رنج و غم انسانی زندگی کالازمہ ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان اس دنیا میں رہے اور اسے کسی قسم کا رنج وغم نہ ہو۔ یہ دوطرح کے ہوتے ہیں۔ وہبی اور کسبی۔ فطری رنج وغم سے ہرایک کو سابقہ پڑتاہے خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ کوئی پیغمبرہو یا عام آدمی۔ ہر ایک کو اس سے کم وبیش دوچار ہوناپڑتا ہے۔اس کے بے شمار اسباب میں سے چند پر گفتگو کروںگا۔
بے خبری
انسان کی پریشانی اور دکھ کاایک سبب عدم واقفیت یا بے خبری بھی ہے۔ مثلاً کوئی آدمی کسی اجنبی مقام پر پہنچتاہے اور وہاں کے راستے اور حالات سے واقف نہیں ہے تو اس کو یہ خوف لگارہے گا کہ کہیں اس کامال کوئی چھین نہ ملے یا کہیں چور اچکے اسے نہ گھیر لیں وغیرہ۔ اس سے اس پر خوف طاری رہے گا۔ اسی طرح انسان جو اس دنیا میں آیاہے اس کاوجود بھی اپنے اندر بہت سارے سوالات رکھتا ہے: وہ کیوں پیداکیاگیا؟ اس کو کیاکرناچاہیے؟ کیا نہیں کرنا چاہیے؟ مرنے کے بعد کہاں جانا ہے؟ اور وہاں کیاہوگا؟ اس کاپیدا کرنیوالا کون ہے وغیرہ۔ اگر اس کے سامنے اس طرح کے سوالات آجائیں اور وہ ان کے جوابات سے ناواقف ہے تو وہ ایک قسم کے اضطراب اور پریشانی میں مبتلارہے گا اور مسلسل دکھ کی زندگی گزارے گا۔ زندگی اور اس کے مقصد سے عدم واقفیت بھی بے چینی و دکھ کا سبب بنتی ہے۔
حسد
انسان کو دکھ اور رنج وغم میں مبتلا کرنے والی چیزوں میں سے ایک حسدبھی ہے۔ حسد یہ ہے کہ کسی انسان کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر دل میں تنگی پیدا ہوجائے اور یہ خواہش ہو کہ کسی طرح اس سے یہ نعمت چھِن جائے ۔ اس کی تین قسمیں ہیں:
ایک یہ ہے کہ کوئی یہ خواہش کرے کہ دوسرے شخص کو جو نعمت ملی ہے اس سے وہ محروم ہوجائے۔ خواہ وہ اسے حاصل ہوسکے یا حاصل نہ ہوسکے، دوسری یہ کہ کسی کی یہ خواہش ہو کہ دوسرے شخص کو جو نعمت حاصل ہوئی ہے، اسے بھی حاصل ہوجائے خواہ وہ نعمت اس شخص سے چھن کر ملے یا اس کو کسی اور طرف سے مل جائے اور تیسری قسم یہ ہے کہ آدمی اپنے مدمقابل کو ملنے والی نعمت کاخود بھی خواہاں ہو۔ لیکن اس کی یہ خواہش نہ ہو کہ دوسرا اس نعمت سے محروم ہوجائے۔ان تینوں میں سے پہلی قسم بدترین حسد ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جس سے محبت والفت کاماحول باقی نہیں رہتا۔ جو لوگ اس بیماری میںمبتلا ہوتے ہیں وہ کسی کاتو کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن خود ایک اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
الحسد والبغضائ ھی الحالقۃ لااقول تحلق الشعر ولکن تحلق الدین ﴿ترمذی﴾
’حسد اور بغض ایسی بیماری ہے جو مونڈدینے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ یہ بال کومونڈ دیتی ہے لیکن یہ دین کو بہرحال مونڈ کر رکھ دیتی ہے۔‘
حرص وطمع
لالچ اور حرص و طمع کی وجہ سے بھی آدمی رنج میں مبتلا ہوتاہے۔ باہمی تعلقات میں خوش گوار ی باقی نہیں رہتی۔ معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے لگتے ہیں۔ بیوی شوہر سے زیادہ سے زیادہ کامطالبہ کرنے لگتی ہے۔ والدین اپنی اولاد سے کچھ زیادہ ہی توقعات رکھنے لگتے ہیں۔ اولادیں دوسروں کے جائز حقوق کو بھی نظرانداز کردیتی ہیں، جس کے نتیجے میں گھروں میں اور معاشرے میں بے اطمینانی پیدا ہوجاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو ان ابن آدم اعطی و ادیاملامن ذھب احب الیہ ثانیا ولو اعطی ثانیا احب الیہ ثالثا ولا یسد جوف ابن آدم الا التراب ﴿بخاری﴾
’اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو دوسری کی خواہش کرے گا اور اگر دوسرے بھی مل جائے تو وہ تیسری کا خواہاں ہوگا۔ اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی بھرسکتی ہے۔‘
مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے انسان صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا کہ وہ لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتا، بل کہ وہ دوسروں کے حقوق پامال اور مال و جائداد کو ہڑپ کرنے کی فکر میں لگ جاتاہے اور اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ماذئبان جائعلان ارسلا فی غم بافسدلہا من حرص المرئ علی المال والشرف لدینہ ﴿ترمذی﴾
’دوبھوکے بھیڑیے جنہیں بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لیے چھوڑدیاگیاہو اس شخص سے زیادہ بڑھ کر تباہی نہیں مچاتے جو مال جمع کرنے اور جاہ و مرتبہ حاصل کرنے کی حرص میںمبتلا ہونے کی وجہ سے اپنے دین کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔‘
فواللہ ماالفقر اخشی علیکم ولکن اخشی علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم فتنافسوھا کما تنافسوہا و تہلککم کما اہلتکتہم ﴿بخاری ومسلم﴾
’بہ خدا مجھے تم پر فقرو ناداری کازیادہ اندیشہ نہیں ہے۔ بل کہ مجھے اندیشہ اس بات کاہے کہ تم پر دنیوی مال ومتاع کے دروازے کھول دیے جائیں جس طرح کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر کھول دیے گئے تھے۔ پھر تمھیں دنیا کی اس طرح چاٹ لگ جائے گی جس طرح کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو لگی تھی تو پھر وہ تمھیں اسی طرح ہلاک کردے گی جس طرح اس نے تم سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔‘
خواہشِ نفس
نفس کی پیروی ایک بڑی بیماری ہے۔ جب انسان کی خواہشیں بے لگام ہوجاتی ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے میں منہمک ہوجاتاہے تو اسے ہمیشہ اس کی تکمیل کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ وہ چاہتاہے کہ دولت آئے، خواہ کہیں سے آئے۔ شہرت ملے خواہ کسی بھی طرح ملے۔ آرام اور عیش وعشرت کے اسباب حاصل ہوں چاہے جس طرح حاصل ہوں۔ ایسی صورت میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْْرِ ہُدًی مِّنَ اللَّہِ ﴿القصص:۵۰﴾
’اور اس شخص سے بڑھ کر بھٹکاہوا کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے۔‘
خواہش نفس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ خواہش نفس کابندہ تمام حدود سے تجاوز کرجاتا ہے۔ انجام کار تباہی اور ہلاکت اس کامقدر بن جاتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث مہلکات فہوی متبع وشح متاع واعجاب المرئ بنفسہ ﴿بیہقی﴾
’تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ خواہش نفس جس کی اتباع کی جائے، حرص وبخل جس کاکوئی غلام بن جائے اور خودرائی و خود بینی جس میں کوئی مبتلا ہو۔‘
قرآن نے خواہش نفس میں گرفتار لوگوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا:
أَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلَہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنتَ تَکُونُ عَلَیْْہِ وَکِیْلاً o أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُونَ أَوْ یَعْقِلُونَ اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً ﴿الفرقان:۴۳،۴۴﴾
’اے نبی! تم نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیاجس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا ہے، کیا تم ایسے شخص کی نگرانی کرسکتے ہو؟کیا تم سمجھتے ہوکہ ان میں سے بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں۔ ہرگز نہیں یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بل کہ ان سے بھی گزرے۔‘
احساس محرومی
جب انسان اسے نہیں دیکھتا جو اُسے حاصل ہے، بل کہ وہ چیزیں اسے نظرآتی ہیں جو اس کو میسر نہیں ہیں اور دوسرے لوگوں کو میسر ہیں تو احساس محرومی کا شکار ہوجاتا ہے۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ طلبہ فرسٹ کلاس یا اچھی رینک نہ آنے کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔ عورتیں اپنے شوہروں سے کچھ بے جامطالبات کرتی ہیں۔ سماج میں انتشار ، قتل و غارت گری اور جھگڑے کا ایک بڑا سبب احساس محرومی بھی ہے۔
حساس طبیعت
بعض لوگ بہت حساس طبیعت کے ہوتے ہیں۔ یہ حساسیت جذباتیت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ان کے لیے غم و غم کا سبب بنتی ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کی طرف سے معمولی معمولی باتوں کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور ان کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں۔
موت کاڈر
موت کا ڈر اور زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کی آرزو بھی انسان کو پریشان رکھتی ہے۔ وہ بہادری اور شجاعت کے کاموں سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ ذلت، پستی، مسکنت اور دکھ یہی اس کی قسمت بن جاتی ہے۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’عنقریب ایسا ہوگاکہ قومیں تم پر ٹوٹ پڑیںگی جس طرح کھانے والے دوسرے کو کھانے کے پیالے کی طرف بلاتے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا ایسا اس زمانے میں ہوگا جب ہماری تعداد کم ہوگی؟ آپ نے فرمایا: نہیں تم تو اس زمانے میں کثیرتعداد میں ہوگے لیکن تمھاری حقیقت کوڑے کرکٹ کی سی ہوگی۔ جیسے وہ خاشاک جو دریا اور سیلاب کے جھاگ کے ساتھ ملاہوا ہوتاہے۔ اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘ ڈال دے گا۔ ایک شخص نے پوچھاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہن کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔‘ ﴿ابوداؤد﴾
یہ ہیں رنج و غم کے چند وہ موٹے موٹے اسباب ۔ ان کا علاج ملاحظہ فرمائیں:
علم و آگہی
رنج وغم سے بچنے کے لیے علم و آگہی بہت ضروری ہے۔ علم حق کا، اپنی ذات کا اور اپنے دور کے احوال وکوائف کا، جس دنیا میں رہتاہے اور جن چیزوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے ان کا۔ آج انسان کائنات اور اس کی اشیاء کے بارے میں بہت باریکی سے مطالعہ کررہاہے مگر اپنے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم۔ وہ اپنے سے واقف ہوناچاہتا بھی نہیں۔ اسی وجہ سے وہ حقیقی سکون سے محروم ہی رہتا ہے۔اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے امتحان گاہ بنایاہے۔ انسان کی حیثیت دنیا میں ایک امتحان دینے والے طالب علم کی سی ہے۔ امتحان میں اگر وہ کامیابی حاصل کرتا ہے تو آخرت اس کے لیے ہے۔ اگر وہ خدا کی رہ نمائی میں زندگی بسر کرتاہے تو اس کے لیے کوئی خوف نہیں۔ علم کے بعد ہی انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ کیوںکہ وہ اپنے مقصد زندگی سے واقف ہوکر آگے بڑھتااور کام یابی کے مراحل پوری روشنی میں طے کرتا ہے۔
یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ﴿المجادلہ:۱۱﴾
’اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم عطا کیاگیا۔‘
حسد سے اجتناب اور وسعت قلبی
دکھوںاور غموں سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر کشادہ دلی اور وسعت نظر پیدا کرے۔ ساری دنیا کو اللہ کا کنبہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی نوازشوں کی وسعتوں کو پیش نظر رکھے۔ اسی طرح انسان حسد سے بچ سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایاکم والحسد فان السحد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب۔ ﴿ابوداؤد﴾
’حسد سے بچو کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح سے کھاجاتاہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔‘
کسی کے بُرا چاہنے سے کسی کاکچھ نہیں بگڑتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نہیں ہے تو حاسد کے بُرا چاہنے سے کچھ نہیںبگڑے گا۔ حاسد کو سوائے رنج و غم کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ لہٰذا حسد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے:
وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْض ﴿النساء :۳۲﴾
’اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر جو برتری دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔‘
فیاضی اور ایثار
دکھوںاور غموں کاایک علاج یہ ہے کہ انسان اپنے اندر فیاضی اور ایثار کے اوصاف پیدا کرے۔ فیاضی اور ایثار اہم صفات ہیں۔ان سے خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ انسان اپناکوئی حق کسی دوسرے کو بخش دے، اپنا حق چھوڑدے، اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے، اپنا بچاہوا مال دوسروں پر خرچ کردے یا اپنی ضروریات کے باوجود دوسروں پر خرچ کرے، ان تمام صورتوں میں انسان کو نہ صرف یہ کہ غم سے نجات ملے گی، بل کہ اسے وہ روحانی خوشی حاصل ہوگی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے باہم خوش گوار تعلقات بھی پیدا ہوں گے اور آخرت میں درجات بھی بلند ہوں گے۔
وَأَنفِقُوا خَیْْراً لِّأَنفُسِکُمْ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿التغابن:۱۶﴾
’اور اپنے مال خرچ کرو یہ تمھارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رکھے گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔
وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون ﴿الحشر:۹﴾
’اور وہ اپنی ذات پردوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ خودمحتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحم اللہ رجلا سمحا اذا باع واذا اشتری واذا اقتضی ﴿بخاری﴾
’اللہ اس شخص پر رحم کرے جو فیاض ہے جب وہ بیچے، جب خریدے اور جب وہ اپنے حق کامطالبہ کرے۔‘
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو دعا دی ہے جو زندگی میں مختلف مواقع پرفیاضی وایثار سے کام لیتاہے۔ جب گاہک کو تول کر دیتاہے تو ترازو کا پلڑا جھکا رکھتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم نہ تولے ۔ جب خود خریدتا ہے تو زیادہ کا حریص نہیں ہوتا۔ اپنے حق کا تقاضا کرتاہے تو نرمی سے کام لیتاہے اور ضرورت محسوس ہوتی ہے تو معاف بھی کردیتا ہے۔
السخی قریب من اللہ قریب من الناس۔ قریب من الجنۃ بعید من النار۔ ﴿الترمذی﴾
’سخی خدا سے قریب ہے۔ لوگوں سے قریب ہے جنت سے قریب ہے، دوزخ سے دور ہے۔’
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ لوگ دوسروں کے حقوق کے ادا کرنے میں فیاضی کو پیش نظر رکھیں۔ معاملات میں خوش گواری اسی سے پیدا ہوتی ہے۔
وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَیْْنَکُمْ اِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ ﴿البقرہ:۲۳۷﴾
’اور آپس میں حق سے بڑھ کر دینا نہ بھولو یقینا اللہ اسے دیکھ رہاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انفقی ولاتحصی ﴿بخاری﴾ ’خرچ کرو گنومت‘
اگر ان ہدایات پر عمل کیاجائے تو حسد کی بیماری کے پیدا ہونے کی گنجایش نہیں رہتی۔
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011