۔ الخراج ، یحییٰ بن آدم القرشی (متوفی ۲۰۳ھ ) کوفہ کے رہنے والے، ابوبکر بن عیاش، الحسن بن صالح۔ سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ ، شریک بن عبداللہ اورعبداللہ بن مبارک جیسے بڑے علماء سے استفادہ کیا ۔ ان کے تلامذہ میں احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ اوریحییٰ بن معین جیسے ائمہ حدیث شامل تھے ۔ آپ کی کتاب ’الخراج‘ قاضی ابویوسف کی کتاب کے طرز پر ہے ، جس میں احادیث سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیاگیا ہے۔ اس میں ریاست کی اقتصادی پالیسی کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے ۔ احمد محمد شاکر کی تحقیق سے مطبعہ سلفیہ قاہرہ سے ۱۳۸۴ھ میں شائع ہوئی ہے ۔
۵۔ سلوک المسالک فی تدبیر الممالک ، شہاب الدین ، احمد بن محمد ابوالربیع (متوفی ۲۲۷ھ ) عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے حکم اور ایما پر تصنیف کی ۔یہ کتاب ڈاکٹر حامد عبداللہ ربیع، دار الشعب قاہرہ اور ڈاکٹر ناجی التکریتی کی تحقیق کے ساتھ دارالشؤون الثقافیۃ العامہ بغداد سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں خاص طورسے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ریاست میں کوئی بالادست قوت ایسی نہ ہوگی جوحاکم کوکسی قانون کی تنفیذ میں روک سکے ، گویا حاکم کوغیر محدود اختیارات حاصل ہوں گے۔
۶۔ کتاب الامامۃ والسیاسۃ ، ابوعبداللہ محمد بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری (۲۱۳ھ ۲۷۶ھ) پیدائش کوفہ میں اور وفات بغداد میں ہوئی ، دینور کے قاضی رہے ۔ ان کی کتاب عیون الاخبار نے خصوصی مقبولیت حاصل کی ، ادب الکاتب میں انہوںنے انتظامیہ کے سکریٹریوں کے تقرر کے آداب ، شرائط اورضروری اوصاف سے بحث کی ہے ، ’ الامامۃ والسیاسۃ ‘ میں انہوںنے اسلام کے نظریۂ امامت کی مفصل توضیح و تشریح کی ہے ۔ یہ کتاب قاہرہ سے ۱۳۲۲ھ میں طبع ہوئی ہے ۔
۷۔ الاعلام لمناقب الاسلام، ابوالحسن محمدبن یوسف العامری (متوفی ۳۸۱ھ یہ کتاب ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کی تحقیق کے ساتھ دارالکاتب العربی قاہرہ سے ۱۳۸۷ھ میں شائع ہوئی ہے ۔
۸۔ السیاسۃ ، الحسین بن علی بن الحسین بن علی بن محمد بن یوسف بن بہرام المعروف بالفوزیر المغربی (متوفی ۴۱۸ھ ) ڈاکٹر فؤاد عبدالمنعم کی تحقیق کے ساتھ مؤسسۃ شباب الجامعۃ، اسکندریہ، مصر سے مطبوع ہے ۔
۹۔ لطف التدبیر فی سیاسۃ الملک، محمد بن عبداللہ المعروف بالخطیب الاسکافی (متوفی ۴۲۹ھ ) احمد عبدالباقی کی تحقیق کے ساتھ قاہرہ سے ۱۹۶۰ء میں شائع ہوئی ہے ۔
۱۰۔ رسوم دار الخلافۃ ، ابوالحسین بن ہلال بن المحسن الصابی (متوفی ۴۴۸ھ) میخائل عواد کی تحقیق کے ساتھ مطبعۃ العافی بغداد سے ۱۳۸۳ھ میں شائع ہوئی ہے ۔
۱۱۔ کتاب السیاسۃ اوالاشارۃ فی تدبیر الامارۃ، محمد بن الحسن الحضرمی المعروف بالمرادی ۔ علی سامی النشارکی تحقیق کے ساتھ دارالثقافۃ ، الدار البیضاء سے ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی ہے ۔
