قدما کا قول ہے: ’’فطرت خلا کو ناپسند کرتی ہے۔‘‘
خلا سے مراد مکان کا مادّے سے خالی ہونا ہے۔ لوگوں نے اپنے مشاہدے اور استقرا سے جب دیکھا کہ کوئی جگہ کسی حال میں خالی نہیں ہوتی۔ ہم جن جگہوں کو خالی سمجھتے ہیں وہ بھی ہوا سے پُر ہوتی ہیں اور جب کسی خالی برتن میں پانی یا کوئی اور شے گرائی جاتی ہے تو ہوا کے نکلنے سے پہلے وہ اس میں داخل نہیں ہو سکتی تو اس حقیقت کو اس طرح تعبیر کیا کہ ’’فطرت خلا کو ناپسند کرتی ہے۔‘‘ قدما نے خلا کے امکان کے متعلق جو رائے قائم کی تھی وہ اس زمانہ کے علمائے طبیعیین کے نزدیک بھی مسلّم ہے۔ البتہ وہ اس کی تعبیر دوسرے الفاظ میں کرتے ہیں۔ غرض خلا محال ہے اور ہم کسی ایسے مکان کا تصور نہیں کر سکتے جس میں مادّہ نہ ہو۔
یہ بات محسوسات کے لیے تو بالکل مسلّم ہے لیکن اس کا اطلاق معنویات پر بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح کوئی مکان مادّے سے خالی نہیں ہوتا اسی طرح دماغ بھی کسی حال میں فکر و خیال سے خالی نہیں رہتا۔ اگر کوئی شخص اپنے ذہن کو کسی ایک خیال سے باز رکھنا چاہے تو لا محالہ کوئی دوسرا خیال اس کی جگہ لے لے گا۔ چاہے اس کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔ جب انسان پر مختلف کام آ پڑتے ہیں تو ان میں سے جو زیادہ اہم ہوتا ہے یا جس کا اثر اس پر زیادہ پڑتا ہے، اس کا ذہن اسی میں مشغول ہو جاتا ہے اور جب اس سے فرصت مل جاتی ہے تو اس سے کم اہم کام اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ جب وہ بھی ہو چکتا ہے تو تیسرا اس کی جگہ لیتا ہے اور اسی طرح ہوتا رہتا ہے۔ گویا جس طرح وہ سیال مادّے جو اپنے نوعی ثقل کے اعتبار سے متفاوت ہوں اور جن کی باہم آمیزش نہ ہوئی ہو، جب کسی برتن میں رکھ دیے جائیں تو وہ اپنے ثقل کے اعتبار سے نیچے اوپر ہو جاتے ہیں اور جب سب سے زیادہ ثقیل سیال اپنی جگہ خالی کردیتا ہے تو اس سے کم درجے کا ثقیل اس کی جگہ لے لیتا ہے اور یہی عمل تعاقب کے ساتھ ہوتا رہتا ہے، اسی طرح ہمارے مشاغل اور امور مہمّہ دماغ میں اپنی ذہنیت کے اعتبار سے اوپر نیچے اپنی جگہ بنالیتے ہیں اور یکے بعد دیگرے ذہن کو اپنی طرف ملتفت رکھتے ہیں۔
غرض یہ ہے کہ فکر یا عقل کبھی بیکار نہیں رہ سکتی۔ ایک کام سے جہاں فراغت ہوئی، دوسرے میں مصروف ہو گئی اگر اس کی توجہ حسنات کی طرف نہ رہے تو لا محالہ سیئات میں مصروف ہو جائے گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے ’’خالی سر شیطان کا مسکن ہے۔‘‘
عقلمند وہ ہے جو مضرتوں سے بچنے کے لیے اپنے دماغ کو اچھے کاموں میں مصروف رکھے۔ ذہن کو کام میں مصروف رکھنا وقت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ حکیم وہ ہے جو اپنے وقت کو اچھے کاموں میں صرف کرے اور ذہن و فکر سے اچھے کام لے، جس شخص کا ذہن خالی ہوتا ہے، لامحالہ برے خیالات اس میں گھس جاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ فوج کے سپاہی جس زمانہ میں بیکار ہوتے ہیں ان کے درمیان فسادات بکثرت رونما ہوتے ہیں، اسی لیے حکومت بے کاری کے زمانہ میں فوجیوں کو مختلف کاموں میں مشغول رکھتی ہے جن میں اکثر غیر ضروری ہوتے ہیں۔ یہی حال سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور مذہبی رہ نماؤں کا ہے۔ وہ اپنے اتباع و مریدین کو مختلف فرائض و اعمال کا پابند بنا دیتے ہیں جن میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد انھیں آپس کے لڑائی جھگڑے سے باز رکھنا یا ایسی باتوں میں پڑنے سے بچانا ہوتا ہے جن کا اثر ان کے اور ان کے لیڈروں کے باہمی تعلقات پر برا پڑتا ہو۔
یہاں ہم اس مسئلہ پر غور نہیں کرنا چاہتے کہ انسان کو زندگی کے مختلف ادوار میں یا دن کے مختلف حصوں میں کس قسم کے کام کرنے چاہئیں، کیوں کہ اس مسئلہ پر یہاں بحث کی گنجائش نہیں۔ ہر انسان زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہ کچھ اپنے لحاظ سے کرتا ہی رہتا ہے۔ ہم یہاں صرف اس مسئلہ پر غور کرنا چاہتے یہں کہ جب وہ اپنے روز مرہ کے ضروری کاموں سے فرصت پا جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے۔ فرصت کے جو اوقات ہمیں ملتے ہیں تمھیں کیا معلوم ان کی قیمت کیا ہے؟ یہ گھڑیاں حقیقت میں انسان کی راہ میں ایک ایسے پہاڑ کی حیثیت رکھتی ہیں جسے اگر کام یابی کے ساتھ طے کر لیا جائے تو اس کے پیچھے سعادت و کامرانی استقبال کے لیے کھڑی ہے اور اگر اس میں ناکامی ہوئی تو ذلت و بدنصیبی کے کھڈ میں گرنا نا گزیر ہے۔ ہم کام کے اوقات کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ ان میں کسی قسم کے خطرے کا احتمال نہیں ہے۔ کام کے اوقات میں انسان، زبان و قدم کی لغزشوں سے محفوظ اور شیطان کے دام سے مامون ہوتا ہے لیکن فراغت کی گھڑیاں! وہ یا تو بچھو ہیں یا شہد کی مکھیاں!! یا تو وہ تمھارے لیے لذیذ شہد فراہم کریں گی یا ڈنک مار مار کر ہلاک کر دیں گی۔ بہت سے نوجوان اپنی فراغت کی گھڑیوں کو غنیمت خیال کرتے ہیں اور ان میں مفید کام کرکے ہر قسم کی بلندیاں حاصل کر لیتے ہیں اور بہت سے نوجوان انھیں غلط کاموں میں صرف کرتے ہیں اور اپنی پہلی عزت و صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ پس فراغت کے اوقات میں اپنی عقل اور ہاتھ سے ہر وقت چوکنے رہو کیوں کہ جس وقت ان کے لیے کوئی کام نہیں ہوتا شیطان انھیں اپنے آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
راحت کیا ہے؟
ناظرین اس غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو جائیں کہ ہم کام کرنے والوں کو راحت سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ کام یابی کے لیے جس طرح کام کرنا ضروری ہے، اسی طرح آرام کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ راحت کہتے کس کو ہیں؟
تمھیں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ انسان کا ذہن کسی وقت بیکار نہیں رہ سکتا۔ جب وہ اپنے روز مرہ کے کام سے فارغ ہو جائے گا تو دل چسپی کے لیے یا تو شطرنج، چوسر، بلیرڈ وغیرہ کھیلے گا یا دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرے گا یا اخبارات و رسائل کے مطالعہ سے دل بہلائے گا، یا شراب نوشی اور قمار بازی میں وقت کاٹے گا۔ بہرحال وہ اپنی تفریح اور دل چسپی کے لیے جو کام بھی اختیار کرے اس کی عقل، ہمیشہ اپنے کام میں مشغول رہے گی اب سوال یہ ہے کہ عقلی کام آرام اور تکان دونوں کا سبب کس طرح ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ راحت کا دار و مدار، کام ترک کر دینے پر نہیں ہے بلکہ کام میں تنوع یا تبدیلی پیدا کرنے پر ہے۔ وہ مزدور جو دن بھر بیٹھا ہاتھ سے کوئی کام کرتا ہے اس کی راحت چلنے اور ہاتھوں کو حرکت سے روک دینے میں ہے۔ وہ تاجر جو دن بھر دماغ کو اپنے کاروبار میں مشغول رکھتا ہے، اس کی تفریح مطالعہ یا عقلی اور جسمانی کھیلوں کے ذریعے ہو سکتی ہے جب کہ اس کے ذہن کو تجارتی افکار سے نجات مل جائے۔ وہ وکیل جو دن بھر قانونی موشگافیوں میں مشغول رہتا ہے، جب ادبیات وغیرہ کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے ذہن کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ بسا اوقات مضمون نگار کسی خاص موضوع پر لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے لیکن جب اسے چھوڑ کر کوئی اور موضوع اختیار کر لیتا ہے تو اس کا قلم اس طرح چلتا ہے گویا بالکل تازہ دم ہے۔ اسی پر تمام پیشوں کو قیاس کرلو۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی کام کو مسلسل ایک نہج پر کرتے رہنے سے اعضا میں سستی اور طبیعت میں اضمحلال پیدا ہو جاتا ہے اور جب کام بدل دیا جائے تو اس سے نفس کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہمیشہ ایک جیسے معمول سے گھبرا جاتا ہے، خواہ وہ کتنا ہی خوش آئند ہو۔ ایک فقیر گوشت اور عمدہ کھانوں کی تمنا کرتا ہے، نرم گدّوں پر سونے والوں اور ذہب و حریر پہننے والوں پر رشک کرتا ہے اور ان ہی چیزوں کے حصول کو اپنی انتہائی خوش بختی سمجھتا ہے لیکن جب اسے یہ تمام چیزیں میسر آ جاتی ہیں تو تھوڑے ہی دنوں میں اس کا دل بھر جاتا ہے اور انھیں چھوڑ کر وہ کسی اور لذّت بخش چیز کو تلاش کرنے لگتا ہے یہی حال تمام لذّات کا ہے۔ لذّت کا انحصار مال و دولت یا غذا کی کسی خاص مقدار پر نہیں بلکہ خواہش کے مطابق ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کے اختیار کرنے پر ہے۔
ہر قسم کے کام سے کنارہ کش ہو جانا موجب راحت نہیں ہے بلکہ ایک کام کو چھوڑ کر دوسرے کام میں لگ جانا یہ باعث سکون و راحت ہے۔ لوگ حصول راحت کے لیے اپنے کاموں میں تنوع اور تبدیلی پیدا کرنے کی مختلف راہیں اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف ہم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی توجہ مائل کرنا چاہتے ہیں۔ جب فراغت کے اوقات میں ہم بھی اپنے دماغ کو کام سے باز نہیں رکھ سکتے تو کیوں نہ اسے ایسی باتوں میں مصروف رکھیں جو ہمارے لیے مفید بھی ہوں اور لذت بخش بھی۔ (الانصاف، ۲۲ نومبر ۴۸ء)
مشمولہ: شمارہ جون 2024