جمود و تقلید سے تحقیق وتخلیق تک

تعارف

تاریخ انسانی میں وہ معاشرے جو تہذیبی میدان میں عروج حاصل کرتے ہیں، اپنے سفرِ عروج کے دوران عام طور پر علم کی سرگرم جستجو اور نمایاں فکری ترقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاہم عروج حاصل کرنے کے بعد یہ معاشرے اپنی کام یابیوں کو محفوظ کرنے پر توجہ مرکوز کر لیتے ہیں، ناقدانہ فکری تحقیق سے دور ہو جاتے ہیں اور پہلے سے موجود علم پر زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ انحصار جمود کی طرف لے جاتا ہے۔ ناقدانہ طرزِ فکر سے روایتی انحصار تک اور بالآخر جمود تک پہنچنے والا یہ سلسلہ تہذیبوں کے تئیں ایک مستقل منظرنامہ رہا ہے۔

مسلم تہذیب کا فکری سفر اس کی غور طلب مثال پیش کرتا ہے کہ ایک عظیم معاشرہ عروج پر پہنچنے کے بعد کس طرح طویل عرصے تک جمود کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسلام کا زریں دور تاریخ کے سب سے قابلِ ذکر ادوار میں سے ایک ہے، جو تحقیق، تخلیقیت اور دریافت کے عروج کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس دور میں علما نے قرآن میں غور و فکر اور تدبر کی تلقین و تاکید سے تحریک پا کر ریاضی، طب، فلکیات اور فلسفہ جیسے مختلف شعبوں میں بے مثال ترقیاں کیں۔ اسلامی علما نے نہ صرف یونانی اور فارسی روایات کے کلاسیکی علم کو محفوظ رکھا بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا، جس سے ایسا علمی ورثہ تخلیق ہوا جس نے پوری دنیا پر اپنا اثر ڈالا۔ علم کی اس پیش قدمی نے تہذیبی شناخت میں اہم کردار ادا کیا، جدت طرازی کو فروغ دیا اور عالمِ اسلام اور باقی دنیا کے مفکرین کی نسلوں کو متاثر کیا۔

تاہم، تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی تہذیب چاہے فکری طور پر کتنی ہی متحرک کیوں نہ ہو، اپنی رفتار کو ہمیشہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ دیگر عظیم معاشروں کی طرح، عالمِ اسلام بھی بتدریج سرگرم تحقیق سے کنارہ کرکے روایتی علم اور وراثت کے تحفظ کی طرف متوجہ ہونے لگا۔ وہ فکری تجسس جو کبھی انقلابی دریافتوں اور فلسفیانہ ترقیوں کی تحریک دیتا تھا، مدھم ہونے لگا۔ حقیقت کی آزادانہ تلاش کے بجائے، موروثی ڈھانچوں کی پاس داری اور مروجہ حکمت کی برقراری پر زور بڑھنے لگا۔ علم نو بہ نو دریافت کے بجائے قدیم کی حفاظت کی شکل اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں اس تنقیدی دل چسپی کے کلچر میں بتدریج کمی آئی جس نے کبھی تہذیب کے خدوخال تشکیل دیے تھے۔

ابن الہیثم اور رینی دیکارت کے اثرات

ابتدائی اسلامی مفکرین، مثلاً سائنس داں ابن الہیثم، قرآن کی علم کے ساتھ سرگرم اور تنقیدی انگیجمنٹ کی تاکید سے گہرے طور پر متاثر تھے، جس نے تحقیق کے طریقوں اور منطقی سوچ کی تشکیل کی۔ بعد میں مغرب میں رینی دیکارت نے تدبر کی صلاحیت کو انسانی وجود کی اصل سے جوڑا۔ ’’بصریات کے بانی‘‘ ابن الہیثم نے گیارہویں صدی میں روشنی، بصریات اور ادراک پر اپنے انقلابی کام کے ذریعے سائنسی فہم میں انقلاب برپا کیا، جس نے جدید بصریات اور تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے روایتی عقائد کو چیلنج کرنے اور صداقتوں کو آشکار کرنے کے لیے منظم تجربات کے استعمال پر زور دیا۔ ان کا مشہور مقولہ، ’’اگر کسی کا مقصد صداقت کو پاناہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ جن سائنس دانوں کی تحریروں کا مطالعہ کرے، ان سب کا دشمن بن جائے،‘‘ ناقدانہ طرزِ فکر کی اصل کو بیان کرتا ہے۔ یعنی علم کے ساتھ گہرائی سے انگیج ہونا، خیالات کو ہر زاویے سے چیلنج کرنا، جانچنا، پڑتال کرنا اور تجزیہ کرنا۔ ابن الہیثم کے طریقہ کار نے شک، منطق اور مشاہدے کے ذریعے صداقت کی بے انتہا جستجو کو فروغ دیا۔ اس چیزنے سائنسی طریقہ کار کی بنیاد رکھی اور اسکالروں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا، نیز مغربی نشاة ثانیہ کی راہ ہم وار کی۔

