حاجی صاحب: ایک فرد ایک تحریک

کیرلا کے الوکوڈ (Alakode) ریلوے اسٹیشن میں گاڑی رک گئی۔ ایک نوجوان گاڑی سے اترا اور سیدھا اسٹیشن ماسٹر کے پاس پہنچا اور بولا:

“مجھے شورنور (Shoranur) میں اترنا تھا، لیکن گاڑی میں سو گیا۔”

“پریشان مت ہوں، واپس جانے والی گاڑی میں آپ شورنور پہنچ سکتے ہیں۔”

“نہیں، شورنور سے یہاں تک میں بلا ٹکٹ سفر کرکے آیا ہوں۔ وہ پیسہ لے لیجیے۔”

“اس کی تو ضرورت ہی نہیں‘، اسٹیشن ماسٹر نے کہا، ’کئی لوگ بلا ٹکٹ سفر کرتے ہیں۔”

“نہیں میں بلاٹکٹ سفر نہیں کروں گا۔ بولیے کتنا روپیہ دینا ہے؟”

اسٹیشن ماسٹر نے ٹکٹ کے پیسے لے لیے اور گویا ہوا: “آپ جیسے نیک لوگ ہوں تو ملک اچھا بن جائے گا۔”

یہ نوجوان جناب وی پی محمد علی صاحب تھے جنھوں نے ریاست کیرلا میں تحریک اسلامی کا بیج بویا اور جماعت اسلامی حلقہ کیرلا کے پہلے امیر مقرر ہوئے۔ تحریکِ اسلامی کی تاریخ میں حاجی صاحب کا نام سنہرے حرفوں میں نقش ہے۔

حاجی صاحب کیرلا کے ایک گاؤں ایڈیور (Adiyor) میں 1912 میں پیدا ہوئے۔ والد پوکامٹی حاجی ایک دیندار شخص تھے جن کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ محمد علی ان کے تیسرے بیٹے تھے۔

حاجی صاحب کی ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوئی تھی۔ پھر وہ دینی تعلیم میں مشغول ہو گئے۔ مختلف مسجدوں کی درس گاہوں میں قرآن و حدیث اور صرف ونحو وغیرہ پڑھى۔ احیا علوم الدین پڑھنے پر حج کرنے کا شوق دل میں امنڈ آیا۔ لیکن زاد راہ میسّر نہ تھا۔ خدا پر توکل کرکے تقویٰ اور خود اعتمادی کو بطور زاد راہ لیے روانہ ہوگئے۔ جیب میں صرف دو روپے تھے۔

تھوڑی دور سفر کرتے اور پھر کچھ دن مزدوری کرکے پیسے جمع کرتے۔آخر کار ایک دن وہ بمبئی پہنچ گئے۔ وہاں سے اپنے بھائی کے نام خط لکھا اور بغلے (ایک قسم کی کشتی) میں سوار ہوگئے۔ حاجی صاحب دو سال مکہ اور مدینہ میں رہے۔ حج اور عمرہ کیا اور ساتھ ہی روزی کمانے کے لیے کچھ نہ کچھ کام بھی کرتے رہے۔ دوسال بعد وہ گھر واپس آئے۔

چند مہینے بعد حاجی صاحب عمرآباد کے جامعہ دار السلام میں طالب علم کی حیثیت سے داخل ہو گئے۔ ایک دن حدیث کے استاذ شیخ اسماعیل صاحب اسلامی شریعت پر درس دے رہے تھے، حاجی صاحب نے سوال کیا:

’اسے پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس کو نافذ کرنے کے لیے اسلامی حکومت تو ہےنہیں؟

یہاں حاجی صاحب نے پہلی مرتبہ مودودی کا نام سنا۔

عمرآباد سے واپسی کے بعد حاجی صاحب کنور (Kannur)کے پینگاڑی (Payangadi)کے ایک مدرسے میں بحیثیت ٹیچر مقرر ہوئے جس کے مہتمم حاجی کنج احمد کے شمالی ہند سے کچھ تعلقات تھے اور وہ اردو رسائل کے خریدار تھے۔ ان کے یہاں حاجی صاحب کو رسالہ ترجمان القرآن اور مولانا مودودی کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور وہ بہت جلد مودودی صاحب کے افکار اور تحریک سے متاثر ہوگئے اور خطوط کے ذریعے ان سے رابطہ بھی قائم ہو گیا۔

آخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کا دل مولانا سے ملنے کے لیے تڑپنے لگا۔ زادِراہ کے طور پر تھوڑا روپیہ جمع کیا اور صرف دو جوڑ کپڑے لے کر وہ پٹھان کوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ کبھی گاڑی میں، کبھی پیدل چل کر سفر جاری رکھا۔ راستے میں اخراجات کے لیے کچھ نہ کچھ مزدوری بھی کرتے۔ آخر دلّی پہنچ گئے تو وہاں عارضی طور پر ایک کارخانے میں ملازمت کرلی۔

ایک دن حاجی صاحب نے سنا کہ جامعہ ملیہ کے جلسے میں مولانا مودودی کی تقریر ہونے والی ہے۔ ایک دن کی چھٹی لے کر وہ جامعہ ملیہ آگئے اور مولانا کی تقریر غور سے سنی۔ پھر تڑپتے دل کے ساتھ پاس آئے اور سلام کیا۔

’آپ کہاں سے ہیں؟‘ مولانا نے پوچھا۔

’ملاپرم (Malappuram) سے۔‘

’آپ محمد علی ہیں؟‘

مولانا نے حاجی صاحب کو اپنے ساتھ دار الاسلام آنے کی دعوت دی۔ لیکن ان کو کارخانے کے مالک سے اجازت مانگنی تھی اور حساب بے باق کرنا تھا۔ چند دنوں بعد وہ دارالاسلام پہنچے۔ دارالاسلام میں ان کے تاثرات کا پتا اس خط سے چلتا ہے جو انھوں نے اپنے ایک دوست کو لکھا۔ لکھتے ہیں:

’یہ ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست ہے جس کے خلیفہ مولانا مودودی صاحب ہیں۔ یہاں پر ہر شعبہ کے دفاتر ہیں۔ مسجد، درس گاہ، مطبخ،کتب خانہ، ہسپتال، غرض وہ سب کچھ ہے جو ایک ریاست کے لیے ضروری ہے۔ ساری ذمہ داریاں جماعت کے ارکان پر ہیں۔‘

دارالاسلام کی رہائش کے دوران حاجی صاحب نے مولانا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ رسالہ دینیات اور سلامتی کا راستہ وغیرہ کتابوں کا ترجمہ وہیں رہ کر کیا۔

دو سال بعد 1944 میں وہ کیرلا لوٹے۔ وہاں اپنے چند دوستوں سے مل کر جو تحریک اسلامی سے متاثر تھے جماعت المسترشدین کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ 1945 میں ایک ادارہ کتابوں کی نشر و اشاعت کے لیے شروع کیا جس کا نام Islamic Publishing House ہے جو آج ہندوستان بھر میں اسلامی کتابوں کی اشاعت کے لیے مشہور ہے۔ 1945 ہی میں دو کتابیں رسالہ دینیات اور سلامتی کا راستہ شائع ہوئیں۔

جماعت کے پہلے سالانہ اجتماع میں جماعت اسلامی حلقہ مدراس کے امیر شیخ عبد اللہ صاحب،عمرآباد سے مولانا صبغة اللہ اور مولوی اسماعیل صاحب وغیرہ نے شرکت کی۔ کیرلا کے سلفى علما بھی شریک ہوئے۔

1946 میں ولانجیری (Valancheri) میں جماعت المسترشدین کا ایک اجتماع منعقدکیا گیا۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جماعت المسترشدین کو جماعت اسلامی کی شاخ بنایا جائے۔ اگلے سال کیرلا میں جماعت کا دوسرا حلقہ کالی کٹ میں قائم ہوا۔

جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے بعد کل ہند اجتماع کے لیے حاجی صاحب الٰہ باد جانے کی تیاری میں تھے کہ والد صاحب بیمار ہوگئے انھوں نے جانے کا ارادہ چھوڑ دیا۔ یہ جان کر ان کے والد نے کہا: ’تم اجتماع کے لیے ضرور جاؤ، اگر خدا نے چاہا تو واپس آکر ملیں گے ورنہ پھر خدا کی بارگاہ میں ہماری ملاقات ہوگی۔‘ حاجی صاحب کو ہمت ملی اور وہ الٰہ باد کے سفر پر نکل گئے۔ اجتماع کے ختم ہوتے ہی گھر لوٹے لیکن خدا کی مشیت یہ کہ گھر پہنچنے سے ایک روز قبل والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر گھر کا بار حاجی صاحب کے سر پر آپڑا۔

چھ مہینے بعد حاجی صاحب کا نکاح ام عائشہ سے ہوا۔ 52 روپے مہر طے ہوا جو اسی وقت انھوں نے سسر کے حوالے کیا۔ حاضرین دیکھ کر حیران ہو گئے، کیوں کہ اس علاقے میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ طے کردہ مہر ادا کیا جائے۔ مہر صرف کہنے کے لیے ہوتا تھا نہ کہ دینے کے لیے۔ میاں بیوی مرتے دم تک ساتھ رہے، تاہم حاجی صاحب کا کوئی بچہ نہیں ہوا۔

اصلاح معاشرہ کے لیے حاجی صاحب کے دل میں ہمیشہ فکرمندی اور تڑپ رہتى تھى۔ مسلمان چھوٹی چھوٹی اور فروعی باتوں میں لڑتے جھگڑتے تھے۔ سنت کے نام پر اہل بدعت و خرافات بہت زور پکڑے ہوئے تھے۔ دوسری طرف سلفی مسلک کا ایک چھوٹا گروہ فروعی مسائل کو اصول کے طور پر پیش کرتا تھا۔ دونوں کے درمیان بحث ومباحثے اور مناظرے ہوا کرتے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کا یہ حال تھا کہ کانگریس کی تائید کرنے والے نیشنلسٹ مسلمانوں اور مسلم لیگ کے نیشنلسٹ مسلمانوں کے بیچ میں دشمنی تھی۔ حاجی صاحب نے ان فرقوں اور پارٹیوں کے درمیان سمجھوتے اور اتحاد کی بہت کوششیں کیں جن کا کبھی فائدہ ہوا اور کبھی ناکام رہے۔

جماعت اسلامی کی جنوبی ہند کانفرنس مدراس میں ہونے والی تھی۔ یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ مسلم لیگ کی طرف سے اجتماع میں خلل ڈالا جائے گا۔ حاجی صاحب کی قیادت میں کیرلا کے نوجوان کارکنان دو دن قبل مدراس پہنچے اور اجتماع کے ختم ہونے تک پہرے اور حفاظت کا کام انجام دیتے رہے۔ کیرلا میں بھی بہت سے مقامات پر بدعتی لوگوں کی طرف سے زیادتی کی کوشش کی گئی لیکن حاجی صاحب کی دلیری اور ہوشیاری کے سامنے وہ کام یاب نہیں ہوسکے۔

آہستہ آہستہ جماعت کے ارکان اور کارکنان کی تعداد بڑھتی گئی، کئی مقامات پر حلقے بنائے گئے۔ حاجی صاحب اور دیگر قائدین کے دل میں ملیالم میں ایک اسلامی رسالے کی ضرورت کا احساس بڑھنے لگا جو تحریک اسلامی کا ترجمان بن سکے۔ اس مقصد کے لیے وانمیل (Vanimal) میں ایک جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی خبر پاکر بدعتی جماعت کے مولویوں نے عام لوگوں کو فساد پر اکسایا اور جلسہ نہ ہوسکا۔ حاجی صاحب نے سب رفقاء کو جلد ہی کالی کٹ پہنچنے کی ہدایت دی۔ شام کو سب کالی کٹ میں جمع ہوگئے۔ حاجی صاحب نے پر زور تقریر کی۔ ترجمان کی ضرورت سے ان کو آگاہ کیا۔ وہیں سے ’پربودھنم‘ پندرہ روزہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یکم اگست 1949 کو پربودھنم کا پہلا شمارہ شائع ہوا جس کی 1500 کاپیاں چھپی تھیں۔ اس میں طبع زاد مضامین کے علاوہ ترجمان القرآن، زندگی، انصاف وغیرہ رسالوں سے مضامین کے ترجمے بھی شائع ہوتے تھے۔ مضامین کی تحریر اور ترجمہ سے لے کر پروف ریڈنگ اور بھیجنے اور بیچنے کے سارے کام حاجی صاحب اور مولوی کے سی عبد اللہ صاحب جو بعد میں امیر حلقہ کیرلا بنے، کرتے تھے۔

اب حاجی صاحب کے دل میں ایک اور خواہش تھی کہ کیرلا میں ایک کالج قائم کریں جو عمرآباد اور ویلور (Vellore) کے اسلامی اداروں کی طرح اعلیٰ درجات رکھتا ہو اور ساتھ ہی سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کا بھی انتظام ہو۔ 1951 میں مُلّیاکُرسی (Mulliakurssi) گاؤں کی مسجد میں حاجی صاحب، مولوی عز الدین صاحب اور مولوی اے کے عبد القادر صاحب نے وہاں کے باشندوں کا ایک جلسہ کیا اور ایک کالج قائم کرنے کی ضرورت پر مشورہ کیا۔ حاضرین نے مالی امداد کرنے کا وعدہ کیا۔ 1956 میں ملاپرم میں جماعت اسلامی کا صوبائی اجتماع منعقد ہوا تو اسلامیہ کالج قائم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی اور اس کے مطابق اگلے سال مُلّیاکُرسی میں اسلامیہ کالج قائم ہوا اور گاؤں کا نام شانتاپورم رکھا گیا جس کے معنی دار الامان کے ہیں جو آج الجامعہ الاسلامیہ شانتاپورم کے نام سے کیرلا کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا ہے۔ شانتاپورم اسلامیہ کالج کے قیام میں حاجی صاحب کی دور اندیشی کا پتا اس سے چلتا ہے کہ جماعت اسلامی حلقہ کیرلا کے قائدین میں نوے فی صد اس کالج سے فارغ ہیں۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں تحریک اسلامی کے کام کی قیادت کرنے والوں میں بھی اکثر و بیشتر یہاں کے طلبہ ہیں۔

کارکنان کی تعلیم وتربیت کے لیے مجلس فقیہ قائم ہوئی تھی۔ 1949 میں ایک اجلاس میں یہ طے پایا کہ پربودھنم کے لیے ایک پریس قائم کیا جائے۔ اسی اجلاس میں ایک رکن جماعت نے چھ ہزار روپے دیے اور دیگر ارکان کی طرف سے نو ہزار روپے جمع ہوگئے اور کالی کٹ (Calicut) میں پریس قائم کیا گیا۔ پربودھنم چھاپنےکے لیے کاغذ (Newsprint) بہت مشکل سے دستیاب ہوتا تھا۔ حاجی صاحب ایک مرتبہ کاغذ کے الاٹمنٹ کے لیے ارناکلم (Ernakulam) گئے۔ وہاں سرکاری افسر نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ رشوت دینے پر اصرار کیا تو حاجی صاحب نے کہا کہ یہ رسالہ قوم کی اصلاح اور تعلیم وتربیت کے لیے شائع کرتے ہیں نہ کہ بربادی کے لیے۔ افسر نے متاثر ہوکر فوراً دستخط کر دیے۔

حاجی صاحب کی قیادت میں ارکان وکارکنان کی تربیت بھی جاری تھی۔ وہ اپنے کارکنوں کی صلاحیت کے لحاظ سے ان کو ذمہ داریاں سونپتے تھے، اس لیے جماعت میں کبھی بھی قحط الرجال محسوس نہیں ہوا۔ حاجی صاحب لوگوں سے پیش آنے میں بہت سلیقہ مند تھے۔ ایک طرف بڑے مقرر تھے تو دوسری طرف ذاتی گفتگو کے ماہر تھے۔ اکثر مخاطب یا تو تحریک کے ہم نوا بن جاتے یا کم از کم لاجواب ہو جاتے۔

اہل ثروت اور اہل سیاست سے آزادانہ تعلقات رکھتے تھے۔ اکثر قائدین کو نجی خطوط لکھا کرتے تھے۔ 1945 میں مسلم مجلس کا سالانہ اجتماع کالی کٹ میں ہو رہا تھا۔ اس میں شمالی ہندوستان کے قائدین، مولانا عبد المجید خواجہ، ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری، مولانا یاسین نوری وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ پروگرام ختم ہونے پر رات ہی میں حاجی صاحب ان سے ان کی قیام گاہ پر ملے اور جماعت اسلامی کا تعارف کرایا۔ بہت دیر تک گفتگو رہی۔آخرمیں مولانا یاسین نوری نے کہا “ٹھیک ہے، مگر —”

کانگریس کے لیڈر محمد عبد الرحمان سے بھی کئی مرتبہ گفتگو کی۔ وہ حاجی صاحب کے چاہنے والوں میں سے تھے اور جماعت اسلامی کے خیر خواہ تھے۔

1955 میں حاجی صاحب، مولوی کے سی عبد اللہ صاحب اور دیگر چند ارکان کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر کے دوران دوبارہ مولانا مودودی صاحب سے ملے اور کیرلا میں تحریک کی کارکردگی پر گفتگو کی۔

حاجی صاحب اپنے رفقاء سے بہت مخلصانہ ہمدردی رکھتے اور ان کی ضرورتوں کا حل خود تلاش کرتےتھے۔ سفر و حضر میں رفقاء ان سے مستفیض ہوا کرتے تھے۔ حاجی صاحب کے درس قرآن اور دیگر اسٹدی کلاسوں سے عام لوگ اتنا متاثر تھے کہ وہ یا تو تحریک میں داخل ہوجاتے یا ان کے افکار سے متفق ہوجاتے۔ ان کی تذکیر اور دعائیں آنکھوں کو رلاتی اور دلوں کو تڑپاتی تھیں۔

ادھیڑپن سے ہی حاجی صاحب سردرد اور سینے کے درد میں مبتلا تھے۔اس کے باوجود تحریک کے کاموں میں مشغول رہتے۔ جب بیماری بڑھ گئی اور صحت خراب ہوگئی تو کوچین کے ایک ڈاکٹر نے فراغت کی ہدایت دی مگر وہ ماننے والے کب تھے۔ انتقال کے دو روز قبل بھی انھوں نے مجلس عام میں پرزور تقریر کی تھی۔

مولانا مودودیؒ حاجی صاحبؒ کے متعلق لکھتے ہیں:

“مالابار کے موپلا مسلمانوں کے متعلق جہاں تک میں جانتا ہوں، وہ بڑے خوداعتماد اور بہادر لوگ ہیں۔ وہ انگریزی حکومت کے خلاف باوجود اسلحہ کی کمی کے بہادری کے ساتھ لڑتے رہے۔ مالابار سے میرے تعلق کا ایک اور سبب یہ ہوا کہ تیس سال قبل جماعت اسلامی کے قیام کے ابتدائی دنوں ہی میں مالابار کے مولانا وی پی محمد علی اس کے رکن بن گئے تھے۔ وہ بڑے مخلص تھے اور بہادر بھی۔ آرکاٹ کے جامعہ دارالسلام سے فارغ ہونے کے بعد گھربار چھوڑ کر وہ پنجاب کے پٹھان کوٹ آئے اور ہمارے ساتھ رہے۔ پھر مالابار جانے کے بعد تحریک اسلامی کے کاموں میں سرگرم رہے۔ بہت سی کتابیں اور مضامین ملیالم میں ترجمہ کرکے شائع کیا، پریس قائم کیا اور رسالہ جاری کیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی ہند کے کاموں میں مصروف رہے اور اسی دوڑدھوپ میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی نیک کوششوں کا صلہ عطا فرمائے، آمین۔”(پیغام از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی برائے گولڈن جوبلی مالابار مسلم جماعت، کراچی، 1971)

ستمبر 1959 میں وہ پینگاڑی میں ایک صاحب سے ملنے گئے۔ راستے میں انھیں دست ہوا تو خون نکل آیا۔ دوسرے دن ملاپرم کے کوڈنجی میں ایک اجتماع مقرر تھا۔ وہ پینگاڑی سے روانہ ہوئے۔ اجتماع کی جگہ تک تقریباً چار کلومیٹر پیدل چلنا تھا۔ چلتے چلتے ایک کھیت میں وہ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ لوگوں نے انھیں شہر کے ایک کلینک میں ڈاکٹر کو دکھایا۔ خبر پاکر رفقا بھی آگئے جن میں معیدو مولوی بھی تھے۔ حاجی صاحب نے معیدو مولوی سے کہا: ’دیکھیے یہ لوگ ہماری کلاس کے لیے آئے ہیں، ان کو مایوس نہ کیجیے گا۔ یہاں کہیں جمع کرکے کچھ نہ کچھ سنا دیجیے گا۔‘ تھوڑی دیر میں ان کو قے ہوئی جس میں خون ہی خون تھا۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق کالی کٹ میڈیکل کالج میں لائے گئے۔ لیکن ان کی قضا آچکی تھی۔ 28؍ ربیع الاول 1379 ہجری بمطابق2 اکتوبر 1959 کو تحریک اسلامی کا یہ قائد عظیم دنیا سے رخصت ہوگیا۔ ان کے انتقال کے وقت جماعت اسلامی حلقہ کیرلا میں 97 ارکان تھے۔

بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

حاجی صاحب متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مرتے وقت ان کا قرض ادا کرنے کے لیے ان کی وصیت کے مطابق گھڑی، قلم وغیرہ اشیا بیچ دی گئیں۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223