’’آپ کی جنس (sex)آپ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے، جب کہ آپ کی جنسیت (gender)آپ کے دونوں کانوں کے درمیان ہے۔‘‘
عام حالات میں، جنس و شہوت کے معاملے میں، کسی فرد کی ذاتی ترجیحات کے تعلّق سے جاسوسی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی کو دوسرے کی نجی زندگی میں دخل اندازی کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح کسی کو دوسرے کے بیڈ روم میں تاک جھانک کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ اخلاقی نقطہ نظر سے، معاشرے کو یہ یاد دلاتے رہنا ضروری ہے کہ اخلاقی اقدار کیاہیں، اخلاق کے حدود کیا ہیں اور کون سے اعمال اخلاقی ہیں اور کون سے غیر اخلاقی۔ اسی طرح، مختلف غیر اخلاقی اعمال کے فوری اور دور رس اثرات اور تباہ کن نقصانات سے معاشرے کو آگاہ کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔ ذاتی غیر اخلاقی افکار اوراعمال کو معاشرے پر مسلط کرنے کی سازشوں سے آگاہ رہنا اور اس طرح کی کوششوں کوبروقت روکنابھی لازمی ہے۔ یہ سب دراصل سیدھے سادے بنیادی اصول ہیں جو تقریباً تمام مہذب معاشروں میں ہر دور میں مقبول اور رائج رہے ہیں۔ اس کے استثنا بھی رہے ہیں۔ انحرافات، شدت پسندانہ رویے اور عدم توازن مختلف درجوں میں جزوی چیلنجوں کے طور پر ہر معاشرے اور ہر دور میں پائےگئے ہیں۔ لیکن آج ہمارے دور میں مسلّمہ روایتی اخلاقی اور سماجی اصول و اقدار اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں، گویا تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کے مقابلہ میں سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں – نفع اور نقصان کے معیارات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ خوراک سے زیادہ شہوت زیر بحث ہے۔ جو جگہ صنعت، روزگار، پیشہ، زراعت، فن، کھیل، ادب، ثقافت، ترقی، سیاست، معیشت، روحانیت وغیرہ موضوعات پر بحث کے لیے مختص تھی اس جگہ کو شہوت اور جنسیت سے متعلق گفتگو نے ہڑپ لیا ہے۔ غیر فطری، غیر صحت مند اور خلاف معمول رجحانات، ترجیحات اور رویوں کو اتنے مؤثر انداز میں معاشرے کے مرکزی دھارے میں لایا جا رہا ہے کہ کچھ تن درست لوگ، جو بیماروں کی اصلاح کرنے چلے تھے، اب خود اپنی صحت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا نظرآ رہے ہیں۔
ایک تنہا ’جی‘ (G) بتدریج ’+LGBTQQIAAP’کمیونٹی کیسے بن گیا؟
+کی علامت اس امر کی دلیل ہے کہ توسیع کا عمل جاری ہے۔
ہمارے معاصر معاشرے میں مختلف موضوعات پر اجتماعی مباحث کا چھڑنا اور ان کا بتدریج اجتماعی ذوق، ثقافت، قانون وغیرہ سب کو اپنی لپیٹ میں لینے کا عمل بہت ہی دل چسپ اور قابل توجہ ہے۔ چند دہائیوں پہلے ایڈزAIDS کی وبا کے تنا ظر میں مردوں کی ہم جنس پرستی یا ’ہم جنس شہوت‘ زیر بحث آئی۔ ایڈز کے مریضوں میں ہم جنس پرست مردوں کا تناسب بہت زیادہ ہونے کی بار بار تصدیق ہونے پر، ہم جنس پرستی کے خلاف رائےعامہ بننی شروع ہوئی۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کو ایڈز اور دیگر وبائی بیماریوں سے بچانے کی ذمہ داری مکمل طور پر کنڈوم (condoms)کو سونپنے کا رجحان حاوی ہوا۔ یہ یقین عام ہو گیا کہ کنڈوم استعمال کرنے سے کسی بھی قسم کی شہوانی سرگرمی کو بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ کنڈوم کی حمایت میں پروپیگنڈے کے لیےتمام وسائل مختص کر دیے گئے۔ دنیا بھر کی حکومتیں ایڈز کے خلاف آگہی کے لیے اشتہارات شائع کرنے لگیں۔ وہ تمام اشتہارات کنڈوم پر مرکوز تھے۔ ان میں تمام مباحث مسئلے کےمحض جسمانی نقصان اور جسم کی حفاظت کی تدابیر تک محدود تھے۔ انسان کی سیرت و کردار، اخلاقیات، خاندانی نظام، یا سماجی مفادات کا کہیں کوئی ذکرہی نہیں تھا۔ مسئلے کواخلاقی یا روحانی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوئی کوشش ہی نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے میں یہ سوال مقبول ہونے لگا کہ جب ایڈز کو روکنے کے لیے کنڈوم جیسا ’برہمااستر‘ موجود ہے تو ہم جنس پرستی کی مخالفت کیوں کی جائے؟ رفتہ رفتہ ہم جنس پرستوں کے بارے میں یہ بات عام ہونے لگی کہ ان کو غیر ضروری طور پر بدنامی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ اور یہ سراسر ظلم ہے۔
تب تک تقریباً مردوں تک محدود ’ہم جنس پرست‘ ثقافت کو عزت بخشنے اور اس محاذ میں توازن پیدا کرنے کے لیے لیسبین (Lesbian- خواتین کی ہم جنس پرستی) کلچر کوموضوع بحث بنایا گیا۔ اس طرح G کے ساتھ L کو شامل کر کے دونوں کو سماج سے تسلیم کرانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ ہم جنس پرستوں کی ہمّت افزائی کا سلسلہ بھی شروع ہوسا۔ ان کو کہا گیا کہ آپ کی حالت بالکل فطری ہے، لہذا آپ کو کسی قسم کے احساس کمتری میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ’’میں G ہوں‘‘ یا ’’میں L ہوں‘‘ کہہ کرپورے اعتماد کے ساتھ فخر سے اپنا تعارف کرانے کے نئےفیشن کو فروغ دیا گیا۔ اگلے مرحلے میں ایسی غیر فطری اور خلاف معمول جنسی شناخت L اور G تک محدود نہیں رہی، بلکہ بتدریج ترقی کرتے ہوے LGBTQQIAAP کی دس مختلف شناختوں تک پہنچ گئی اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ غیر فطری حرکات کو کھینچ تان کر فطری اور معمول کے حدود میں لا کھڑا کرنے اور سماج کی نظر میں انھیں فطری اعمال کا درجہ دلوا نے کی کوشش جاری ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایڈز کی وبا آج بھی انسانیت کو متاثر کر رہی ہے، لیکن چند دہائیوں پہلے ایڈز کے خلاف شروع ہونے والی آگہی مہم آج نہ صرف اپنی تیزی کھو چکی ہے بلکہ بڑی حد تک ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ اسی دوران، ہم جنس پرستوں کوسماج میں باعزت مقام دلانے کی مہم نے رفتار پکڑی ہے۔ ’ہم جنس پرستی‘ کو دنیا کے ایک وسیع حلقہ میں ایک تسلیم شدہ اور مقبول فیشن کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
