (Karl Popper) جیسے مفکرین اس وحشیت کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کی کتاب The Logic of Scientific Discovery [12]سائنس اور اس میں استثنائی قوانین پر مبنی ہے۔ اس میں وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ استثنا حقیقی سائنس اور مابعد الطبیعات کے درمیان فرق ہے۔ وہ اس سائنسی فریم ورک کو اپنے سیاسی موقف کی وضاحت کے لیے استعمال کرتا ہے کہ لبرل معاشروں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ رواداری کے اپنے اصولوں کو کب توڑنا ہے۔ اور جب ان لبرلوں کو آمرانہ نظریات کے خلاف مدافعت کرنا پڑتی ہے تو یہ استثنا ان کا معمول ہوتا ہے۔ مغربی لبرل اقدار کے تحفظ کے نام پر بدترین مظالم کا ارتکاب کرنا ایک تاوان ہے جسے انھیں ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ آج مغربی حکومتوں کا مستقلا ایک عام معمول بن چکا ہے۔

’’The link between belief and behavior raises the stakes considerably. Some propositions are so dangerous that it may even be ethical to kill people for believing them … If they cannot be captured, and they often cannot, otherwise tolerant people may be justified in killing them in self-defense. This is what the United States attempted in Afghanistan, and it is what we and other Western powers are bound to attempt, at an even greater cost to ourselves and to innocents abroad, elsewhere in the Muslim world. We will continue to spill blood in what is, at bottom, a war of ideas.‘‘ (Sam Harris, The End of Faith.)

’’یقین اور رویے کے درمیان تعلق خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ کچھ نظریات اتنے خطرناک ہیں کہ ان پر یقین رکھنے والوں کو مارنا اخلاقی طور پر جائز ہو سکتا ہے… اگر انھیں قابو نہیں کیا جا سکتا اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، تو دیگر برداشت کرنے والے لوگوں کے لیے یہ جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں انھیں مار دیں۔ یہی کچھ امریکہ نے افغانستان میں کرنے کی کوشش کی اور یہ وہی بات ہے جو ہم اور دیگر مغربی طاقتیں مسلم دنیا میں، یہاں تک کہ اپنے اور بے گناہوں کے لیے زیادہ قیمت چکاتے ہوئے، کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم آئیڈیاز کی ایک جنگ میں خون بہاتے رہیں گے۔‘‘

چناں چہ وہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے رہیں گے، خواتین اور معصوم بچوں پر بدترین مظالم ڈھانے کے لیے لاکھوں کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ کرتے رہیں گے۔ اسرائیل اور مغرب کو پروپیگنڈا کرنے کے لیے یہ دعوی کرنا آسان ہے کہ فلسطینی مزاحمت اپنے اسلام پسند نظریے کی بنا پر انتہا پسند ہے اور اس لیے اسے پوری طاقت سے کچلنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کی سیاسی مزاحمت کو دہائیوں سے جاری اسرائیلی فوجی قبضے کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن فلسطینیوں کے خلاف عدم برداشت اور تشدد کا یہ جواز ایک پچھلا دروازہ ہے جس کے ذریعے جبر وتشدد بآسانی مغربی معاشروں میں در انداز ہوتا ہے۔ یہ آزاد معاشرہ خود اپنا ہی دشمن بن چکا ہے۔ لبرل ازم آج کل جنگ اور نسل کشی کا اعلامیہ بن چکا ہے۔ اس کا ازلی دشمن وہ ہے جو نظریاتی طور پر اس کا مخالف اور نسلی وثقافتی طور پر اس سے مختلف ہو۔

’’Hitlerism becomes one of the ways in which liberalism pays for its distorted sense of priorities. ‘‘

(Reflections on the Philosophy of Hitlerism 1934)

’’ہٹلرزم ایک طریقہ بن جاتا ہے جس میں لبرلزم اپنی غلط ترجیحات کی قیمت چکاتا ہے۔‘‘

حوالے

[1] https://www.aljazeera.com/gallery/2024/10/7/a-year-of-israels-devastating-war-ongza’text=Nearly%2042%2C000%20Palestinians%20killed%2C%20more,year%20of%20Israel’s%20genocidal%20war.

[2] Locke, J. (1988). Two treatises of government. Cambridge University Press. (Original work published 1690).

[3] Mill, J. S. (2010). On liberty. Penguin Classics.

[4] Green, T. H. (2011). Lectures on the principles of political obligation. In R. L. Nettleship (Ed.), The works of Thomas Hill Green. Cambridge University Press.

[5] Hitler, A. (2016). Mein Kampf (C. Hartmann, Ed.). Institut für Zeitgeschichte.

[6] Goodrick-Clarke, N. (1998). Hitler‘s priestess: Savitri Devi, the Hindu-Aryan myth, and neoNazism (p. XX). New York University Press.

[7] Levinas, E. (1990). Reflections on the philosophy of Hitlerism. Critical Inquiry, 17(1), 62-71.

[8] Doyle, W. (1989). The Oxford History of the French Revolution. Oxford University Press.

[9] Birnbaum, P. (1994). The Dreyfus Affair: A National Scandal. Sage Publications.

[10] Hannah Arendt, The Origins of Totalitarianism, New York: Meridian Books, 1958

[11] Kundnani, A. (2014). The Muslims Are Coming!: Islamophobia, Extremism, and the Domestic War on Terror. Verso Books.

[12] Popper, K. (1959). The Logic of Scientific Discovery. Hutchinsona

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223