اکیسویں صدی میں پہنچ کر انسانوں کو متعدد نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل درپیش آرہے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ماہرین نفسیات نے ان کی بنیادی وجہ ’’زبان‘‘ بتائی ہے۔ دوران کاؤنسلنگ یہ شکایتیں سامنے آئیں کہ بچے والدین سے چرب زبانی کرتے ہیں، والدین ڈانٹ ڈپٹ کو اپنا حق سمجھتے ہیں، طلاق و خلع کے مسائل ہوں یا سسرالی مسائل ہوں زبان کے غلط استعمال نے سبھی کا نقصان کیا ہے۔ اگر والدین اپنا احتساب کریں کہ وہ اپنے بچوں سے گفتگو کیسے کریں؟ تو ان شاءاللہ ہم اور ہماری نسلیں آنے والے بڑے فتنوں سے بچ سکتی ہیں۔ انٹرویو یا پریزنٹیشن کے لیے ہمارا کمیونی کیشن کی مختلف مہارتیں سیکھنا جس طرح لازمی ہے ، اسی طرح بچوں کے سامنے خود کو پیش کرنا ایک ضروری ہنر بنتا جارہا ہے۔
بچوں سے بات کرتے ہوئے مندرجہ ذیل چند نکات کا اگر خیال رکھنا شروع کردیں تو نہ صرف گفتگو میں فرق محسوس ہوگا بلکہ رویوں میں بھی مثبت ردعمل نظر آئے گا۔ ان شاءاللہ۔
اول: توجہ سے سنیں
لسننگ لیجنڈ ڈاکٹر رالف جی نکولس کے مطابق، ’’تمام انسانی ضروریات میں سب سے بنیادی چیز سمجھانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو سمجھنے کا بہترین طریقہ ان کی بات سننا ہے۔‘‘ بیشتر والدین اپنے کام کرتے ہوئے بچوں کی باتیں سنتے ہیں اسی لیے وہ انھیں سمجھ نہیں پاتے۔ مثلاً بچہ کھیل میں جیتنے کی خوش خبری دے رہا ہو اور امی کھانا پکاتے ہوئے یا والد صاحب لیپ ٹاپ پر بیٹھے بیٹھے سن رہے ہو توظاہر ہے کہ وہ خوشی کا مطلوبہ اظہار کرکے اس کی خوشی میں مکمل طور پر شریک نہیں ہوپاتے۔ کبھی بچہ کوئی مسئلہ لیے آتا ہے اور والدین مصروف ہوں، تو مکمل توجہ نہ ملنے پر صحیح حل نہیں نکل پاتا۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین گفتگو کا کچھ حصہ سن کر ہی نتیجہ نکالتے ہیں اور بچے کو بولنے کا پورا موقع نہیں دیتے۔ پوری بات توجہ سے نہ سن پانے کی وجہ سے بچے کے تاثرات صحیح ڈھنگ سے معلوم نہیں ہوتے۔ والدین کی طرف سے اس طرح کی جلدبازی گفتگو کا اصل مقصد کافور کردیتی ہے۔ بچوں کو بولنے کا موقع دیجیے اور انھیں بات کرنے سے مت روکیے۔ یہ ان کے شخصی ارتقاکے لیے لازمی عمل ہے۔ وہ اپنی روداد سنانا چاہتے ہیں، اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، اپنے تدبر و تجسس سے معمور خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، تو انھیں کرنے دیجیے یہ ان کی ذہنی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اچھے سامعین بنیں۔ اپنے کام کو کچھ دیر روک سکیں تو روکیں اور پوری توجہ سے بچہ کی بات سننے کی کوشش کریں۔
دوم: فصیح زبان کا استعمال کریں
زبان کی فصاحت و بلاغت والدین کی طرف سے قیمتی تحفہ ہوگا۔ بچوں سے آپ کسی بھی زبان میں بات کرتے ہوں، اچھے الفاظ کا انتخاب اور صحیح جملہ بندی کا خاص خیال رکھیں۔ کوشش کریں کہ آپ نئے الفاظ استعمال کرتے رہیں تاکہ بچے بھی اپنی دماغ کی لغت میں ذخیرہ الفاظ شامل کرتے رہیں۔ بچپن میں زبان سیکھنے کے عمل کی رفتار نوجوانی میں سیکھنے کے عمل سے تیز اور عمدہ ہوتی ہے۔
حسن البنا نے فصیح زبان کے استعمال کی وصیت کی ہے ’’فصیح اور صاف ستھری زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کرو، یہ کام بھی شعائر اسلام میں سے ہے‘‘۔ چناں چہ بچپن سے ہی انھیں گفتگو کے اس دل کش جز کی مہارت سے لیس کیجیے۔
سوم: اپنی بات کو جاذب توجہ بنائیں
یہ بہت عام سی شکایت ہے کہ بچے والدین (دونوں یا کسی ایک )کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ والدین اکثر آپس میں کہتے ہیں کہ ’’آپ ہی کہیے کیوں کہ میری نہیں سنتے‘‘ یا والدین اساتذہ سے یا گھر کے بزرگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ فلاں چیز آپ سمجھائیے۔ ریپو (rapport)کی کمی سے ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔لفظ rapport فرانسیسی rapporter سے نکلا ہےجس کے معنی رشتہ میں ہم آہنگی ہے۔ جس کی بدولت آپس میں لوگ جذبات اور خیالات کو سمجھتے ہیں اور آسانی سے بات چیت کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل مہارتوں کے استعمال rapport بنانے اور بچوں کو متاثر کرنے میں معاون ثابت ہوگا:
(الف) نام سے پکارنا: بچوں سے نام لے کر مخاطب ہونے سے انھیں خود شناسی، خود اعتمادی اور احساس ذمہ داری سے آگہی ہوتی ہے۔ یہ میرا نام ہے، یہ بات مجھ سے کہی جارہی ہے، یہ اصلاح میرے لیے ہے، یہ میری تعریف ہے، یہ کام میرے ذمہ ہے، ان وضاحتوں سے بچوں کی توجہ اور دل چسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنی کارکردگی کے تئیں سنجیدہ بھی ہوجاتے ہیں۔
(ب) کہانی سنانا: کہانی سننا بچوں کو پسند ہوتا ہے۔ جو بہت سی کہانیاں سناتا ہے بچے اس سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ پچھلے وقتوں میں دادیاں اور نانیاں کہانیاں سناتی تھیں اس لیے بچے ان کے قریب ہوا کرتے تھے۔ قرآن نے جس طرح قصوں کے ذریعے ہماری رہ نمائی کی ہے ہم بھی اسی طرح سبق آموز کہانیوں کے ذریعے بچوں کی رہبری کرسکتے ہیں۔
(ج) تعریف کرنا اور انعام دینا: بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کی تعریف کرتے رہنا چاہیے تاکہ انھیں ان کی خوبیوں کا نیز اچھی کارکردگی کا اندازہ ہو۔ جھوٹی تعریف کرنا دین اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے لہذا تعریف اسی وقت کرنا مناسب ہے جب انھوں نے کوئی اچھا کام کیا ہو۔ جب والدین بچوں کی بعض چیزیں مثلا کھلونے، کلر بک، رنگین کہانیوں کی کتابیں وغیرہ بنا مقصد خرید کر انھیں دیتے ہیں تب انھیں اس کی اہمیت اتنی محسوس نہیں ہوتی جب انھیں وہ چیز بطور انعام ملتی ہے۔ عمدہ سرگرمیوں کو سراہنے کے لیے انھیں بطور انعام اس طرح کی پسندیدہ اشیا دینے سے ان کی بھرپور ہمت افزائی ہوتی ہے۔
(د) اشتراک : یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے اپنا اور بچوں کا پسندیدہ موضوع زیر بحث لایا جاتا ہے۔ باہمی کشش مماثلت پر مبنی ہے۔ جس طرح دوستوں کا انتخاب مشابہت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اسی طرح مشابہت کی وجہ سے بچوں سے ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے۔
(و) تشبیہات کا استعمال: صنعت تشبیہ سے ہم اسکول کے زمانے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اس مہارت کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو اچھے کاموں کی رغبت اور برے کاموں سے روکنا قدر آسان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چیخنے چلانے سے روکنے کے لیے ’’چیخو مت‘‘ کہنے سے بہتر ’’سڑک کے درمیان کھڑے ہوکر ایک گدھا چلا رہا تھا،اس کی آواز کسی کو بھی پسند نہیں آئی اور اسے وہاں سے بھگایا گیا۔ کیا تمھیں گدھے کی آواز پسند ہے۔ (منفی جواب پاکر) قرآن میں اللہ نے بھی اس طرز کی آواز ناپسند کی ہے‘‘ کسی بھی کام سے بنا جواز دیے روکنا قابل قبول نہیں ہوتا۔ اگر بچوں کو گدھے کا قرآن میں تذکرہ براہ راست بتایا جائے اور چیخنے سے روکا جائے تو نازک جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ اس کی آواز گدھے کی سی ہے۔ اس لیے بالواسطہ انداز تکلم کی ضرورت پڑتی ہے۔
چہارم: عزت و احترام ملحوظ رکھیں
حمیرا مودودی اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں ’’بلا مبالغہ وہ اپنے بچوں کی اتنی عزت کیا کرتے تھے جتنی دوسرے لوگ ماں باپ کی کرتے ہیں۔‘‘
چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا،ہر فرد کی اپنی عزت ہوتی ہے اس کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ماہر نفسیات بچوں کی عزت کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بے عزتی سے خوداعتمادی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ احساس کمتری لیے شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ چاہے کسی عمر کو پہنچے، بچہ اپنی ہر خوشی اور غم میں والدین کی طرف ہی رخ کرتا ہے۔ چوں کہ ماں باپ کی توجہ، تعاون، نصیحت، اظہار فخر، تسلی، حوصلہ افزائی، دادرسی ان کے مرتبے کا تقاضا ہے۔ اس لیے انھی کی طرف سے توہین ناقابلِ برداشت اور ناقابلِ فراموش زخم ہوتی ہے۔ یہ زخم انتقامی کاروائیوں پر بھی اکساتا ہے۔ جان ایم گوٹ مین، مشہور امریکی ماہر نفسیات، معالج، محقق، مصنف اور مقرر ہیں۔ آپسی تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل پر موصوف نے تحقیقات پیش کیں۔ انھوں نے The Heart of Parenting: How to Raise an Emotionally Intelligent Child کتاب لکھی، یہ بچے کی ذہنی صحت سے متعلق تربیت کے لیے تکنیکی صلاحیتوں سے آگاہ کرتی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں ’’جس بچے کی ابھی پٹائی ہوئی ہے یا اسے میلا، گھٹیا، یا بیوقوف کہا گیا ہے وہ اپنے والدین کو خوش کرنے کے بجائے ان کے خلاف انتقامی کارروائی میں زیادہ دل چسپی رکھتا ہے۔‘‘
آپ اپنے بچے کو کیا بنانا چاہتے ہیں، اس کے مستقبل کے مقام کے پیش نظر اس کا احترام کریں۔ مثلاً آپ جج بنانا چاہتے ہیں۔ اب اسے چاہے کوئی حکم دیں،پانی لانے کے لیے کہنا ہو ’’بیٹا پانی لائیے‘‘ یا اطلاع دیں، گھر بلانا ہو ’’کھیلنے کا وقت ختم ہوچکا ہے اب گھر چلیے‘‘ دوران گفتگو اس کی عزت کا خیال کیجیے۔ امام مالک ؒکی والدہ ہر جمعہ انھیں اچھے کپڑے پہنا کر گھر میں کسی اونچی جگہ بٹھاتیں اور فتوی دریافت کرتیں۔ ہمارے پاس ماضی کی طرف دیکھ کر ماتم کرنے کے لیے وقت ہے کہ محدثین و مفسرین نے ایک چھت کے نیچے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے کبھی اپنی آواز اونچی نہیں کی، لیکن لمحۂ فکریہ کیوں نہیں آتا کہ ہم نے جو بیج بویا ہے اس کی سینچائی بھی کی جائے۔ وقتاً فوقتاً پانی اور کھاد ڈالنے سے اچھی پرداخت ہونے سے سایہ دار اور پھل دار درخت کی امید رکھنا نگہبان کا حق ہے۔
پنجم: بچے کے احساسات کو سمجھیں
بچہ پیدائش کے بعد ہر قسم کی ضرورت کے لیے روتا ہے۔ اور ماں کو اس کی ضرورت کا اندازہ لگانےکے لیے جتن کرنا پڑتا ہے۔ جب یہی بچہ بات بولنے لگتا ہے تو اکثر اوقات اپنے جذبات اور احساسات کی مکمل ترجمانی نہیں کرپاتا۔ جیسے وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا چاہتا اور رونے لگتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ پاتا کہ اسے انجکشن سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ یہاں ’ڈر ‘یا ’خوف‘ ایک ایسا احساس ہے جسے وہ سمجھ نہیں پایا اور اسی لیے وہ کہہ نہیں سکتا کہ وہ کیوں ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ایسی صورت میں والدین زبردستی کرتے ہوئے یا جھوٹ بول کر بہلاتے ہوئے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ جس جذبے کو وہ نہ سمجھ سکا اسے آپ سمجھیے۔ اس احساس کو نام دیجیے۔ جذبات کی نشان دہی کراتے ہوئے بات کیجیے ۔ ’’کیا تمھیں ڈر محسوس ہورہا ہے۔‘‘ پھر اس کا خوف دور کرنے کی کوشش کیجیے اور اسے بتائیے کہ ڈاکٹر کے پاس جانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟
بچوں کے تجربات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے جذبات معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً بچہ ہومورک نہیں کرنا چاہتا، یہ سن کر والدین کو غصہ آتا ہے اور سختی کرنی پڑتی ہے۔ بچے کو موڈ نہ ہوتے ہوئے بھی ہوم ورک کرنا پڑتا ہے۔ ’’کیوں نہیں کرنا چاہتا ہے‘‘ اس کی وجہ معلوم کیجیے۔ کیا وہ اسکول سے تھک کر آیا ہے؟ اس کی تھکان کو محسوس کریں گے تو ہم اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔ ہماری گفتگو میں بھی محبت چھلک آئے گی ’’کوئی بات نہیں بیٹا اب آرام کرلینا، ہوم ورک بعد میں کرنا‘‘ ایسی ہی اپنائیت کی توقع وہ رکھتا ہے۔
ششم: فوری جذباتی مددکے لیے تیار رہیں
ڈاکٹر گوٹ مین اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ صرف محبت آپ کو اچھے والدین نہیں بنا سکتی۔ بہت زیادہ محبت کرنے والے اور بچوں کے ساتھ ہر معاملے میں شریک والدین کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اکثر وہ خود خوف یا غصے کی حالت میں ہوں یا بچے ایسی کیفیت سے گزر رہے ہوں تو وہ بات نہیں کر پاتے۔‘‘ بچوں کو جذباتی کیفیت سے گزرتے ہوئے رہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ روایتی عقل (Conventional Wisdom) ہمیشہ ہی کارآمد نہیں ہوتی کہ آپ انتہائی غصہ، خوف و غم کی حالت میں صحیح سلوک کرسکیں۔ اسی پہلو کے پیش نظر ڈاکٹر گوٹ مین نے اموشنل کوچنگ تجویز کی، جس کے ذریعے بچوں کے منفی جذبات (غصہ، غم، خوف، مایوسی) کو ہم آہنگ کرنے نیز انھیں حل کرنے کی ترغیب دینے کی ترکیبیں ملتی ہیں۔
بعض اوقات بچہ بہت اداس ہوتا ہے اور ہمیں وجہ بتانا نہیں چاہتا۔ مثلاً اسے کسی مقابلہ میں شرکت کی خواہش تھی مگر اس کا نام نہیں لیا گیا۔ وہ بے حد مایوس ہے۔ کسی طرح والدین وجہ معلوم کر لیتے ہیں اور اسے ہی لیکچر دینے لگ جاتے ہیں ’’تمھیںاس طرح نہیں ، اس طرح کرنا چاہیےتھا۔‘‘ اگر ہم اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں اور یہ سمجھ رکھتے ہیں کہ اسے فوری جذباتی مدد کی ضرورت ہے تب ہم یوں کہہ سکتے ہیں ’’تم میں بہت سی خوبیاں ہیں اور یہ تو تم بہت اچھا کرتے ہو۔ لیکن ہم مل کر اور مشق کریں گے پھر اگلی بار مقابلےمیں شرکت کرنا، ان شاء اللہ جیت تمھاری ہی ہوگی۔‘‘ تکلیف میں نصیحت، وعظ، الزام، غلطیوں کی نشان دہی وغیرہ کی نہیں بلکہ جسمانی اور جذباتی تعاون اور سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہفتم: بے محل وعظ سے گریز کریں
والدین اپنے بےجا احکامات ’’اس سے مت کھیلو‘‘ ،‘‘یہ مت کھاؤ‘‘ ،‘‘وہاں مت جاؤ‘‘ اور بے جا ہدایات ’’ہوم ورک کرو‘‘ ،‘‘دودھ پیو‘‘ وغیرہ سے اپنے بچوں کے لیے واعظ بن جاتے ہیں ، جب کہ بچوں کو شفیق سائبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے بچے ہیں جو والدین کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں کیوں کہ وہ ان سے وہی کام کروانا چاہتے ہیں جو بچے نہیں کرنا چاہتے اور انھی کاموں سے روکتے ہیں جو بچے کرنا چاہتے ہیں۔ غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے الزام دینا، طنز کرنا، انتباہ کرنا، پیشگوئی کرنا، موازنہ کرنا، دھمکی دینا اور کتنی ہی ایسی تباہ کن کوششیں ہیں ہماری، جس کے نتیجے میں ہم با ادب، باتمیز، منظم، سلیقہ مند اور کارآمد بچے دیکھنا چاہتے ہیں۔ امام غزالیؒ نے نصیحت کی ہے کہ ’’ ہر غلطی پر بچوں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے ، اس سے ان کی ذہنوں میں تنقید کو سننا عام بات اور غلطی کا ارتکاب کرنا آسان ہو جاتا ہے اور دل پر بات اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ والد کو اولاد کے ساتھ بات کی ہیبت کا حق محفوظ رکھنا چاہیے۔ وہ انھیں کبھی کبھارزجروتوبیخ بھی کرے۔‘‘
ایڈیل فیبر اور ایلین مزلیش کی کتاب How to Talk So Kids Will Listen And Listen So Kids Will Talk والدین کے لیے ورک بک کی طرح ہے، جس میں انھوں نے روز مرہ کی مثالیں پیش کرتے ہوئے بہترین تجاویز پیش کی ہیں۔ ان کے مطابق بچوں کو ان کی غلطیاں صحیح انداز میں بتائی جائیں تو انھیں ان کے مسائل کا حل بھی مل جاتا ہے اور وہ ’اپنی اصلاح آپ‘کے لیے متحرک بھی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح گھر میں تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس مشاہدے کے تناظر میں صاحبِ کتاب نے پانچ مہارتیں سکھائی ہیں:
- جو نظر آرہا ہو وہ بیان کریں
- معلومات فراہم کریں
- ایک لفظ میں بیان کریں
- اپنے احساسات کا اظہار کریں
- تحریری نوٹ لگائیں
ان مہارتوں کا استعمال کرتے ہوئے منفی جذبات کو زیر کرکے اگر ہم اس طرح کا بیانیہ اپنائیں:
- یہ کتاب پھٹ گئی ہے، اس کی جلد بندی کی ضرورت ہے۔
- شیشہ ٹوٹ کر فرش پر بکھر گیا ہے ، جھاڑو دینے کی ضرورت ہے۔
- کھلونے بکھرے ہوئے ہیں ، انھیں ترتیب سے اپنی جگہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
تب بچے اپنے مسائل کا حل بھی جان جائیں گے اور ہماری لیکچر دینے میں مستعمل توانائی بھی بچ جائے گی۔کب تک اسکول میں استاد کے پاس اور گھر میں بزرگوں کے پاس بچوں کے مسائل پیش کرتے رہیں۔ بچے کو بھی موقع دیں کہ وہ بھی مسائل کو حل کریں۔ ان کے لیے غلطیاں جاننا اتنا ضروری نہیں جتنا اس کا حل جاننا ضروری ہے۔ حل جاننے کے بعد انھیں عمل کی بھی ترغیب ملتی ہے۔
ہشتم: گفتگو جذبات کی صحیح ترجمان بنے
چہرے کے تاثرات،انداز بیان، لب ولہجے، اتار چڑھاؤ، باڈی لینگویج یہ وہ اجزا ترکیبی ہیں جو ہمارے کلام کی ترجمانی کرتے ہیں۔ غصیلے، جذباتی، تحقیر آمیز انداز بیان سے اجتناب برتتے ہوئے والدین کو مشفقانہ اور مربیانہ انداز اپنانا چاہیے۔ غضب ناک آنکھیں، لال چہرہ، ماتھے پر سلوٹیں، ہاتھ اوپر اٹھا ہوا ان عادتوں پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ ہرچند کہ پدرانہ فکریں اور ممتا کے اندیشے ظاہر ہونا چاہیے لیکن محبت، شفقت، انسیت، اپنائیت سے لبریز رشتے پر زنگ لگنا مناسب نہیں۔
نہم: آپ کا کردار بھی بولے
اسلام نے زندگی کے ہر گوشے میں مومن کو کام یابی کے راز سکھائے ہیں۔ یہ حسن گفتگو ہے کہ مومن جھوٹ، غیبت، تجسس، لعن طعن، گالی گلوچ، برے القاب کے استعمال نیز افواہ، بدگمانی، چغلی سے اپنی زبان کو پاک رکھے۔ والدین بننے کے بعد ان ساری تعلیمات کا بالخصوص مطالعہ کرتے رہیے اور اپنا جائزہ لیتے رہیے۔ مثلاً بچے اپنی امی کو غیبت کرتا دیکھتے ہیں اور وہی بعد میں انھیں غیبت سے بچنے کی تعلیم دیتی ہیں۔ قول و عمل کے اس تضاد کے بعد عملی طور پر جو بچے جو دیکھتے ہیں اسی کو اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک باپ بچے سے جھوٹ کہلوانا چاہتا ہے کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ غور طلب بات ہےکہ اب بچےکو جھوٹ بولنے سے کیسے روکا جائےگا؟ یہ چھوٹی چھوٹی خطائیں ہی بڑے بڑے گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں۔
تربیت اولاد ہمہ آن والدین کی بہت نازک ڈیوٹی ہے۔ اس میں ہمیں رشد و ہدایت کا روشن آئینہ بن کر پیش ہونا ہے۔ آپ کی ذرا سی لاپروائی، بے فکری، دین سے بے رغبتی نسلوں کو گناہوںمیں ملوث کرسکتی ہے۔ وہیں دین کے تئیں سنجیدگی اور دیانت داری دنیا و آخرت میں فوز و فلاح کی ضامن بنتی ہے۔
الغرض گفتگو، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والا عمل ہے۔ آج ہم جن الفاظ، جملوں اور لہجوں کا استعمال کررہے ہیں کل وہی ہماری طرف پلٹ کر آنے ہیں۔ لہذا ، اچھی گفتگو کیجیے۔ اچھا مستقبل آپ کا منتظر ہے۔
(مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ ، اسلامی ریسرچ اکیڈمی ، کراچی سے شائع شدہ حفصہ صدیقی کی ورک بک نما کتاب ’’بچوں سے گفتگو کیسے کریں‘‘ بھی اس موضوع پر عمدہ کتاب ہے۔)
مشمولہ: شمارہ فروری 2022