۱۲۔ الاحکام السلطانیۃ، ابوالحسن علی بن محمد حبیب البصری الماوردی (متوفی ۴۵۰ھ)۔ مشہور شافعی فقیہ، ماہر اصول فقہ اوراسلامی سیاسیات کے عالم ۔ عراق میں پیدا ہوئے ، بغداد میں وفات ہوئی ، نیشا پور کے قاضی رہے ۔ سیاست پران کی متعدد تصانیف موجود ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں انہوں نے مسلمانوں کے اہم سیاسی موضوعات سے بحث کی ہے ۔ امامت، اس کے وقوع کی کیفیت اوراس کی شرائط و خصوصیات ساتھ وزارت اوراس کی اقسام ، مناسب صفات ، ولایت قضا وغیرہ جیسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں ۔ یہ کتاب بیروت اورسعودی عرب سے متعددبارشائع ہوچکی ہے ۔ان کی دوسری اہم کتاب’ قوانین الوزارۃ وسیاسۃ الملک‘ ہے۔ اس میں وزیر کے منصب اورسیاسی ثقاح بھی اس کے مقام و مرتبہ پربحث کومرکوز کیا ہے ، وزارت کے بنیادی امور،جیسے نیکی ودین داری ، خیر وصلاح، استقامت واستقلال ، عدل وانصاف، قول وفعل میں احسان ، ایفاء عہد، حق پرستی وصداقت شعاری پر معرکہ آرابحث کی ہے ۔ یہ کتاب ڈاکٹر رضوان السید کی تحقیق کے ساتھ دارالطلیعۃ بیروت سے ۱۹۷۹ءمیں اورفواد عبدالمنعم احمد اورمحمد سلیمان داؤد کی تحقیق کے ساتھ مؤسسۃ شباب الجامعۃ ، الاسکندریۃ ، مصر سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی ہے ۔
موصوف کی تیسری کتاب’نصیحۃ الملوک ‘ ہے۔ اس میں حاکموں کے لیے نصح وخیر خواہی کی اہمیت وافادیت ،نیز علماء کے لیے نصح وخیر خواہی کی ضرورت ولزوم پربحث کی ہے ۔ یہ کتاب محمد جاسم الحدیثی کی تحقیق کے ساتھ دارالشؤون الثقافیۃ العامۃ بغداد سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہوئی ہے ۔ سیاست پر موصوف کی چوتھی کتاب’تسہیل النظر وتعجیل الظفر فی اخلاق الملک وسیاسۃ الملک ‘ ہے۔ اس میںانہوںنے انسان کے ذاتی اخلاق اورردیوں پربحث کی ہے ، نیز بادشاہت اور اس کے ارکان، اس کی اساس، تنظیم ، تشکیل، اعوان وانصار کے انتخاب اور ان کی کار کردگی کے احتساب کے مسائل زیر بحث لائے ہیں، مزید یہ کہ ریاست میں فساد کے اسباب ومحرکات پر گفتگو کی ہے ۔ یہ کتاب محی الدین السرحان کی تحقیق کے ساتھ دارالنہضۃ العربیۃ بیروت سے ۱۹۸۱ء میں اوررضوان السیدکی تحقیق کےساتھ دارالطلیعۃ بیروت سے شائع ہوئی ہے ۔
۱۳۔ غیاث الامم عن التیاث الظلم ، ابوالمعالی عبدالملک بن عبداللہ بن یوسف بن محمد الجوینی المعروف بالامام الحرمین (۴۱۹ھ۔ ۴۷۸ھ) نیشا پور کے نواح بشتنگان میں پیدا ہوئے اور وہیں و فا ت پائی۔ بعض اسباب سے ترک وطن کرکے بغداد گئے ، پھر وہاں سے حجاز گئے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کیا ۔ حرمین شریفین میں درس دینےکی وجہ سے انہیں امام الحرمین کا خطاب عطا کیاگیا ۔ کلام اورفقہ میں موصوف کی کئی کتابیں مشہور ہیں۔ علم سیاست پر ان کی زیر نظر کتاب میں نصبِ امامت کے وجوب اوراس نظر یہ کے مخالفین کی تردید کی گئی ہے ۔ مسئلہ امامت کونص سے ثابت کیا گیا ہے ۔ اہل حل وعقد کی تعداد کی تعین کی گئی ہے ، امام کی صفات ، اسے معزول کرنے کی صورت میں مفضول امام کا مسئلہ ، دواماموں کی بیک وقت موجودگی کی ممانعت وغیرہ مسائل پر مفصل بحث کی گئی ہے ۔ یہ کتاب مصطفیٰ حلمی کی تحقیق سے دارالدعوۃ اسکندریۃ سے ۱۹۷۹ء میں اورعبدالعظیم الدین کی تحقیق کے ساتھ قاہرہ اوردوحہ سے ۱۴۰۰ھ میں شائع ہوئی ہے ۔
