حضرت اسامہ بن زیدؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظورِ نظر

ادھیڑ عمر کے دو اجنبی افراد شہر میں داخل ہوئے۔ تھکن کے آثار ان کے چہروں سے نمایاں تھے۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ زمانے کے ستائے ہوئے ہیں۔ گردشِ روزگار نے ان کے چہروں کی رونق ختم کردی تھی۔ ان میں سے ایک کچھ زیادہ ہی پریشان دکھائی دے رہاتھا۔ انھوں نے ایک شخض کا پتا پوچھا۔ ان کی رہ نمائی کردی گئی۔ اس لیے کہ وہ جس کا پتا پوچھ رہے تھے وہ شہر کی معروف شخصیت تھی۔ بچہ بچہ اسے جانتاتھا۔ وہ دونوں راستہ پوچھتے اور مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے اس شخص کے پاس پہنچے۔ وہاں ان کے درمیان یہ گفتگو ہوئی:

مسافر:      ہم نے آپ کی شرافت کے چرچے سنے ہیں۔ ہم آپ کے پاس بہت امید لے کر آئے ہیں۔ دیکھیے، ہمیں مایوس نہ کیجیے گا۔

مقیم:        بتائیے! کیا بات ہے؟ آپ کی خواہش پوری کی جائے گی۔

مسافر:      کئی سال ہوئے، ہمارا ایک بیٹا ہم سے جدا ہوگیاتھا۔ اس کی ماں اسے اپنے ساتھ لے کر ایک قافلے کے ساتھ کہیںجارہی تھی۔ راستے میں ڈاکوئوں نے حملہ کیا۔ سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔اس کے بعد اس کا کچھ پتا نہ چلا۔ میں نے بہت ڈھونڈا، ہر ممکن سراغ لگانے کی کوشش، لیکن کہیں سے اس کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی۔ اب جاکر پتا لگاہے کہ وہ آپ کے پاس ہے۔

مقیم:        ہاں، ہمارے پاس ایک لڑکا ہے، لیکن وہ آپ کاہے، اس کا کیا ثبوت ہے؟

مسافر:      ہمیں یقینی طورپر معلوم ہوگیاہے کہ وہ لڑکا ہمارا ہی ہے۔ اس شہر میں مختلف اطراف وجوانب سے قافلے آتے رہتے ہیں۔ ایک قافلہ ہماری بستی سے بھی آیاتھا۔ قافلہ والوں نے اس لڑکے کو دیکھ کر پہچان لیا، اس سے گفتگو کی، اس کے حالات پوچھے۔ تمام آثار وقرائن یہی بتاتے ہیں کہ وہ لڑکا ہمارا ہے۔

مقیم:        آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟

مسافر:      وہ لڑکا ہمیں دے دیں۔ ہمارے ہاتھ بیچ دیں۔ ہمارے نزدیک اس لڑکے کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ ہمارا بیٹا ہے۔ ہم اسے ہر صورت میں حاصل کرناچاہتے ہیں۔ آپ اس کے بدلے جتنی چاہیں رقم لے لیں۔

مقیم:        ہم نے اسے خریدا نہیں ہے، اس لیے اسے بیچنا نہیں چاہتے۔ ہمارے ایک عزیز نے اسے بازار سے خریدکر ہمیں تحفے میں دیاتھا۔ کیا میں ایک دوسری صورت نہ بتاؤں؟

مسافر:      ضرور ضرور، ہم آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہیں۔ بس آپ ہمیں ہمارا بیٹا دے دیجیے۔

مقیم:        میں چاہتاہوں کہ اس لڑکے کو اختیار دے دیاجائے۔ اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہے تو بہ خوشی چلاجائے، میں ایک پیسہ بھی آپ لوگوں سے نہ لوںگا۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا ظالم نہیں ہوں کہ کوئی میرے پاس رہنا چاہے اور میں اسے اپنے سے دور کردوں۔

مسافر:      یہ تو آپ نے ہماری توقع سے بڑھ کر بات کہی ہے۔ اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔

اُس وجیہ، باوقار اور پُرتمکنت شخص نے گھر کے اندر آواز دی۔ لڑکاباہر نکل کر آیا۔ باپ نے اسے اور اس نے باپ کو پہچان لیا۔ دونوں فرطِ محبت سے باہم لپٹ گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب قرار آیا تو ان کے درمیان یہ گفتگو ہوئی:

مقیم:        ان لوگوں کو پہچانتے ہو؟

لڑکا:         ہاں، یہ میرے باپ اوریہ میرے چچا ہیں۔

باپ:        بیٹے! ہم تمھیں لینے آئے ہیں، تمھاری ماں نے رو رو کر خودکو ہلکان کرلیا ہے، ہم نے تم کو کہاں کہاں تلاش کیا۔ تمھارا کہیں سراغ نہ لگا۔ اب پتا لگاکہ تم یہاں ہوتو بھاگ کر یہاں آئے ہیں۔ بیٹے، ہمارے ساتھ چلو، گھر کے لوگ تمھیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔

لڑکا:         میں اب اس دَر کو چھوڑکر کہیں نہیں جاؤںگا۔ مجھے یہاں باپ کی شفقت سے زیادہ شفقت اور ماں کی محبت سے زیادہ محبت ملی ہے۔ آپ لوگ جائیں، اب میں یہیں رہوںگا۔

یہ شخصیت جس کا دَر چھوڑکر وہ لڑکا اپنے باپ اور چچا کے ساتھ اپنے گھر جانے پر تیار نہیں ہوا، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس لڑکے کو تاریخ حضرت زید بن حارثہؓ  کے نام سے جانتی ہے۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس موقع پر حضرت زیدؓ  نے آپﷺ  سے جس محبت و عقیدت کامظاہرہ کیا اس کا جواب آپﷺ  نے بھی محبت سے دیا۔ آپﷺ  نے زید کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر حرم میں پہنچے اور وہاں اعلان کیا: ’’لوگو! سن لو، آج سے زید میرا بیٹا ہے، وہ میرا وارث ہوگا اور میں اس کا وارث ہوںگا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقناطیسی شخصیت کی یہ محض ایک مثال ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں سیرت کے ذخیرے میں محفوظ ہیں۔ ایک دوسری مثال حضرت ام ایمنؓ  کی ہے۔ ان کا نام برکہ تھا اور وہ حبشہ کی رہنے والی تھیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی لونڈی تھیں، انھوںنے انھیں آزاد کردیاتھا۔ آپﷺ  کو انھوںنے گود کھلایاتھا اور پرورش کی تھی۔ان کی شادی مکّے میں رہنے والے ایک حبشی، جن کا عبید تھا، سے ہوئی تھی۔ ان سے ایک لڑکاتھا، جس کا نام ایمن تھا۔ عبید کا انتقال ہوگیا تو حضرت زیدؓ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر حضرت ام ایمنؓ  سے شادی کرلی۔ یہ بعثت کے بعد کا واقعہ ہے۔ ان دونوں سے حضرت اسامہؓ  کی ولادت ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاندان سے بہت محبت تھی اور یہ لوگ بھی آپ پر جان چھڑکرتے تھے۔ آپﷺ  نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو زیدؓ  سب سے پہلے ایمان لانے والوں ﴿السابقون الاولون﴾ میں سے تھے۔ اسی طرح ام ایمنؓ  نے بھی ابتدائی زمانے ہی میں اسلام قبول کرلیاتھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے انصار اور مکہ کے مہاجرین کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ کروایاتھا، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اسی طرح کی مواخات آپﷺ  نے ہجرت سے قبل مکہ میں بھی کروائی تھی۔ اس موقع پر آپﷺ  نے حضرت زیدؓ  اور اپنے چچا حضرت حمزہؓ  کو بھائی بھائی قرار دیاتھا۔ ہجرت کے بعد آپﷺ  حالات کاجائزہ لینے کے لیے اطراف میں مہمات بھیجتے تو حضرت زیدؓ  ان میں ضرور شرکت کرتے اور آپﷺ  انہی کو سالار بنادیتے۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو اہل مدینہ کو اس کی خوش خبری سنانے والے حضرت زیدؓ  ہی تھے۔ دیگر مہمات اور غزوات میں بھی جوش وخروش کے ساتھ شریک ہوتے رہے، یہاں تک کہ ۸ہجری میں سرزمینِ شام میں ہونے والے غزوۂ موتہ میں، جس میں بھی انہی کو سالارِ لشکر بنایاتھا، انھیں شہادت نصیب ہوئی۔ یہ آپﷺ  کی ان سے محبت ہی کامظہر تھا کہ آپﷺ  نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحشؓ  کا ان سے نکاح کروادیاتھا۔ آپﷺ  ان کی کتنی قدر کرتے اور ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ ام المومنین حضرت عائشہؓ  کے اس بیان سے کیاجاسکتا ہے، وہ فرماتی ہیں: ’’اگر زیدؓ  زندہ رہتے تو عین ممکن تھا کہ آپؓ  اپنے بعد انہی کو خلیفہ نام زد کردیتے۔‘‘ ﴿طبقات ابن سعد، ۳/۳۴﴾