ابن الہیثم کے سات صدیوں بعد، سترہویں صدی کے فرانسیسی فلسفی اور ریاضی داں رینی دیکارت جدید فکر میں ایک مرکزی شخصیت کے طور پر ابھرے۔ ’’جدید فلسفے کے بانی‘‘ کے لقب سے مشہور، دیکارت نے روایت کے بجائے عقل پر مبنی علم کی بنیاد تلاش کی۔ اپنے تصور ’’بنیادی شک‘‘ کے ذریعے، انھوں نے سب سے ظاہر عقائد تک کو چیلنج کیا، حسی ادراکات اور مادی دنیا پر سوالات اٹھائے تاکہ غیر یقینییت کو دور کر کے قطعی صداقت تک پہنچا جا سکے۔

اس سخت تجزیے نے ان کے مشہور قول cogito, ergo, sum یعنی ’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں‘‘ کی طرف رہ نمائی کی۔ دیکارت کے لیےسوچنے کا عمل وجود کا ناقابلِ تردید ثبوت تھا۔ گویا باقی سب کچھ مشکوک ہو سکتا ہے، مگر غوروفکر کی صلاحیت ایک باشعور نفس کے وجود کا اثبات ہے۔ یہ خیال جدید فلسفے کا سنگ بنیاد بن گیا، جس نے واضح کیا کہ عقل اور غور و فکر انسانی شناخت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتےہیں۔

دیکارت نے زور دیا کہ ہماری موجودگی محض جسمانی وجود سے نہیں بلکہ سوچنے اور تحقیق کی صلاحیت سے متعین ہوتی ہے۔ ان کا اثر فلسفے تک محدود نہیں رہا بلکہ نسلوں کو یہ سکھاگیا کہ ناقدانہ طرزِ فکر اور منطقی استدلال کسبِ علم کے لیے لازمی ہیں۔ ان کی خدمات نے سائنسی اور فلسفیانہ ترقی کی بنیاد رکھی، اس بات کی تصدیق کی کہ حقیقی فہم فعال، طرزِ فکر سے پیدا ہوتاہے، نہ کہ انفعالی قبولیت سے۔

ابن الہیثم اور دیکارت نے جو خیالات پیش کیے ان سے قرآن کے علم کے ساتھ گہرے رشتہ کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن حکیم فعال طرزِ فکر، علمی سختی اور فہم کی بے انتہا جستجو کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ایسا ذہنی رویہ ہے جو ان معاشروں کے لیے لازمی ہے جو ناقدانہ طرزِ فکر اور تحقیق کی راہوں سے ترقی پر گامزن ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔

مفکرین کی اقسام اور قرآن کا نقطہ نظر

قرآن مختلف قسم کے سوچنے والوں کا ذکر کرتا ہے اور علم کے تئیں ان کے رویوں کو بیان کرتا ہے کہ یہ معاشرتی ترقی اور عروج کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ ناقدانہ تجزیہ، غور و فکراور فہم کسی بھی ترقی پذیر معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن میں ناقدانہ طرزِ فکر کے حاملین کو ایسے اہلِ عقل کہاگیا ہے جو علم کی تلاش میں سرگرداں اور سیکھنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سطحی حقائق سے آگے جاکر صداقت کی تلاش کرتے ہیں۔ قرآن کہتاہے:

’’بے شک، آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘(سورہ آل عمران، 3: 190)

قرآن غور و فکر اور تدبر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کائنات کے مشاہدے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس، روایتی طرزِ فکر کے حاملین پہلے سے موجود علم اور روایات پر انحصار کرتے ہیں اور تبدیلی کے بجائے تسلسل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ طریقہ تاریخ و ثقافت کو محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن قرآن حکیم سوال کیے بغیر کورانہ تقلید اور جامد قبولیت کے خلاف خبردار کرتا ہے:

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کہتے ہیں، ‘ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔’ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہوں؟‘‘(سورہ البقرہ، 2: 170)

یہ آیت ناقدانہ تجزیہ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ورثے میں ملے علم کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے پر زور دیتی ہے۔ وہ لوگ جو کسی گہرائی میں جائے بغیر معلومات کو قبول کر لیتے ہیں، قرآن ان کے بارے میں خبردار کرتا ہے کہ ان کے ’’دل تو ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے‘‘ اور یہ بات ترقی اور فہم کے مواقع کے ضیاع کی علامت ہے:

’’ان کے دل ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور ان کے کان ہیں جن سے وہ نہیں سنتے۔ وہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘(سورہ الاعراف، 7: 179)

یہ آیت قرآن کے علم کے ساتھ فعال انگیجمنٹ کی دعوت اور غیرفعالیت کے خطرات کی نقاب کشائی کرتی ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ مجموعی طور پر، یہ تعلیمات تمام قسم کے غورو فکر کرنے والوں کو فہم، غور و فکراور نئے خیالات کے لیے کھلے پن سے اپنا حصہ شامل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، جس سے ایک ایسی معاشرت کی ترویج ہوتی ہے جو تنقیدی سوچ، موافقت اور لچک پر مبنی ہو۔

