رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت

اللہ تعالیٰ کابے پایاں شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کا حقیقی شعور بخشا اور اسے حاصل کرنے کے لئے روشن تعلیمات و اپنے محبوب پیغمبر کا اسوہ حسنہ عطا فرمایا۔ فلاحِ آخرت اور رضائے الٰہی تحریک اسلامی اورامت مسلمہ کا حقیقی مقصد وغایت ہے۔خصوصاً جماعت نے اپنے دستور کی دفعہ 4 میں فلاحِ آخرت ورضائے الٰہی کے حصول کو اپنی جدوجہد کا حقیقی محرک اور مقصود قرار دیا ہے اوراسی عہد کے اعلان وشہادت کے ساتھ ہم تحریک اسلامی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

فرمان الٰہی ‘‘میں نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے’’کے مطابق عبادت کا حاصل اللہ کی محبت، اللہ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔قرآن نے کامیابی کے تصور کے لیے’ نجات’ اور’فوزوفلاح’ کے کلمات بھی استعمال کیے ہیں ۔ فلاح کے معنی ہیں دائمی وپائےدار کامیابی، دنیا و آخرت دونوں اعتبار سے کامیابی، فلاح آخرت کی اصل اور بنیاد، اللہ کی رضا اور اس کی ‘خوشنودی ہےاور یہی چیز دائمی کامیابی کی اساس ہے۔

دراصل اس کائنات میں اللہ کی طرف سے بخشی گئی مہلت عمل کا مقصود، رب العالمین کی خوشنودی کا حصول ہی ہے ۔اب اگر ہم اسے قرآن مجید کی مختلف آیات کی روشنی میں دیکھیں تو سورہ الفتح ،آیت 29 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِیۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَهُمۡ تَرٰهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا یبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ۖسِیۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰة ِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِیۡلِ ۛۚ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ یعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیـغِیۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِیۡمًا

(محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ منکرین حق کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحیم وشفیق ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع وسجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پرموجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی ، پھر وہ گدرائی ، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی ۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کر تی ہے تا کہ منکرین ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔ اِس گروہ کےلوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نےان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ )

اسی طرح توبہ کی آیات: 71-72 میں اللہ ایمان کی بنیاد پر وجود پانے والی امت کی بنیادی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

(مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کےولی اور کارساز ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور اقامت صلوة و ایتائے زکاة کافریضہ انجام دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتوں کا ضرور نزول فرمائے گا۔ بے شک اللہ عزیز و حکیم ہے۔ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی، یہی بڑی کامیابی ہے۔)

رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کو محرک بنانے کے مثبت اثرات انسان کی پوری شخصیت اور پوری زندگی پر پڑتے ہیں ۔ یہ عقیدہ انسان کی فطرت کا تقاضہ بھی ہے اور اس کے اندرون و بیرون میں انقلابی تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ ہر طرح کی بھلائی اور خیر کو اس کی شخصیت میں پروان چڑھاتا ہے اوراسے مجسم اخلاص بنادیتا ہے ۔

سورہ فتح کی روشنی میں مومنین کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ شخصی اعتبار سے اپنے اعمال سے پہچانے جاتے ہیں ۔وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحیم اور شفیق ہیں۔ اور جو لوگ منکرین حق ہیں ان کے مقابلے میں شدید ہیں۔ یہاں’ شدید’ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی رکھی جائے، فرد کے ساتھ سختی یا درشتی اسلام کا کبھی منشا نہیں رہا یہاں مراد ہے ‘ کفر’ اور’شرک’ سے مداہنت نہیں کرتے۔ اسلام فرد سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اعمال سے اپنی دعوت کا نمائندہ اور سفیربن جائے ،مومن کو صاف گو، راست باز اور پیکر عمل بن جانے کی تلقین کرتا ہے اور مشن کو غالب رکھنے کے معاملے میں واضح( clear cut ) رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ کلمہ رب کے مطابق وہ قول السدید کی تصویر بن جاتا ہے ۔

مومن وہ لوگ ہیں کہ تم انہیں رکوع اور سجدے میں پاؤ گے۔اس لئے کہ وہ صرف اللہ کی خوشنودی اور فضل کے طالب ہیں۔ وہ سفر میں، حضر میں ،تنگی میں ،فراخی میں ،صحت میں، معذوری میں، ہر حال میں رضائے الٰہی کےطلب گار ہیں۔ اپنی ذات کو داعی سمجھتے ہیں اور اپنے وجود کو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں ۔اسی کاز کے لیے وہ مستقل زمین میں جدوجہد کرتے ہیں۔

اسی طرح اگر ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کو قرآن مجید میں مزید دیکھیں تو اس کے لیے قرآن مجید نے جو بنیاد فراہم کی ہے،وہ ہے اخلاص۔نیتوں کا اخلاص ،اعمال کا اخلاص ،انسان کے عمل میں اگر اخلاص نہ ہو تو اس کے اعمال کتنے عظیم کیوں نہ ہوں، خوشنودی رب کا باعث نہیں بن سکتے۔ بلکہ اللہ کے غضب اور اللہ رب العالمین کے غصے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اخلاص کے معنی ہوتے ہیں کہ آدمی اپنا کام خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے۔ قرآن مجید میں یہ بات متعدد مقامات پر کہی گئی ہے ۔

إِنَّ ٱللَّهَ یحِبُّ ٱلَّذِینَ یقَٰتِلُونَ فِی سَبِیلِهِۦ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنۡیٰنٌ مَّرۡصُوصٌ [الصف:4]

(بےشک اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی راہ میں ایسے صف ہوکر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو۔)

فی سبیل اللہ، اخلاص ہی کا نام ہے۔یعنی صرف اللہ کے لئے اور اسی کی خاطر۔ اخلاص، قبولیت کی بنیاد ہے اور اخلاص نیت میں ، ارادے میں ،عمل میں یا ہم جتنی بھی سرگرمیاں دنیا میں انجام دیتے ہیں، ان سرگرمیوں میں اخلاص ہو اور ان کا محرک رضائے الٰہی کا حصول تو پھر وہ عند اللہ مقبول ہوں گی۔ وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِیعْبُدُواْ ٱللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ ٱلدِّینَ۔

عمل میں ریاکاری کا شائبہ بھی آجائے تو وہ ضائع ہوجائے گا۔اسی لئے مومنین کو اپنے عمل کی بہت نگہداشت کرنی چاہیے اور لوگوں کی تعریف و توصیف سے بے نیاز ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔

دنیا کی زندگی آخرت کا راستہ ہے۔ یہاں کا ہر عمل آخرت پر منتج ہوتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ سے یہ قول منسوب ہے اور اس کے مفہوم کی تائید قرآنی آیات سے ہوتی ہے :الدنیا مزرعة الآخرة ،دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے لئے جن اوصاف سے ہمیں آراستہ ہونا چاہئے قرآن مجید ہر جگہ اس کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے۔سورہ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات میں فلاح پانے والے اور جنت الفردوس کے حقیقی وارثین کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:

پختہ ایمانی شعور،خشیت الٰہی کے ساتھ نمازکا اہتمام ،لغویات اور لایعنی باتوں سے سخت اجتناب،تزکیہ نفس و تزکیہ مال پر مستقل عامل ،شرمگاہوں کی حفاظت ،عہد و پیمان کی پابندی ،امانتوں کا خیال اپنی نمازوں کی محافظت۔

سورہ بقرہ کی ابتداء میں فرمایا:کتاب اللہ کو سرچشمہ ہدایت ماننا، صفت تقوی، اقامت صلوة وانفاق فی سبیل اللہ۔

سورہ صف میں عذاب الیم سے نجات کا راستہ اور مغفرت اور جنت کے حصول نیز دنیا میں فتوحات وسرخ روئی کی بنیاد پختہ وشعوری ایمان اورراہ خدا میں اپنی جان ومال سے جدوجہد کو قرار دیا ہے۔

اللہ کی محبت کو اللہ نے اپنے رسول کی اتباع میں رکھ دیا ہے:

قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ یحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَیغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡ‌ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورہ آل عمران:۱۱)

(فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔)

آئیے اس دائمی وابدی کامیابی کے لئے اپنی ذات کی کارگزاری و ترجیحات پر بھرپور نگاہ رکھیں، کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا کہ

الْكَیسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ تَعَالَى

(عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد (والی زندگی) کے لیے تیاری کرے اور بے وقوف وہ ہے جو خود کو خواہشات کے پیچھے لگا لے اور (پھر بھی) اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔)

وہ اہم امور جن پر ہمیں بھر پور توجہ دینی چاہئے:

1۔ دیانت داری:

اپنی ذات کے ساتھ دیانت داری سب سے مشکل ترین مرحلہ ہے ۔لوگوں سے تعریف و توصیف کے حصول سے بے نیازی ،لایعنی اور فضول باتوں میں غلطاں ہونا ، اپنا قیمتی وقت تعمیری کاموں کے بجائے فضولیات میں گزار کر نفس کو دھوکہ دینا کہ میں جو کررہا وہی اصل کام ہے ۔

موجودہ دور میں سب سے مشکل ترین کام ترک لایعنی ہے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں سفاکی سے اپنی ذات کا جائزہ ہر شخص لے کہ اس نے کتنا وقت لایعنی ، بے معنی چیزوں میں صرف کیا ۔ تضیع وقت آج فلاح آخرت کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ وقت اور صلاحیتیں ہمارے پاس رب کریم امانت بھی ہیں اور فلاح کا اصل سرمایہ بھی۔

آج ہم اپنے وقت کا بہت بڑاحصہ بے دردی کے ساتھ دوسروں پر تنقید ، تنقیص میں گزاردیتے ہیں ۔ہر فرد تنہا اپنی قبر میں جائے گا۔ تنہا اللہ کے حضور پیش ہوگا ۔ کیا اتنی قیمتی زندگی کا سرمایہ اللہ کے بندوں کو رب العالمین کی طرف دعوت کے بجائے ایمان والوں کی تنقیص میں گزاردینا اپنے وجود کے ساتھ انصاف ہے ۔؟ یہ اپنے آپ سے کیا جانے والا سوال ہے:

وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۢ

(ہر فرد یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا )

فلاحِ آخرت کے لیے خوشنودی رب لازم ہے اور خوشنودی رب کے لیے اپنی ذات کی تعمیر اور اعمال کی کڑی نگرانی اس راہ میں لازم و ملزوم ہے۔ اپنے ذات کی نگہبانی میں اہم بات یہ ہے ہم خود ساختہ ضروریات سے گریز کرناسیکھیں،غیر متعین ترجیحات سے اپنے آپ کی حفاظت کریں،جاہ و منصب کی طمع سے بے نیازی اختیار کریں ، یہی طمع خدانخواستہ دل کے کسی کونے میں بھی جگہ پالے تو انسان اپنا سارا قیمتی وقت ایک دوسرے کو گرانے میں لگا دیتا ہے ۔شہرت پسندی سے اپنے آپ کی حفاظت کی جائے ، بے جا تنقیصی محفلوں کا حصہ بننے سے بچنا اورصالح صحبت اختیار کرنا چاہیے۔مومن کی تعریف تعریف کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

عَنْ اَبِىْ هُرَیرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ اَمَرَنِىْ رَبِّىْ بِتِسْعٍ خَشْیةِ اللهِ فِی السِّرِ وَالْإِعْلَانِیةِ ، وَكَلِمَةَ الْعَدْلِ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا ، وَالْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَى ، وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِىْ ، وَأُعْطِىَ مَنْ حَرَمَنِىْ ، وَاَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِىْ وَاَنْ یكُوْنَ صَمْتِى فِكْرًا وَنُطْقِىْ ذِكْرًا وَنَظْرِىْ عِبْرَةً وَآمُرَ بِالْعُرْفِ وَقِیلَ بِالْمَعْرُوْفِ . (رواه زرین)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: (۱) ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا (۲) انصاف کی بات کہنا غصے میں اور رضا مندی میں (۳) افلاس اور دولت مندی دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا (۴) جو مجھ سے قطع تعلق کرے،میں اس سے قرابت کو قائم رکھوں (۵) جو مجھے محروم رکھے، میں اس شخص کو دوں (۶) جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں (۷) میری خاموشی غور و فکر پر مبنی ہو، میرا بولنا ذکر الٰہی ہو (۸) میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو (۹) اور میں نیکی کا حکم دوں۔’’(مشکوٰة ،باب البکاء والخوف)

تفکرات میں آپ تعمیر کا نیا محاذ کھوجنے میں مگن ہوں ۔جب بولیں بس بھلائی کی بات کہہ کر چپ ہوجائیں۔تضییع اوقات سے گریز کریں۔اپنی ذات کو نافع بنانے کی کوشش کریں۔بخل سے پاک ہر چیز کا بخل، مال کا، صلاحیت کا ،اپنی ذات کے ساتھ، اپنے اہل وعیال کو آتش دوزخ سے بچانے کی فکر: قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا ۔

یہ رضائے الٰہی کا جذبہ صادق صحابہ کرام میں پیدا ہوا تو حسین و جمیل لافانی کردار ہمیں نظر آتے ہیں۔

ابو دحداح کی آواز آتی ہے: اے ام دحداح! اس باغ کی کھجور اب ہمارا حق نہیں ہے۔ میں راہ خدا میں سارا باغ صدقہ کرچکا ہوں۔پیشانی پر حرف سوال کی لکیر تک نہیں ام دحداح باغ سے نکل آئیں۔اس مشن کے مصداق کہ’ اے ابرہیم! ہمیں کس کے بھروسے اس بیاباں میں چھوڑے جارہے ہو۔؟ جواب ملا :’’اللہ رب العالمین ‘‘۔ مشن کے ساتھی کو دوسرے کسی سوال کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔

سوال ہوتا ہے: صدیق گھر کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ جواب ملا:’’ اے نبی سب کا سب لے آیا۔ صرف اللہ کا نام چھوڑا ۔’’

سوال ہوا:’’مال غنیمت سے کوئی غلام سہولت کے لیے مل سکتا ہے؟’’ دختر عظیم کو جواب ملتا ہے کہ’’ بیٹی تسبیح کرو ،یہی بہتر ہے۔’’

خاندان کا تعاون سب سے عظیم نعمت ہے۔ اگر ایک مشن سے جڑے ہوئے شخص کو یہ حاصل ہوجائے تو وہ گھرانہ حشر میں جنت الفردوس میں جگہ پائے گا۔ اس کے لیے جبر نہیں مستقل محنت چاہیے۔ رویے اور اعمال میں یک رنگی اور طبیعت میں توازن چاہیے۔

ہم نے جس اجتماعیت کے ساتھ تعلق کو جوڑا اس کی بنیاد رضائے الٰہی ہو۔

الحب للہ والبغض للہ ومنع للہ أعطى للہ فقداستکمل الایمان

اپنے ملک اور برادران وطن کے ساتھ دیانت داری ہونا چاہیے۔

رضائے الٰہی انسان کا عشق بن جائے تو پوری انسانیت اور مخلوق خدا سے محبت اور ان کی نجات کی فکر فرد کی زندگی کا مشن بن جاتا ہے ۔ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر یہ بات کہی ہے کہ فلاح آخر اور رضائے الٰہی کا جو سبب ہے وہ اقامت دین امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شعور ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی دعوت دے برائیوں سے روکے اور نیکیوں کا حکم دے یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک فلاح پانے والے ہیں۔

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ یدْعُونَ إِلَى ٱلْخَیرِ وَیأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَینْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ

آئیے! کہ زندگی اس طرح گزاریں کہ آخرت کی پہلی منزل موت کے وقت فرشتہ ہمارا اس انداز سے استقبال کرے ۔

قوموں کی اور افراد کی ذلت و رسوائی اور پسپائی کا ایک سبب آخرت فراموشی بھی ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا : میری امت پر وہ وقت آنے والا ہے، جب دوسری قومیں لقمہ تر سمجھ کراس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا اس زمانہ میں ہماری تعداد اتنی کم ہوجائے گی کے ہمیں نگل لینے کے لئے قومیں متحد ہو کر ہم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: نہیں! اس وقت تمہاری تعداد کم نہیں ہوگی، البتہ تم سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہو جائوگے۔ اور لوگوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکل جائے گا۔ اور تمہارے دلوں میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہوجائے گی۔ اس پر ایک آدمی نے پوچھاکہ یا رسول اللہ، یہ کیفیت کیوں ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ تم دنیا سے محبت کرنے لگوگے اور موت سےنفرت اور فرار اختیار کروگے۔ (ابو داود)

دنیا کی یہ محبت جس کی مذمت کی گئی ہے، وہ محبت ہے جو آخرت سے غافل کر دیتی ہے اور انسان دنیا سے بے پناہ محبت کرنے لگتا ہے ۔ چاہے ایسا کرنے سے کتنی ہی انفرادی واجتماعی ذلت کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑتا ہو۔ جب دنیا سے اس قسم کا لگاو ٔپیدا ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ حق اور سچائی کی راہ میں جان دینے سے جی چرایا جائے گا اور جب کوئی قوم حق کی راہ میں جان دینے سے جی چرائے اور زندگی کو ایک انمول موتی کی طرح سینت سینت کر رکھنے پر تل جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو جائے گی ۔ باطل کے دل سے ان کا رعب نکل جائے گا اور وہ سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہو کر رہ جائیں گے اور دوسری قومیں انہیں ترنوالہ سمجھ کر اس طرح اس پر ٹوٹ پڑیں گی، جس طرح کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اس کے برعکس جن دانا انسانوں کے ذہن میںرضائے کا خیال ہوگا اور ان پر دائمی زندگی کو خوشگوار بنانے کا جذبہ غالب آچکا ہوتا ہے۔انہیں دنیا کے حقیر ساز و سامان کبھی بھی اس طرح متاثر نہیں کر تھے کہ وہ ان کی خاطر سچائی اور دیانتداری کی راہ سے منحرف ہو جائیں ۔ محاسبہ ٔ آخرت کا خوف انہیں اپنے اعمال کے بارے میں اتنا چوکنا رکھتا ہے کہ وہ خود اپنے محاسب بن جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس کہ ایک دن انہوں نے خدا کے آگے ؟ جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے خود بار بار اپنا حساب لیتے رہیں۔

یاَ اٴَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةّ ارْجِعِی اِٴلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَ ادْخُلِی جَنَّتِی

(اے نفس مطمن پلٹ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اپنے رب سے راضی ہو اور تیرا رب تجھ سے راضی ہو۔شامل ہوجا میرے نیک بندوں اور داخل ہوجا میری جنت میں)

اور جب میدان حشر میں اللہ کے حضور ہم پیش ہوں تو اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور فرشتے ہمارا استقبال کرتے ہوئے یہ کہیں کہ

سَلَامٌ عَلَیكُمْ طِبْتُـمْ فَادْخُلُوْهَا خَالِـدِینَ

(تم پر سلام ہو تم اچھے لوگ ہو اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو جاؤ۔)

مشمولہ: شمارہ مئی 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223