۱۴۔ التبر المسبوک فی نصیحۃ الملوک ، محمد بن محمد بن محمد بن احمد الطوسی الشافعی المعروف بحجۃ الاسلام الغزالی (م ۵۰۵ھ)۔ متکلم،صوفی ، اصولی ، مصلح ، فلسفی۔ امام غزالی طوس کے مقام کاہران میں پیدا ہو ئے اور وہیں وفات ہوئی ۔ امام الحرمین جوینی کے تلامذہ میں سے تھے۔ نظامیہ مدرسہ بغداد کے مدتوں مدرس رہے ۔ تصوف کی طرف میلان ہوا، فلسفہ کی گمراہیاں منکشف ہوئی ۔ اپنے خود نوشت المنقد عن الضلال میں اپنے روحانی سفر کی روداد بیان کی ۔ ان کی تصنیف احیاء علوم الدین کوخصوصی شہرت حاصل ہوئی۔ علم سیاست کے موضوع پر موصوف کی کئی کتابیں ہیں۔ فضائح الباطنیۃ وفضائل المستظہر یۃ میںامامت کے مسئلے پر بھر پور بحث کی ہے ۔ سرالعالمین وکشف مافی الدارین کا مرکزی موضوع اقتدار تک رسائی اور اس کے لیے مستحکم عصبیت کی تشکیل ہے ۔ اسی نظریہ کوابن خلدون نے ایک مکمل فلسفہ بنا کر پیش کیا ہے ۔ انہوں نے زیر نظر کتاب التبر المسبوک فی نصیحۃ الملوک سلطان محمد بن ملک شاہ سلجوقی کے لیے فارسی زبان میں لکھی تھی ۔ اس میں انہوں نے انعام خدا وندی کے اعتراف اوراس کی قدر، عدل وانصاف کے اصولوں کی وضاحت، شوریٰ، حاکموں کی جواب دہی ، رعایا کے حالات ومسائل ، حکم رانوں کی مطلوبہ صفات، اصلاح عوام اور تعمیر ملکت جیسے گہرے موضوعات سے بحث کی ہے۔ یہ کتاب محمد مصطفیٰ ابوالعلاء کی تحقیق سے مکتبۃ ازہری قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔
۱۵۔ السیاسۃ : ابونصر الفارابی (۲۶۰ھ۔ ۳۳۹ھ) قزاقستان کے شہر قاراب سے منسوب، معلم ثانی کے لقب سے ملقب ، ماہر حکیم، فلسفی، طبیب، ریاضی داں اورکئی زبانوں کے ماہر۔ حصول علم کے لیے بغداد کا سفر کیا، مختلف علام وفنون میں مہارت پیدا کی ۔ فارابی کواسلامی فلسفہ کا اولین ماہر قرار دیا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان سے پہلے الکندی کو’فیلسوف العرب‘کا خطاب دیا جاچکا تھا ۔ مگر در حقیقت الفار ابی نے اسلامی فلسفہ کی بنیاد ڈالی۔ انہوںنے سیاست پر کئی کتابیں تصنیف کیںجن میں السیاسۃ ، السیاسۃ المدینۃ ، تحصیل السعادۃ اور آراء اہل المدینۃ الفاضلۃ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔اول الذکر کتاب میں انہوںنے ان عام سیاسی قوانین وضوابط کا تذکرہ کیا ہے جن سے ہرکس وناکس کوسابقہ پڑتا ہے ، خواہ اس کا تعلق حاکم سے ہو یا محکوم سے ۔ وہ قوت ناطقہ اورقوت بہیمہ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں اورانہیں انسان کے سیاسی رویوں سے مربوط کرتے ہیں۔ دوسری کتاب میں معاشرہ کوتین قسموں میں تقسیم کیا ہے اوربتایا ہے کہ معاشرہ کی ایک قسم وہ ہے جس کے افراد قیادت وسیاست کرتے ہیں اورکسی کی قیادت قبو ل نہیں کرتے، کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں توقیادت بھی کرتے ہیں اوردوسرے کی قیادت قبول بھی کرتے ہیں۔ تیسری کتاب میں حصولِ سعادت کے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ معاشرہ کے مختلف طبقات میں فوجیوں کی سعادت کے لیے جسمانی قوت کے ساتھ فکری قوت کے حصول کوضروری قرار دیا ہے ۔ بادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ رعایا کی تربیت کرے ، اوران کے اندر موجود خوبیوں اور فضیلتوں کوپروان چڑھائے تاکہ اس سے عوام کو سعادت حاصل ہوگی۔ تیسری کتاب میں بتایا ہے کہ ایک حاکم یا سربراہ معاشرہ کے لیے کیوں ناگزیر ہے ؟ مدینہ فاضلہ اوراس کے متضاد شہروں اورمملکتوں کا مفصل حال بیان کیا گیا ہے ۔
۱۶۔ رسالۃ فی السیاسۃ ، ابوعلی الحسین بن عبداللہ معروف بہ ابن سینا(۳۷۰ھ۔۴۲۸ھ ’الشیخ الرئیس‘ کے لقب سے ملقب ، مشہور مسلم سائنس داں ، طبیب ، ریاضی داں اورماہر فلکیات۔ بخارا کے قر یب ایک گاؤں میں پیدائش ہوئی اوروہیں وفات ہوئی۔ ابوریحان البیرونی ، ابونصر العراقی اور ابوسعید ابوالخیرسے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ کتاب الشفاء اور’القانون فی الطب‘ جیسی شہرۂ آفاق کتابوں کے مصنف نے سیاست کے موضوع پر ’رسالۃ فی السیاسۃ‘ کے نام سے ایک مختصر کتاب لکھی، جس کا آغاز انسانوں کے د رمیان اختلاف کے وجود سے کیا اوربتایا کہ یہ اختلافات انسانوں کے بقاء کا ذریعہ ہیں۔ مصنف موصوف نے ایک سیاسی نظام کی ضرورت پرزور دیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ ایک معاشرتی اورفطری ـضرورت کا تقاضا ہے ۔ معاشرہ اس وقت تشکیل پاتا ہے جب سیاست وحکومت کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر فؤاد عبدالمنعم احمد کی تحقیق کے ساتھ مؤسسۃ شباب الجامعۃ ’الاسکندریۃ ‘مصر سے شائع ہوئی ہے ۔
۱۷۔ الفصل فی الملل والاھواء والنحل ، ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم اندلسی (ولاد ت۳۸۴ھ ) مشہور عالم، مورخ، فلسفی ماہرتقابل ادیان۔ قرطبہ میں پیدائش ہوئی ۔ مختلف علوم وفنون میںمہارت حاصل کی، ہشام المعتد کے زمانے میں منصب وزارت پرفائز رہے ۔ مختلف نشیب وفراز سے گزرے، امویوں کی حمایت کے جرم میں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی اورجلاوطن بھی ہوئے۔ ابتداء میں شافعی مسلک تھے ، مگر بعد میں وہ ظاہری مسلک کے مبلغ بن گئے۔ انہوںنے ظاہری اصولوں کودینی عقائد پر منطق کرنے میں ایک نیا منہج اختیار کیا ۔ ان کی مختلف تصانیف نے شہرت دوام حاصل کی ۔ المحلی، الاحکام فی اصول الاحکام ، طوق الحمامۃ فی الالفۃ والالاف، کتاب الاخلاق والسیر فی مداواۃ النفوس اورزیر نظر کتاب خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ اس کتاب کے چند مباحث امامت وسیاست سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں اوران میں خلفاء اسلام کی فضیلت ثابت کی گئی ہے ۔ علامہ موصوف خلافت وامامت کے وجوب کے قائل ہیں۔ یہ کتاب مطبوع اورمتداول ہے۔
