دینِ حق کی دعوت پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس پر دنیا داری کا الزام دھر دیا جائے جب کہ یہ دین تو انسانوں کو دنیا داری کے فریب سے باہر نکالنے آیا، تاکہ وہ دنیا کی زندگی کو بہتر طریقے سے برت سکیں۔ اسی طرح دینِ حق کی دعوت کے ساتھ کھلی ہوئی زیادتی یہ ہے کہ اس پر زبردستی مذہب بدلنے کی تہمت لگائی جائے، حالاں کہ یہ دین تو مذہب کے معاملے میں زبردستی ختم کرنے کا علم بردار ہے۔
اسلام اپنے آپ کو پورے طور پر اللہ کے حوالے کردینے کا نام ہے ۔ اسلام کی دعوت دل کی مکمل آمادگی اور عقل کا پورا اطمینان مانگتی ہے۔ یہ آمادگی اور اطمینان اوچھے ہتھکنڈوں سے حاصل ہی نہیں ہوسکتا ہے۔فریب دہی، دھمکی، خوف، لالچ اور زور زبردستی یہ وہ چیزیں ہیں جو اسلام کی روح سے راست ٹکراتی ہیں۔ اسلام کی دعوت تو ان کا قلع قمع کرتی ہے۔
اسلام کی دعوت کی بہت بڑی خوبی اس کی بلندی اور پاکیزگی ہے۔ اس دعوت کی بلندی اور پاکیزگی کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ یہ پاک وبرتر رب کی طرف سے ہے اور اسی کی طرف بلانے کے لیے ہے۔ اس دعوت کو فرشتوں کے سردار حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے بھیجا گیا، اسے اونچی شان والی کتاب قرآن مجید کی صورت میں نازل کیا گیا ۔ اس کے لیے انسانوں میں سب سے عظیم اور پاک انسان کو منتخب کیا گیا ۔اور اس دعوت کی پوری تاریخ میں ایسے داعیانِ حق نے اس کا عَلَم اٹھایا جو اپنے عظیم اخلاق اور پاک سیرت کے لیے پورے انسانی سماج میں ممتاز تھے۔ یہ دعوت اسی عظمت وپاکیزگی کے ساتھ صدیوں کا سفر کرتی رہی اور ملکوں ملکوں پھیلتی رہی۔ دنیا طلبی کی پستی اور دنیا داری کی آلودگی ہمیشہ اس سے دور رہی۔ نہ کسی کوکسی چیز کی لالچ دی، نہ کسی کو ڈرایا دھمکایا اور نہ کسی کو بہکایا۔
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی دعوت میں تمام داعیانِ دین کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی دعوت ہر طرح کی دنیا داری سے پاک اور بلند تھی۔ انسانوں کی فلاح اور اللہ کی رضا جوئی ہی مقصود تھی۔
علامہ اقبال نے اس دعوت (شہادت) کی بہترین عکاسی کی ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
اس دعوت کی پاکیزگی کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ داعی دین اپنی دعوت میں مخلص اور بے لوث ہوتا ہے۔ وہ اپنی دعوت کے بدلے کوئی صلہ نہیں مانگتا ہے۔
قُل لَّاۤ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَیۡهِ أَجۡرًاۖ إِنۡ هُوَ إِلَّا ذِكۡرَىٰ لِلۡعَـٰلَمِینَ [سورۃالأنعام: ٩٠]
(کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ و ہدایت کے) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، یہ تو بڑی نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے)
داعی دنیا کے ہر صلے اور انعام سے بے نیاز ہوکر اپنی دعوت پیش کرتا ہے، یہ بے نیازی اس کی دعوت کو وقار اور بلندی عطا کرتی ہے۔ دعوت اس وقت پستی میں جاگرتی ہے، جب اسے پیش کرنے والا بظاہر تو انسانوں کی فلاح کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ کسی ذاتی،گروہی یاقومی مفاد کا حصول چاہتا ہے۔دینِ اسلام کی دعوت میں ایسی کسی مفاد پرستی کی گنجائش نہیں ہے۔داعی اسلام تو صرف مدعو کی فلاح چاہتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ بازاروں، محفلوں اور قبیلوں میں جاکر دعوت دیتے اور کہتے : یا أیها الناسُ: قولوا: لا إلهَ إلَّا اللهُ، تُفْلِحوا. اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو کام یاب ہوجاؤ گے۔