ہمارے دور کا ایک مسلم قاعدہ ہے کہ فیشن عام طور پر مغرب کے کسی کونے میں جنم لیتا ہےاور باقی دنیا جلد ہی اسے پوری عقیدت سے قبول کر لیتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ مغرب نے اپنے ایجاد کردہ ایک فیشن کوکچھ عرصہ بعد ترک کر دیا مگر باقی دنیا، بڑی فرمانبرداری کے ساتھ کئی دہائیوں تک اسی فیشن سے چپکی رہی۔ ہمارے ہاں مال دار یا آسودہ حال لوگ، اگر اپنے کسی کپڑے کا ایک دھاگا بھی باہر نکل آئے تو وہ اس کپڑے کودوبارہ پھر کبھی نہیں پہنتے۔ لیکن جب مغرب نے پھٹی ہوئی جینز کو فیشن قرار دیا، تو ہمارے آسودہ حال نوجوان اپنے نفسیاتی آقاؤں کی تقلید میں اپنی پینٹ کو جگہ جگہ سےپھاڑ کر پہننے لگے۔ اب وہ پھٹے ہوئے، چیتھڑوں والے، یا دھندلی رنگ والےنئےپینٹ ہزاروں روپیوں میں خریدتے ہیں۔
تاخیر سے تقلید
(ٹیکساس Vs لارینس )
لیکن بعض معاملات میں باقی دنیا مغرب کی تقلید میں کچھ سست روی دکھاتی ہے۔ مثلًا ہم جنس پرستی کے معاملہ ہی کو دیکھ لیں۔ اس تعلق سے امریکہ کے ججوں نےسال 2003 کے ایک مقدّمہ میں جو فیصلہ سنا یا تھا، اسے بھارتی عدلیہ نے بیس سال کی تاخیر کے بعد حال ہی میں اپنایا ہے۔ اگر چہ ہماری سپریم کورٹ نے 2023 کے اپنے فیصلے میں دو ہم جنسوں کے مابین شادی کو بنیادی حق ماننے سے اور ایسی شادی کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کیا۔ مگر اسی موقع پر سپریم کورٹ نے اس بات کا بھی اعلان کر دیا کہ ہم جنس افراد کے درمیان غیر جبری جنسی تعلق کوئی جرم نہیں بلکہ قانونًا جائز ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس اہم اور تاریخی فیصلے کے خلاف روایتی بھارتی معاشرے میں کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں ہوا۔ مذہب، روحانیت، عبادات، رسومات، روایات، مذہبی مقامات، علامات اور شخصیات وغیره کے تعلق سے ہمیشہ بے انتہا جذباتیت، حساسیت اور جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے والے اور مذہبی امور کو بہانہ بناکر روزانہ ہنگامہ کھڑا کرنے والے اور تشدد پر اتر آنے والے ہمارے معاشرے نے اس فیصلے کو اس طرح نظرانداز کر دیا گویا اس کا ہمارے سماج سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
بعض کا جشن، اور بعض کی پراسرار لاتعلقی
درحقیقت بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ فیشن کے دائرہ کار سے باہر کافی دور تک بہت گہرے اور دور رس نتائج کا حامل تھا۔ وہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ جس کے اثرات فطرت، مذہب، معاشرہ، اخلاقیات، کردار، صحت، تعلقات اوررشتوں وغیرہ بہت سار ے امور پر مرتب ہورہے تھے۔ اس فیصلے کی مجموعی اہمیت کے مقابلے میں، سماج کے اندر اس کا ردعمل انتہائی مدھم اور معمولی تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے صادر ہوتے ہی اس فیصلے کےبعض ’براہ راست مستفیدین‘ نے پورے جوش و خروش اور شور و غل کے ساتھ جشن منایا اور اس طرح اپنی خوشی کا اظہار کیا گویا انھوں نے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ مختلف شہروں میں یہ حضرات اجتماعی طور پر جشن مناتے نظر آئے۔ لیکن باقی سماج کا کیا حال تھا؟ کوئی اگر یہ گمان کرلے کہ باقی سماج نے اس فیصلے پر خاموشی سے جشن منایا ہوگا تو اس کی بھرپور گنجایش ہے۔ کیوں کہ اس فیصلے پر سماج کے اکثر حلقوں نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی۔ خصوصًا مذہبی حلقوں نے اس معاملے میں اپنے خیالات کے اظہار سے بڑی حد تک گریز کیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے کئی بڑے مذاہب کے وہ ترجمان بھی جو صدیوں سے ہم جنس پرستی یا ہم جنسیت کی سخت مذمت کرتے آئے ہیں اور اسے نہ صرف بےشرمی اور بے حیائی بلکہ غیر اخلاقی، غیر فطری اور غیر انسانی عمل قرار دیتےرہےہیں،ان کی طرف سے بھی سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے پر کسی قابل ذکر رد عمل کا اظہار نہیں ہوا ۔ اس معاملہ میں ان حضرات کی خاموشی بھی حیران کن تھی جو ہمیشہ دھرم کی رکھشا کے لیے کمربستہ رہتے ہیں اور دھرم رکھشا یا مذہب کی حفاظت کے نام پر بار بار سڑکوں پر اتر آنے کی عادت رکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن رویہ تو ان لوگوں کا تھا جو دھرم، گائے اور اخلاق کی حفاظت کے لیے ٹولیاں بناکر ڈنڈوں سے لیس رات دن گلی کوچوں میں منڈلاتے ہوئے مورل پولیسنگ کرتے ہیں۔ کوئی لڑکا اور لڑکی ساتھ میں نظر آجائےتو ان کا انٹرویولے کر یہ پتا لگانےکی کوشش کرتےہیں کہ کہیں لڑکی ہندو اور لڑکا مسلمان تو نہیں ہے؟ پھر موقع واردات ہی پر سزا کا تعین کرتےہیں اور سزا کو لاگو بھی کردیتے ہیں۔ ان انتہائی پرجوش اور حد سے ذیادہ حساس عناصر نے بھی ہم جنسوں کے مابین جنسی تعلقات کو جائز قرار دینےوالے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کیا نہ ہی اس معاملے میں راستوں پر اتر آنے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کا رویہ کچھ ایسا تھا گویا اس فیصلے کا دھرم، مذہب، اخلاق وغیرہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
جن لوگوں نے اس موضوع پر کچھ کہنے کی جرأت کی بھی، ان کے الفاظ بہت دبے دبے سے تھے۔ انداز بیان اتنا لطیف تھا کہ کوئی سمجھ نہیں پایا کہ آں جناب کا مدعا کیاہے۔ مختلف مذاہب اور اقوام کے بعض رہ نماؤں نے اس معاملے میں اپنے موقف کا اظہار کچھ اس طرح سہمے سہمے لہجے میں کیا کہ یہ سوال اپنی جگہ قائم رہا کہ آخر ان کا موقف کیا ہے؟ اور دراصل وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ان کے اس عجیب رویے کی وجہ کیا ہے؟ اور اس موضوع پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے کس چیز نے انھیں روک رکھا ہے؟ اس کے پیچھے چھپے ہوئے عوامل بڑے دل چسپ ہیں۔
صالح عناصر کا معذرت خواہانہ انداز
ابھی کچھ سال پہلے ہمارے ہاں ایک طبقہ نے ’LGBTQ کے حقوق‘ کے نام سے ایک طویل فہرست مرتب کی اور ان حقوق کی پرزور وکالت شروع کی۔ رفتہ رفتہ یہ عناصر مذکورہ حقوق کو اور ان کی وکالت کو فیشن کے زمرے میں شامل کرنے میں کام یاب ہوگئے – ہمارے دور میں کوئی چیز جب فیشن کا روپ اختیار کر لیتی ہے تو پھر اس کی مخالفت کرنا انتہائی دشوار کام بن جاتاہے۔ دراصل کسی کم زور رجحان کو سماج پر مسلط کرنےکا آسان طریقہ یہی ہے کہ اسے فیشن کا درجہ دے دیا جائے۔ ہم عصر دور میں فیشن کا کچھ اتنا رعب اور غلبہ ہے کہ جس چیز کو فیشن کے زمرے میں داخل کیاگیاہو، اچھے اچھے لوگ اس پر کوئی منفی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہی کہ جو حضرات اپنے نجی حلقوں میں، ہم جنسیت یا ہم جنسوں کے مابین جنسی تعلقات کی انتہائی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں اورنہایت سخت الفاظ میں اس کی مذمت کرتے ہیں، وہی حضرات کھلی مجلس میں یا میڈیا کی موجودگی میں اس موضوع پر لب کشائی سے کتراتے ہیں۔ انھیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں کوئی انھیں فیشن مخالف یا دور جدید کے غالب رجحانا ت کا مخالف یا سیدھے دقیانوس قرار نہ دے۔ ہچکچاتے ہوئے کچھ مخالفت کرتے بھی ہیں تو انداز بالکل معذرت خواہانہ ہوتا ہے، گویا کہ کوئی جرم کررہے ہوں۔ بعض نے تو اپنے آپ کو فیشن نواز ثابت کرنے کے لیے اپنے اصل موقف کو چھپاکر اپنے آپ کو ہم جنس پرستوں کا ہمدرد بتا دیا ہے اور ’گے کلچر‘ (Gay Culture)کو فطری ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
بغض ہے مرض سے، نہ کہ مریض سے۔
جو حضرات ہم جنس پرستی کے سنگین خطرات سے واقف ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اس تعلق سے سماجی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے خلاف مزاحمت تمام صحت مند معاشروں میں قدیم زمانے سےپائی جاتی رہی ہے۔ آج اگر ایک طرف ہم جنس پرستی کو سماج میں باعزت مقام دلانے کی کوششیں عالمی سطح پر بہت منظم طریقے سے ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف ایسی کوششوں کے خلاف مزاحمت بھی سامنے آ رہی ہے۔ ایک بے داغ چیز پر اگر داغ لگ جائے تو اسے داغ سے پاک کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، لیکن داغ کو خود داغ سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرے کے ارکان اور سماجی بہبود کے حامیوں کا خیال ہے کہ ہم جنس پرستی کو بے داغ ثابت کرنے کی تمام کوششوں پر نظر رکھ کر انھیں ناکام بنانا ان کا فرض ہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں، ہم جنس پرستی کے خلاف مہموں نے پرتشدد شکل اختیار کر لی ہے اور کئی سانحوں کو جنم دیا ہے۔ حقیقت میں، ہم جنس پرستی کے نقصانات کو جاننے والا کوئی بھی شخص اس کی مخالفت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہ مخالفت بحث، مکالمے، مشاورت، تعلیم اور نصیحت کے ذریعے عوامی بیداری پیدا کرنے کی شکل میں ہونی چاہیے، نہ کہ تشدد، جبر، توہین اور بدگوئی کی شکل میں۔ اگر ہم جنس پرستی کے بارے میں بحث پختہ اور سنجیدہ سطح پر جاری رکھنی ہے تو بحث میں حصہ لینے والوں کو بہت حساس، پرسکون اور متوازن انداز میں آگے بڑھنا ہو گا۔ انھیں کبھی بھی مریض اور مرض کے درمیان فرق کو نہیں بھولنا چاہیے۔ بیماری سے ان کی نفرت کسی بھی حالت میں مریض سے نفرت میں تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔
انسانیت کیا ہے؟
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ہیں جو خودکشی کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اسے بزدلی یا فرار کا نام دے کر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، ہمارے ملک سمیت دنیا بھر میں سینکڑوں لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر خودکشی کر لیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ یعنی اس دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس تعداد کے بہت جلد دوگنا ہونے کے آثار ہیں۔
اس طرح، اتنی بڑی تعداد میں خود اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے یا خودکشی کے رجحان رکھنے والوں کے بارے میں ہمدردی رکھنے والے ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ وہ معاشرے میں اس پیغام کو مقبول بنانے کی مہم چلا سکتے ہیں کہ خودکشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بلکہ یہ محض بزدلی اور فرار ہے۔ اگر کسی میں خودکشی کا رجحان نظر آنے لگے تو ایسے لوگوں کے قریب جاکر ان کو تسلی دینےاور ان کی مایوسی اور ناامیدی کو دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یا پھر ایسے لوگوں میں ہمت پیدا کرنے اور ان میں خود اعتمادی اور امید پیدا کرنے کے لیے ’کونسلنگ سینٹر‘ قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے، جگہ جگہ ڈاکٹروں اور سماجی کارکنوں کو کونسلنگ کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے، اگر کوئی خودکشی کا رجحان رکھنے والوں کے لیے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے، خودکشی کے حق کی حمایت اور تعریف کرنے لگے، خودکشی کےحق کو قانونًا تسلیم کروانے کی مہم چلائے اور یہ دلیل دینے لگے کہ خودکشی انسان کا ایک فطری حق ہے اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق بالکل نہیں ہے، لہٰذا کسی کو اس کے خلاف بات تک نہیں کرنی چاہیے، تو کیانتیجہ ہو گا؟ اگر کوئی یہ مطالبہ کرنے لگے کہ خودکشی کو بھرپور قانونی حیثیت دے دی جانی چاہیے اور لوگوں کوپورے وقار کے ساتھ خودکشی کرنے کے لیے تمام ضروری رہ نمائی اورسہولیات فراہم کی جانی چاہیے تو انجام کیا ہو گا؟ اگریہ حامیان خودکشی، لوگوں کو خودکشی کے آسان طریقے بتانا شروع کر دیں اور وہ یہ بتانا شروع کر دیں کہ کم سے کم وقت اور کم سے کم تکلیف کے ساتھ خودکشی کیسے کی جا سکتی ہے تو کیا ہو گا؟ کیا اس رویہ کو خودکشی کا رجحان رکھنےوالوں کے ساتھ ہمدردی کا رویہ قرار دیا جائے گا؟ کیا ایسے لوگ خودکشی کا رجحان رکھنے والوں کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں؟ انسانی جذبات اور فطری ہمدردی رکھنےوالا کوئی شخص کبھی بھی ایسی سوچ کو نہیں اپنائے گا۔ اور انسانیت کا کوئی خیرخواہ ایسے بیمار خیالات کو سن کر خاموش بھی نہیں رہ سکتا، بلکہ اس کی مخالفت کو اپنا فریضہ سمجھے گا۔
خودکشی کے تناظر میں اشارتا کہی گئی یہ باتیں دراصل ان لوگوں پر پوری طرح صادق آتی ہیں جو ’گے‘ (Gay) افراد کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ گے کلچر کو سماج کی نظر میں قابل قبول بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے قانونی حیثیت دی جانی چاہیے اور معاشرے میں اسے قبول کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ باتیں ان پر بھی صادق آتی ہیں جو اس طرح کے مطالبات کے آگے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اگر ’گے‘ افراد کے لیے ہمدردی جتانے والے واقعی مخلص ہیں اور سچ مچ ’گے‘ حضرات کے خیرخواہ ہیں تو انھیں چاہیے کہ ’گے‘ کلچر اور ہم جنس پرستی کی بہت واضح اور مؤثر طریقے سے مخالفت کریں، اس بارے میں بڑے پیمانے پرعوامی بیداری پیدا کرنے کی مہم چلائیں۔ ’گے‘ افرادکو اور پورے معاشرے کو تباہی سے بچانے کا یہی واحد راستہ ہے۔
’گےکلچر‘ کے ہول ناک نتائج
’گے کلچر‘ سے نفرت کرنے اور اس کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کے لیے کسی مذہبی، اخلاقی یا روحانی بنیاد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے کسی تاریخی تحقیق یا مستقبل کے بارے میں قیاس آرائی وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ دیکھنا کافی ہے کہ ہمارے اپنے اس ترقی یافتہ، جدید دور میں اور ہمارے ہم عصر معاشرے میں ’گے کلچر‘ کے کیاکیا ہول ناک نتائج رونما ہوئے ہیں؟ ’گے کلچر‘ کے ساتھ ہمدردی جتانے والے لوگ اگرسچ مچ ’گے‘ حضرات کے خیر خواہ ہوں اور مذکورہ نتائج سے واقف بھی ہوں تو سب سے پہلے وہی لوگ ’گے‘ افراد کو ’گے‘ کلچر سے بچانے کے لیے دوڑ پڑیں گے اور صحت مند سماج کے تمام خیرخواہ لوگ اس بات کو لے کر فکرمند ہوں گے کہ پورے سماج کو اور تمام صحت مند لوگوں کو ’گےکلچر‘ کے فتنے سے کیسے بچایا جائے۔ کیوں کہ ’گے کلچر‘ کا ایڈز (AIDS)جیسی مہلک بیماری سے براہ راست تعلق ہے، بلکہ، یہ کلچر ایڈز کی وبا کاصدر دروازہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایڈز کی تاریخ تقریباً ایک صدی پرانی ہے۔ لیکن انسانی معاشرے نے اس کے خطرات کو باضابطہ طور پر 80کی دہائی کے اوائل میں پہچاننا شروع کیا۔ آغاز میں جب ایڈز کےکیس رپورٹ ہونے لگے تو ان کیسوں میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ یہ کہ ایڈز کے تمام مریض یا تو ہم جنس پرست تھے یا ہم جنس پرستوں کی صحبت یا خون کے ذریعے ایڈز کے وائرس کا شکار ہوئے تھے۔ گذشتہ چار دہائیوں میں، اس بیماری نے دنیا بھر میں ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ آج دنیا میں تقریباً 3۔7کروڑ لوگ ایڈز کے مریض ہیں۔ ان میں سے دو کروڑ سے زیادہ کی عمر 14 سال سے کم ہے۔ یعنی ایسے بچے جو خود معصوم ہیں مگر کسی دوسرے کی غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ ایڈز کے تقریباً 39%مریضوں کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ وہ اس مرض کے شکا ر ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے کبھی ایچ آئی وی ٹیسٹ نہیں کروایا۔ بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھیں ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے۔ اور بہت سی جگہوں پر ایسے ٹیسٹ کی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔
ہم جنس پرستی کے خطرات کوبخوبی جانتے ہوئے اس میں کود پڑنے وا لوں کی ہمت قا بل تعریف ہے۔ لیکن مسئلہ ان لاکھوں معصوم و بے گناہ لوگوں کا ہے جن کا ان ’’بہادروں‘‘ سے یا ان کے گھناؤنے فعل سے کوئی واسطہ بالکل نہیں ہے مگر بالواسطہ ذرا ئع یا طریقوں سے ان کے مہلک فعل کا اور اس کی وجہ سے پھیلنے والی اس بیماری کے شکار بن جاتے ہیں اور ایک طویل عرصہ تک انتہائی دردناک اذیت جھیلنے کے بعد مر جاتے ہیں۔ چناں چہ ’گے کلچر‘ کے حامیوں کو چاہیے کہ اپنی ہمدردی کا کچھ حصہ ان بے گناہ متاثرین کے لیے بھی بچاکر کر رکھیں۔
اقوام متحدہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 2016 میں، صرف ایک سال کے عرصے میں 10 لاکھ ایڈز کے مریضوں کی موت ہوئی تھی۔ اسی سال 18 لاکھ نئے لوگ ایچ آئی وی (HIV) وائرس کا شکار ہوئے۔ یعنی روزانہ اوسطاً 5،000 لوگ نئے ایڈز مریض بن رہے ہیں۔
جو لوگ حیران ہیں کہ آخر ایڈز اور ہم جنس پرستی یا جنسی انحراف کے درمیان کیا تعلق ہے، انھیں اس بات پر غور کرنا چاہیےکہ امریکہ، جس نے دنیا میں بہت سی برائیوں کو برآمد کیا ہے، وہاں کی آبادی میں ہم جنس پرستوں کا تناسب تقریباً 2% ہے۔ لیکن وہاں ایڈز کے مریضوں میں ہم جنس پرستوں اور دو جنسی رجحان رکھنے والوں (Bisexual)کا تناسب 70% ہے۔ اس بات کے لیے کہ اب اور کیا ثبوت درکار ہے کہ ہم جنس پرستی صرف جذبات، رجحانات اور شوق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ براہ راست وجود کے لیے خطرہ ہے؟
ہم جنس پرستوں کے سر پر نہ صرف ایڈز بلکہ کئی دیگر جنسی بیماریوں کے شکار ہونے کا خطرہ بھی ہمیشہ منڈلاتا رہتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ اپنے رابطے میں آنے والوں کو یا لاعلمی میں اپنا خون لینے والے دیگر لوگوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح، انھیں گونوریا (gonorrhoea)، سفلس (Syphilis)، ہرپس (Herpes) ہیپاٹائٹس (Hepatitis) A، B، اور C وغیرہ مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
امریکہ میں سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2014 میں پہلے اور دوسرے مرحلہ کے سفلس (syphilis) کے مریضوں میں سے 83% مختلف قسم کے ہم جنس پرست تھے۔ ہم جنس پرستوں کو کلامیڈیا (chlamydia) اور گونوریا (gonorrhoea) جیسے مہلک انفیکشن کا خطرہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ہم جنس پرستوں کو منھ اور مقعد کے کینسر کا خطرہ سادہ جنسی تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں 17 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
جذباتی دھوکے کا جال
’گے کلچر‘ کی وکالت کرنے والے بعض لوگ انتہائی جذباتی دلائل پیش کرتے ہیں۔ وہ اسے براہ راست محبت، دوستی‘ پیار اوراحساسات جیسی عالمی اقدار سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے دلائل کا نچوڑ ایک انتہائی سادہ سوال ہوتا ہے: ’’ایک مرد اگر دوسرے مرد سے محبت کرے تو اس میں آخر غلط کیا ہے؟‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اگرکوئی مرد مردوں سے یا کوئی عورت عورتوں سے محبت کرے تو اس پر ہرگز کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض صرف ہم جنسوں کے مابین جنسی رشتے سے ہے، ان کے مابین دوستی اور محبّت سے بالکل نہیں۔یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس بارے میں مزید کسی وضاحت کی قطعًا ضرورت نہیں ہے۔ فطرت نے پیار و محبت پر کبھی کوئی پابندی عائد نہیں کی، لیکن جنسی خواہشات پر فطرت کی طرف سے بعض پابندیاں ہیں۔ جب جنسی خواہشات غیر فطری شکل اختیار کرتی ہیں، تو قدرت اپنی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ شروع کرتی ہے اور اگلے مرحلے میں اپنی سزاؤں کا نفاذ بھی شروع کردیتی ہے۔ محبت اور جنسی خواہش کے درمیان بہت ہی واضح اور غیر معمولی فرق ہے۔ جولوگ اس فرق کو سمجھ سکتے ہیں، وہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کے الجھن کا شکار نہیں ہوتے۔ بس لوگ اس سادہ حقیقت کوپہچانیں اور قبو ل کر لیں تو کافی ہے کہ محبت اور جنسی خواہش ایک نہیں ہیں۔ اسی کے ساتھ تمام الجھنیں اور پیچیدگیاں دور ہوجاتی ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرناہی دراصل اس میدان کے تمام الجھنوں کا حل ہے۔
’گےکلچر‘ کےمحافظ ہم جنس پرستوں کی نجی زندگی میں کیوں دخل دیتے ہیں؟
انسانی دنیا میں ہم جنس پرستی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ لیکن ہم جنس پرستی کا کھلے عام اظہار، اجتماعی طور پر اس کی تعریف وتصدیق اور اس کو معاشرہ میں باعزت مقام دلانے اور قانونًا جائز حیثیت دلانےکی ’گے‘ مہم اور تحریک نئی ہے۔ اس پس منظر میں، دور جدید کے ’گے‘ نواز عناصر کی طرف سے پیش کیے جانے والے بعض جذباتی دلائل اور مطالبات کے کھوکھلے پن کو اجاگر کرنا ضروری ہے:
اگرسماج میں کوئی دو مرد یا دو عورتیں آپس میں یاری رکھیں اور ان کا باہمی تعلق صرف دوستی، محبت اور پیار کا ہو اور وہ باہم کسی جنسی عمل میں ملوث نہ ہوں تو، اس طرح کے رشتوں پرکبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ دوستوں کے درمیان جذباتی لگاؤ کوبھی کوئی عیب نہیں سمجھاجاتا۔ اس طرح کی دوستی کا رشتہ، اس رشتہ سے بالکل مختلف ہے جس میں جنسی سرگرمی بھی شامل ہو یا جہاں بات دو ہم جنسوں کے مابین شادی رچا نے تک پہنچ گئی ہو۔
ہم جنسی کا رجحان رکھنےوالے حضرات، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، عام طور پراپنی شناخت نارمل رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نہ صرف معاشرے میں بلکہ اپنے قریبی حلقوں میں بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ انھیں ہم جنس پرست کے طور پر پہچانا جائے۔ یہاں تک کہ جن ہم جنس افراد کا آپس میں جنسی تعلق ہوتا ہے، ان میں سے بھی زیادہ ترلوگ اسے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ذاتی رجحانات کو لوگ موضوع بحث بنا لیں۔ ان پر یہ بات بالکل ناگوار گزرتی ہے کہ ان کی ذاتی زند گی پر کوئی تبصرہ کرے۔ لہذا، وہ لوگ جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہم جنس پرستوں پر یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے ہم جنس رجحان کا معاشرے کے سامنے اعلان کریں اورسماج میں ہم جنسیت ہی کو اپنا شناخت اور پہچان بنالیں، وہ ان ہم جنسوں پر ہرگز کوئی مہربانی نہیں کر رہے ہیں۔ دراصل یہ نام نہاد ’گے‘ نواز حضرات ہم جنس پرستوں کی کوئی مدد کرنےکی جگہ ان کے چہروں سے نارملسی (normalcy) کا پردہ ہٹاکر انھیں سماج میں بے نقاب اور شرمندہ کر کے ان پربڑا ظلم ڈھا رہے ہیں۔
فرض کریں کہ دو ہم جنس پرستوں کا آپس میں جنسی تعلق ہے۔ تب بھی وہ خود اپنے درمیان ’ہم جنس شادی‘ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اکثر ہم جنس پرست اپنے رشتے کو معاشرے کی توجہ کا مرکز نہیں بنانا چاہتے یا شادی کے ذریعے عائد ہونےوالی پابندیوں کو اپنے اوپر لاگو کرنا نہیں چاہتے۔ ایسی صورت حال میں، جو لوگ ’ہم جنس شادی‘ کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کے تعلق سے یہ شبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ ایسا ہم جنس پرستوں کی بھلائی کے لیے کررہے ہیں یا صرف ایک صحت مند معاشرے کو چھیڑنے کے لیے یہ حرکتیں کر رہے ہیں۔
الجھن ہی ان کا سرمایہ ہے: دس مختلف اقسام کو ایک بتانے کی سازش
’گے کلچر‘ کے محافظ اور حامی، جنسی رجحانات کے موضوع پرعام لوگوں کی لاعلمی اور الجھن کو اپنا سرمایہ بناتے ہیں۔ رائے عامہ کو بھٹکا نے کے لئےوہ طرح طرح کی غلط بیانیوں سے کام لیتے رہتے ہیں۔ مثلا – ’’غیر فطری جنسی رجحان والے پیدائشی طور پرہی ایسے ہوتے ہیں۔۔۔ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔۔۔ وہ جتنا بھی چاہیں اس مجبوری سے باہر نہیں آ سکتے۔۔۔ آخر ان کے پاس دوسرا اختیار ہے ہی کہاں؟ جب فطرت ہی نے انھیں ایسا بنایا ہے تو معاشرے کو ان پرکسی قسم کی پابندیاں لگانے کا کوئی حق نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ ان کے پاس اس قسم کے بہت سارے کھوکھلے بیانات موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح، دراصل وہ جسمانی معذوریوں کے ساتھ پیدا والے لوگوں کے لیے پائی جانے والی فطری ہمدردی اور شفقت کو، ان لوگوں پرلاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنھوں نے اپنی مرضی سے اپنے اندر بعض خامیاں اور امراض پیدا کرلئے ہوں۔ وہ خواجہ سراؤں یا مخنث لوگوں کے تعلق سے معاشرے میں پائی جانے والی الجھن کو بھی اپنا سرمایہ بنالیتے ہیں۔ اس تناظر میں، غیر معمولی جنسی رجحانات کے تمام انواع و اقسام کو الگ سے پہچاننا اور ان کا تعارف حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
+LGBTQQIAAP ان دس حروف کے تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
- L یا Lesbian: ایسی عورت جو صرف عورتوں کی طرف جنسی طور پر مائل ہوتی ہے۔
- G یا Gay: ایسا مرد جو صرف مردوں کی طرف جنسی طور پر مائل ہوتا ہے۔
- B یا Bisexual: ایسے مرد اور ایسی عورتیں جو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف جنسی طور پر مائل ہوتے ہیں۔
- T یا Transgender یا Transexual: وہ شخص جسے اس کی پیدائش کے وقت مرد کے طور پر پہچانا گیا ہو، لیکن بعد میں وہ خود کو عورت ماننے لگے اور اپنے حرکات و سکنات، چال ڈھال، برتاؤ یا لباس اور آرائش میں عورتوں جیسی خصوصیات اختیار کر لے، یا وہ شخص جسےاس کی پیدائش کے وقت عورت کے طور پر پہچانا گیا ہو، لیکن بعد میں وہ اپنے حرکات و سکنات، برتاؤ یا لباس اور آرائش میں مردوں جیسی خصوصیات اختیار کر لے یا اپنا لے۔ ان میں سے بعض لوگ سرجری کروا کر اپنی خواہش کے مطابق جنس کی تبدیلی کروا لیتے ہیں۔ یعنی مردانہ خصوصیات کے ساتھ پیدا ہونے والا شخص عورت بن جاتا ہے اور زنانہ خصوصیات کے ساتھ پیدا ہونے والی عورت مرد بن جاتی ہے۔
- Q یا Queer: ایسے لوگ جو خود کومرد یا عورت جیسے کسی مخصوص صنف سے جوڑنا پسند نہیں کرتے۔
- Q یا Questioning: ایسے لوگ جو اپنی جنسی شناخت کا تعین نہیں کر پائے ہیں اور اس بارے میں خود سے سوالات پوچھنے کے مرحلے میں ہیں۔
- I یا Intersex: ایسے لوگ جو جسمانی طور پر مرد اور عورت دونوں کی مخلوط خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے کیس بہت کم ہیں۔
- A یا Asexual: ایسے مرد یا عورتیں جو کسی کی طرف بھی جنسی طور پر مائل نہیں ہوتے۔
- A یا Allies: ایسے لوگ جو خود جنسی طور پر صحت مند ہیں لیکن LGBTQQIAP کے زمرے سے تعلق رکھنے والوں کی حمایت میں سرگرم رہتے ہیں۔
- P یا Pansexual: ایسے لوگ جو کسی بھی دوسرے شخص کی جنس کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی طرف جنسی طور پر مائل ہوتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں انگریزی حروف تہجی کے باقی تمام حروف بھی غیر معمولی لوگوں کی اس فہرست میں شامل ہو جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ موجودہ فہرست میں Q اور A دو دو بار آئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ کمیونٹی سینکڑوں حروف سے پہچانی جانے والی وسیع کمیونٹی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ مذکورہ بالا دس زمروں کی جو تعریفیں اوپر دی گئی ہیں وہ وہ اکثر حلقوں میں قابلِ قبول ہیں۔ اگر ان تمام خصوصیات کا ایک ایک کرکے بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ان دس زمروں میں سے صرف I یا Intersex کے زمرے سے تعلق رکھنے والے جسمانی اور جنسی معذوری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا وقت کے ساتھ ان میں ایسی معذوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کے جسم میں مردانہ اور زنانہ دونوں خصوصیات ملی جلی ہوتی ہیں۔ باقی کسی بھی زمرے میں پیدا ہونے والے افراد میں پیدائشی طور پر کوئی جسمانی نقص یا معذوری نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی نفسیات، رویے، ذہنی رجحانات، مطالبات اور خواہشات میں عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ’گے‘ کے حامی اس اہم سچائی کو چھپا کر تمام زمروں کے لوگوں کو ایک جیسا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ بغیر کسی تحقیق کے دوسروں کی باتوں پر یقین کر کے کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ جاتے ہوں، ان کے لیے یہ الجھن فطری ہے۔
خواجہ سرا اور جنس کی تبدیلی کی حقیقت
ہندوستان کے زیادہ تر بڑے شہروں میں ٹول گیٹ یا ٹریفک سگنل کے قریب کچھ لوگ عورتوں کا لباس پہنے ہوئے، تالیاں بجاتے ہوئے، لوگوں سے پیسے مانگتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا پیسہ مانگنے کا انداز بڑا ہی جارحانہ ہوتا ہے۔ انھیں عام طور پر خواجہ سرا کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کے تعلق سے عام طور پر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ مخلوط جنس یا جنسی معذوری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ انھیں ٹرانس جینڈر (trangender) یا ٹرانسیکشول (transexual) کے زمرے میں شامل سمجھتے ہیں۔ لیکن آل انڈیا ہجڑا کلیان سنگھ (AIHKS) کے مطابق، خواجہ سراؤں یا ہجڑوں کے طور پر پہچانے جانے والوں میں سے صرف 1% ہی جنسی معذوری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ باقی زیادہ تر مکمل مرد ہوتے ہیں جو خواجہ سرا ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بچپن یا نوجوانی میں جبری جنسی تبدیلی (کاسٹریشن Castration) کے ذریعے خواجہ سرا بنا دیا جاتا ہے۔ یعنی ان کے مردانہ اعضاکو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ ان کے جسم میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور ان میں کچھ زنانہ خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر لڑکوں کو اغوا کرکے انھیں خواجہ سرا بنانے کا ایک بڑا نیٹ ورک کئی شہروں میں سرگرم ہے۔ جہاں خواجہ سراؤں کی تنظیمیں ہوتی ہیں، وہاں ان کے لیڈروں کو ’گرو‘ کہا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر کچھ فرقوں کے خواجہ سرا ہر سال ایسے اغوا کیے گئے بچوں کی جنسی تبدیلی کرکے انھیں باقاعدہ طور پر خواجہ سرا معاشرے میں شامل کرنے کے لیے ’نروانا‘ نامی مذہبی تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ کچھ لوگ مختلف توہمات کی وجہ سے اپنے بچوں میں سےایک لڑکے کو خواجہ سرا بنانے کی منت مان کر خوداپنی مرضی سے ایسے بچوں کو خواجہ سرا ’گرو‘ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ گرو اپنے متاثرین کو آہستہ آہستہ ہم جنس پرست بنا کر ہم جنس پرستی کے بڑے منظم نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھیک مانگنے اور جبری وصولی کے نیٹ ورک بھی چلاتے ہیں۔
اس طرح، زیادہ تر معاملات میں اصل خلقت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، بلکہ جسمانی طور پر صحت مند ہوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر ٹیڑھے راستے اختیار کرنے والی بیمار ذہنیت کارفرما ہوتی ہے۔ اسی طرح، جنسی معذوری کے زیادہ تر معاملات کی نوعیت خالص ذہنی یا نفسیاتی ہوتی ہے اور ا نہیں اسی سطح پر پہچان کرعلاج کیا جاسکتاہے۔ غیر معمولی کیفیت کے لیے کسی کو طعنہ دینا یا بڑھا چڑھا کر اس کیفیت کی تعریف کرنا اس مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔
کونڈوم کی محدودیت، ایک دھوکے کا سہارا
یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے۔ جیسے ہی کہیں جنس پرستی کے مہلک خطرات کا ذکر ہوتا ہے، بہت سے لوگ فوراً کونڈوم کا سہارا لینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ یہ دلیل پیش کرنے لگتے ہیں کہ آدمی اگر کونڈوم پہن لے تو اس کے بعد، چاہے کسی بھی قسم کی بدکاری یا غیر فطری جنسی عمل میں ملوث ہو، وہ ہر قسم کی بیماریوں سے بالکل محفوظ رہتا ہے۔ ایسے دلائل دینے والوں میں صرف ناخواندہ لوگ ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ نادان بھی شامل ہیں۔ شاید وہ ان تنبیہات سے واقف نہیں ہیں یا انھیں سمجھ نہیں پائےہیں جو سائنس دانوں اور تحقیقی اداروں نے کونڈوم کے حدود کے بارے میں تفصیلی مطالعہ اور تحقیق کے بعد صادر کی ہیں۔
ماہرین کے مطابق، حمل کو روکنے یا بیماریوں سے بچاؤ کے معاملے میں کونڈوم بہت مددگار ہیں، لیکن وہ 100% محفوظ یا قابل انحصار نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق کونڈوم استعمال کرنے کے کئی قواعد ہیں اور اگر ان تمام قواعد پر مکمل عمل کیا جائے، تب بھی ان کی کام یابی کی شرح 98% سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس 2% کی ناکامی کی شرح پر جنسی خواہش کے غلاموں کو خوش نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ کرکٹ یا فٹ بال جیسا کوئی کھیل نہیں ہے کہ جس میں صرف اپنی ٹیم کی ہار پر افسوس کیا جائے۔ یہ جوا بھی نہیں ہے جہاں صرف کچھ پیسوں کا نقصان ہوتا ہو۔ یہاں کی ناکامی ایڈز جیسی مہلک بیماری کی جیت ہوتی ہے۔ یہاں قیمتی انسانی جانیں خطرے کا شکار ہوتی ہیں۔
جب ایک مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ مباشرت کرتے ہیں اور اس دوران کونڈوم کا استعمال کرتے ہیں، تب بھی استعمال کے طریقے میں خامی کی وجہ سے ان کے ساتھی کے حاملہ ہونے کا امکان 15% تک ہوتا ہے۔ جنسی بیماریوں کی منتقلی کا امکان اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
کونڈوم پر اعتماد کر کے اندھا دھند کارروائیاں کرنے والوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہیےکہ دنیا کے وہ کروڑوں لوگ جو خود ایڈز جیسے مہلک انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں اور جنھوں نے راست یا بالواسطہ طور پر اپنے ناجائز جنسی ساتھیوں، بے گناہ جیون ساتھیوں، قریبی لوگوں اور خون کے بے گناہ حاصل کنندگان کو بھی اس انفیکشن کا عطیہ دیا ہے، وہ سب کے سب کونڈوم مخالف یا کونڈوم ترک کرنے والے نہیں تھے۔ ان میں سے لاکھوں لوگوں نے کونڈوم کا استعمال کرتے ہوئے ہی تباہی کی طرف قدم بڑھایا تھا۔ لیکن یا تو کونڈوم ناکام ہو گیا یا اسے استعمال کرنے کے طریقے میں خامی کی وجہ سے اس پر بھروسا کرنے والاایسی گہری کھائی میں جا گرا جہاں سے باہر آنا قطعًا ممکن نہیں- اس کے علاوہ، کونڈوم کو کتنی ہی احتیاط سے استعمال کیا جائے، یہ زیادہ سے زیادہ جسم کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کی حفاظت کرسکتا ہے۔ کونڈم پورے جسم کے لیے حفاظتی ڈھال نہیں بن سکتا۔
عدلیہ کی غیر فطری عجلت
ہماری عدلیہ کوئی فارغ ادارہ نہیں ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزیر قانون و انصاف ارجن رام میگھوال نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ ہماری نچلی عدالتوں میں تقریباً 4.6کروڑ مقدمات کئی برسوں سے حل طلب ہیں۔[1] ہائی کورٹوں میں ایسے 43 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ خود سپریم کورٹ میں بھی تقریباً 60 ہزار بہت پرانے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایسی صورت حال میں، ہمارے سب سے بڑے عدالتی ادارے نے دیگر زیر التوا مقدمات کو نظر انداز کرتے ہوئے ’گے‘ حضرات کی مدد کے لیے آئین کے آرٹیکل 377 میں موجود قاعدے کو منسوخ کرکے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینے کے معاملے میں جو غیر فطری جلدی دکھائی ہے، وہ کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
اجتماعی ذمہ داریاں
آنے والے دنوں میں، اخلاقی اقدار اور فطرت کی پاکیزگی پر یقین رکھنے والے معاشرے کے مختلف طبقات کو مل کر ان سوالات پر بحث کرنی ہوگی۔ سماجی، خاندانی اور سائنسی حقائق، دلائل اور شواہد کی بنیاد پر ہم جنس پرستی کے ذریعے خود کو، قریبی لوگوں کو اور معاشرے کو تباہ کرنے والے پہلوؤں کے بارے میں بڑے پیمانے پر عوامی بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ تب ہی ہم امید کر سکتے ہیں کہ آج ہمارے سماج میں ہم جنس پرستی کی حمایت کرنے والے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے افراد، جماعتیں اور ادارے اور خصوصًا ہمارے جج حضرات، جلد از جلد فطرت کے قدیم اور حقیقی فیشن کی طرف رجوع فرمائیں گے۔
حوالہ جات
- https://www.thehindu.com/news/national/over-46-crore-cases-pending-in-lower-courts-centre-tells-rajya-sabha/article69879720.ece
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025