مختلف طرز ہائے فکر کی جستجو

مختلف طرزِ فکر کی وضاحت کے لیے، ہم ایک تمثیل استعمال کر سکتے ہیں جس میں تین گروہوں کو ایک گھنے جنگل اور ایک طوفانی دریا کا سامنا ہوتا ہے جو ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہوتا ہے۔ یہ دریا ایک بڑی مشکل کی علامت ہے اور ہر گروہ کا اس کا سامنا کرنے کا طریقہ ان کی منفرد سوچنے اور مسئلہ حل کرنے کی حکمت عملیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ تنقیدی مفکرین رکاوٹوں کو جدت اور دریافت کے مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ روایتی مفکرین ثابت شدہ طریقوں اور ماضی کے تجربات پر انحصار کرتے ہیں اور کم سے کم تبدیلی کے ساتھ روایتی راستوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ انفعالی مفکرین مشکلات کو مایوسی کے ساتھ دیکھتے ہیں، انھیں ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں اور اپنی ترقی کی صلاحیت کو محدود کر لیتے ہیں۔ یہ تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ہر طرزِ فکر زندگی کے نتائج اور راستوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔

تنقیدی مفکرین (تخلیقی اور آگے بڑھنے والے)

اس تمثیل میں گروپ الف کاتصور کریں جو کسی گھنے جنگل میں سفر کر رہا ہے اور اس کی راہ میں ایک ناپیدا کنار، تیز رو دریاحائل ہے۔ اس کو ناقابلِ عبور رکاوٹ سمجھنے کے بجائے، وہ اسے تخلیقی مسئلہ حل کرنے کی تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پہلے وہ ماضی کے علم پر انحصار کرتے ہیں لیکن جلد ہی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ناکافی ہے، کیوں کہ ان کے پیش روؤں نے کبھی اس طرح کے دریا کا سامنا نہیں کیا تھا۔ روایت کو احترام کے ساتھ ایک طرف رکھتے ہوئے، وہ اپنے گردو پیش کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے آس پاس لکڑیاں، بیلیں اور پتھر دیکھتے ہیں۔ جستجو اور تجسس سے کام لے کر وہ تجربہ کرتے ہیں، ایک پل بناتے ہیں اور کام یابی کے ساتھ دریا پار کر جاتے ہیں۔ اس طرح آئندہ مسافروں کے لیے یہ راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ عمل تنقیدی مفکرین کی نمائندگی کرتا ہے جو چیلنجوں کو ترقی کے مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور ایسا منفرد حل تلاش کرتے ہیں جو بڑی کنٹری بیوشن کا باعث ہوتا ہے۔

قرآن غور و فکر اور جستجو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، افراد کو اپنے ماحول کے ساتھ گہرائی سے مشغول ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس طریقہ کار کی بازگشت ان آیات میں سنائی دیتی ہے: ’’بے شک، آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘(سورہ آل عمران، 3: 190) اور ’’کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟‘‘(سورہ محمد، 47: 24)۔ یہ آیات مشاہدہ اور غور و فکر کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں—وہ خصوصیات جنھیں تنقیدی مفکرین دنیا کو سمجھنے کی کوشش کے لیے اپناتے ہیں۔

روایتی مفکرین (علمی مگر محدود سوچ رکھنے والے)

گروپ B دریا کا محتاط انداز میں سامنا کرتا ہے، ان تجربات پر انحصار کرتا ہے جو دوسروں نے اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کیے تھے۔ دریا کو تخلیقییت آزمانے اورتخلیقی عمل سے مسئلہ حل کرنے کے موقع کے طور پر دیکھنے کے بجائے، وہ سختی سے روایتی طریقوں پر عمل کرتے ہیں اور ماضی کی حکمت عملیوں کو دریا کی منفرد خصوصیات کو مدنظر رکھے بغیر، دہراتے ہیں۔ کئی ناکام کوششوں کے بعد، وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ دریا ناقابلِ عبور ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اپنا وضع کردہ طریقہ بدلنےسے وہ کام یاب ہو سکتے تھے۔ ان کا روایت پر انحصار انھیں نئے حلوں کی تلاش سے روکتا ہے، یوں وہ بہتر راستہ تلاش کرنے کا موقع کھو دیتے ہیں۔

اس حوالے سے درج ذیل آیت غیرناقدانہ انداز میں روایات کی پیروی کے خلاف متنبہ کرتی ہے:

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو وہ کہتے ہیں، ‘ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔’چاہے ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں، نہ سیدھے راستے پر ہوں؟‘‘(سورہ البقرہ، 2: 170)

انفعالی مفکرین (غیر متحرک اور غیر عکاس)

گروپ C دریا کو ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ ممکنہ حل تلاش کرنے کے بجائے، وہ لوگ جلدی سے شکست تسلیم کر لیتے ہیں اور وہیں رہ جاتے ہیں۔ نہ کوئی تجسس ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہی جدت کی کوشش۔ ان کی اصل رکاوٹ ان کی سوچ میں ہے، کیوں کہ وہ کوشش کے بجائے عدم فعالیت کا انتخاب کرتے ہیں، ترقی یا تبدیلی کا ہرموقع گنوا دیتے ہیں۔

درج ذیل آیت اس علمی و روحانی جمود کو بیان کرتی ہے اور دنیا کی نشانیوں کو نظرانداز کرنے اور ان کے ساتھ تحقیق و تخلیق کا تعلق نہ رکھنے کے خلاف خبردار کرتی ہے:

’’ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ مویشیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ۔‘‘(سورة الاعراف، 7: 179)

یہ آیت بصیرت اور فہم کی صلاحیت کو نظرانداز کرنے کے خطرے کو اجاگر کرتی ہے۔ انفعالی مفکرین سوالات، تحقیق، یا علم کی جستجو سے دور رہ کر اپنی ترقی کی راہ کھوٹی کرلیتے ہیں، جو کہ قرآن کی گہرے غور و فکر اور فعال انگیجمنٹ کی تحریک سے مغائر طرزِ عمل ہے۔