۱۸۔ الشفا فی مواعظ الملوک والخلفاء ، عبدالرحمان بن علی بن محمد بن علی عبداللہ بن حمادی بن جعفر التیمی البغدادی الحنبلی معروف بہ ابن الجوزی (۵۱۰ھ ۵۹۷ھ) محدث، مفسر، فقیہ، مورخ، واعظ، ادیب۔ بغدا د میں پیداہوئے اوروہیں وفات پائی۔ مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی ۔ ابوبکر الدینوری اورابومنصور الجوالیقی جیسے مشاہیر سے شرف تلمذ حاصل کیا ، مختلف پہلوسے دینی خدمات انجام دیں، حنبلی مسلک کے حامی وترجمان ، بدعات کے سخت ناقدتھے۔ کثیر التصانیف تھے۔ آپ کی کئی کتابوں نے شہرت دوام حاصل کی ۔ تلبیس ابلیس، صفوۃ الصفوۃ ، کتاب الاذکیاء، الموضوعات الکبریٰ فی الاحادیث المرفوعۃ ، ذم الہوی، کتاب القصاص والمذکّرین وغیرہ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں ۔ زیر نظر کتاب میں ولایت وریاست کی اہمیت وفضیلت ، عدل گستری ، مظالم کےبرے اثرات، حکومت کے اصول وقواعد ، سربراہان ملک کے مطلوبہ صفات سے بحث کی گئی ۔ خلفاء راشدین کے اصول جہاں بانی اوران کی سیرت پر روشنی ڈالی گئی ۔یہ کتاب ڈاکٹر فؤاد عبدالمنعم احمدکی تحقیق کے ساتھ مؤسسۃ شباب الجامعۃ، الاسکندریہ، مصر سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی ہے ۔
۱۹۔ کتاب الاموال، قاضی ابوعبیدالقاسم بن سلام (۱۵۷ھ ۔۲۲۴ھ)۔ آپ کا شمار تفسیر و حدیث کے ماہر ائمہ میں ہوتا ہے ۔ آپ نے ’غریب الحدیث‘کے موضوع پر جوکتاب تیار کی اس کی تنقیح و تہذیب میں ایک عرصہ (تقریباً چالیس سال) صرف کیے ۔ طرطوس میں قاضی رہے، حج کے دوران مکے میں وفات ہوئی۔
سیاست کے موضوع پرفقہ سیاسی کے اولین مصنفین میں سے ہیں ۔آپ کی زیر نظر کتاب نظام مملکت، پربہترین تصنیف ہے۔ اس میں حکومت کی آمدنی کے وسائل سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں احادیث وآثار صحابہ کے بہت سے حوالے ہیں، جن کی وجہ سے اس کی حیثیت ایک دستاویز کی بھی ہے ۔ بعد کے مصنفین نے اس کتاب سے خصوصی استفادہ کیا ہے۔
۲۰۔ الطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ، شمس الدین ابوعبداللہ محمدبن ابوبکر بن ایوب بن سعد الزرعی الدمشقی معروف بہ ابن القیم الجوزیہ (۶۹۱ھ ۔ ۷۵۱ھ)۔ دمشق میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی ۔ امام ابن تیمیہؒ آپ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ آپ کی کئی تصانیف مقبول عام ہوئیں۔ اعلام الموقعین عن رب العالمین ، التبیان فی علوم القرآن، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، مدارج السالکین ، مفتاح دارالسعادۃ ، ھدایۃ الحیاریٰ فی اجوبۃ الیہود والنصاریٰ اورالطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
سیاست کے موضوع پر موخر الذکر کتاب میں آپ نے حکومت کے آداب اورحکمرانوں کے لیے شریعت کے دائرے میں رہ کر فیصلے کے طریقے کی وضاحت کی ہے ۔ کیا سیاست زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے ؟ اس مسئلہ پر ابن عقیل اورعلامہ موصوف کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا، وہ بھی کتاب میں شامل ہے۔ مصنف نے سیاست کے مسائل کو حدود وتعزیرات، بازار کی مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی، مزارعت، مساقاۃ اوراحتساب وغیرہ کو قانونی وفقہی سیاق میں پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب مطبوع ومتداول ہے ۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2015