عصر حاضر میں سیرت کی رہ نمائی

سیرتِ رسول ﷺ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ یہ انسانوں کی رہ نمائی کا ایک اہم سرچشمہ ہے۔ امت مسلمہ کی ہدایت اور اس کی تعمیر و ترقی سیرت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ قرآن مجید کی تشریح و تعبیر ہے۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی سے قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کر کے ہمارے لیے ایک روشن شاہراہ قائم فرمادی ہے۔ آپؐ کی پوری زندگی قرآن مجید کی تعبیر اور اس کی تشریح ہے۔

حضرت عائشہؓ نے آپ ؐ کی سیرت کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے کہا تھا:

کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن (مسند أحمد)

(آپ ؐ کے اخلاق و برتاؤ قرآن مجید ہی تھے۔)

یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر امت کے ہر فرد سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بنائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:  ۲۱)

(نبی اکرم ﷺ کی سیرت میں تمھارے لیے بہترین اسوہ ہے۔)

اللہ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیا بھیجے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے بندگانِ خدا کو آگاہ کیا اور اس کے پیغام کو بلا کم و کاست لوگوں تک پہنچایا۔ نبی اسی لیے مبعوث کیے جاتے تھے کہ ان کی بات مانی جائے اور ان کی سیرت پر عمل کیا جائے۔

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِیطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ (النساء :   ۶۴)

(ہم نے رسول اسی لیے بھیجے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔)

نبی اکرم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی لیے بھیجا کہ ان کی بات مانی جائے اور ان کی سیرت پر عمل کیا جائے۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا  ( الحشر: ۷)

(جو رسول تمھیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ۔ )

اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ نبی ﷺ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں بولتے، بلکہ وہ جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ وحی الٰہی ہوتی ہے۔

وَمَا ینطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَىٰ (النجم: ۳۔۴)

(وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے، بلکہ وہ آپ کو وحی کی جاتی ہے۔)

نبی اکرم ﷺ کی شخصیت اور آپؐ کی سیرت کی اہمیت ان آیات سے واضح ہو جاتی ہے کہ آپ ؐ کی سیرت پر عمل کیے بغیر ہدایت ناممکن ہے اور اس کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

مَّن یطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ عَلَیهِمْ حَفِیظًا (النساء:  ۸۰)

( جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو روگردانی کرے تو ہم نے آپ کو اس پر نگراں نہیں بنایا ہے۔)

نبی اکرم ﷺ کی سیرت جامع کمالات ہے۔ آپ ؐ کی پوری زندگی وحی کی تعلیمات سے عبارت ہے۔ آپؐ کی سیرت کی روشنی میں زندگی گزارنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں دین اور دنیاکی کام یابی ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی سیرت کی اہمیت اور اس کی معنویت ہر دور کے لیے ہے۔ دور صحابہؓ، دورِ تابعین،دور تبع تابعین اور بعد کے ادوار میں ہر وقت سیرت رسول ﷺ کی تعلیمات جگ مگ جگ مگ کرتی رہیں اور جب بھی لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر عمل کیا اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا لائحہ عمل مرتب کیا وہ کام یاب و کامران رہے اور جب جب لوگوں نے سیرت رسول ﷺ سے منھ پھیرا وہ ذلیل و رسوا ہوئے۔

آپؐ رہتی دنیا کے پیغمبر ہیں اور آپ ؐ کی سیرت قیامت تک آنے والے ہر دور کے لیے مشعل راہ ہے۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیٖنَ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِیمًا (الاحزاب:  ۴۰)

(محمد ﷺ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ رسول خدا ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔)

نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہر دور میں اہم اور اس کی معنویت ہر زمانے میں اس لیے مسلّم ہے کہ آپ رہتی دنیا کے تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

وَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ إِلَّا كَآفَّة لِّلنَّاسِ بَشِیرا وَنَذِیرا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا یعْلَمُونَ (السبا:۲۸)

(اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اور لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔)

نبی اکرم ﷺ نے اسی اہمیت کے پیش نظر فرمایا تھا کہ میں تمھارے درمیان کتاب و سنت چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ رہتی دنیا تک تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو کبھی گم راہ نہیں ہو گے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت کی معنویت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی۔

تَرَكْتُ فِیكُمْ أَمْرَینِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا:   كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ رَسُولِہ (صحیح مسلم)

(میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اور جب تک ان کو پکڑے رکھو گے بھٹکو گے نہیں :  وہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ )

دشمنانِ اسلام یہ تنقید کرتے ہیں کہ مسلمان چودہ سو سال پیچھے کی بات کرتے ہیں۔ کتاب و سنت کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو رجعت پسند ی اور بنیادپرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ وہ حقیقت سے بے خبر ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ مسلمانوں کی کام یابی کا راز قرآن مجید اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت میں ہے۔ نبی اکرم ﷺ چوں کہ رہتی دنیا کے پیغمبر ہیں،اسی لیے پوری دنیا بالخصوص مسلمانوں کی کام یابی کا راز سیرت رسول ﷺ میں ہے۔ چودہ سو سال قبل جس طرح انھیں کام یابی ملی، اسی طرح آج بھی کام یابی ملے گی۔ حضرت امام مالکؒ کا مشہور قول ہے:

لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ اْلاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا

(امت کے اندر بعد میں آنے والے لوگوں کی اصلاح اسی طریقے سے ممکن ہے، جس طریقے سے پہلے کے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔)

کسی بھی قابل ذکر کام کو انجام دینے کے لیے حکمت عملی کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ حکمت عملی کی بنیاد عمیق غور و فکر اور دانشمندانہ منصوبے کی تشکیل پر ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی بہترین حکمت عملی سے معمور ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا کوئی اہم کام تین چیزوں سے لازماً عبارت ہوتا تھا:   ایک باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بندی۔ دوسرا وسائل کی فراہمی۔ تیسرا بہترین افراد کا انتخاب تو رزلٹ سو فیصد نکلتا تھا۔ آج کے اس دور میں حالات کے بہترین تجزیے کے بعد ایک عمدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کی رہ نمائی ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ملتی ہے۔

حکمت عملی کے حوالے سے سیرتِ رسول ﷺ میں ہمیں بہترین نمونے ملتے ہیں۔ جب آپ ﷺ نبی بنائے گئے تو آپؐ نے دعوتی حکمت عملی مرتب فرمائی۔ آپ ؐ نے شروع میں دعوت کو علی الاعلان رکھنے کے بجائے خفیہ رکھا۔ یہ آپ ؐ کی بہترین حکمت عملی کا شاہ کار نمونہ تھا۔ اسی طرح شدائد اور آزمائش کے ماحول میں بدلہ لینے اور جذبات میں آنے کے بجائے صبر واستقامت اور صبر و شکر کی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا گیا۔

آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر تھے۔ دعا کر دیتے تو کفر و شرک شکست فاش سے دوچار ہو جاتا۔ لیکن آپ نے جو حکمت عملی اپنائی وہ آزمائشوں سے گزرنے، وسائل و اسباب تلاش کرنے اور آنے والوں کے لیے بہترین نمونہ چھوڑنے کی حکمت عملی تھی۔

سفر ہجرت پورا کا پورا منصوبہ بند تھا اور آپ ؐ کی بہترین حکمت عملی کا شاہ کار تھا۔ راستہ تھا شمال کی طرف اور آپ ؐ نکلے جنوب کی طرف۔ سفر فوراً شروع نہیں کیا، بلکہ توقف کیا۔ غارِثور میں کھانے کا انتظام، مشرکین مکہ کی مجلسوں میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سے باخبر رہنے کا بہترین انتظام اور خالص دینی سفر میں ایک ماہر مشرک کی خدمات کا حصول وغیرہ۔

نبی ﷺ کی زندگی میں نئی نئی چیزوں کی دریافت اور غلبۂ دین کے راستے میں ان کے استعمال کا بھی جگہ جگہ نمونہ ملتا ہے۔ کوہِ صفا سے آپ ؐ کا آواز بلند کرنا اور مکہ کے مشہور بازاروں میں آپ ؐ کا تبلیغ کے لیے جانا، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نبی اکرم ﷺ کی ایک حکمت عملی یہ بھی تھی کہ دعوت کا کام حکمت و دانائی کے ساتھ کیا جائے۔ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ آپ ؐ کہہ سکتے تھے کہ میں رسول خدا ہوتے ہوئے خانہ کعبہ میں بتوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا۔ پہلے وہ ہٹانے چاہئیں۔ لیکن آپ ؐ کی حکمت اور منصوبہ بندی کا تقاضا تھا کہ بتوں کی موجودگی میں نماز پڑھی جائے۔ پہلے دل بدلے جائیں، اس کے بعد بت ہٹائے جائیں۔

اتحاد و اتفاق کی حکمتِ عملی غیر معمولی تھی۔ آپ ؐ نے سب کو ایک بنا دیا۔ اوس و خزرج ایک ہو گئے۔ جنگیں ختم ہو گئیں۔ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٰنًا کا منظر سب نے اپنی انکھوں سے دیکھا۔ ایک دوسرے کے دشمن ایک دوسرے کے جگری دوست بن گئے۔ اخوت و محبت کا پیکر بن گئے۔ نظام مواخات (بھائی بھائی بنانے کا نظام) آپ ﷺ کی حکمت عملی کا شاہ کار نمونہ ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی حکمت عملی کا ایک ابھرا ہوا پہلو معاہدات کی حکمت عملی ہے۔ آپ ؐ نے بے شمار معاہدے کیے، ان کا مقصد اسلامی کاز کا مفاد تھا۔ اسی لیے آپ ﷺ نے دشمنوں سے بھی معاہدات کیے۔ صلح حدیبیہ اس کا شاہ کار نمونہ ہے۔

جنگی حکمتِ عملی نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا ایک زریں باب ہے۔ امن،صلح اور جنگ ہر مرحلے میں آپ نے بہترین حکمت عملی مرتب کی اور اس کے نتائج بھی غیر معمولی برآمد ہوئے۔

آپ ؐ نے ہر موقع کے لیے حکمت عملی مرتب کی اور اس میں ایک غیر معمولی چیز مشورے اور شورائیت کی حکمت عملی ہے۔ آپ ؐ نے ہر موقع پر اپنے احباب سے مشورہ کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ آپ پر وحی آتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے مشورہ کیا اوروَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَینَهُمْ پر عمل پیرا ہوئے۔

عصر حاضر میں ہمیں سیرت رسول ﷺ سے رہ نمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے حالات سے ہر شخص واقف ہے۔ آج جس ملک میں ہم رہتے ہیں، وہاں نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ مذہب کے نام پر دوریاں ہو رہی ہیں۔ ملک کے اندر ایک خاص گروہ برسر اقتدار آگیا ہے، جس کی پہچان اسلام دشمنی ہے۔ مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے وہ سو بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ مسلم پرسنل لا کا مسئلہ، حجاب کا مسئلہ، مسلم خواتین کے حقوق کے مسائل، مساجد اور مدارس کا مسئلہ، اوقاف کا مسئلہ اور مسلمانوں کے وجود اور تشخص کا مسئلہ روزانہ زیر بحث رہتا ہے۔ مسلمانوں سے دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس سلسلے میں آئے دن موب لنچنگ کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہ ملک جو باہمی اخوت و محبت، مختلف مذاہب کے درمیان انسیت اور لگاؤ اور باہمی رواداری کے لیے مشہور تھا اور مختلف مذاہب اور گروہوں کے لوگوں نے نہایت جاں فشانی اور بڑی قربانی کے ذریعے اس ملک کو ظالم انگریزوں سے آزاد کرایا تھا، آج ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس وقت اپنے وجود کو باقی رکھنا اور اپنے دین پر چلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

آج کے اس دور میں اور ان حالات میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ہم کو کیا رہ نمائی ملتی ہے؟

اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ سے دو سال قبل کے جو حالات تھے، اس سے ملتے جلتے حالات اس وقت ہمارے یہاں ہیں۔ نفرت وہاں تھی، نفرت یہاں ہے۔ اسلام کے خلاف سازشیں وہاں تھیں اور یہاں بھی ہیں۔ مارپیٹ کا ماحول وہاں تھا اور یہ ماحول یہاں بھی ہے۔ شہادتوں کا سلسلہ وہاں بھی تھا اور وقتاً فوقتاً یہاں بھی پیش ا ٓرہا ہے۔ مکہ کے حالات بہت زیادہ سخت تھے اور یہاں کے حالات بھی سخت ہیں لیکن ابھی اتنے سخت نہیں ہیں۔

ہمیں نہایت باریک بینی کے ساتھ یہ غور کرنا ہوگا کہ آج کے حالات میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ہمیں کیا رہ نمائی ملتی ہے۔

۱۔  نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے پہلی رہ نمائی ہمیں یہ ملتی ہے کہ سخت ترین حالات میں آپ اور آپ کے صحابہؓ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے حددرجہ مضبوط ہوجاتا تھا۔

آج کے حالات میں ہمارے لیے سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنا تعلق اپنے رب سے مضبوط سے مضبوط تر کریں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے راستے میں چلنے کی وجہ سے پریشان کیے جا رہے ہیں تو اس پر ہمارا ایمان اور مضبوط ہونا چاہیے اور اس سے ہمارا تعلق حد درجہ قوی ہونا چاہیے۔ اسی سے امیدیں وابستہ کرنا چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِیرُ(الحج:  ۷۸)

(پس نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرو۔ وہ تمھارا مولا ہے، پس کتنا بہترین مولا ہے اور کتنا بہترین مددگار۔ )

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا تو ہے، لیکن ان کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ دشمنوں کے پیچھے شیطان کی طاقت ہے اور ہمارے پیچھے رحمان کی طاقت ہے۔ ہمارا تعلق ہمارے رب سے اتنا مضبوط اور قوی ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ کے راستے میں کام کرتے ہوئے ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہوں تو اللہ رب العزت عرش الٰہی سے ہمارے لیے بہترین تدبیر فرما رہا ہو۔

۲۔  موجودہ حالات میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ہمیں دوسری رہ نمائی یہ ملتی ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد ہونا چاہیے۔ صحابہ کرام ؓکی جماعت نبی کریم ﷺ کی قیادت میں سراپا متحد تھی۔ ان کے اندر ذرا سا بھی انتشار کا شائبہ نہیں تھا۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا کاوہ چلتاپھرتا نمونہ تھے۔ انھیں یہ بات معلوم تھی کہ ید اللہ مع الجماعۃ۔ ’’اللہ تعالی کی تائید و نصرت جماعت و اتحاد کے ساتھ ہے۔‘‘

یہ افسوس ناک بات ہے کہ آج امت مختلف طبقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہے۔ اندرونی انتشار عروج پر ہے۔ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہمیں کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر ہم متحد ہونے کے بجائے منتشر ہوں گے تو ہندوستان میں ہماری حالت اور خراب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَأَطِیعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَٰزَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِیحُكُمْ ۖ وَٱصْبِرُوٓاْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِینَ(الانفال:۴۶)

(اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نہ لڑو۔ پس تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ )

لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہم ہندوستان میں حالات کا مقابلہ کرنا چاہتے اور سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو باہم متحد ہوں اور کندھے سے کندھا ملا کر اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔

۳۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ہمیں تیسری رہ نمائی یہ ملتی ہے کہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، ہم دعوتِ دین کا کام کرتے رہیں۔ آپؐ کے زمانے میں حالات بہت سخت تھے۔ مشرکینِ مکہ صحابہ کرام ؓ کی جان کے پیاسے تھے۔ لیکن اس وقت بھی آپ اور آپؐ کے صحابہ ؓکو یہی حکم ہوا کہ دعوت کا کام جاری رکھیں۔

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَآ إِلَى ٱللَّهِ وَعَمِلَ صَٰلِحًا وَقَالَ إِنَّنِى مِنَ ٱلْمُسْلِمِینَ(فصلت: ۳۳)

(اور اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔)

ہندوستان میں ہماری کام یابی کا راز بھی دعوت دین میں ہے۔ اس وقت ایک مخصوص ٹولہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہا ہے اور اعتراضات کی بارش کر رہا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غیر مسلم بھائیوں سے انفرادی ملاقاتیں کریں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کر یں اور انھیں اللہ تعالیٰ کا دین بلا کم و کاست پہنچائیں۔

یہ کام جنگی پیمانے پر کرنے کا ہے۔ یہ انبیائی مشن ہے اور نبی اکرم ﷺ کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ دعوتی کام میں جن حکمت عملیوں کا آپؐ نے لحاظ رکھا ان کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ دعوت کے اس کام کو حکمت کے ساتھ کرنا ہے۔

ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِیلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ (النحل:  ۱۲۵)

(اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے۔ )

۴۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ہمیں چوتھی رہ نمائی یہ ملتی ہے کہ اپنوں اور غیروں کے ساتھ ہمارے اخلاق بہت اچھے ہوں۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ ہمارے مدعو ہیں، ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ بہت اچھا ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ بہترین اخلاق پر فائز تھے۔ قرآن مجید نے اس کی گواہی دی ہے۔ جن لوگوں نے آپؐ کو گالی دی، آپ نے ان کو دعائیں دیں۔ جنھوں نے آپؐ کے قتل کی سازش کی، آپ نے ان کو معاف کر دیا۔ آپ ؐ کا دعوت دینے کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے روابط قائم فرماتے، گھریلو حالات سے آگاہ ہوتے اور اگر مخاطب کسی پریشانی میں ہوتا تو آپ اس کی پریشانی دور کرنے کی فکر فرماتے۔ پہلے لوگوں کے کام آتے، جب دل کی دنیا نرم ہو جاتی تب دعوت دیتے۔ ہمیں بھی یہی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں ازلی دشمن بھی جگری دوست بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَینَكَ وَبَینَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِی حَمِیمٌ (فصلت:  ۳۴)

(اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے۔ برائی کا جواب اچھائی سے دیجیے تو آپ اور جن کے درمیان دشمنی ہے، جگری دوستی میں بدل جائے گی۔)

غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ہمارا اخلاق بہت اچھا ہونا چاہیے۔ اس سے دل نرم ہوتا ہے اور بات دل میں اتر جاتی ہے۔

۵۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ہمیں پانچویں رہ نمائی یہ ملتی ہے کہ ہمارے اندر مجتہدانہ شان پیدا ہونی چاہیے۔ نئے نئے حالات کے پیش نظر کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے یمن بھیجتے وقت سوال کیا تھا:   اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس میں قرآن مجید اور میری زندگی میں براہِ راست رہ نمائی موجود نہ ہو تو کیا کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے جواب دیا تھا:  ’’ میں قرآن مجید اور آپ کی سیرت کی روح کی روشنی میں اجتہاد کروں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے ان کو ڈھیر ساری دعائیں دیں تھیں۔ آج ہندوستان میں بہت سارے امور و مسائل میں ہمیں اجتہاد کرنا ہوگا۔ دینی تحریک مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی اپنا راستہ بنا لیتی ہے،لہٰذا ہمارے اندر مجتہدانہ شان پیدا ہونی چاہیے۔ کتاب و سنت میں بصیرت پیدا کرنا ہم میں سے ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ اسی بصیرت کے نتیجے میں مجتہدانہ شان پیدا ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عصر حاضر میں سیرت کی رہ نمائی کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ سیرتِ رسول ﷺ کی رہ نمائی اور آپ ؐ کی زندگی کے مطالعے کے بغیر ہمیں دور حاضر میں کام یابی نہیں مل سکتی۔

نبی اکرم ﷺ ہمارے رہبر و رہ نما ہیں۔ آپ کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اندر سیرت کے مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا فرمائے، ہندوستان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت بخشے اور اقامت دین کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

مشمولہ: شمارہ فروری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223