اس دعوت کی پاکیزگی کا ایک اور روشن پہلو یہ ہے کہ داعی دین کے سامنے دنیا کی کتنی ہی بڑی پیش کش رکھ دی جائے، وہ اپنی دعوت سے ذرا بھی دست بردار نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ’’اللہ کی قسم اگر انھوں نے میرے دائیں میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیا تا کہ میں یہ کام چھوڑ دوں، تو بھی میں ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ قریش نے آپ کے سامنے پیش کش رکھی اور کہا: ’’اگر آپ اس کام کے ذریعے مال ودولت جمع کرنا چاہتے ہیں، تو ہم آپ کے لیے دولت کا اتنا ڈھیر لگادیں گے کہ آپ سب سے زیادہ مال دار ہوجائیں گے، اگر آپ سرداری چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار بنالیں گےاور پھر کوئی فیصلہ آپ کی مرضی کے بغیر نہیں کریں گے، اور اگر آپ بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے راضی ہیں کہ آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیں۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ ساری پیش کشیں رد کردیں اور اس دعوت کی عظمت پر ذرا بھی آنچ نہیں آنے دی۔
اس دعوت کی پاکیزگی کا تیسرا روشن پہلو یہ ہے کہ داعی دین اپنی دعوت کو قوت پہنچانے اور اسےآگے بڑھانے کے لیے کسی طرح کی سودا بازی قبول نہیں کرتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ کے لوگوں نے جھٹلایا، ستایا اور آپ کی دعوت پر پابندیاں عائد کیں تو آپ دوسرے قبیلوں کے پاس اپنی دعوت لے کر پہنچے، بعض بڑے قبیلوں کے سرداروں نے آپ کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ وہ اسلام بھی قبول کرلیں گے اور جان ومال سے آپ کی مدد بھی کریں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ کام یابی ملنے کے بعد انھیں اقتدار میں حصہ ملے اور آپ کے بعد حکم رانی انھیں ملے۔ قبیلہ بنو عامر نے بھی یہی بات رکھی اور قبیلہ کندۃ نے بھی۔ لیکن آپ نے صاف کہہ دیا کہ اقتدار تو اللہ جسے چاہے گا اسے دے گا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ کو پشت پناہی اور مدد کی شدید ضرورت تھی۔ اگر اس دعوت میں اس طرح کا سودا کرنے کی ذرا بھی گنجائش ہوتی تو یہ اس کا مناسب ترین موقع تھا۔ لیکن اس دعوت میں اس کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ۔ چناں چہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی کسی بھی آلائش سے اپنی دعوت کو پاک اور بلند رکھا۔
بعد میں بنو عامر قبیلے کا سردارعامر بن طفیل ایک بار مدینے آیا، اللہ کے رسول ﷺ سے گفتگو ہوئی، اس نے کہا: اے محمد اگر میں نے اسلام قبول کرلیا تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: اسلام جو حقوق دیتا ہے وہ تمھیں بھی ملیں گے اور اسلام جو فرض عائد کرتا ہے وہ تم پر بھی عائد ہوگا۔ اس نے کہا: ایسا نہ کریں کہ آپ مجھے اپنے بعد حاکم بنادیں ۔ آپ نے فرمایا: یہ نہ تمھارے لیے ہے اور نہ تمھاری قوم کے لیے۔
دین کی دعوت کے یہ تین روشن پہلو ہیں، ایک یہ کہ داعی اپنی دعوت کا دنیا والوں سے صلہ نہیں مانگتا، دوسرا یہ کہ وہ دنیا کی خاطر اپنی دعوت پر سمجھوتا نہیں کرتا اور تیسرا یہ کہ وہ اپنی دعوت کی خاطر کسی طرح کی سودا بازی نہیں کرتا۔
اللہ کا داعی نہ لالچ رکھتا ہے، نہ لالچ قبول کرتا ہے اور نہ لالچ پیش کرتا ہے۔
اللہ کا داعی نہ دنیا کمانےکے لیے کام کرتا ہے نہ دنیا پانے کی خاطر کام چھوڑتا ہے، اور نہ دنیا طلبی کی کسی پیش کش کا ساتھ لیتا ہے۔