حضرت ام ایمنؓ  سے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبت تھی۔ آپ ان کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کہتے تھے: ’اُمّی بَعْدَ امّی‘ ﴿یہ میری دوسری ماں ہیں۔﴾ ﴿ابن اثیر الجزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ، ۷/۳۰۳﴾ آپ وقتاً فوقتاً ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کاحال دریافت کرتے اور وہ بھی آپ کی خاطر و مدارات میں کوئی کسر نہ اٹھارکھتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ ان کے یہاں گئے۔ انھوں نے دودھ پیش کیا۔ شاید آپ روزے سے تھے، یا کسی اور وجہ سے آپ نے معذرت کی۔ اس پر وہ ناراضی کا اظہار کرنے لگیں ﴿ابن حجر، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، ۴/۶۱۴﴾ ایک مرتبہ انھوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک اونٹ مانگا۔ آپﷺ  نے فرمایا: میں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ انھوںن ے عرض کیا: میں بچہ لے کر کیا کروںگی؟ آپﷺ  نے مسکراتے ہوئے فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتاہے۔ ﴿بلاذری ، ۱/۴۲۲﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ام ایمنؓ  کے درمیان کتنا قریبی اور گہرا تعلق تھا، اس کا اندازہ اس واقعے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد انصار نے مکہ سے لُٹے پِٹے آنے والے مہاجرین کی دل کھول کر مدد کی تھی۔ اپنی ضرورت سے زائد گھر، زمین جائیداد، باغات وغیرہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیے تھے کہ مہاجرین میں سے جس کو چاہیں دے دیں۔ بعدمیں جب یہودی قبائل بنونضیر اور بنوقریظہ جلاوطن کردیے گئے اور ان کی زمین اور باغات مسلمانوں کی تحویل میں آگئے تو آپﷺ  نے ارادہ کیاکہ ان کا ، مہاجرین کو مالک بنادیاجائے اور انصار کی زمینیں اور باغات انھیں واپس کردیے جائیں۔ حضرت انسؓ  کے والد نے اپنا ایک باغ آپﷺ  کی خدمت میں پیش کردیاتھا اورآپﷺ  نے اسے حضرت ام ایمنؓ  کو دے دیاتھا۔ اس موقع پر حضرت انسؓ  کے گھر والوں نے ان سے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر اپنا باغ واپس مانگ لیں۔ شاید اس کی بھنک حضرت ام ایمنؓ  کو لگ گئی۔ وہ انسؓ  کو پکڑکر آپﷺ  کی خدمت میں لائیں اور کہتی جاتی تھیں: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ باغ مجھے دیا ہے، اب میں کسی صورت میں اسے واپس نہیں کروںگی۔‘‘ آپﷺ  نے فرمایا: ’’اسے چھوڑدیجیے، ہم آپ کو اس کا دوگنا بڑا دوسرا باغ دے دیں گے۔‘‘ انھوں نے انکار کیا۔ آپ خواہش کرتے رہے کہ اس سے بڑاباغ لے لیں اور اسے چھوڑدیں اور وہ برابر انکار کرتی رہیں۔ تین گنا، چار گنا، پانچ گنا ، یہاں تک کہ جب آپﷺ  نے اس سے دس گنا بڑا باغ دینے کی پیش کش کی، تب جاکر وہ حضرت انسؓ  والا باغ انھیں واپس کرنے پر تیار ہوئیں۔ ﴿بخاری: ۰۳۶۲،۰۲۱۴، مسلم:۱۷۷۱﴾

