امسال مولانا سید جلال الدین عمری ، امیر جماعت اسلامی ہند نے مرکز جماعت اسلامی ہند کی مسجد اشاعت اسلام میں عید الفطر کا جوخطبہ دیا تھا، اس میں موجودہ حالات میں امت مسلمہ کے لیےبڑی رہ نمائی ہے ۔ اسے بہت پسند کیا گیا ۔ اس کے خلاصے کی اشاعت پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں بڑے پیمانے پر ہوئی ۔اب قارئین کے استفادہ کے لیے اس کا مکمل متن مولانا کی نظر ثانی کے بعد شائع کیا جارہا ہے ۔ (ادارہ)
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ(آ ل عمران:۱۳۹) (اللہ اکبراللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمد)
بزرگو، بھائیو اور عزیزو!محترم خواتین !مائو ،بہنو اور بیٹیو!آپ سب کو میں دل کی گہرائیوں سے عید کی مبارک باد دیتاہوں۔اللہ تعالی آپ کو ایسی بہت سی عیدیں نصیب فرمائے۔اس سخت موسم میں ہم میں سے بیش تر لوگوں نے روزے رکھے،فرض نمازوں کا جماعت کے ساتھ اہتمام کیا۔نوا فل بھی اداکیے، تراویح میں بھی شرکت رہی۔ جن کو اللہ نے توفیق دی،انہوں نے شب بیداری کی اور نماز تہجد میںاللہ کے سامنے سربسجود ہوئے۔اس کے ساتھ ہم نے اس مہینے میں صدقہ و خیرات بھی کیا،بہت سے لوگوں نے زکوۃ نکالی اور غریبوں کی جو مدد کی جاسکتی تھی وہ بھی کی۔یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے توفیق ہی سے ہوتے رہے۔ اگر اس کی توفیق نہ ہوتویہ سب ممکن نہ ہوگا۔اس کے ساتھ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اس مہینے میں آدمی کے اندراللہ کی عبادت کا، اس کی طرف توجہ کا،اس سے دعائیں کرنے کا ،اس سے مانگنے کا،اپنی غلطیوں سے توبہ کرنے کا،نیکیوں پر عمل کرنے کاپاکیزہ جذبہ ابھرتاہے ،اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یہ جذبہ کم زور نہ پڑے اورجو کیفیت ہماری رمضان میں تھی وہی بعد کے دنوں میں بھی باقی رہے اور ہم اللہ تعالی کی طرف اسی طرح متوجہ رہیں جس طرح رمضان میں تھے اور ہمارے اعمال کی اور ہماری سیرت و کردارکی وہی کیفیت رہے جو اس مبارک مہینے میں تھی۔
میرے دوستواور ساتھیو!اس وقت امت کے حالات پوری دنیا میں اور خود ہندوستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بہتر نہیں ،بلکہ بدتر ہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ حالات مسلمانوں کے حق میں، اسلام کے حق میں، اس کی تعلیمات کے حق میں،اس کے خادموں کے حق میں، پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کوہر طرف سے ہدف ِتنقید بنایا جارہا ہے۔کبھی لوگ مروتاََ کہہ دیتے ہیں کہ اسلام توغلط نہیں ہے لیکن اس کے ماننے والے اور اس پر عمل کے دعوے دار غلط ہیں۔حالاں کہ اگر کوئی شخص اسلام پر عمل کررہا ہے اوراسلام صحیح مذہب ہے تو اسے بھی صحیح ہونا چاہیے۔ دنیا میں کوئی بھی خرابی ہو،دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو، کوئی ہنگامہ ہو، کوئی فساد ہو، فوراََ مسلمانوں کا نام لے لیا جاتاہے۔جیسے کسی محلہ میں چوری ہوجائے تو پولس دیکھتی ہے کہ اس سے پہلے کون چور تھے؟ اور کون گرفتار ہوئے تھے؟ ان ہی کے پاس جاتی ہے ۔مسلمانوںکی کیفیت چوروں اور ڈاکوئوں کی سی ہوگئی ہے۔کوئی بھی غلط واقعہ ہو فوراََ کہا جاتاہے کہ مسلمانوں نے کیا ہوگا۔یہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتاہے کہ جب تک اسلام ہے اور مسلمان ہیں، یہ ملک امن اور چین کے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔یہ ملک دشمن ہیں،یہ ملک کے وفادارنہیں ہیں۔ وہ اس ملک کے خلاف کوئی بھی اقدام کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہا جارہاہے کہ اس ملک کو اسلام مکت ہونا چاہیے،یعنی ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں اسلام کاوجود نہ ہو۔ اسلام رہے گا اور مسلمان رہیں گے تو اسی طرح کے مسائل پیداہوتے رہیںگے۔ اسلام اور مسلمانوں سے نجات مل جائے اور ان سے چھٹکارا حاصل ہوجائے،یہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
میرے دوستو اور ساتھیو! اس ماحول میں ہم اور آپ جی رہے ہیں۔ دہشت گردی کے کتنے ہی واقعات ایسے ہیں جن میںصرف نام کی بنیاد پر گرفتاری کی جارہی ہے ۔ابھی حال میں آپ نے سنا ہوگاکہ ایک نوجوان کو اس لیے گرفتار کرلیا گیاکہ اس کا نام بغدادی تھا۔ بغدادی کے نمایاں ہونے سے پہلے ہی وہ پیدا ہوا تھااور اس کا نام بغدادی رکھا گیا تھا۔ حالاں کہ اس بغدادی کا اس بغدادی سے کوئی تعلق نہیں ہے جواس وقت دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث ہے اور اسلام کے نام پر اسلام کو رسوا کررہا ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ شبہ کی بنیاد پرمسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور بیش تر معاملات میں ملکی عدالتوں کے ذریعہ ان کا جرم ثابت کرنا مشکل ہورہا ہے ۔ برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا تھا وہ بے گناہ ہیں ۔اس وقت اس کی تلافی کی کوئی شکل نہیں ہوتی۔جب یہ کہاجاتاہے کہ جن لوگوں نے بے گناہوں کو گرفتار کیا ان کے خلاف اقدام کیجیے ،تو کہا جاتاہے کہ اس سے سرکاری ایجنسیاں متاثر ہوں گی اور پولس کے حوصلے پست ہوجائیں گے،اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں قانون کام نہیں کررہا ہے ،بلکہ حکومتی اداروں کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔اس میں شک نہیںکہ یہ پورے ملک کی فضا نہیں ہے،پورے ملک میں ایسا نہیں ہے کہ سب لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔لیکن ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں فسادات ہورہے ہیں، ہنگامے ہورہے ہیں،غیر قانونی گرفتاریاں ہورہی ہیں ، مسلمانوں کے تعلق سے طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، جب اس کی شکایت کی جاتی ہے تو کہاجاتاہے کہ یہ غلط کار ہیں۔ انہیں نہ دیکھیے ۔ حکومت کو دیکھیے اور اس کے بیانات کو دیکھیے ۔ وہ ان کی تائید نہیں کررہی ہے ۔حکومت کے بیانات جو بھی ہوں اس نے ان لوگوںکو چھوٹ دے رکھی ہے اور وہ من مانی کررہے ہیں۔ حکومت ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کررہی ہے قانون اپنا کام نہ کرے تو ظلم و زیادتی جاری رہے گی۔ وہ سب کچھ ہوگا جو ہورہاہے۔
میرے دوستو اور ساتھیو! پوری دنیا کی یہی صورت حال ہے۔یہاں ہم اقلیت میں ہیں۔گورنمنٹ کے اعداد و شمار کے لحاظ سے آپ چودہ فیصد ہیں، آپ خود کو بیس فیصد سمجھتے ہیں، پھر بھی آپ یہاں اقلیت میں ہیں۔لیکن جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں کیا حال ہے؟ ہمارے جتنے مسلم ممالک ہیں، سب آپس میں لڑ رہے ہیں، ان کے درمیان اتحاد نہیں ہے، انتشار ہے، خون خرابہ ہے،بیش تر مسلم ممالک میں اندرونی طور پر خلفشار ہے، ہنگامے ہیں، بم کے دھماکے ہورہے ہیںاور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہورہاہے ،مسلمانوں کے نام پر ہورہاہے ۔ کہاجاتاہے کہ جنگ عظیم اول و دوم یورپ میں لڑی گئی ، اب جنگ وسط ایشیا میں لڑی جائی گی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ممالک میں اللہ کے جو بندے اللہ کا نام لے رہے ہیں،جن کی صداقت اور امانت و دیانت پر کوئی حرف نہیں آیا ہے،جو راستی پر قائم ہیںاور اللہ کے دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں اوراس کو اپنے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں،ان کے لیے ان ممالک کی زمین تنگ ہورہی ہے ۔طرح طرح کے مقدمات ہیں، بار بار لوگوں کوپھانسی کی اور تاحیات قید کی سزائیں دی جارہی ہیں۔بعض ممالک کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ قیدخانے میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
میرے دوستواور ساتھیو!اس ملک میں دستوری لحاظ سے ہر گروہ اور ہر مذہب کے ماننے والوںکو، چاہے وہ مسلمان ہوں، ہندو ہوں ،سکھ ہوں ،عیسائی ہوں،بدھ مت کے ماننے والے ہوں،یا قبائلی زندگی گزارنے والے ہوںسب کو اپنے اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔پرسنل لا کا مطلب نکاح، طلاق ،خلع،وراثت، وصیت اور ہبہ وغیرہ کے مسائل ہیں۔اس کا بار بار یہاں ذکر آتارہاہے، اوقاف کامسئلہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ہمارے ملک کے دستور نے ہر مذہبی اور سماجی گروہ کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے پرسنل لاپر عمل کرسکتا ہے۔ انگریز ،جو مسلمانوں سے لڑتے رہے، ان کے زمانے میں بھی مسلمانوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے پرسنل لا پر عمل کرسکیں۔ اب کامن سول کوڈ کی بات کی جارہی ہے اور اس کا مطالبہ ہورہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ایسا کامن سول کوڈ جس سے تمام لوگ مطمئن ہوجائیں، کب تک سامنے آئےگا۔بظاہر اس کا امکان نہیں ہے،لیکن یہ بات طے ہے کہ کامن سول کوڈ میں قرآن وحدیث کی رعایت نہیں ہوگی۔بہت سی چیزیں اس کے خلاف ہوں گی۔لیکن مسلمانانِ ہند یہ طے کرچکے ہیں کہ وہ اپنے پرسنل لا پر ضرور عمل کریں گے۔ اگر آپ اپنے پرسنل لا پر عمل کرنا چاہیں اورکریں،آپ کا نکاح اس طرح سے ہو جس طرح اسلام نے بتایا ہے، آپ کی وراثت کی تقسیم اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوتو اس سے آپ کو کوئی قانون روک نہیں سکتا۔آپ کو یہ اعلان کرنا چاہیے اور ہمت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ مسلمان اپنے دینی احکام میں کوئی تبدیلی گوارا نہیں کرسکتے۔اگر کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہوتو فقہاء اسلام سے گفتگو کریں گے اور اس کا حل نکالیں گے۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب آپ ارادہ کرلیں کہ ہم اسلامی قانون کے پابند رہیں گے۔
میرے دوستو اور ساتھیو! حالات کا رخ چاہے ہندوستان میں ہویا پوری دنیا میں ہو،آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے خلاف جارہاہے۔لیکن یاد رکھیے کہ قومیں زندہ اسی وقت رہتی ہیں جب مشکل حالات سے نمٹنے اوران کامقابلہ کرنے کاان کے اندر حوصلہ ہوتاہے۔ جو قوم مشکل حالات میں سپر ڈال دے ،ہمت ہار جائے، حوصلہ چھوڑ بیٹھے،وہ دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ہر آنے والا اسے دبائے گا ۔ اگر آپ کو زندہ رہنا ہے تو آپ کے اندر حالات سے نبرد آزماہونے کی اور مخالف طاقتوںسے پنجہ آزما نے کی طاقت ہونی چاہیے۔ اگر آپ کا حوصلہ پست ہوگیا اور آپ ہمت ہار کر گھر بیٹھ گئے تو ممکن نہیں کہ دنیا آپ کو یہیں چھوڑ دے۔اگر آدمی ایک مرتبہ سپر ڈالتاہے تو پھردنیا اسے اٹھنے نہیں دیتی ۔ بہر حال ان نازک حالات میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آپ کو ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔جنگ احد میں ستر(۷۰) مسلمان شہید ہوگئے اور اتنے ہی زخمی ہوگئے۔ لوگوں میں یہ بات بھی مشہور ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ کی شہادت واقع ہوگئی ہے ۔ ان نازک حالات پر قرآن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (آ ل عمران:۱۳۹) ’’کم زوری نہ دکھائواور افسوس کرکے نہ بیٹھ جائو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے تو تم ہی سربلند رہوگے۔‘‘مزید کہا گیا:اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ (آل عمران: ۱۴۰) اگر تم کو زخم لگا ہے تو اس سے پہلے تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگ چکاہے ۔‘‘
میرے دوستو اور ساتھیو! یہی وہ پیغام ہے جو آج آپ کودیا جاسکتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اسلام پر عمل کا فیصلہ کرلیںاور علی الاعلان کہیں کہ اسلام نے ہمیںجوراہ راست دکھائی ہے اس پر ہم چلیں گے:اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ(الاسراء:۹)’’ یہ قرآن وہ راستہ دکھا تاہے جو سیدھا ہے، مضبوط ہے ۔‘‘کسی فرد کے بارے میں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کم زوری دکھائی، لیکن جب کوئی قوم سرنڈر کر جائے اور سپر ڈال دے تو یہ اس کی قومی موت ہوگی ۔ قرآن نے کہا کہ اگر تمہارے اندر ایمان ہے تو تم ہی غالب رہو گے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر ایمان ہو ۔ یہ ایمان کہ اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی صحیح ہے ۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ نے اس یقین کے ساتھ زندگی گزاری تو اللہ کی مدد آپ کو حاصل ہوگی۔ قرآن نے شرط رکھی ہے کہ اگر تم اللہ کے دین کی نصرت و حمایت کے لیے کھڑے ہوجائوگے تو اس کی نصرت اور حمایت بھی تمہیں حاصل ہوگی۔اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ(محمد:۷) ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گااور تمہارے قدموں کو جمادے گا‘‘۔
میرے دوستو اور ساتھیو! پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے اندر ایمان ہوکہ قرآن نے جو راستہ دکھایا ہے وہی صحیح ہے۔ پھر اسی کے مطابق آپ کا عمل ہو۔ آپ کی زندگی گواہی دے کہ آپ قرآن کی بتائی ہوئی راہ پر چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کا تعارف ہو۔اور بتایاجائے کہ اس نے ہمدردی اور لطف و محبت کی تعلیم دی ہے، اخوت و محبت اور انسانیت کی تعلیم دی ہے،عفو و در گزر کی تعلیم دی ہے، خدمت خلق کی تعلیم دی ہے، آپ ان تعلیمات کو نہ صرف عام کریں ،بلکہ اس پر عمل کرکے دکھائیں۔ بیس کروڑ انسان اگر دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کریں توکسی شخص کے اندر ہمت نہیں ہوسکتی کہ وہ کہے کہ یہاں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، غلط لوگ جنم لیتے ہیں۔میں تو کہتاہوں کہ بیس کروڑ میں سے دس کروڑ ، پانچ کروڑ یا ایک کروڑ انسان بھی اس ملک کے اندراسلام کا ثبوت دے دیں ، کہ ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل کررہے ہیںتو ناممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اس قوم کے اندر غلط لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ایک آدمی کہے گا تو دس آدمی انکار کریں گے کہ میرا پڑوسی تو ایسا نہیںہے،وہ مسلمان ہے۔میرا ساتھی تو ایسا نہیں ہے، وہ مسلمان ہے۔ میرے ساتھ جو طلبہ یونیور سٹیوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں ان کا کردار ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ اس کا ثبوت دیں اور بڑی تعداد میںثبوت دیںتوجو اعتراضات آج کیے جارہے ہیںان کا جواب خود بخود ملنے لگے گا۔ اسلام کی تعلیمات کو دیکھ کر لوگ متوجہ ہوں گے اور بہت سی غلط فہمیاں جو ان کے اندر پائی جاتی ہیں لوگ خود بخود کہنے لگیں گے کہ یہ مسلمان ہے ،یہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔یہ مسلمان ہے، رشوت نہیں لے سکتا۔ یہ مسلمان ہے، غلط کام نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت حال اگر پیدا ہوجائے تو یقین جانیے کہ حالات کا رخ بدل جائے گا۔
میرے دوستو اور ساتھیو! دنیا میں ہر مسلک کے بولنے والے ہیں، ہر نظریے کے بولنے والے ہیں،ہر فکر کے بولنے والے ہیں،کمیونزم کے حق میں بولنے والے ہیں،سرمایہ داری کے حق میں بولنے والے ہیں،لیکن افسوس کہ اس ملک میں اسلام کے حق میں بولنے والے نظر نہیں آتے۔کیا جواب دیں گے ہم اللہ کو!اگر وہ کہے گا کہ تم تو بیس کروڑ تھے ، پھر کیوں تم نے میرے دینِ اسلام کا نام نہیںلیا؟میرے دوستو اور ساتھیو! ہم میں سے وہ اصحاب جو علم رکھتے ہیں، بصیرت رکھتے ہیں،یا تھوڑی بہت محنت سے بصیرت حاصل کرسکتے ہیں،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے دین کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس سے ان شاء اللہ ہمارے ملک کے حالات بدل جائیں گے۔ انہی باتوں پر میں اپنی گفتگو ختم کرتاہوں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو باتیں عرض کی گئی ہیں ان کو میں بھی یاد رکھوں اور آپ بھی یاد رکھیں۔ ان پرمجھے بھی عمل کی اللہ تعالیٰ توفیق عنایت فرمائے اور آپ کو بھی اپنی توفیق سے نوازے۔اللہ اکبراللہ اکبر ،لا الہ الااللہ، واللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمد، بارک اللہ لنا ولکم فی القرآن العظیم، ونفعنا وایاکم بالآیات والذکر الحکیم، انہ تعالیٰ جواد کریم ملک بر رووف رحیم۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016