جس کے سر میں انسانوں کی فلاح کا سودا سما جائے، اور جس کےدل میں رضائے الہی کی تمنا گھر کرجائے، اس کو دنیا کی کسی لالچ سے کیا سرو کار ہوسکتا ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی دعوت درویش بزرگوں اور ایمان دار تاجروں کے ذریعے پھیلی۔ لوگوں کو مسلمان بنانے کے لیےمسلم حکم رانوں نے اپنے اقتدار کا استعمال کیا اور نہ ہی دولت کا۔ حالاں کہ اقتدار بہت طاقت وسطوت والا تھا اور دولت بے حساب تھی۔
ادھر کچھ دنوں سے ہمارے ملک میں اسلام کی دعوت کو بدنام کرنے کی کوششیں بڑھی ہوئی ہیں۔ داعیانِ دین کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ وہ دولت کی لالچ دلاکر لوگوں کا مذہب تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے پروپیگنڈے کا صحیح توڑ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت کی عظمت وپاکیزگی کو سب کے سامنے بیان کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اسلام کی دعوت میں اس طرح کے حربوں اور ہتھکنڈوں کے لیے ذرا بھی جگہ نہیں ہے۔
اسلام کی دعوت کے سلسلے میں دو باتیں اچھی طرح واضح کرنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ کہ اسلام کی دعوت اللہ کی دعوت ہے۔ اس دعوت کو ہر ہر انسان تک پہنچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ یہ حکم ایسا ہے کہ ہرحال میں اس پر عمل کرنا ہے۔ لوگ مخالف ہوں تب بھی، لوگ دشمن ہوجائیں تب بھی اور لوگ ماریں پیٹیں ستائیں ظلم کریں تب بھی اس کام کو انجام دیتے رہنا ہے۔ اس کام کو کبھی بھی روکا نہیں جاسکتا ہے۔خواہ سب لوگ مل کر اسے روکنے کی کوشش کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کی دعوت انسانوں کی بھلائی اور بہتری کی دعوت ہے۔ اس کا محرک انسانوں کی خیرخواہی ہے۔ غلط راستے پر چلتے ہوئے اور برے انجام کی طرف بڑھتے ہوئے لوگوں کو سمجھانا اور باخبر کرنا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اس فریضے کی ادائی ہر حال میں ہونی چاہیے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ دعوت کی اصلی تصویر اہل وطن کے سامنے پیش کریں۔ دعوت کی فرضیت کا تقاضا ہے کہ ہر حال میں اسے انجام دیتے رہیں۔ اور دعوت کی عظمت وپاکیزگی کا تقاضا ہے کہ اسے حکمت کے ساتھ پیش کریں، عمدہ اور خوب صورت نصیحت سے اسے آراستہ کریں اور جب بحث ومباحثہ ہو تو اس کے لیے بہترین ماحول، بہترین اندازاور بہترین دلائل مہیا کریں۔ان تینوں تقاضوں کو اس آیت میں سمیٹ دیا گیا:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ [سورۃ النحل: ١٢٥]
(اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔)
اس وقت ملک شدید ترین سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔امن وامان کی صورت حال بہت خراب ہے۔ معاشی اور سماجی ناانصافیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اخلاقی صورت حال دگرگوں ہے۔قانون بے اثر اور قدریں نابود ہوتی جارہی ہیں۔ کورونا نے یہی نہیں بتایا کہ ہمارے جسم کا مدافعتی نظام اور ہمارے ملک کا طبّی انتظام بہت کم زور اور خستہ حال ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ ہمارا اخلاقی وجود شدید امراض کا شکار ہے۔ ایسے میں پورے ملک کو سب سے زیادہ ضرورت اسلام کی دعوت کی ہے۔ مسلمانوں کی ذمے داری اس ضرورت کی تکمیل کرنا، اس ضرورت کا احساس دلانا اور ساتھ ہی اس سلسلے کی غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی ہے۔
یہ وقت دین کی دعوت سے فرار کا نہیں بلکہ دین کی دعوت کا حق ادا کرنے اور اس کی شان بلند کرنے کا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2021