حضرت اسامہؓ  پیدا ہوئے تو آپﷺ  ان سے بھی بہت محبت رکھتے تھے، اس لیے کہ آپ کو ان کے ماں باپ سے محبت تھی۔ انھیں گود کھلاتے، ان کی نازبرداری کرتے، ان کامنھ دھلاتے، انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے، ان کو معمولی سی بھی تکلیف پہنچتی تو بے چین ہوجاتے، وہ بڑے ہوئے توبھی انھیں زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھتے اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ رکھتے کہ دیکھنے والے انھیں آپ کے گھرہی کا فرد سمجھتے۔

ایک مرتبہ اسامہ کو دروازے کی چوکھٹ سے چوٹ لگ گئی اور چہرے سے خون بہنے لگا۔ آپﷺ  نے فوراً خون پوچھا اور مرہم پٹی کی۔ ﴿ابن ماجہ:۶۷۹۱﴾

حضرت حسنؓ  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے۔ آپﷺ  کو ان سے بہت محبت تھی۔ ٹھیک ایسی ہی محبت آپﷺ  اسامہ سے بھی کرتے تھے۔ آپ دونوں کے ساتھ یکساں برتاؤکرتے۔ ایک مرتبہ آپﷺ  نے اپنی ایک جانگھ پر حسنؓ  کو بٹھایا اوردوسری جانگھ پر اسامہ کو۔ پھر دونوں کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیا اور دعا کی:

اللّٰہُمَّ ارْحَمْھُمَا فَاِنِّی اَرْحَمْھُمَا ﴿بخاری:۳۰۰۶﴾

’اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرما، مجھے بھی ان سے ہم دردی ہے۔‘

دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ  نے یہ دعا فرمائی:

اللّٰہُمَّ اَحِبَّھُمَا فَاِنِّی اُحِبُّھُمَا ﴿بخاری:۳۰۰۶﴾

’اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر، مجھے بھی ان سے محبت ہے۔‘

حضرت زیدؓ  گورے چٹّے تھے، جب کہ ان کے بیٹے اسامہؓ  کا رنگ سیاہ تھا۔ اس بناپر مدینہ کے منافقین اور بدباطن لوگ ان کے نسب پر شک کرتے تھے اور طرح طرح کی باتیں بناتے تھے۔ یہ باتیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں پڑتیں تو آپﷺ  بہت اذیت محسوس کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دونوں باپ بیٹے کہیں لیٹے ہوئے تھے۔ ان کا پورا جسم ڈھکا ہواتھا، صرف پیر کھلے ہوئے تھے۔ قبیلۂ مُدلج کا ایک شخص، جو بڑا قیافہ شناس تھا، وہاں سے گزرا۔ اس نے دونوں کے پیر دیکھے تو کہا: ’’یہ تو ایک دوسرے سے ملتے جلتے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس کی یہ بات سن کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ آپ کاروئے انور مارے خوشی کے دمکنے لگا۔ آپﷺ  گھر تشریف لائے اور فرمایا: ’’عائشہؓ ! تم نے سنا نہیں کہ اس مُدلجی نے کیا کہا؟ اس نے دونوں کے پیر دیکھ کر کہاہے کہ یہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔‘‘ ﴿بخاری:۵۵۵۳، ۱۳۷۳، مسلم:۹۵۴۱﴾