یہ مختلف طرزِ فکر ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح معاشرے علمی رویوں کے مطابق ترقی یا جمود کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

تنقیدی مفکرین: آئزک نیوٹن اور ابن الہیثم

آئزک نیوٹن اور ابن الہیثم کے افکار ناقدانہ طرزِ فکر کی اعلیٰ مثال ہیں، جنھوں نے تحقیق اور تجربے کے ذریعے سائنسی فہم میں انقلاب برپا کیا۔ سترہویںصدی میں نیوٹن نے حرکت کے قوانین اور عمومی کشش ثقل کے ساتھ طبیعیات کی بنیاد رکھی۔ اپنے دور کے کئی معاصرین کے برعکس، نیوٹن نے تجرباتی مشاہدے کو درست تجزیے کے ساتھ ثابت کیا کہ کشش ثقل کی قوتیں زمین پر موجود اشیا اور اجرامِ فلکی دونوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کا متحدہ قانون تحقیق قدیم یونانی نظریات سے مغائرتھا اور سیب کے گرنے سے لے کر سیاروں کی گردش تک کے مظاہر کی وضاحت کرتا تھا۔ نیوٹن کی درست پیمائش، مشاہدہ اور مسلسل خیالات کی تجدید پر زور جدید سائنسی عمل کی بنیاد بن گیا۔

نیوٹن کی کشش ثقل کی دریافت انسانی تاریخ کی سب سے اہم کام یابیوں میں سے ایک ہے۔ تاہم، یہ بات اہم ہے کہ گیلیلیو گیلیلی اور نکولاس کوپرنیکس کے کام نے نیوٹن کی کام یابیوں کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح، گیلیلیو نے ابن باجہ سے متاثر ہو کر پروجیکٹائل حرکت کی تحقیق کی تھی۔ اس طرح سائنسی ترقی میں آپسی ربط اور رشتہ پایا جاتاہے۔

چھ صدیوں قبل، ابن الہیثم، جنھیں’’بصریات کابانی‘‘ مانا جاتا ہے، سائنسی طریقہ کار کے اولین حامیوں میں سے تھے۔ یونانی فلسفیوں ارسطو اور بطلیموس کے برعکس، جو بصارت کو آنکھوں سے نکلنے والی شعاعوں کا نتیجہ سمجھتے تھے، انھوں نے تحقیق پیش کی کہ دکھائی اس وقت دیتاہے جب روشنی خارجی ذرائع سے آنکھوں میں داخل ہوتی ہے۔ انھوں نے اس نظریے کو اپنے اہم کام ’کتاب المناظر‘ میں تجربات کے ذریعے جانچا۔ ان کا طریقہ کار، جس میں مفروضہ، تجربہ اور اثبات شامل تھے، ایک ایسے وقت میں انتہائی انقلابی تھا جب سائنسی تحقیق بنیادی طور پر منطقی استدلال پر مبنی تھی۔ تجرباتی اثبات و تصدیق پر زور دیتے ہوئے اور مروجہ علم کو چیلنج کرتے ہوئے، ابن الہیثم نے سائنسی طریقہ کار کی بنیاد رکھی، جس نے اسلامی اور مغربی دونوں روایات کو متاثر کیا۔

روایتی مفکرین: سائنسی انقلاب کے دوران

سائنسی انقلاب کے دوران، بہت سے دانش ورارسطو کے افکار کے پیرو تھے، جو صدیوں سے مغربی فکر کی بنیاد رہے۔ ان کا ارض مرکزیت (geocentric) کا ماڈل، جس میں زمین کو کائنات کے مرکز میں رکھا گیا اور حرکت کے نظریات تقریباً 1500 سال تک بنیادی صداقتوں کے طور پر قبول کیے گئے۔ تاہم، یہ خیالات نشاة ثانیہ کے نئے مشاہدات سے متصادم ہونے لگے۔ گیلیلیو گیلیلی اور نکولس کوپرنیکس نے ارض مرکزیت کی مخالفت میں شواہد پیش کیے، جس میں بتایا گیا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ گیلیلیو کی دوربین کے ذریعے کی جانے والی دریافتیں، جیسے مشتری کے گرد چاند اور کوپرنیکس کے حسابات ارض مرکزیت کے نظریے کی تردید کرتے تھے۔

واضح شواہد کے باوجود، قدامت پسند علما نے نئی باتوں کے بجائے روایتی عقائد کو ترجیح دی۔ اس مزاحمت نے انقلابی دریافتوں کی قبولیت کو سست کر دیا اور سائنسی ترقی میں تاخیر کی۔ ارض مرکزیت کا ماڈل اس وقت تک وسیع پیمانے پر قبول نہیں کیا گیا جب تک کہ یونہانس کیپلر اور آئزک نیوٹن نے گیلیلیو اور کوپرنیکس کے کام کو آگے نہیں بڑھایا۔ تنقیدی جانچ سے عاری روایتی علم پر زیادہ انحصار کرنے سے مواقع ضائع ہوئے اور علمی جمود پیدا ہوا۔

کوپرنیکس اور گیلیلیو پر مسلم ماہرین فلکیات جیسے الطوسی اور ابن الشاطر کا بھی اثر تھا، جنھوں نے بطلیموسی نظام کو چیلنج کرنے والے ماڈل تیار کیے۔ الطوسی کی ’طوسی کپل‘اور ابن الشاطر کے اصلاح کردہ سیاروی ماڈلوں نے اسلامی اور مغربی سائنسی فکر کو آپس میں جوڑنے کی بنیاد رکھی، جس سے یورپ میں نئے خیالات کے ارتقا کو تقویت ملی۔

غیر مفکرین: ارض مرکزیت کے ماڈل کی مخالفت

ارض مرکزیت کے ماڈل کی مخالفت سولہویں اور سترہویں صدیوں کے دوران بعض مذہبی اور علمی حلقوں میں انفعالی اور غیرناقدانہ طرز فکر کی عکاسی کرتی ہے۔ ابتدائی 1500 کی دہائی میں نکولس کوپرنیکس کی جانب سے پیش کردہ شمس مرکزیت کا نظریہ، جس میں سورج کو کائنات کے مرکز میں اور زمین کو اس کے گرد گردش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، قدیم اور مضبوط بطلیموسی (ارض مرکزیت) ماڈل کو چیلنج کرتا تھا جسے چرچ اور روایتی سائنس کی حمایت حاصل تھی۔

کوپرنیکس کی زندگی کے دوران، ان کے نظریے کو زیادہ توجہ نہ ملی، لیکن بعد میں گیلیلیو گیلیلی نے اپنی دوربین کے مشاہدات کے ذریعے قوی شواہد فراہم کیے۔ گیلیلیو نے مشتری کے چاند دریافت کیے، جو اس بات کا ثبوت تھے کہ ہر فلکی جسم زمین کے گرد نہیں گھومتا اور زہرہ کے مراحل کا مشاہدہ کیا، جو صرف اس صورت میں ممکن تھا جب زہرہ سورج کے گرد گردش کرتا ہو۔ ان دریافتوں کے باوجود، بہت سے مذہبی رہ نماؤں اور علما نے سورج مرکزیت کو مذہبی تعلیمات کی ضد نیز گم راہ کن قرار دے کر مسترد کر دیا۔

1633 میں، گیلیلیو کو Inquisitionکے ذریعے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، انھیں اپنے نظریے سے تائب ہونے اور بقیہ زندگی نظربندی میں گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ مزاحمت طویل مدتی عقائد کو چیلنج نہ کرنے اور نئے شواہد کے ساتھ تنقیدی طور پر مشغول نہ ہونے کی بنا پر تھی۔ روایت کو سائنسی تحقیق پر ترجیح دے کر حکام نے شمس مرکزیت کے ماڈل کی قبولیت میں دہائیوں کی تاخیر کر دی۔

مروجہ نظریات کو چیلنج نہ کرنے کی یہ مثال غیر سوچنے کی عکاسی کرتی ہے، کیوں کہ جنھوں نے سورج مرکزیت کو مسترد کیا، وہ اپنے علم کو بڑھانے اور مشاہدہ شدہ حقائق کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے مواقع سے محروم رہے۔ اگرچہ بالآخر سورج مرکزیت کا نظریہ قبول کر لیا گیا، ابتدائی مزاحمت نے سائنسی ترقی میں تاخیر کی۔

مختلف قسم کے مفکرین اور ان کے سماجی اثرات کو سمجھنے کے بعد، اب ہم یہ جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ کس طرح ناقدانہ طرزِ فکر کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ سائنسی، ریاضی اور ادبی اصولوں کو مربوط کر کے ہم تجسس کو ابھار سکتے ہیں، تجزیاتی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ایک ایسے ذہنی رویے کو فروغ دے سکتے ہیں جو جستجو اور تحقیق کو اپناتا ہو۔

سائنسی تحقیق میں تجزیاتی سوچ کو فروغ دینا

سائنس میں، فہم کی جستجو مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہوتی ہے، جو ہمیں فطرت کے رازوں کو سمجھنے اور کائنات پر حکم رانی کرنے والے قوانین کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ جستجو ابتدائی انسانی مشاہدات سے شروع ہوئی اور تکنیکوں اور علم کی ترقی کے ساتھ بڑھتی رہی۔

اپنی اصل میں، طبیعیات صرف مضامین کا مطالعہ نہیں ہے؛ یہ کائنات کے طریقہ کار کو سمجھنے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ 2024 کے نوبل انعام یافتہ جان ہوپ فیلڈ نے بجا کہا ہے:

’’فزکس کیا ہے؟ میرے لیے… فزکس مادہ نہیں تھی۔ ایٹم، ٹروپوسفیئر، نیوکلئیس، شیشے کا ٹکڑا، واشنگ مشین، میری سائیکل، گراموفون، ایک مقناطیس—یہ سب محض موضوع تھے۔ مرکزی خیال یہ تھا کہ دنیا قابل فہم ہے… فزکس ایک نقطہ نظر تھا کہ ہمارے اردگرد کی دنیا کو، محنت، تخیل اور مناسب وسائل کے ساتھ، پیش گوئی کے قابل اور معیاری انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔ فزکس کا طالب علم ہونا اس قسم کے فہم کی جستجو کے لیے وقف ہونے کے مترادف ہے۔‘‘

ہوپ فیلڈ کے الفاظ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طبیعیات تجزیے، تجربے اور منطق کے ذریعے کائنات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے عزم کی نمائندگی کرتی ہے۔

اسی طرح، کیمسٹری اور حیاتیات بھی مشاہدے اور تجرباتی طریقوں پر مبنی ہیں۔ کیمسٹری عناصر کے تعاملات کا مطالعہ کرتی ہے تاکہ نئی مرکبات کی تشکیل اور مادّے کی تبدیلیوں کے رازوں کو افشا کیا جا سکے۔ حیاتیات، خلیاتی افعال سے لے کر پورے ماحولیاتی نظام تک، زندگی کو برقرار رکھنے والے پیچیدہ نظاموں کی فہم کے لیے محتاط مشاہدے اور تجربات پر انحصار کرتی ہے۔ یہ علوم ثبوتوں اور دریافتوں پر مبنی ہیں۔

سائنس کی تعلیم صرف علم کی منتقلی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا مقصد وہ ذہن تیار کرنا ہونا چاہیے جو مشاہدے، تنقیدی سوچ اور تجسس کی قدر کرتا ہو۔ جب ہم سائنس کو فہم کا ذریعہ سمجھنے کی ترغیب طلبہ کو دیتے ہیں تو ہم ان کے تجسس کو ابھارتے ہیں، مسائل کے حل اور اختراعیت کی پرورش کرتے ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں میں کارآمد ہو۔

لیبارٹریوں کی تعمیر: ناقدانہ طرزِ فکر کی بنیاد

نوجوان طلبہ میں ناقدانہ طرزِ فکر کی پرورش کے لیے، ابتدائی اسکولوں کو اچھی طرح سے قابل رسائی لیبارٹریوں سے لیس کرنے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ یہ لیبارٹریاں محض اوزاروں کی ذخیرہ گاہیں نہیں ہونی چاہئیں؛ ان کا متحرک ماحول ہونا چاہیے جہاں طلبہ خود اپنے ہاتھوںسے تجربات کے ذریعے سائنس کا مشاہدہ کریں۔ ایسی لیبارٹریوں میں، سیکھنا حقیقت بن جاتا ہے کیوں کہ طلبہ اوزار استعمال کرتے ہیں، تجربات کرتے ہیں اور نتائج کو براہ راست دیکھتے ہیں، تجریدی تصورات کو ٹھوس تجربات میں بدلتے ہیں اور علم کے ساتھ ایک ذاتی تعلق پیدا کرتے ہیں۔

لیبارٹریاں طلبہ کو مفروضات کی جانچ کرنے، تجربات کرنے اور نتائج کا مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، سیکھنے کو انٹریکٹو اور دل چسپ بناتی ہیں۔ یہ فوری ردعمل اپنے اعمال کو سائنسی نظریات سے جوڑنے میں طلبہ کو مدد دیتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سائنس ایک ارتقا پذیر میدان ہے، نہ کہ محض یاد کیے جانے والے حقائق۔ متغیرات کی جانچ اور مختلف نتائج دیکھ کر، طلبہ سیکھتے ہیں کہ علم سیال ہے اور تحقیق اور تطبیق کے ذریعے گہرا ہوتا ہے۔

ابتدائی طلبہ کے لیے، ابتدائی لیبارٹری کے تجربات سائنس میں دیرپا دل چسپی پیدا کر سکتے ہیں۔ طبیعیات، کیمسٹری اور حیاتیات میں عملی سرگرمیاں بنیادی تصورات کو زندہ کر دیتی ہیں—جیسے کشش ثقل کا مشاہدہ کرنا، کیمیائی تعاملات کو دیکھنا، یا پودوں کی نشوونما کا جائزہ لینا۔ یہ سرگرمیاں نظریہ اور عمل کے درمیان ایک نتیجہ خیز پل بناتی ہیں، جو محض پڑھنے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

مزید برآں، لیبارٹریاں طلبہ کو مفروضات پر سوال اٹھانے اور نتائج کی تصدیق کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، شواہد پر مبنی منطق کی اہمیت سکھاتی ہیں۔ تجربات کے ذریعے، وہ تحقیق، جانچ اور خیالات کو بہتر بنانے کی عادتیں پیدا کرتے ہیں—جو ناقدانہ طرزِ فکر کے کلیدی عوامل ہیں۔ یہ ابتدائی بنیاد نہ صرف سائنسی ذہنیت کو فروغ دیتی ہے بلکہ طلبہ کو مختلف شعبوں میں مسئلہ حل کرنے اور تجزیاتی مہارتوں سے لیس کرتی ہے۔

ابتدائی سطح کی لیبارٹریوں میں سرمایہ کاری سیکھنے اور دریافت کے لیے زندگی بھر کی محبت کو فروغ دیتی ہے۔ طلبہ کو آزادانہ طور پر تحقیق کرنے کے وسائل دے کر، وہ اپنے آپ کو قابل محققین کے طور پر دیکھتے ہیں، جو اپنے ماحول کو سمجھنے اور اس پر اثر انداز ہونے میں پراعتماد ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ تجسس، مضبوطی اور مطابقت کو پروان چڑھاتا ہے، مسلسل سیکھنے اور دریافت کے لیے بنیاد رکھتا ہے۔

ریاضی کے ذریعے تجسس اور بصیرت کی پرورش

ریاضی کے مطالعے میں، طلبہ عام طور پر تین مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک مختلف سطحوں پر مواد کے ساتھ انگیجمنٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ سب سے بلند درجے پر وہ طلبہ ہوتے ہیں جو حقیقی ریاضی داں بننے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ یہ گروہ محض ریاضی کے طریقوں کو سمجھنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ان کے پیچھے کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ طلبہ ریاضیاتی نظریات میں مکمل طور پر مشغول ہوتے ہیں اور اس نظم و ضبط کی منطقی خوب صورتی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے لیے ریاضی ایک خیالی دنیا کی دریافت ہے جو قدرت میں نظر آنے والے پیچیدہ پیٹرنوں کی عکاسی کرتی ہے۔

دوسرا گروہ ان طلبہ پر مشتمل ہوتا ہے جو حسابی تکنیکوں کو سمجھتے ہیں اور فارمولوں کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن وہ عموماً اس سطح پر ہی رک جاتے ہیں۔ ان کا ریاضی کے ساتھ انگیجمنٹ زیادہ تر فارمولے رٹنے تک محدود رہتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اس میں گہرائی سے بصیرت حاصل کریں۔ وہ مسئلہ حل کرنے کو ایک روایتی کام کے طور پر لیتے ہیں اور اکثر ریاضیاتی منطق کی فطری سمجھ سے محروم رہتے ہیں۔ ریاضی کی اندرونی ہم آہنگی کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے، وہ اس کی خوب صورتی سے محروم رہتے ہیں اور اس کے فریم ورک کی گہری تعریف پیدا نہیں کرتے۔

آخر میں، وہ طلبہ ہوتے ہیں جو ریاضی کو خاص طور پر مشکل پاتے ہیں۔ ان طلبہ کے لیے، ریاضی کے تجریدی تصورات بھاری یا ان کی زندگیوں سے غیر متعلق معلوم ہو سکتے ہیں۔ ایسے تدریسی طریقوں کے بغیر جو ان کے تجربات سے میل کھاتے ہوں یا ان سے جڑے ہوں، وہ دل چسپی کھو سکتے ہیں یا دستبردار ہو سکتے ہیں اور یوں ریاضی کی طرف سے فراہم کی جانے والی ناقدانہ طرزِ فکر کی مہارتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جب ریاضی سے مناسبت پیدا کیے بغیر پڑھایا جاتا ہے تو یہ ایک رکاوٹ بن سکتی ہے بجائے اس کے کہ ذہنی نشوونما کا راستہ بنے۔

اگر مناسب طریقے سے پڑھایا جائے، تو ریاضی تجسس کو بیدار کرنے اور ناقدانہ طرزِ فکر کی صلاحیتوں کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ریاضی کو ایک دل چسپ معمہ کے طور پر پیش کریں، جیسے ستاروں یا ماحولیاتی نظام کا مطالعہ، جہاں ہر مساوات یا قضیہ دنیا کے پوشیدہ حقائق کو ظاہر کرتا ہے۔ طلبہ کو اس بات کی ترغیب دی جا سکتی ہے کہ وہ اعداد اور مساوات کو وسیع تر پیٹرنوں کی نمائندگی کے طور پر دیکھیں اور انھیں ریاضیاتی تعلقات کے بنیادی ’مناظر‘کی کھوج کرنے کی دعوت دیں۔

ہر سبق کو دریافت کے دروازے کے طور پر پیش کر کے، طلبہ سیکھنے کو دنیا کو سمجھنے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ انھیں گہرائی سے سوچنے،غور سے مشاہدہ کرنے اور سوالات کرنے کی دعوت دے کرسائنس اور ریاضی کو زندگی کی پیچیدگیوں کو دریافت کرنے کے اوزار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تبدیلی تحقیق کی روح کو پروان چڑھاتی ہے، سیکھنے کو ایک مہم جوئی بنا دیتی ہے۔ یہ فہم کی محبت کو بھڑکاتی ہے جو کلاس روم سے آگے بڑھ جاتی ہے، طلبہ کو تجسس اور تجزیاتی مہارتوں سے آراستہ کرتی ہے جن کی انھیں نئے مسائل کو سوچ سمجھ کر حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت انھیں زندگی کے تمام شعبوں میں ناقدانہ طرزِ فکر کے قابل بناتی ہے، سیکھنے کی زندگی بھر کی محبت اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی حیرتوں کے لیے ایک گہری سمجھ پیدا کرتی ہے۔

مطالعہ کے دوران ناقدانہ طرزِ فکر کی ترقی

کسی کتاب کے ساتھ گہرائی سے انگیج ہونا—چاہے وہ فلسفہ ہو، معاشرتی علوم، تاریخ، یا کوئی اور موضوع—محض صفحات پلٹنے اور الفاظ کو جذب کرنے سے زیادہ کا متقاضی ہے۔ کسی متن کے ساتھ حقیقی انگیجمنٹ ایک فعال عمل ہے جس میں سوالات کرنا، غور و فکر کرنا اور آزادانہ بصیرت حاصل کرنا شامل ہے۔ یہ مطالعے کے عمل کو ایک انفعالی تجربے سے تبدیل کرکے ایک متحرک مکالمے میں بدل دیتا ہے، جس میں قاری خیالات کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، دلائل کا جائزہ لیتا ہے اور مصنف کے الفاظ میں اپنی سمجھ شامل کرتا ہے۔ یہ طریقہ تفہیم کو مزید گہرا کرتا ہے اور آزادانہ سوچ کی پرورش کرتا ہے، مطالعے کو ایک علمی اور ذاتی لحاظ سے بامعنی تجربہ بنا دیتا ہے۔

جب ہم تنقیدی انداز میں مطالعہ کرتے ہیں، تو ہم محض مصنف کے نتائج کو تسلیم کرنے یا کتاب کے انداز کی تعریف کرنے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہم پیش کردہ خیالات کے ساتھ انگیج ہوتے ہیں، ان کی خوبیوں، خامیوں اور نتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس طریقے سے ہم نہ صرف علم جذب کرنے کے قابل ہوتے ہیں بلکہ اس سے مواد پر ذہنی ملکیت حاصل کرنے کا احساس بھی پیدا ہوتاہے۔ یہ چیزہمیں سیکھنے کے عمل کے فعال حصے دار بننے کی دعوت دیتی ہے اور مفروضوں کی تشریح، تنقیداور توسیع کے لیے ہمارے اندر حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ اس طرح کے طریقے کو اپناکرقارئین گہری اور باریک بینی سے بھرپور تفہیم حاصل کر سکتے ہیں جو متن کی سطح سے آگے بڑھ کر اس کے مضمرات اور پوشیدہ خیالات تک پہنچتی ہے۔

مصنف کے مقصد کو سمجھیں

سب سے پہلے مصنف کے بنیادی مقصد کی نشان دہی کریں۔ ہر کتاب کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھی جاتی ہے، چاہے وہ قائل کرنا ہو، معلومات فراہم کرنا، وضاحت کرنا، یا کسی موجودہ خیال کو چیلنج کرنا ہو۔ تنقیدی طور پر اس سے انگیج ہونے کے لیے، ایسے سوالات کریں جیسے، ’کتاب کیا حاصل کرانا چاہتی ہے؟‘یا  ’مصنف کس سوال یا مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے؟‘۔ اس مقصد کو سمجھنا مصنف کے نقطہ نظر اور ارادے کو سمجھنے کی کلید ہے۔ مصنف کے محرکات اور مطلوبہ نتائج کو جان کر، آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی دلیلیں اس کے اہداف کے حصول میں کتنی کام یاب ہیں۔

مصنف کے طریقہ کار کا تجزیہ کریں

مصنف کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ دیکھیں کہ وہ اپنی دلیلوں کو کیسے تشکیل دیتا ہے اور اپنے شواہد کیسے پیش کرتا ہے۔ مصنف کے طریقہ کار کا تجزیہ کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کیا اس کی دلیل مسلسل، منظم اور مربوط ہے۔ اس میں استعمال ہونے والے استدلال کی اقسام کو شناخت کرنا بھی طریقہ کار کے تجزیے میں شامل ہے، چاہے وہ تجرباتی ڈیٹا ہو، تاریخی مثالیں، کیس اسٹڈی، یا نظریاتی تجزیہ۔ آپ ہر ہر دلیل کی مضبوطی کو جانچ سکتے ہی۔

خلا کی نشان دہی کریں اور خیالات وضع کریں

ان جگہوں کی نشان دہی کریں اور تنقیدی طور پر سوچیں جہاں مصنف کی دلیل نامکمل لگتی ہے یا متبادل نقطہ نظر کو نظرانداز کرتی ہے۔ ایسے قصور کی نشان دہی کرنا آزادانہ سوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور آپ کو متن سے آگے بڑھ کر گفتگو کو وسعت دینے کی دعوت دیتا ہے، جس میں آپ اپنی بصیرت کو شامل کر سکتے ہیں یا متبادل تشریحات تجویز کر سکتے ہیں۔

آزادانہ نتائج اخذ کریں

متن کی دلیلوں، منطق اور ممکنہ قصور کا جائزہ لینے کے بعد، اپنے نتائج اخذ کریں۔ یہ قدم ذہنی خود مختاری کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ اس میں آپ کا تجزیہ متن کی خوبیوں اور کم زوریوں کی آزادانہ نشان دہی کرتا ہے۔

انفعالی قبولیت سے بچیں

تنقیدی مطالعے کا بنیادی مقصد مصنف کے نظریات کے ساتھ انفعالی وابستگی سے بچنا ہے۔ مصنف کی بصیرت بلاشبہ قیمتی ہو سکتی ہے، تاہم تنقیدی طور پر اس سے انگیج ہونا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آپ محض دوسروں کے خیالات کو اپنانے کے بجائے اپنی رائے کو فروغ دیں اور اسے نکھاریں۔

اختتامیہ

قرآن میں تدبر اور ابن الہیثم اور دیکارت جیسی تاریخی شخصیات اور تعلیمی نمونوں کے ذریعے بیان کردہ سوچ کے طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناقدانہ طرزِ فکر محض جان لینے کے عمل سے آگے کی چیز ہے۔ اس میں گہرائی سے انگیج ہونا، سوالات کرنا اور فعال طور پر فہم کی تلاش کرناشامل ہے۔ مطالعہ کرنے، سیکھنے اور خیالات کی جستجو کے منظم طریقوں کے ذریعے، ہم حقیقی معنی میں مفکر بن سکتے ہیں۔ نہ کہ محض دوسروں کے نتائج کو قبول کرنے والے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223