رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قتل وغارت گری، سفاکی اور خوں ریزی میں ملوث تھا۔قبائل کے درمیان مسلسل جنگ جاری رہتی تھی۔ ان کا جوش انتقام ہزاروں افراد کے خون سے بھی سرد نہیں پڑتاتھا۔ انفرادی طورپر بھی یہی صورت حال تھی۔ زبردست زیردست پر ظلم روا رکھتا۔ ہر ایک کی جان اور مال کا خطرہ رہتاتھا۔بالعموم سماج میں کم زور و نادار طبقہ ہی ظلم وستم کا ہدف بنتاتھا۔ ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھاجاتاتھا۔قبائلی اور خاندانی نظام، اتنا مستحکم تھا کہ کوئی کام چاہے صحیح ہو یا غلط، عدل پر مبنی ہو یا ظلم پر، کسی کی حمایت کامعاملہ ہو یا مخالفت کا، تمام افراد اورقبیلے اس میں برابر کے شریک رہتے تھے، ایک فرد پر ظلم وزیادتی پورے قبیلے اور خاندان کی مخالفت اور دشمنی مول لینے کے مترادف سمجھی جاتی تھی۔ایسے حالات میں مختلف قبائل سے وابستہ بااثر افراد نے قبائلی اور علاقائی عصبیت سے بالاترہوکر محض انسانی بنیادوں پر ایک معاہدہ تشکیل دیا۔ اس کا مقصد مظلوم کی دادرسی اور ظالم کو ظلم سے بازرکھناتھا۔عربوں کی تاریخ میں اس معاہدے کو بابرکت اور افضل معاہدہ قرار دیاگیا۔حضرت حکیم بن حزام ﴿م ۵۴ھ﴾ فرماتے ہیں:
وکان اشرف حلف کان قط ﴿ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دارالفکر بیروت، ۴۱۴ھ /۴۹۹۱ئ،۱/۶۸﴾
’’یہ تاریخ کا سب سے قابل احترام معاہدہ تھا‘‘
محمد بن حبیب بغدادی ﴿۲۴۵ھ﴾ نے لکھاہے:
کان حلفاً لم یسمع الناس بحلف قط کان اکرم منہ والا افضل منہ ﴿ابن حبیب بغدادی، کتاب النمق فی اخبائ قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، دائرۃ المعارف المعثمانیہ، حیدرآباد دکن ۱۹۶۴ ص:۴۵﴾
’’یہ ایسا معاہدہ تھا کہ اس سے زیادہ قابل احترام واکرام اور اس سے افضل کسی اور معاہدے کالوگوں نے کبھی تذکرہ نہیں سنا۔‘‘
تاریخ عرب میں یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے جانا جاتاہے۔ اس کا نام حلف الفضول کیوں پڑا؟ مورخین اور اہل سیر نے اس کے مختلف اسباب ذکر کیے ہیں اور معاہدے کو انجام دینے والوں کی تعدادتین بیان کی ہے،لیکن ان کے ناموں میں اختلاف پایاجاتاہے:
ابن کثیر: الفضل بن فضالۃ، الفضل بن وداعۃ، الفضل بن حارث۔
ابن الاثیر صاحب الکامل: الفضیل بن حرث الجرہمی، الفضیل بن وداعۃ القطوری، المفضل بن فضالۃ الجرہمی۔
بعض مورخین نے کچھ اور بھی نام بیان کیے ہیں، لیکن زیادہ مناسب اور دل لگتی بات یہ ہے کہ اس معاہدے کو انجام دینے والوں کے نام میں ’’فضل‘‘ کا مادہ ﴿شامل﴾ ہے۔ اسی لیے ان کے کیے گئے معاہدے کو حلف الفضول کا نام دیاگیا ہے۔
حلف الفضول کا سبب کیاتھا اس سلسلے میں ابن قتیبہ ﴿م ۲۷۶ھ﴾ ابن الجوزی ﴿م ۵۹۷ھ﴾ اور دیار بکری ﴿م ۹۶۶ھ﴾ نے لکھاہے کہ قبائل قریش حرم کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتے تھے۔ اس سے انھیں روکنے کے لیے یہ معاہدہ وجود میں آیا۔ ﴿ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق ڈاکٹر ثروت عکاشہ، مطبعۃ دارالکتب قاہرہ، ۱۹۶۰ ، ص:۶۰۴، ابن الجوزی، الوفائ بأحوال المصطفی، دارالکتب الحدیثۃ مصر، ۱۹۶۶ ۱/۱۳۵، حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی أحوال انفس نفیس، المطبعۃ العامرۃ العثمانیہ، ۱۳۰۲ھ، ۱/۲۹۵﴾
علامہ شبلی نعمانی ﴿م ۱۹۱۴ ﴾ نے لکھا ہے:
’’ لڑائیوں کے متواتر سلسلے نے سیکڑوں گھرانے برباد کردیے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے، یہ دیکھ کر بعض طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی۔ ” ﴿شبلی نعمانی، سیرۃ النبی، مطبع معارف اعظم گڑھ، ۲۰۰۳ ،۱/۱۲۹﴾