متعدد مواقع پر ثابت ہے کہ آپﷺ  کہیں تشریف لے جاتے تو سواری پر اپنے پیچھے اسامہؓ  کو بٹھالیتے۔ ﴿بخاری:۷۸۹۲﴾ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ  شہر میں بالائی حصے سے داخل ہوئے تو سواری پر آپ کے پیچھے اسامہ ساتھ تھے۔ ﴿بخاری:۸۸۹۲﴾ حرم میں پہنچے تو خانۂ کعبہ کے کلید بردارعثمان بن طلحہ کو بلایا۔ ان سے دروازہ کھلوایا اور اندرتشریف لے گئے۔ آپﷺ  کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر جانے کا شرف صحابۂ کرام میں سے صرف حضرت بلالؓ  اور حضرت اسامہ بن زیدؓ  کو حاصل ہوا۔ ﴿بخاری:۸۶۴، ۴۰۵،۸۹۵۱﴾ اسی طرح حجۃ الوداع کے سفر میں بھی حضرت اسامہؓ  کو آپﷺ  کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔ عرفات سے مزدلفہ تک وہ آپﷺ  کے ساتھ سواری پر تھے ﴿بخاری: ۳۴۵۱، ۴۴۵۱، ۶۸۶۱، ۷۸۶۱﴾ دورانِ سفر وہ برابر آپﷺ  کی خدمت میں رہے اور آپ کو آرام پہنچاتے رہے۔ کبھی آپﷺ  کو وضو کرایا ﴿بخاری:۹۳۱،۱۸۱﴾ تو کبھی آپﷺ  کو دھوپ سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر سایہ کیا ﴿مسلم:۸۹۲۱﴾ کبھی آپﷺ  نے کوئی مشروب نوش فرمایا تو اس میں سے کچھ بچاکر انھیں پینے کے لیے دیا ﴿مسلم:۶۱۳۱﴾ دورانِ حج مسلسل آپﷺ  کے ساتھ رہنے کی وجہ ہی سے حجۃ الوداع کی بہت سی معلومات ہمیں حضرت اسامہؓ  ہی سے حاصل ہوسکی ہیں ﴿بخاری: ۶۶۶۱-۹۶۶۱، ۲۷۶۱،۹۹۹۲﴾

ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے کچھ ریشمی کپڑے آگئے۔ آپﷺ  نے انھیں بعض صحابہ کرام میں تقسیم کردیا۔ ایک کپڑا حضرت اسامہؓ  کو بھی ملا۔ وہ اسے زیب تن کرکے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے تو آپﷺ  کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے۔ انھوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ناراض ہورہے ہیں؟ آپ ہی نے تو اسے میرے پاس بھجوایاتھا۔ آپﷺ  نے جواب دیا: ’’میں نے اسے تمھارے پہننے کے لیے تھوڑے ہی بھجوایاتھا۔ میں نے تو اس لیے بھجوایاتھا کہ گھر کی عورتیں اسے دوپٹہ بنالیں۔‘‘ ﴿مسلم:۸۶۰۲﴾

حضرت فاطمہ بنت قیسؓ  ایک مشہور صحابیہ ہیں۔ ان کے شوہر نے انھیں طلاق دے دی۔ عدّت مکمل ہوئی تو ان کے پاس نکاح ثانی کے لیے متعدد پیغامات آئے۔ انھوں نے خدمتِ نبویﷺ  میں حاضرہوکر ان کاتذکرہ کیا اور مشورہ چاہا۔ آپﷺ  نے بعض اسباب سے ان پیغامات کو ان کے لیے ناپسند کرتے ہوئے مشورہ دیاکہ وہ اسامہؓ  سے شادی کرلیں۔ حضرت فاطمہؓ  کو اسامہؓ  کا رشتہ پسند نہیں آیا۔ انھوں نے تردّد ظاہر کیا، مگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رشتے پر زور دیا تو انھوں نے اسے منظور کرلیا۔ حضرت فاطمہؓ  خود بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رشتے کو بہت بابرکت بنایا، اس میں خیر کاپہلو رکھ دیا اور میری زندگی قابل رشک ہوگئی۔ ﴿مسلم:۰۸۴۱، ترمذی: ۵۳۱۱، نسائی:۴۴۲۳﴾

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ  کی نوعمری ہی میں انھیں متعدد فوجی ٹکڑیوں کی سربراہی عطا کی۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ نو مرتبہ فوجی ٹکڑیوں کے ساتھ نکلا ہوں۔ ہمارے سالار کبھی حضرت ابوبکرؓ  ہوتے تھے اور کبھی اسامہؓ  ﴿بخاری:۰۷۲۴، ۱۷۲۴،مسلم:۵۱۸۱﴾

حضرت اسامہؓ  کے اعزاز اور قدرافزائی کا ایک بڑا مظہر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رومیوں سے مقابلے کے لیے بھیجے جانے والے لشکر کی سربراہی عطا کی تھی۔ اس لشکر میں اکابرمہاجرین و انصار صحابہ شامل تھے، جن میں حضرت ابوبکرؓ  اور حضرت عمرؓ  نمایاں تھے۔ اس وقت آپ کا مرضِ وفات شروع ہوچکاتھا، لیکن آپﷺ  نے لشکر کے روانہ ہونے پر اصرار کیا۔ اس وقت اسامہؓ  کی عمر تقریباً اٹھارہ سال تھی ﴿اسدالغابۃ، ۱/۰۸﴾ اکابر صحابہ کی موجودگی میں ایک نوجوان کو فوج کا سپہ سالار بنایا جانا صحابہ کو عجیب لگا۔ ان کی بے اطمینانی اور اشکال ظاہر کرنے والی بعض باتیں آپﷺ  تک پہنچیں تو آپﷺ  کو بہت ناگواری ہوئی۔ آپﷺ  کے سر میں شدید درد تھا۔ اسی حالت میں سرپر پٹی باندھے ہوئے آپﷺ  گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد نبویﷺ  میں لوگوں کو جمع کرکے خطبہ دیا:

’’لوگو! آج تم اسامہ کی امارت پر چیں بہ جبیں ہو، اسی طرح تم نے کل اس کے باپ کو سالارِ لشکر بنائے جانے پر بھی اعتراض کیاتھا۔ اللہ کی قسم، وہ بھی امارت کا مستحق تھا اور یہ بھی امارت کا مستحق ہے۔ وہ بھی مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا اور اُس کے بعد یہ بھی مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ ﴿بخاری:۰۳۷۳،۰۵۲۴﴾

حضرت اسامہؓ  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ڈھکی چھپی نہ تھی۔ آپﷺ  نہ صرف اس کا برملا اظہار کرتے تھے، بل کہ صحابہ کو بھی ان سے محبت کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ  نے فرمایا:

مَنْ اَحَبَّنِی فَلْیُحِبّ اُسَامَۃَ ﴿مسلم:۲۴۹۲﴾

’جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہو، وہ اسامہ سے محبت کرے۔‘

خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطابؓ  نے اپنے عہد خلافت میں صحابۂ کرام کے وظیفے مقرر کیے تو ان کے مراتب ، قبول اسلام میں اوّلیت، خدمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبی تعلق کے اعتبار سے وظیفے کی مقدار میں فرق کیا۔ انھوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کا وظیفہ دوہزار اور اسامہ بن زیدؓ  کا وظیفہ پانچ ہزار مقرر کیا۔ عبداللہ نے اپنے باپ سے اس کا شکوہ کیا اور کہا: میری خدمات اساما سے بڑھ کر ہیں، پھر بھی آپ نے ان کاوظیفہ مجھ سے زیادہ رکھا ہے۔ حضرت عمرؓ  نے جواب دیا:

’اسامہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب تھا اور اس کے باپ سے آپﷺ  تمھارے باپ سے زیادہ محبت کرتے تھے۔‘  ﴿اسدالغابۃ: ۱/۸۰﴾

اس تفصیل سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسامہؓ  سے شدید محبت کرتے تھے ۔ لیکن یہ محبت حق بات کہنے اور غلطی پر ٹوکنے اور گرفت کرنے میں حارج نہیں ہوتی تھی۔ حدیث وسیرت کی کتابوں میں دو ایسے واقعات مذکور ہیں، جن میں آپﷺ  نے بہت سخت الفاظ میں حضرت اسامہؓ  کی سرزنش کی تھی:

پہلاواقعہ فتح مکہ کے موقع کا ہے۔ ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی۔ اس کی سزا ہاتھ کاٹاجاناتھا۔ اس عورت کا جرم ثابت ہوگیا۔ اس کا تعلق قبیلۂ بنومخزوم سے تھا۔ اس قبیلے کا شمار عرب کے بڑے اور معززقبیلوں میں ہوتاتھا۔ اس قبیلے کی ایک عورت کو چوری کے جرم میں سزا دیاجانا اس قبیلے کی بڑی بدنامی کا باعث تھا۔ اس لیے لوگوں کی خواہش ہوئی کہ کسی طرح اس پر سزا کا نفاذ نہ ہو اور وہ ہاتھ کاٹے جانے سے بچ جائے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچائی جائے اور آپﷺ  سے اُس عورت کو معاف کردیے جانے کی گزارش کی جائے۔ انھوں نے باہم مشورہ کیا۔ بعض لوگوں نے رائے دی کہ یہ کام صرف اسامہ ہی کرسکتے ہیں، کہ وہ آپﷺ  کے منظورِ نظر اور چہیتے ہیں۔ اگر وہ کہیں گے تو ممکن ہے آپﷺ  ان کی بات مان لیں۔ بالآخر لوگوں کے اصرار پر اسامہؓ  نے ہمت کی، خدمتِ بندی میں حاضر ہوئے اور مدعّا عرض کیا۔ ان کی بات سنتے ہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کارنگ متغیر ہوگیا۔ آپﷺ  نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

اَتَشْفُعُ فِی حَدٍّ مٍِنْ حُدُودِ اللّٰہ ﴿بخاری:۸۸۷۶، ۴۰۳۴﴾

’کیا تم اللہ کے حدود میں سے ایک حد کے معاملے میں سفارش کرنے آئے ہو۔‘

حضرت اسامہؓ  کو اپنی غلطی کااحساس ہوا۔ انھوں نے فوراً معافی مانگ لی۔ شام کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے خطبہ دیا۔ اس موقع پر آپﷺ  نے جو کچھ فرمایا وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ دنیا کی تاریخ عدل وانصاف کی ایسی روشن مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپﷺ  نے حمدوثنا کے بعد فرمایا:

اِنَّمَا اَھْلَکَ النَّاسَ قَبْلَکُمْ اَنَّہُمْ کَانُوا اِذَا سَرَقَ فِیْہِمِ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ، وَاِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الضَّعیِْفُ اَقَامُوا عَلَیْہِ الحَدَّ، وَالَّذِیْ نفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٰ لَوْاَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَتُ یَدَھَا ﴿بخاری: ۴۰۳۴، مسلم:۸۸۶۱﴾

’تم سے پہلے کے لوگوں کی ہلاکت کا سبب یہ تھا کہ جب ان میں کاکوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑدیتے اور جب کوئی کم زور شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کردیتے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے۔ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

دوسرا واقعہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو سال پہلے کا ہے۔ قبیلۂ جُہینہ کی طرف ایک سریّہ بھیجا گیا۔ اس میں حضرت اسامہؓ  بھی شامل تھے۔ مسلم لشکر کی دشمن سے جھڑپ ہوئی۔ دونوں طرف کے کچھ لوگ قتل ہوئے۔ اسامہؓ  اور ایک انصاری صحابی نے دشمن کے ایک فرد کو گھیرلیا۔ موت کو سرپر دیکھ کر اس نے فوراً لاالہ الااللہ پڑھ لیا۔ یہ سنتے ہی انصاری نے اپنی تلوار روک لی ، مگر حضرت اسامہ اپنے آپ کو روک نہ سکے۔ انھوںنے نیزہ مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔ سریّہ مدینہ واپس ہوا تو اسامہؓ  نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر پوری روداد بیان کی اور اس واقعے کا بھی تذکرہ کیا۔ آپﷺ  نے فرمایا: ’اے اسامہ ، کیا تم نے اس کے لاالہ الااللہ کہنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟‘ اسامہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: ’اس آدمی نے دل سے لاالہ الا اللہ نہیں کہاتھا۔ وہ تو اپنی جان بچانا چاہتاتھا، مگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر اس جملے کو دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنی اس حرکت پر شرمندگی ہونے لگی اور میں تمنا کرنے لگاکہ کاش میں نے اس وقت سے پہلے اسلام نہ قبول کیا ہوتا۔ ﴿بخاری:۹۶۲۴﴾ دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ  نے فرمایا: ’تم اس وقت کیا کروگے جب قیامت کے دن کلمۂ لاالہ الااللہ اس کے حق میں سفارشی بن کر آئے گا۔‘ یہ جملہ آپﷺ  نے کئی بار دہرایا۔ ﴿مسلم:۷۹﴾ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ  نے فرمایا:

اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہ حَتیّٰ تَعْلَمَ اَقَالَہَا اَمْ لَا ﴿مسلم:۶۹﴾

’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیاتھاکہ اس نے لاالہ الااللہ اخلاص سے نہیں کہاہے، بل کہ جان بچانے کے لیے کہا ہے۔‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ اور سرزنش کا حضرت اسامہ ؓ  کے دل پر زندگی بھر اثر رہا۔ وہ دورِ فتنہ میں الگ تھلگ رہے۔ حضرت علیؓ  اور حضرت معاویہؓ  کی باہمی جنگوں میں انھوں نے کسی کاساتھ نہیں دیا۔ وہ حضرت علیؓ  سے بہت محبت کرتے تھے، لیکن انھوںن ے انھیں لکھ بھیجا: ’’اگر آپ کسی اژدھے کے منھ میں اپنا ہاتھ ڈالیں تو میں بھی آپ کے ساتھ اپناہاتھ اس میں ڈالنے سے پیچھے نہیں ہٹوںگا۔ لیکن میں ان جنگوں میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ میں نے جب سریۂ جہینہ میں ایک شخص کے لاالہ الااللہ کہنے کے باوجود اسے قتل کردیاتھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے جو کچھ فرمایاتھاوہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔‘ ﴿اسدالغابۃ:۱/۸۰﴾

حضرت اسامہؓ  سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ یہاں صرف ایک حدیث پیش کی جارہی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

یجائ بالرجل یوم القیامۃ فیلقیٰ فی النارِ فتندلقُ اقتابہ فی النار فیدورُ کما یدورُ الحمارُ برحاہُ فیجتمعُ اہل النار علیہ فیقولون ای فلانُ ماشانک، الیس کنتَ تامرنا بالمعروف وتنہانا عن المنکر، قال کنتُ آمرُکم بالمعروف ولاآتیہ وانہاکم عن المنکر وآتیہ  ﴿بخاری: ۷۶۲۳، مسلم:۹۸۹۲﴾

’ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ اس کی انتڑیاں پیٹ سے باہر نکل آئیں گی اور وہ اسی حالت میں اس طرح اِدھر اُدھر حرکت کرے گا، جس طرح گدھا چکّی کے چاروں طرف گھومتا ہے۔ اہل جہنم اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور اس سے کہیں گے: اے فلاں، تم جہنم میں کیوں آئے؟ تم تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور بدی سے روکتے تھے۔ وہ کہے گا: میں تمھیں نیکی کا حکم دیتاتھا، لیکن اس پر خود عمل نہیں کرتاتھا اور تمھیں بدی سے روکتاتھا اور خود اس کاارتکاب کرتاتھا۔‘

حضرت اسامہؓ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ اس کے باوجود آپﷺ  ان سے اور ان کے باپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ یہ اسوہ ہمارے سامنے روشن مثال پیش کرتاہے کہ ہمیں اپنے خادموں اور ان کے بچوں سے کیسا برتائو کرنا چاہیے۔ ہے کوئی جو اس اسوے کو اختیار کرے اور اسے اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے؟!

مشمولہ: شمارہ فروری 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau