یہ بات یقینی طور پر دریافت نہیں کی جاسکی ہے کہ اس خطے میں، جو بعد کے زمانے میں فلسطین کے نام سے معروف ہوا، زندگی کس شکل میں بسر کی جاتی تھی، البتہ شہر ’الناصرہ‘[1] کے جنوب میں واقع جبل قفرہ[2] اور شہر طبریا[3] کے قریب سفخ الرمل میں ملنے والی آثار قدیمہ کی قدیم ترین دریافتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس علاقے میں سادہ زندگی بسر کی جاتی تھی۔ آثار قدیمہ کی ان دریافتوں کا تعلق 7500 قبل مسیح اور 3100 قبل مسیح سے ہے۔ ایک اہم ترین واقعہ جو اس خطےمیں پیش ٓایا تھا وہ شہر ’اریحا‘[4] کی بنیاد تھی، جسے مورخین تاریخ کا قدیم ترین شہر تصور کرتے ہیں۔اس شہر کے آثار عین السلطان کے قریب پائے گئے ہیں۔
فلسطین کے اہم ترین اور متنازع ترین شہر ’قدس‘ کی تاریخ بھی پانچ ہزار برس سے قدیم بتائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس شہر کے جو نام رہے ہیں، وہ بھی اس کی قدامت کی شہادت دیتے ہیں۔ کنعانیوں نے 3000 ق م میں جب اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو انھوں نے اس شہر کا نام ’اورسالیم‘ (امن کا شہر) رکھا۔ اسی سے لفط ’اورشلیم‘ نکلا، جسے عبرانی زبان میں ’یروشالیم‘ (بیت المقدس) بولا جاتا ہے۔ یونانیو ں کے زمانے میں اسے ’ایلیاء‘ (بیت اللہ) کا نام دیا گیا۔
حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے قبل چوتھے ہزارویں کے اواخر (یعنی حضرت عیسیؑ سے تقریباً تین ہزار قبل)اس خطے کے باشندے تانبے/کانسےسے واقف ہونے لگے تھےاور انھوں نے اپنی ابتدائی مصنوعات میں اس کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے اُس دور کو ’کالکولیتھک ‘ (Chalcolithic) دور (ماقبل تاریخ کا وہ زمانہ جس میں پتھر اور تانبے/کانسے کا ایک ساتھ استعمال کیا جاتاتھا) نام دیا ہے۔اس زمانے کے فلسطینی باشندوں (کنعانیوں) نے قدس شہر کے اندر تک پانی پہنچانے کے لیے آبی سرنگیں بنائی تھیں۔ یہ پانی وادی قدرون میں واقع اس چشمے سے شہر کے اندر آتا تھا، جسے آج کل عین سلوان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کنعانیوں کی ہجرت
2500 قبل مسیح میں یہاں ایک یبوسی قبیلہ آباد تھا، جو عرب کنعانیوں کی ایک شاخ تھا۔ اسی کی وجہ سے اس کا ایک نام ’یبوس‘ بھی تھا۔ اسی نسبت سے اس کا نام کنعان بھی تھا۔۔ کچھ عرصے بعد وہاں تین زبانیں وجود میں آئیں: کنعانی، آرامی [حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی زبان]، اور عربی۔ 1200 قبل مسیح تک جب کہ ’کریتی قبائل‘ اس علاقے پر حملہ آور ہوئے، فلسطین کا نام کنعان ہی تھا۔
ابراہیمؑ کی ہجرت
تیسرے ہزارویں قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق کے شہر اُر (اُور) سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ یہیں حضرت اسحاق علیہ السلام کی، جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد امجد تھے، پیدائش ہوئی تھی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ’اسرائیل‘ بھی کہا جاتا تھا، اور اسرائیلی انھی کے نسب سے ہیں۔
فرعون کا زمانہ 16۔ 14 قبل مسیح
سولہویں صدی قبل مسیح سے لے کر مصری فرعون اخناتون کے زمانے تک قدس مصری فرعونوں کے ماتحت رہا۔ اخناتون کے زمانہ حکم رانی میں شہر قدس پر بدوی قبائل حملہ آور ہو گئے اور مصری حاکم انھیں شکست نہ دےسکا۔ 1317 قبل مسیح میں جب تک قدس دوبارہ مصر کے زیر اثر نہیں آیا، قدس ان بدوی قبائل کے ہاتھوں میں ہی رہا۔
مصری سلطنت
حضرت ابراہیمؑ کے زمانۂ ہجرت میں فلسطین مصری سلطنت کا حصہ تھا اور مصر اور فلسطین کے درمیان تجارتی سرگرمیاں زور و شور کے ساتھ جاری تھیں۔ اس بات کا ثبوت ’تل العمارنة‘[5] کے ان رسائل سے بھی ملتا ہے جو بالائی مصر (Upper Egypt) سے دریافت ہوئے ہیں۔
فلسطین کا نام
فلسطین کو یافا اور غزہ کے سمندری کناروں پر آباد کریتی قبائل کی طرف سے متعدد حملو ں کا سامنا کرنا پڑا۔ حملہ آور ہونے والے کریتی قبیلے کے نام کی نسبت سے اس خطے کا نام ’فسلطین‘ رکھ دیا گیا، جو اصل باشندوں، یعنی کنعانیوں کے ساتھ ضم ہو گیا تھا۔پھر فلسطین اس تمام ساحلی و داخلی خطے کا نام پڑ گیا جہاں کنعانی آباد تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں کنعانی عنصر غالب آگیا اور اس ملک کے تمام باشندے کنعانی عرب رہ گئے۔
اسرائیلی سلطنت
فلسطین پر قحط اور بھک مری کا حملہ ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی او لاد [بنی اسرائیل] فلسطین سے ہجرت کرکے مصر چلے آئے، جہاں ان کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام سرکاری خزانوں کے نگراں بنے ہوئے تھے۔ اس قصے کو قرآن کریم نے سورہ یوسف میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسرائیلیوں نے مصر کو اپنی جائے قرار بنا لیا۔ یہاں ان کی تعداد تو بہت ہو گئی، لیکن جب وہ فرعونِ مصر رمسیس دوم کے زمانے میں ظلم و زیادتی کا شکار ہوئے تو حضرت موسی علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ انھیں یہاں سے نکال کر کنعان کی طرف لے جائیں۔ یہ قصہ بھی قرآن میں میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔
بنی اسرائیل چالیس برس تک صحرا میں بھٹکتے رہے اور حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع نبی کے زمانے میں ہی ا ن کے لیے فلسطین میں داخلہ ممکن ہو سکا۔ بعد میں اسرائیلیوں نے جالوت پر فتح حاصل کر لی تو حضرت داؤد علیہ السلام کےلیے شہر قدس میں بنی اسرائیل کی مملکت قائم کرنا آسان وممکن ہو گیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور ایک بار پھر سے اسرائیلیوں کو متحد کرنے میں کام یابی حاصل کر لی۔انھوں نے ان تمام اختلافات اور جنگوں کا خاتمہ کر دیا جو اسرائیلیوں کے درمیان جاری تھیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام یبوسیوں[6] کو شکست سے دوچار کرنے میں بھی کام یاب ہو گئے تو انھوں نے مملکت اسرائیل کی بنیاد رکھ دی اور ’اورشلیم‘ کو اپنی مملکت کا دارلحکومت بنایا۔بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات (935 ق م) کے بعد ان کے بیٹے رحبعام کے عہد میں اسرائیلی مملکت کے دو ٹکڑے ہو گئے، جس کے نتیجے میں قدس کے اندر مملکت یہوذا[7] اور سامرہ میں مملکت اسرائیل قائم ہوئی۔دونوں مملکتوں کے درمیان اختلافات اور جنگوں کی نوبت آگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف مصر، یا مملکت آشور سے مدد حاصل کی، جس کی وجہ سے دونوں مملکتیں بیک وقت کم زور ہوگئیں۔ عوام پر ان کی پکڑ اور کنٹرول کم زور پڑ گیا۔ انجام کار ایک بار پھر افراتفری کا ماحول عود کر آیا۔
مملکت یہوذا و اسرائیل کا زوال
920 ق م میں مصر کے بادشاہ شیشنق نے مملکت یہوذا پر حملہ کر دیا اور اس کو اپنے قبضے میں لے کر مملکت مصر کا حصہ بنا لیا۔ 721 ق م میں آشوریوں نے مملکت اسرائیل اور مملکت یہوذا، دونوں پر حملہ کیا اور دونوں کو اپنے قبضے میں لے کر ان پر جزیہ (ٹیکس) عائد کر دیا۔ مملکت اسرائیل نے بغاوت و سرکشی کی کوشش کی، لیکن آشوریوں نے ان کی بغاوت کو کچل ڈالا اور اسرائیلی آبادی کی بڑی تعداد کو قیدی بنا کر عراق بھیج دیا۔
نبوکد نضر[8]
نبوکد نضر (بخت نصر) کلدانی نے 597 ق م میں فلسطین پر دھاوا بولا اور مملکت یہوذا کے آخری بادشاہ صدقیا بن یوشیا کو شکست دے کر دارالحکومت ’قدس‘ کو اپنے ماتحت لے لیا۔ اس کے بادشاہ اور بادشاہ کے اہل خانہ اور پوری سرکاری قیادت وعوام کو قیدی بنا کر عراق بھیج دیا۔ اس کے بعد اس نے قدس میں ایک نئی بادشاہت قائم کی۔ 586 ق م میں باقی ماندہ یہودیوں نے فلسطین کے اندر بابل کے سلطان کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تو نبوکد نضر (بخت نصر) نے اس پر دوبارہ حملہ کیا۔ اس بار اس نے شہر قدس کوتہہ و بالا کر دیااور فلسطین دوبارہ سے کنعانی عرب خطہ بن گیا جو کہ عراق کے تابع تھا۔ شام، جزیرہ عرب اور عرب ممالک سے لوگ ہجرت کرکے ادھر کا رخ کرنے لگے۔
آشوریوں اور کلدانیوں کے حملوں کے سبب چار صدیوں (1000 تا 586 ق م تک) قائم رہنے کے بعد فلسطین سے یہودیوں کی حکومت و اقتدار کا نام و نشان مٹ گیا، جو کہ اختلافات، باہمی جنگوں اور افراتفری کی آماجگاہ بن چکا تھا۔
فلسطین کی تاریخ میں اس دور کو اہم ترین دور تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ فلسطین کی طرف اپنی واپسی کے حق کے سلسلے میں وہ اسی دور کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ فلسطین کو ارضِ موعود کہتے ہیں۔
فلسطین ایرانی اقتدار کے ماتحت
539 ق م میں ایران فلسطین پر حملہ آور ہوا اور اس کو اپنے قبضے میں لے لیا، بعد میں بابل پر بھی اپنی غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد فلسطین مسلسل دو صدیوں تک فارسی اقتدار کے ماتحت رہا۔ فارسیوں کے زمانے میں ہی بابل میں بچے رہ گئے قبیلہ یہوذا کے بچے کھچے افراد ایرانی بادشاہ قورش کی اجازت سے فلسطین واپس آ گئے۔
فلسطین یونانی اقتدار کے ماتحت
ایرانیوں پر سکندر اعظم کی فتح و نصرت کو چوتھی صدی قبل مسیح کے اہم ترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔اس فتح کے نتیجے میں سکندر اعظم نے 332 ق م میں شام، غز ہ اور قدس پر قابض ہو کر انھیں یونانی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کی سلطنت اس کے کمانڈروں کے درمیان منقسم ہو گئی۔ چناں چہ فلسطین سکندر اعظم کے کمانڈر انتیخوس کے زیر اقتدار آگیا۔ اس وقت سے لے کر 198 ق م میں شام کے علاقے میں انتیخوس سوم کی حکومت کے ماتحت رہا۔ انتیخوس سکندر اعظم کاوہ کمانڈر تھا جسے 321 ق م میں غزہ کے اندر بطلیموسیوں[9] نے شکست دی تھی۔
فسلطین اس زمانے سے ہی مختلف حکومتوں مثلاً مکابیوں[10]، نبطی عرب[11] (90 ق م) کے زیر سایہ حالت جنگ اور حالت بدنظمی میں جیتا آ رہا ہے۔ پھر جب تک رومی اس پر قابض نہیں ہوگئے، فلسطین انھی حکومتوں کے دارالحکومت’پیٹرا‘ کے زیرنگیں تھا۔
فلسطین رومیوں کے قبضےمیں
رومیوں نےفلسطین پر قبضہ جما لیا اور اسے ایک رومی ریاست بنا کر پہلے سلطنت روم کے تابع رکھا، پھر ساتویں صدی عیسوی کے نصف تک اسے بیزنطین کا ماتحت بنا کر رکھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے نصف میں عرب مسلمانوں نے اسے فتح کرکے عرب حکومت کا جز بنا لیا۔ سیدنا عیسی مسیح بن مریم علیہما السلام کی پیدائش اسی زمانے میں ہوئی تھی جب فلسطین رومی حکومت و اقتدار کے تحت تھا۔ البتہ یہودیوں نے حضرت عیسیؑ کے بارےمیں رومی حاکم سے غلط سلط شکایات کیں اور 37ء میں ان پر کفر کی تہمت بھی عائد کی۔ اس کے بعد ان کے صلیب پر چڑھائے جانے والا واقعہ پیش آیا، جس کی تفصیلات اسلامی اور مسیحی عقائد کے اعتبار سے مختلف ہیں۔
یہودیوں کی سرکشی
رومی عہد میں قدس کئی حادثوں سے گزرا 66۔ 70 ء کے دوران یہودیوں نے شہر قدس کے اندر سول نافرمانی کا ارتکاب کیا۔ یہودیوں نے اپنی مخصوص حکومت قائم کرنے کی جدوجہد میں وہی مذہبی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی جو بابل کی قید سے واپس آنے کے بعد انھیں قدس کے اندر عطا کی گئی تھی، لیکن رومی حاکم تینٹس نے عرب شہریوں کی مدد سے بزور طاقت انھیں کچل ڈالا اور شہر کو آگ لگا کر یہودیوں کی بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔اس نے یہ حملہ 71ء میں کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے قدس کو اپنے قبضے میں لے کر یہودیوں کی بڑی تعداد کو قتل کر دیا۔ جو بچے رہ گئے وہ شام، مصر اور دوسرے عرب ممالک کی طرف فرار ہو گئے۔
فلسطین میں یہودی حکومت قام کرنے کی آخری کوشش 135ء میں اس وقت کی گئی تھی جب ایک یہودی رِبّی نے خود سربراہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت رومی حاکم ہادریان (Hadrian)نے یہودیوں پر حملہ کر دیا اور قدس کے اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا جہاں یہودی آباد تھے اور اسے ایک بار پھر تباہی کے حوالے کر دیا۔ اس مقام پر اس نے ایک نیا شہر بسایا، جس میں صرف عیسائی باقی رہ گئے تھے۔ اس نے اس شہر کے اندر یہودیوں کے داخلے کو قطعاً ممنوع قرار دیا۔اس شہر کا نام اس نے ’ایلیاء‘ رکھا۔ اس واقعے کے بعد یہودیوں نے فلسطین میں کسی بھی قسم کی افراتفری مچانے کی کبھی کوشش نہیں کی، حتی کہ بخت نصر (نبوکد نضر) کے ہاتھوں 586 ق م میں یہودی حکومت کے زوال کے دو ہزار سال بعد بیسویں صدی کےوسط میں فلسطین میں ریاست اسرائیل قائم کر دی گئی۔
القیامہ چرچ
رومی شہنشاہ قسطنطین اول نے بیزنطین کو اپنا نیا دارالحکومت بنانے کے بعد مسیحیت کو نیا سرکاری مذہب قرار دیا۔ اسی تبدیلی کے سبب شہر قدس کے اندر 326ء میں القیامہ چرچ کی تعمیر ہوئی۔
ایرانیوں کی واپسی
395ء میں رومی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور ان کے درمیان خونی جنگیں ہوتی رہیں۔بعد ازاں ایران نے قدس پر حملہ کر دیا اور 614ء سے 628ء تک اسے اپنے ماتحت رکھا۔ اس کے بعد رومی دوبارہ غالب ہوئے اور اسلامی فتح واقع ہونے تک فلسطین ان کی حکم رانی میں رہا۔
اسراء و معراج نبی 621ء / 10 ہجری
قدس کو 621ء میں زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہوا۔ یہیں سے آپؐ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے۔
فلسطین پر اسلامی فتح
خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے 633ء میں شام کو فتح کرنے کے لیے متعدد فوجیں حضرت عمرو بن العاص، حضرت یزید بن ابی سفیان، حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کی قیادت میں روانہ کیں۔ چناں چہ حضرت یزید بن ابی سفیان نے 634ء میں روم کو بحر مردار کے جنوب میں واقع وادی عربہ میں شکست سے دوچار کیا اور غزہ تک ان کا تعاقب کیا۔
اجنادین
634ء میں حضرت عمرو بن العاص نے معرکۂ اجنادین میں رومیوں پر بھاری فتوحات حاصل کرکے، فجل، بیسان، لد اور یافا کے علاقوں کو فتح کر لیا۔ پھر جب رومی شہنشاہ ہرقل کے بھائی تھیوڈوروس نے رومی لشکر کی کمان سنبھالی تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے کمانڈر خالد بن ولیدؓ کو عراق سے فلسطین کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
یرموک
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہوا تو ان کے بعد امور خلافت کا بار حضرت عمر بن خطابؓ کے کندھوں پر آگیا۔ انھوں نے فلسطین میں موجود اسلامی افواج کو حکم دیا کہ مکمل فتح حاصل کرنے کے لیے جنگ جاری رکھیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ تمام اسلامی افواج کو ایک لشکر کی شکل میں متحد کر دیں۔ اس کے بعد حضرت خالدؓ نے جنگ یرموک میں رومیوں سے ٹکر لی جس میں مسلمانوں کی فتح و نصرت نے فلسطین کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن لمحے کو وجود بخشا۔یہ فیصلہ کن لمحہ وہ تھا جس میں فلسطین کی سرزمین سے رومیوں کو نکال باہر کیا گیا۔
زیارت عمر فاروقؓ
عیسائی پادری صفرونیوس نے یہ شرط رکھی کہ حضرت عمر بن خطابؓ بنفس نفیس شہر قدس، جو اس وقت ’ایلیاء‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیں۔حضرت عمرؓ فلسطین تشریف لائے اور مسیحیوں کے لیے ایک معاہدے پر دستحظ کیے جس میں ان کے چرچوں اور صلیبوں کو امن کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ہی شام وحجاز، نجد اور یمن کے عرب قبائل جوق در جوق فلسطین کی طرف آنے لگے اور فلسطین کے علاقوں میں آباد ہونے لگے جس کے باشندوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ فلسطین کی غالب زبان بھی عربی زبان قرار پائی۔انھوں نے دوبارہ اس کا نام ایلیاء سے تبدیل کرکے واپس ’قدس‘ رکھ دیا۔
عہد امیہ 661۔750ء
عہد اموی میں فلسطین دمشق کے تابع تھا، اس دور کے عظیم ترین آثار میں سے ایک قبة الصخرہ ہے جسے عبدالملک بن مروان نے عین اس جگہ پر تعمیرا کروایا تھا جہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔دوسرا مسجد اقصی ہے جسے ولید بن عبدالمک نے تعمیر کرایا تھا اور جو آج تک اسی ڈھانچے پر قائم ہے۔ اس کے علاوہ شہر ’رملہ‘ ہے جس کے اندر سلیمان بن عبدالملک نے اپنا مشہور قلعہ اور مسجد ابیض تعمیر کرائی تھی۔
عہد عباسی 750۔ 1258ء
اموی خلافت کے خاتمے کے بعد فلسطین خلافت عباسیہ کے ماتحت آ گیا۔ خلیفہ مامون اور اس کے بیٹے مہدی نے اس شہر کی زیارت بھی کی تھی۔ خلافت عباسیہ کے دور میں فلسطین کو عرب تہذیب و ثقافت کے رنگ میں لانے کا عمل مزید تیز ہوا اور اہل فلسطین نیز عرب فاتحین کے درمیان ازدواجی رشتے قائم ہونے کےنتیجے میں نئی نسلوں نے جنم لیا۔
طولون[12]
تیسری صدی ہجری میں فلسطین کے بیشتر اجزا پر خلافت عباسیہ کی پکڑ کم زور ہوتی چلی گئی، جس کے نتیجے میں طولونیوں کے لیے لبنان، شام، مصر اور فلسطین کو اپنے کنٹرول میں لینا ممکن ہو گیا۔ اس حکومت کی مشہور باقیات و آثار میں سے ایک عکّا کے بندرگاہ کی قلعہ بندی تھی۔
قرامطہ
مورخین چوتھی صدی ہجری کو سیاسی اتھل پتھل کا زمانہ قرار دیتے ہیں۔ اس زمانے میں خلیج عرب سے آندھی کی طرح بڑھنے والے قرامطہ نے دیارِ شام پر چڑھائی کر دی تھی اور فلسطین کے اندر بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی مچا کر اس پر قابض ہو گئے تھے۔ اس کے بعد فلسطین پر پے در پے مختلف حکومتوں، مثلاً اخشیدیوں، سلجوقیوں اور فاطمیوں نے حکم رانی کی۔ اس اعتبار سے یہ صدی واقعی افراتفری کی صدی تھی۔
صلیبیوں کا قبضہ 1095۔1291ء
گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ایک بار پھر فلسطین غیر ملکیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس صدی کے دوران یوروپ کو بہت سے سیاسی، سماجی و اقتصادی مسائل کاسامنا تھا۔ پوپ اُربن دوم کے ایک خطبے کے نتیجے میں 1095ء میں جنگی بیڑوں کو تیار کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اس خطبے میں اس نے عوام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ مسیح علیہ السلام کی مقدس قبر کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے اور شہر قدس کو ان سے پاک کیا جائے۔انھوں نے مسلمانوں کے مقدس مقامات کو بھی نقصان پہنچایا۔حاکم کیتھولک عیسائی تھا، جس نے آرتھوڈوکس عیسائیوں کو بھی کیتھولک رسومات کا پابند بنانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں ان کے اندر غصے کا ماحول پیدا ہو گیا۔
اس مطالبے کے بعد پیٹر دی ہرمٹ (Peter the Hermit) کی قیادت میں فوجی مہمات انجام دی گئیں جن کا سلسلہ دو صدیوں تک جاری رہا۔ انھیں فوجی مہموں کو صلیبی جنگیں یا صلیبی مہم کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان فوجی مہمات کاعلامتی نشان صلیب کو بنایا گیا تھا۔ پیٹر نے رملہ پر قبضہ کر لیا، یافا شہر کو تباہ وبرباد کر دیا اور تقریباً چالیس ہزار فوجیوں کی مدد سے قدس کا محاصرہ کر لیا۔ ایک ماہ کے حصار کے بعد مصری محافظ فوج نے، جو کہ اس وقت وہاں موجود تھی، ہتھیار ڈال دیے۔ انجام کار صلیبی 1099ء میں قدس کے اندر داخل ہو گئے۔ شہر کے اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے عرب آبادی کی بڑی تعداد کو قتل کر ڈالا، یہ تعداد تاریخی حوالوں میں اندازاً ستّر ہزار بتائی جاتی ہے۔
صلیبیوں نے قدس میں لاتینی سلطنت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا دائرہ نفوذ بڑھا کر عسقلان، بیسان، نابلس اور عکا تک دراز کر لیا اور اپنے لیے طبریا کو جائے قرار بنا لیا۔
معرکۂ حطین
صلیبی محافظ طاقتوں کے ساتھ شدید اور سخت معرکہ آرائی کے بعد نور الدین زنگی بعض شہروں اور جاگیروں کو واپس لینے میں کام یاب ہو گیا۔ بعد میں صلاح الدین ابوبی نے فتوحات کے اس سلسلے کی تکمیل کی۔ 1178ء میں پیش آنے والا یہ معرکۂ حطین وہ معروف جنگ تھی جس میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے چنگل سےواپس لے لیا۔
صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد صقلیہ کے عیسائی حاکم فریڈرک کے عہد میں صلیبی ایک بار پھر قدس پر قابض ہو گئے۔ اس بار 11 برس کے عرصے تک یہ شہر ان کے کنٹرول میں رہا۔ 1244ء میں ملک صالح نجم الدین ایوب نے صلیبیوں سے آزاد کرایا۔
معرکۂ عین جالوت
مملوکی عہد خلافت میں سیف الدین قطز اور ظاہر بیبرس کو 1289ء میں شہر ’الناصرہ‘ کے قریب پیش آنے والے معرکۂ عین جالوت میں منگولی حملوں کو روکنے میں کام یابی حاصل ہوئی۔ منگول وہ لوگ تھے، جنھوں نے عالم اسلام کے ایک بڑے حصہ کا صفایا کر دیا تھا۔ یہ جنگ اسلامی جنگوں کی مشہور ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔
مکمل صفایا
خلیل بن قلاوون[13] نے فلسطین کے ان شہروں کو بھی آزادی دلانے کا سلسلہ جاری رکھا جو صلیبیوں کے قبضے میں رہ گئے تھے۔ اور آخر کار 1291ء میں یہ ملک مکمل طور پر صلیبیوں سے پاک ہو گیا۔ ممالیک کے آثار و بقایاجات، جو آج بھی فلسطین کے اندر موجود ہیں، ان میں بعض عمارتیں، مدارس اور شہر ’لد‘ کے قریب تعمیر شدہ پُل ہے۔ ممالیک کے کھاتے میں قبة الصخرہ اور حرم ابراہیمی کی اصلاح ومرمت بھی آتی ہے۔
عہد عثمانی
عثمانیوں نے جنگ مرج دابق میں، جو کہ حلب کے قریب 1516ء میں واقع ہوئی تھی، مملوکیوں پر فتح حاصل کر لی اور فلسطین میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد تقریباً چار صدیوں تک فلسطین عثمانیوں کے ماتحت ہی رہا۔
نپولین کا حملہ 1799ء
فرانس نے نیپولین کی قیادت میں مصر پر قابض ہوجانے کے بعد فلسطین پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی، لیکن یہ حملہ عکّا پہنچنے کے بعد شکست سے دوچار ہوا، کیوں کہ فلسطین کی قلعہ بندی اور اس کے کمان دار احمد پاشا کی شجاعت و بہادری کے سبب فرانس اپنے حملے میں ناکام رہا۔
محمد علی
والی مصر محمد علی نے 1838ء میں شام کو اپنی ریاست میں شامل کرکے مملکت میں توسیع کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت اس کا بیٹا ابراہیم پاشا ’العریش‘، غزہ، یافا، اور اس کے بعد نابلس اور قدس کو فتح کرنے میں کام یاب ہو گیا۔ بعد میں نابلس اور الخلیل میں ابراہیم پاشا کے ظالمنہ رویے اور کمر توڑ ٹیکس عائد کے خلاف بطور احتجاج عوامی بغاوت شروع ہو گئی۔ اس طرح شام کے اندر محمد علی کی حکومت دس سال سے زیادہ نہیں رہ سکی اور واپس عثمانیوں کے پاس آگئی۔
برطانوی قبضہ 1917ء
پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے خلاف جنرل ایلین بی کی قیادت میں برطانوی افواج کی فتح کے بعد 1917 ء سے لے کر 1948 تک فلسطین برطانوی انتداب کے ماتحت رہا۔
تقسیم فلسطین
برطانیہ نے ایک شاہی کمیشن کو فلسطین بھیجا اور اسے یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ فلسطین کے اندر بے چینی اور اضطراب کے اصل و بنیادی اسباب کا پتہ لگائے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انتداب کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ عرب انقلاب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فلسطینی اپنے وطن کی آزادی چاہتے ہیں اور یہودیوں کی قومی ریاست کو مسترد کرتے ہیں۔
کمیشن نے یہ تجویز دی کہ تقسیم کی بنیاد پر فلسطین سے انتداب کو ختم کر دیا جائے اور عراق و شام کی طرز پر یہاں کے نظام کو نظام معاہدات (ٹریٹی سسٹم) سے بدل دیا جائے۔اس کے علاوہ یہاں دو ریاستیں قائم کر دی جائیں، ایک عرب ریاست ہو۔ اس ریاست میں اردن کے مشرقی حصے کو اس عرب فلسطینی ریاست سے ملا دیا جائے جس کا تعین کمیشن نے کیا ہے۔ دوسری یہودی ریاست ہو اور یہ ریاست فلسطین کے اس حصہ میں ہو جس کے سلسلے میں کمیشن کی رائے تھی کہ وہ یہود کےلیے خاص ہو۔ اور یہ سب اس شرط پر ہو کہ دونوں علاقے یہ پختہ ضمانت دیں کہ دونوں ریاستوں میں موجود اقلیتوں کی حفاظت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ بحری، بری اور فضائی افواج کی تشکیل اور بندرگاہوں، شاہراہوں، ریلوے لائن اور پیٹرول پائپ کی حفاظت کے سلسلے میں ان فوجی معاہدوں کی پابندی کرنی ہوگی۔
کمیشن نے ان دونوں ریاستوں کی حدود سے باہر ایک تیسرےعلاقے کی تجویز دی تھی جس میں شہر قدس اور بیت لحم شامل تھے۔ اس علاقے کے لیے قدس سے لے کر یافا تک اور شہر لد اور رملہ تک وسیع راستے سے گزر کر رابطہ ممکن ہو سکتا تھا۔ کمیشن نے یہ شرط بھی عائد کی کہ یہ تیسرا علاقہ انتداب کے ماتحت ہی رہے گا۔ اس پر بالفور اعلامیے(Balfour Declaration ) کا اطلاق نہیں ہوگا اور اس کی واحد سرکاری زبان انگریزی ہوگی۔
عربوں نے جن علاقوں کو گنوا دیا تھا، ان کے سلسلےمیں کمیشن نے یہ تجویز دی کہ تقسیم عمل آ جانے کے بعد اس نقصان کے عوض یہودی ریاست عرب ریاست کو مالی تعاون ادا کرے گی۔ لیکن عربوں نے کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ یہودیوں کو اگرچہ یہودی ریاست مل رہی تھی، تاہم انھوں نے بھی اس رپورٹ کو اس لیے مسترد کر دیا کیوں کہ اس سے بلفور اعلامیے کی مخالفت ہو رہی تھی، جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پورا کا پورا فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے گا۔
ستمبر 1937ء میں برطانوی وزیر خارجہ ’ایڈن‘ نے لیگ آف نیشنز کے سامنے تقسیم فلسطین کے تعلق سے برطانوی حکومت کی پالیسی پیش کی اور یہ تجویز رکھی کہ تقسیم کا مفصل نقشہ تیار کرنے کے لیے ایک ٹیکنیکل کمیشن کو بھیجا جائے۔ لیکن عربوں اور یہودیوں کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کر دیے جانے کی وجہ سے تقسیم کا منصوبہ موخر ہو گیا۔ 1944 ء میں انگلش۔ امریکی مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے توسط سے اور بالترتیب 1946 اور 1947 میں موریسن منصوبے اور پائیون منصوبے کے توسط سے دوبارہ عربوں کو اس تقسیم کے لیے آمادہ کرنے کےلیے برطانیہ اور امریکہ کی مساعی تیز ہو گئیں۔
گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں اس سلسلے کے واقعات لیگ آف نینشنز کے اسٹیج پر انجام دیے جا رہے تھے، لیکن چوتھے عشرے میں یہ واقعات اقوام متحدہ کی گلیاروں میں انجام پانے لگے۔ اپریل 1947ء کے آغاز میں برطانیہ نے انتداب سے علیحدگی کے اپنے تاریخی فیصلے کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ وہ ایک خصوصی سیشن میں قضیہ فلسطین کو پیش کرے۔ اقوام متحدہ نے تقسیم کا وہ غیر منصفانہ فیصلہ کیا جس کے بعد سے ظلم و بربریت اور کشت وخون کی داستانیں روز رقم ہوتی ہیں۔
[1] ناصرہ فلسطین کے قدیم ترین شہرو ںمیں سے ایک ہے، جو اس وقت مقبوضہ اسرائیل کے اندر واقع ہے اور شہر قدس سے شمال کی جانب 105 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
[2] جبل قفرہ (Mount Precipice) شہر ناصرہ کے جنوب میں واقع ہے۔ اس پہاڑ کا ذکر عہد جدید میں بھی آیا ہے۔
[3] طبریہ/ طبریا (Tiberias) بھی فلسطین کے قدیم ترین تاریخی شہروں میں سے ایک ہے، جو موجودہ قابض اسرائیلی ریاست کے شمالی خطے میں واقع ہے۔شہر قدس سے اس کی دوری تقریباً 198 کلو میٹر ہے۔نکبہ 1948ء سے پہلے اس شہر میں عرب آباد تھے، لیکن بعد میں انھیں ہجرت پر مجبور کر دیا گیا اور اب یہاں تقریباً پچاس ہزار یہودی آباد ہیں۔
[4] یہ شہرفلسطین کا قدیم ترین شہر ہے۔ اور فلسطین کے مغربی کنارے (الضفۃ الغربیہ) میں نہر اردن اور شمالی بحر مردار کے قریب واقع ہے۔
[5] تل العمارنہ (قدیم نام ’اخیتانون) مصر کا قدیم شہر ہے، جسے مصری فرعون ’اِختانون (وفات: 1334 یا 1336 قبل مسیح) نے اپنے نئے دارالحکومت کے طور پر آباد کیا تھا۔
[6] یبوسی ایک کنعانی قوم تھی جس کا تعلق 3000 قبل مسیح میں جنوبی شام سے تھا۔ یہ لوگ صرف قدس کے علاقے میں آباد تھے۔ انھوں نے اپنے بادشاہ کی مدد سے شہر قدس تعمیر کیا تھا، جس کا نام اپنے کنعانی معبود کے نام پر ’شالیم‘ رکھا تھا، جو بعد میں ’اورشالم‘ ہو گیا تھا۔
[7] یہوذا/ یہودا حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے ایک تھا۔
[8] نبوکد نضر یا بخت نصر ان کلدانی بادشاہوں میں سے ایک تھا، جنھوں نے بابل پر حکم رانی کی تھی۔ اس بادشاہ نے شہر قدس (اورشلیم) کو دوبار فتح کیا تھا اور وہاں کے یہودیوں کو غلام بنا لیا تھا۔
[9] بطلیموس بھی انتیخوس کی طرح سکندر اعظم کا ایک کمانڈر تھا۔ سکندر کی وفات کی بعد اس نے اور پھر اس کی اولاد نے حکومت کی تھی، جنھیں بطالمہ (Ptolemaic Dynasty)کہا جاتا ہے۔
[10] مکابی سرکش یہودیوں کا وہ گروہ تھا جس نے یہوذا پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔
[11] نبطی عرب (Nabataeans) ان قدیم عربوں کو کہا جاتا ہے جو جزیرہ عرب کے شمال اور شام کے جنوب میں آباد تھے۔ یہ لوگ نبط بن اسماعیل کی اولاد سے تھے۔
[12] طولونی سلطنت یا حکومتِ بنی طولون مصر کی ایک اسلامی سلطنت تھی، جس کی بنیاد احمد بن طولون تغزغزی ترکی نے رکھی تھی۔ یہ گویا خلافت عباسیہ کے متوازی ایک سلطنت تھی جس کا دائرہ شام تک وسیع تھا۔
[13] خلیل بن قلاوون (1267۔ 1293ء) بحری مملوکی سلطنت کا آٹھواں سلطان تھا۔ اس کے عظیم کارناموں میں شہر عکا کی فتح اور صلیبیوں سے وہ آخری معرکہ ہے جس میں 196 سال بعد فلسطین کو صلیبیوں سے پاک کر دیا گیا۔
(بشکریہ الجزیرہ)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023