بیشتر مورخین و اصحاب سیر نے عہدجاہلی کے اس واقعے کو اس کامحرک قرار دیا ہے:
قبیلۂ زبید کا ایک شخص بہ عرض تجارت مکہ مکرمہ میں مال لے کر آیا اور اسے عاص بن وائل سہمی کے ہاتھ فروخت کیا، اس نے سامان تو لے لیا مگر پیسے ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگاؤ بعض قبائل قریش سے اپنا مدعا پیش کرکے مدد چاہی مگر کوئی مدد کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایک صبح زبیدی کوہ ابوقیس پر چڑھا اور طنز بھرے اشعار میں اپنی مظلومی کی داستان سنائی، قبائل قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اردگرد بیٹھے تھے، انھوںنے یہ فریاد سنی۔ بالآخر کچھ بااثر و صاحب اقتدار اور انصاف پرور لوگوں نے نہ صرف اس زبیدی کا واپس کردیا، بل کہ اس کے بعد ’’حلف الفضول‘‘ کی شکل میں یہ تاریخی معاہدہ وجود میں آیا۔ ﴿ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ دارالریان للقرات مصر، ۱۴۰۸ھ-۱۹۸۸ ۲/۲۷۱-۲۷۰﴾
معاشرے کے لاچار افراد کی اعانت اور مظلوموں کی دادرسی، ظلم و غارت گری کے خاتمے، قیام امن اور اس سے تمام انسانوں کو بہرہ ور کرنے کا مقصد پیش نظر رکھ کر معاہدے کی دفعات متعین کی گئیں اور ان کو نافذکرنے کے لیے ہرممکن اقدام کا سہارا لیاگیا۔ ابن ہشام نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
فتحالقوا و تعاقدوا أن لایجدوا بمکۃ مظلوما من أھلہا أو من غیرہم من سائر الناس الا قاموا معہ‘‘ وہ کانوا علی من ظلمہ حتی ترد علیہ مظلمتہ ﴿ابن ہشام، سیرۃ النبی، المکتبْْ، التجاریۃ الکبری، ۶۵۳۱ھ/۷۳۹۱ئ، ۱/۵۴۱﴾
انھوںن ے حلف دے کر عہد کیاتھاکہ شہر مکہ میں کسی پر بھی ظلم ہو، خواہ مکہ کا رہنے والا ہو یا کہیں باہر کا ہو، سب مظلوم کی تائید ومدافعت میں ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ مظلوم کو اس کا حق واپس مل جائے۔‘‘
ابن کثیر نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
فتعاقدوا ومقاہدوا باللہ لیکونن یدا واحدۃ مع المظلوم علی الظالم حتی یؤدی الیہ حقّہ مابلّ بحر صوفۃ ومارسیٰ تبیرو حرائ وکامنہا۔ ﴿ابن کثیر، ۲/۲۷۱﴾
’’انھوں نے باہم عہدو پیمان کیاکہ اللہ کی قسم ہم سب ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں ایک ہاتھ بن کر اٹھیں گے یہاں تک کہ مظلوم کو اس کا حق مل جائے، ہمارا یہ عہد اس وقت تک باقی رہے گا جب تک سمندر گھونگھوں کو بھگوتا رہے اور شیر اور حراء نامی پہاڑ اپنی جگہ قائم رہیں۔‘‘
معاہدے کے آخری جز کامطلب یہ ہے کہ یہ کوئی وقتی اور عارضی معاہدہ نہیں ہے بل کہ ہمیشہ کے لیے ہے۔تمام مورخین اور اہل سیر نے لکھاہے کہ اس کے بعد حال یہ ہوگیاتھاکہ مکہ میں کسی شخص پر ظلم ہوتا تو لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ مؤرخین نے ایسے متعدد واقعات بیان کیے ہیں کہ جب کسی مظلوم نے حلف الفضول کی دہائی دی تو اس کی حمایت اور تائید کے لیے لوگ فوراً تیار ہوگئے اور اس کا حق دلایا۔ مثلاً حضرت معاویہ کے بھتیجے اور مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ اور حضرت حسین بن علی کے درمیان ایک جائیداد کے سلسلے میں جھگڑا ہوگیا۔ اس موقعے سے حضرت حسین ؓ نے دھمکی دی کہ اگر انھیں انصاف نہ ملا تو وہ حلف الفضول کی دہائی دیں گے۔ فوراً عبداللہ بن زبیر، مسور بن مخرمہ زہری اور عبدالرحمن بن عثمان تیمی نے تائید کی اور اس پکار پر لبیک کہنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ یہ دیکھ کر ولید بن عتبہ نے ان کا حق دے دیا۔ ﴿ابن الاثیر ۶۳۰ھ﴾ الکمل فی التاریخ، دارالکتاب العربی بیروت، ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ ، ۲/۲۶،۲۷﴾
