رسائل ومسائل

اجتماعی شادیوں کی شرعی حیثیت

سوال:ہمارے علاقے میں غربت وافلاس کی وجہ سے مسلم بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود بیٹھی رہتی ہیں اور ان کی شادیاں نہیںہوپاتیں۔ لڑکوں کی طرف سے جہیز کے بڑے بڑے مطالبات بھی اس میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان حالات میں ایک دینی ادارہ نے غریب مسلم بچیوں کی اجتماعی شادیاں کرنے کامنصوبہ بنایا ہے۔ اس ادارے کے ذمے داران بچیوں کے لیے رشتے تلاش کرتے ہیں،نکاح کے موقع کے تمام مصارف برداشت کرتے ہیں اور گھر گرہستی کے لیے کچھ سامان بھی بہ طور تحفہ دیتے ہیں۔ علاقے کے بعض لوگ اس عمل کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ عہد نبوی میں اجتماعی شادیوں کا کوئی تصور نہیں تھا، اس لیے یہ طریقہ خلافِ سنت ہے؟

بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا اجتماعی شادیوں کا انتظام کرنا شرعی اعتبار سےدرست نہیں ہے؟

جواب:اسلام میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور اسے آسان تر بنایاگیا ہے اور زنا و بدکاری کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے اور ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں کہ اس کاارتکاب دشوار تر ہوجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نکاح کو بہت بابرکت قرار دیا ہے جس کے مصارف کم سے کم ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:

اِنَّ اَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَۃً اَیْسَرُہٗ مُؤْنَۃً۔(مسند احمد: ۶ ؍۸۲، ۱۴۵)

’’سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس کا خرچ سب سے کم ہو۔‘‘

قرآنی ہدایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پرعمل کے نتیجے میں عہد نبوی میں نکاح بہت آسان تھا۔ کنواری لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ شوہر دیدہ عورتیں بھی اگر نکاح کرناچاہتیں تو اس میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ کسی خاتون کی طلاق ہوجاتی یا اس کا شوہر کسی غزوہ میں شہید ہوجاتا یا اس کی طبیعی موت ہوجاتی تو عدّت پوری ہوتے ہی اس کے پاس نکاح کے متعدد پیغامات آجاتے اور اسے فیصلہ کرناپڑتاکہ وہ کس کے ساتھ نکاح کرے؟

اسلام میں نکاح کے مصارف برداشت کرنا مرد کے ذمے کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:

یَامَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ البَاءَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ۔    (بخاری: ۵۰۶۵،مسلم ۱۴۰۰)

’’اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو نکاح کرسکتا ہو اسے ضروراس کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

لڑکی اور اس کے خاندان پر نکاح کے مصارف کا کوئی بارنہیں ڈالا گیا ہے، بلکہ اسلامی احکام و تعلیمات پر عمل ہو تو اس موقع پر لڑکی خاطرخواہ رقم پاتی ہے۔ اسے مہر ملتا ہے، شوہر اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری لیتا ہے، رشتے داروں کی طرف سے اسے تحائف دیے جاتے ہیں۔

غیراسلامی اثرات کے نتیجے میں اب لڑکیوں کی شادیاں دشوار ہوگئی ہیں۔ منگنی، بارات، جہیز ،تلک اور دیگر بے بنیاد رسموں کی مارلڑکیوں کے خاندان والوں پر پڑتی ہے۔ خاطرخواہ رقم جمع نہ ہونے کے سبب شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے ،بہت سی لڑکیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرہ فتنہ وفساد کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔

اس صورت حال میں معاشرہ کے سنجیدہ اور باشعور طبقہ کو اس سماجی مسئلے کے حل کے لیے فکرمند ہوناچاہئے۔ ایسے میں اگر کچھ لوگ کسی ادارے کے تحت غریب مسلم بچیوں کے نکاح کا انتظام کررہے ہیں تویہ ایک بڑا کارِ خیر ہے، جس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

السَّاعِی عَلَی الْاَرْمِلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اَوِ الْقَائِمِ اللَّیْلِ الصَّائِمِ النَّھَارِ۔ (بخاری۵۳۵۳، مسلم، ۲۹۸۲)

’’بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (یا فرمایا کہ) رات میں مسلسل عبادت کرنے والے اور دن میں مسلسل روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔‘‘

دوڑ دھوپ میں ان کی خبرگیری کرنا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کی پریشانیاں دُور کرنا اور وقتِ ضرورت ان کے نکاح کے انتظامات کرنا سب شامل ہے۔

ایک مجلس میں نکاح خواہ ایک جوڑے کا ہو، یا بہت سے جوڑوں کی اجتماعی طور سے شادی کردی جائے، دونوں صورتیں شرعی اعتبار سے جائز ہیں۔ بس ضروری ہے کہ نکاح کے تمام ضابطے پورے کرلیے گئے ہوں۔ مثلاً دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہو، مہر طے کیا گیا ہو ۔ وغیرہ۔ اس موقع پراگر کوئی ایک فردیا چند افراد مل کر یاکوئی ادارہ نکاح کے مصارف برداشت کرلے، گھریلو ضروریات کی کچھ چیزیں فراہم کردے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ پسندیدہ کام ہے۔ محض یہ بات کہ عہد نبوی میں اس انداز سے شادیاں نہیں ہوتی تھیں، اس کام کے غیر شرعی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔

کوئی چیز ہبہ کرکے واپس لینا

سوال: ایک صاحب نے ،جو ملک سے باہر اچھی ملازمت پر تھے، ایک موقع پر اپنا ایک پلاٹ ایک رفاہی ادارہ کو ہبہ کردیا۔ اس ادارہ نے اس کی رجسٹری بھی کرالی۔ مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود اس پر کوئی تعمیری کام نہ ہوسکا اور وہ یوں ہی پڑی ہوئی ہے۔ اب ان صاحب کی ملازمت ختم ہوگئی ہے اور وہ تنگی کا شکار ہیں۔ وہ اس ادارہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کا پلاٹ ان کو واپس کردیا جائے، تاکہ وہ اسے فروخت کرکے اپنا کوئی بزنس شروع کرسکیں۔

بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا کوئی چیز ہبہ کرنے کے بعد اسے واپس لیا جاسکتا ہے؟ کیا شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے؟

جواب:کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لینے کے سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْئِ، الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ ھِبَتِہٖ کَالکَلْبِ یَرْجِعُ فِی قَیْئِہٖ۔ (بخاری: ۲۶۲۲، مسلم: ۱۶۲۲،ترمذی :۱۲۹۸،نسائی:۳۶۹۸)

’’ہمارے پاس اس سے بری کوئی اور مثال نہیں۔ جو شخص کوئی چیز ہبہ کرکے واپس لیتا ہے وہ کتے کی طرح ہے، جو قے کرکے اسی کو چاٹ لے۔‘‘

دوسری روایت میں، جو حضرت ابن عباسؓ اور ابن عمرؓ سے مروی ہے، کچھ تفصیل ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَایَحِلُّ لِرَجُلٍ اَنْ یَّعْطِیَ عَطِیَّۃً اَوْ یَھَبَ ھِبَۃً ثُمَّ یَرْجِعُ فِیْھَا، اِلَّا الوَالِدَ فِیْمَا یُعْطِیْ وَلَدَہٗ، وَمَثَلُ الَّذِیْ یَرْجِعُ فِی عَطِیَّتِہٖ اَوْھِبَتِہٖ کَالْکَلْبِ یَاْکُلُ فَاِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِیْ قَیِئَہٖ۔

(ابوداؤد:۳۵۳۹، ترمذی:۱۲۹۹، نسائی:۳۶۹۰، ابن ماجہ: ۲۳۷۷)

’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے یا کوئی چیز ہبہ کرے، پھر اسے واپس لے لے، صرف باپ کو اجازت ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دی ہوئی کوئی چیز واپس لے سکتا ہے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ وہ بھرپیٹ کھائے، یہاں تک کہ اسے قے ہوجائے، پھر وہ اسی کو چاٹ لے۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کو کتے سے تشبیہ دی ہے، جو قے کرکے دوبارہ اسے چاٹ لے۔ حدیث میں باپ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے کہ وہ اگر اپنے بیٹے کوکوئی چیز ہبہ کردے تو اسے واپس لے سکتا ہے۔ بعض احادیث میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔ ایک صحابی اپنے ایک بیٹے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر پہنچے اور عرض کی: میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیزدی ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے وہ چیز اپنے تمام بیٹوں کو دی ہے۔ انہوں نے جواب دیا: نہیں ۔تب آپؐ نے فرمایا: یہ غلط ہے۔ یا تو اپنے تمام بیٹوں کو وہ چیز دو یا اِس سے بھی واپس لے لو۔ (بخاری: ۲۵۸۶، مسلم: ۱۶۲۳) اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لینے کی اجازت کا تعلق ظلم وزیادتی سے ہے کہ اگر اس نے دوسرے بیٹوں کی حق تلفی کرتے ہوئے کوئی چیز کسی ایک بیٹےکو دی ہے تو اسے واپس لے لے۔

فقہاء کرام میں سے مالکیہ، شافعیہ، اور حنابلہ کامسلک درج بالااحادیث کے مطابق ہے، یعنی کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لیناجائز نہیں ہے۔

لیکن احناف کہتے ہیں کہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الوَاہِبُ اَحَقُّ بِھِبَتِہٖ مَالَمْ یَثُبْ مِنْھَا۔ (سنن دارقطنی: ۳۰۱۳، السنن الکبریٰ للبیہقی:۱۲؍۳۸۲، اس کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن اسماعیل ضعیف ہے)

’’ہبہ کرنے والا اپنے ہبہ کا زیادہ مستحق ہے،اگر اس نے اس کا کوئی بدلہ نہ حاصل کرلیا ہو۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ ہبہ دینے والے کواسے واپس لینے کا قانونی طور پر حق ہے۔ جن احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے ان کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ ان کا استدلال اس سے بھی ہے کہ حضرات صحابہ میں سے عمر، عثمان، علی، ابن عمر، ابودرداء اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم ہبہ دے کر اسے واپس لے لینے کو جائز سمجھتے تھے اور دیگر صحابہ سے اس کے خلاف مروی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں تمام صحابہ کا اجماع ہے۔

احناف کے نزدیک ہبہ کی واپسی کاعمل اس وقت صحیح ہوگا جب دونوں فریق راضی ہوں یا ہبہ واپس چاہنے والا اپنا معاملہ عدالت میں لے جائے اور قاضی اس کی واپسی کا حکم دے۔ لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جب احناف کے نزدیک بھی ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہیں کی جائے گی۔

(۱)          وہ چیز پورے طور پر تلف ہوگئی ہے۔ اگر کچھ حصہ تلف ہوگیا ہو اور کچھ باقی ہو اور ہبہ دینے والا اس باقی حصے کو وا پس مانگ رہاہو تو اسے واپس کرنا ہوگا۔

(۲)         وہ چیز جس کو ہبہ کی گئی ہو اس کی ملکیت سے نکل گئی ہو۔ مثلاً اس نے اسے بیچ دیا ہو یا کسی اور کو ہبہ کردیا ہو۔

(۳)         اس میں کوئی ایسا اضافہ کردیاگیا ہو، جو اس سے الگ نہ ہوسکے، مثلاً کوئی زمین ہو اور اس میں گھر بنالیاگیا ہو، یا درخت لگادیے گئے ہوں۔

(۴)         ہبہ کرنے والے کو اس کے ہبہ کے بدلے میں کوئی چیز دی گئی ہو اور اسے اس نے قبول کرلیاہو۔

(۵)         اس چیز کی ماہیت بدل گئی ہو۔ مثلاً گیہوں کو پیس لیاگیا ہو، یا آٹا کو گوندھ لیاگیا ہو۔

(۶)          دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا ہو۔

(بدائع الصنائع: ۶؍۱۲۷، تکملۃ فتح القدیر: ۷؍۱۲۹، البحر الرائق: ۷؍۳۱۶، ۲۹۴، حاشیہ ابن عابدین: ۴؍۵۱۸، بہ حوالہ الموسوعۃ الفقہیۃ کویت: ۴۲؍۱۵۱-۱۴۹) ll

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau