۔ المنہج المسلوک فی سیاسۃ الملوک : عبدالرحمن بن نصر بن عبداللہ الشیرازی (متوفیٰ ۷۷۴ھ ) مشہور مصنف، طریہ میں قاضی رہے آپ کی متعدد تصانیف ہیں۔ الایضاح فی السوارالنکاح خلاصۃ الکلام فی تاویل الاحکام ، روضۃ القلوب، وغیرہ۔ زیرِ نظر کتاب علم سیاست پر ہے جس میں ۱۹ ؍ابواب ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ معاشرہ کے لیے ایک عادل بادشاہ کی اشد ضرورت ہے ۔ اسے اخلاق عالیہ سے متصف ہونا چاہیے ۔ ان کے نزدیک مملکت کے عناصر ہیں۔ وزراء ، رعایا ، فوجی قوت ، مالیہ اورقلع ، وہ شوریٰ کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ، حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ و ہ علماء کی نصیحتیں سنیں۔
۲۲۔ المقدمہ، عبدالرحمان بن خلدون (۷۳۲ھ ۔ ۸۰۸ھ ) مالکی المسلک ، فقیہ ، مورخ اورماہر عمرانیات تیونس میں پیدا ہوئے اورقاہرہ میں وفات پائی ۔ علامہ ابن خلدون منطق ، فلسفہ ، فقہ ، ادب، ریاضی اورتاریخ جیسے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں مگر وقت کے دست برد سے وہ محفوظ نہ رہ سکیں کیوں کہ موصوف نےاپنی ۷۸سالہ زندگی میں یوروپ، افریقہ اورایشیاء کے متعدد ممالک کی سیر کی اور وہاں کی سیاست میں بھر پور حصہ لیا ، البتہ ان کی معرکہ آرا تصنیف ’تاریخ العبر‘‘ محفوظ ہے ۔ علامہ موصوف کو اس کتاب اور اس کے مقدمہ سے شہرتِ دوام حاصل ہوئی ۔ ’المقدمۃ‘ میں تمام علوم سے بحث کی گئی ہے ۔ مگر ان میں علم سیاست کا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ ان کے نزدیک عصبیت کا نظریہ ایک جامع اورمرکزی نکتہ ہے جس کی روشنی میں پورے سیاسی عمل کی تفسیر ہوتی ہے ۔وہ اسی کے سیاق میں پو رے تمدن کی عمارت کھڑی کرتے ہیں، اور سیاست کو ایک ترقی یافتہ شکل میں انسانیت کا خدمت گار ثابت کرتے ہیں ۔ موصوف انسانی معاشرہ اور ریاست کی ضرورت اوراس کی دینی ودنیاوی افادیت ہی سے بحث نہیں کرتے بلکہ ان عوامل کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں جومعاشرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان میں جغرافیائی عوامل سب سے اہم ہیں۔ وہ مالیات کی تاثیر پر بھی گفتگو کرتے ہیں اور معاشرہ کی تشکیل میں اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں دولت کی گردش مسلسل رعایا اوربادشاہ کے درمیان ضروری ہے ورنہ دونوں کا نقصان ہوگا ۔ علامہ موصوف علمِ سیاست کو مستقل حقیقت سے متعارف کرواتے ہیں۔ یہ کتاب مطبوع اور متداول ہے ۔
۲۳۔ حجۃ اللہ البالغۃ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۱۱۴ھ ۱۱۷۶ھ ) محدث، مفسر ، متکلم ، عہد عالم گیری کے آخری دنوں میں آپ کا تولد ہوا ، کم عمری میں مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی ۔ والد محترم عبدالرحیم کے قائم کردہ مدرسہ ’’ مدرسہ رحیمیۃ ‘‘ کی ان کی وفات کے بعد بارہ سال تک خدمت کی ، اس کے بعد حرمین شریفین کا قصد کیا ۔ دوبار حج سے مشرف ہوئے علامہ موصوف کا عہد ، اسلامی ہندوستان کے لیے پرآشوب تھا ۔ ہند میں مسلمانوں کی حکومت ہچکولے کھارہی تھی ایسے دور میں اللہ تعالیٰ نے موصوف کوایک مجدد کی شکل میں کھڑا کیا ۔ آپ نے مختلف کتابیںالمسوّٰی ، المصفّٰی ، ترجمہ قرآن ، الفوز الکبیر، الخیر الکثیر،حجۃ اللہ البالغۃ ، البدوز البازعۃ ، ازالۃ الخفاعن خلافۃ الخلفاء وغیرہ لکھیں اورمسلمانوں کے زوال پذیر معاشرہ سنبھالنے کی کوشش کی ۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سیاسی افکار ان کی مختلف تصانیف میں موجود ہیں ۔ حجۃ اللہ البالغۃ ان کی معرکہ آراتصنیف ہے ۔ یہ کتاب اس اسلامی احکام میں اسرار ورموز کی گرہ کشائی کرتی ہے۔ تدبیر المنزل کے ڈیل میں شہر کی سیاست سے بحث کی گئی ہے ۔ شہر کے مفہوم کی تعیین کی گئی ہے ۔ اورانسانی معاشرہ کے لیے سلطان کے وجود کوناگزیر قرار دیا گیا ہے ۔ رعایا اوراعوان حکومت کے ساتھ سلطان کے تعلقات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے ۔ دوسری جلد میں خلافت کے تصورات، حدود، مظالم اور جہاد کی تشریح کی گئی ہے ۔ علامہ موصوف نے معاشرہ کی تشکیل ، تنظیم ، تعمیر کھیل کے مختلف مراحل اور ادوار ، کے سیاسی تقاضوں اور ضروریات، سلطان اور رعایا کے حقوق وفرائض ، عمالِ حکومت کی تقرری ، معاشرہ کی سیاسی ، سماجی تہذیبی صفات اورخلافت کی حقیقت کے جملہ امور پر اپنے مخصوص عمران تصور’’ارتفاق‘‘ کے تناظر میں وضاحت کرتے ہیں ۔ ازالۃ الخلفاء میں خلافت راشد، پرتبصرہ اور وضاحت ہے۔ البدورالبازعۃ میں ایک آئیڈیل اسلامی حکومت کا خاکہ اورنقشہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ کتابیں مطبوع اور متداول ہیں۔علمائے سلف میں سے یہ چند مؤقر و معتبر علماء کی تصانیف کاحوالہ دیا گیا ہے جواسلامی سیاست کے موضوع سے بحث کرتی ہیں ۔ ایسی درجنوں کتابیں اورہیں جوعلماء نے تاریخ کے مختلف دور میں لکھی ہیں اور سیاست کے موضوع کی جن میں وضاحت کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے بعض کتب کی طرف مراجعت کر نا مفید ہوگا ۔ ان میں نصر محمد عارف کی ’’فی مصادر التراث السیاسی الاسلامی ‘‘ہارون خان شیروانی کی ”Studies in Muslim Political Thought and Administration”ڈاکٹر عبیداللہ فہدکی ’’اسلام کی سیاسی فکر اورمفکرین ‘‘ پروفیسر رشید احمد کی’’مسلمانوں کے سیاسی افکار’’ ڈاکٹر بسطامی محمد خیرکی’’ التطور الفقہ السیا سی ‘ ‘ ڈاکٹر عثمان بن جمعہ ضمیریہ کی ’’التراث العلمی فی علم السیاسۃ ‘‘ ملاحظہ کرلینا کافی ہے جن میں درجنوں مسلم سیاسی مفکرین کی کتابوں اوران کے افکار کا مطالعہ پیش کیاگیا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2015