اس معاہدے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ شریک تھے۔ حکیم بن حزام جنھیں بعثت سے قبل آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی کا شرف بھی حاصل تھا، فرماتے ہیں:
’’ابن جدعان کے گھر میں جو معاہدہ ہواتھا، اس میں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاتھا، معاہدے کی دستاویز زبیر بن عبدالمطلب نے لکھی تھی۔‘‘ ﴿بغدادی، المنمق ص:۲۲۱﴾
اس معاہدے کے اصل محرک اور داعی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے، لیکن لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے تھے۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قبائل قریش کے سرداروں میں بااثر، صاحب ثروت اور معمر تھے۔ ابن ہشام نے لکھاہے:
فاجتموا لہ فی دار عبداللہ بن جدعان لشرفہ وسنہ فکان حلفہم عندہ ﴿ابن ہشام، ۱/۱۴۴،۱۴۵﴾
’’یہ لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اکٹھا ہوئے، اس کے بااثر اور معمر ہونے کی وجہ سے اور اسی کے پاس ان لوگوں نے حلف لیا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لقد شہدت فی دارعبداللہ بن جدعان حلفا یودعیت بہ فی الاسلام لأجبت ﴿ابن کثیر، ۲/۲۷﴾
’’میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایک ایسے معاہدے میں شریک ہوا ہوں اگر مجھے اس کا نام لے کر بلایاجائے تو میں اس پر لبیک کہوںگا۔‘‘
یہاںیہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف الفضول کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس سلسلے میں کلمات تحسین ادا فرمائے اوریہ بھی فرمایاکہ اگر شرکت کے لیے مدعو کیاجائے تو میںبہ خوشی قبول کروںگا، توآپﷺ نے خود ایسے معاہدے کی تشکیل دینے اور اس میں دیگر افراد کو شامل کرنے کی کوشش کیوں نہیں فرمائی؟ اس کاظاہری سبب یہ معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے انسانوں کو مختلف عصبیتوں اور وابستگیوں سے بالاترہوکر اس کے نام پر متحد اور یکجا ہونے کی تعلیم دی ہے۔ تمام انسانوں کو بنیادی حقوق سے بہرہ ور کیاہے۔ اگرکسی شخض کی حق تلفی ہوجاتی ہے تو وہ حصولِ انصاف کے مطالبے اور تقاضے کا مجاز ہوگا۔ اس معاملے میں آقا و غلام،حاکم ومحکوم، امیر وغریب اور طاقت ور وکم زور کی کوئی تمیز روا رکھی نہ جائے گی۔ یہ اسلام کی نظری تعلیم نہیں ، بل کہ عملاً دنیا نے اس کا تجربہ بھی کیاہے۔ اسلامی ریاست کے عام شہری نے حاکم وقت کے خلاف عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کیا اور انصاف کے ساتھ لوٹا۔ حلف الفضول جیسا معاہدہ جن بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتاتھا، اس سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر اسلام انسانی حقوق کی پاسبانی ونگہبانی کرتاہے اور ان کی ضمانت دیتاہے۔ اسلامی ریاست اور اس کے حکم رانوں کو اس کاپابند کرتاہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کے قیام واستحکام کے بعد اس جیسے معاہدے ، اس کے احیائ اور تعمیر و تشکیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن چوں کہ یہ ایک اچھے اور پسندیدہ کام کی بنیاد پر وجود میں آیاتھا، اس لیے اسلام بھی اسے استحسان کی نظر سے دیکھتاہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تائید و توثیق کی اور اسے نافذ کرنے کی ترغیب فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وأوفوا حلف الجاہلیۃ فان الاسلام لم یزدہ استدّۃ ولاتحدتوا حلفا فی الاسلام ﴿مسند احمد ۱۱/۱۷۴، حدیث نمبر:۶۹۹۲﴾
’’جاہلیت میں کیے گئے معاہدوں کو پورا کرو اس لیے کہ اسلام اسے تقویت دیتاہے۔ البتہ اسلام میں ایسا کوئی معاہدہ نہ کرو۔‘‘
مذکور بالا حدیث سے پتا چلتاہے کہ ایسا معاہدہ جیساکہ دورِجاہلیت میں کیاجاتاتھا کہ وہ ہر لمحہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے، چاہے معاملہ عدل وانصاف پر مبنی ہو یا ظلم و زیادتی پر یا جنگ و جدال کے لیے بلایاگیا ہو تو اسلام ایسے معاہدے کو یکسر رد کرتاہے۔ البتہ ایسے معاہدے جو عہدجاہلیت میں ایک دوسرے کی صلح و خیرخواہی اور اچھے کاموں کی انجام دہی کے لیے انجام پائے، تو اسلام ان کی توسیع اور ان کو فروغ دینے کا پرزور حامی اور طرفدار ہے ۔ حضرت انس بن مالک ؓ کی درج ذیل وضاحت سے اس کا اشارہ ملتاہے۔
حضرت عاصم بن احول کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالکؓ کے سامنے عرض کیا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے: لا حلف فی الاسلام ’’اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں ہے‘‘۔ انھوں نے فرمایا: ’’خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں قریش ﴿مہاجرین﴾ اور انصار کے درمیان ﴿اخوت اور بھائی چارے﴾ کا معاہدہ کرایاتھا۔‘‘
﴿صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الاخائ و الحلف۔ سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض، باب فی الحلف﴾
ایسا معاشرہ جہاں پر دینی فضا قائم ہو، وہاں حلف الفضول جیسے معاہدے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے زیر اثر حکمران وقت اس کا پابند ہوتاہے اور وہ تمام تحفظات فراہم کرتاہے، لیکن جس معاشرے اور ریاست میں اسلام مغلوب اور ماتحت ہے تو اپنی جگہ پر ظلم وزیادتی کی صورت میں عدل و انصاف کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔ عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے حصول انصاف کی راہیں کھلی ہوں تب بھی اس کے مصارف نہایت گراں بار اور ہوش ربا ہوتے ہیں۔ بالعموم مظالم کے شکار سماجی اور معاشی لحاظ سے کم زور افراد ہوتے ہیں اور وہ ایسے زیربار کرنے والے مصارف کے متحمل نہیں ہوسکتے اور جب عدل و انصاف جنس بازار بن گیا ہوتو قوت خرید رکھنے والا ہی اس سے متمتع ہوسکتاہے ورنہ مظلوم ہی رہے گا۔ بالخصوص ایسے حالات میں نہایت ضروری ہوجاتاہے کہ حلف الفضول جیسے معاہدے تشکیل دیے جائیں، جن میں مختلف مذاہب، طبقات اور برادریوں کے بااثر افراد کو شریک کیاجائے، جن سے مظالم کے خاتمے، حق تلفی کے سدباب اور اخلاقی اقدار کو فروغ اور سماجی سدھار اور قیام امن میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے یہ بات بھی مستنبط ہوتی ہے کہ تکثیری معاشرے میں قیام عدل کے لیے دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ تعاون کیاجاسکتا ہے، ایسے امور کا پاس و لحاظ رکھاجائے جن کا اسلام بھی داعی اور علم بردار ہے تو ان کے ساتھ کام کیاجاسکتا ہے۔ ظاہر ہے جس معاشرے میںعدل وانصاف کی فضا قائم ہو، ظلم وزیادتی اور سفاکی کا جہاں گزر نہ ہو اخلاقی اقدار کو فروغ ملنے کی راہیں ہموار ہوں اور ہر فرد کو تحفظ فراہم ہوتو یقینا ایسا معاشرہ بے مثال امن کا گہوارا ہوگا۔ ‘‘
مشمولہ: شمارہ جون 2011