اللہ تعالی نے انسانوں کو بلا تفریق نسل و جنس کرامت بخشی وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ (اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت کا مقام عطا کیا)۔ اس کرامت کا اظہار انسان کی فطری صلاحیت اور صالحیت میں ہوتا ہے۔ اس کرامت کی حفاظت فرد کی بھی ذمہ داری ہے اور اجتماعیت کی بھی۔ انسانی تکریم کا اعتراف ملکوتی صفت ہے اور اس کا انکار ابلیسی صفت ہے۔ مشکل یہ ہے کہ انسان کے اندر ملکوتی اور ابلیسی رجحانات کے درمیان کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے۔ جب انسانی معاشرہ پر ملکوتی صفات کا غلبہ ہوتا ہے تو ہر شخص کی جان، مال، عزت، آبرو اور دین ہر طرح کی دست درازیوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور جب ابلیسی صفات کا تسلط ہوتا ہے تو اللہ تعالی کے عطا کردہ انسانی حقوق پامال ہونے لگتے ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور پامالی کا سلسلہ ہر دور میں نظر آتا ہے چاہے قدیم دور فرعونی ہو یا جدید دور جمہوری۔ چارلس ڈکنزنے اپنے شہرہ آفاق ناول ‘دو شہروں کی کہانی‘ میں فرانس کے اس انقلاب کی تصویر کشی کی ہے جسے دور جدید میں عوامی یا جمہوری انقلاب کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
It was the best of times, it was the worst of times, it was the age of wisdom, it was the age of foolishness, it was the epoch of belief, it was the epoch of incredulity, it was the season of Light, it was the season of Darkness, it was the spring of hope, it was the winter of despair.
چارلس ڈکنز نے ان مشہور جملوں سے اپنی کتاب ’دو شہروں کی کہانی‘ کا آغاز کیا ہے تاکہ فرانسیسی انقلاب کے اس معمے کو بیان کر سکے جو انسانی اور شہری حقوق کے بلند بانگ دعوے کے ساتھ رونما ہوا تھا۔ ٹھیک یہی الفاظ بیسویں صدی کے عالمی انقلابات کے معمے پر صادق آتے ہیں جو انسانی حقوق اور سب کے لیے جمہوری آزادی کے نام پر برپا ہوئے۔ دنیا میں اگر ایک طرف لگاتار دستوری جمہوری مملکتوں کے وجود میں آنے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات بھی مسلسل جاری ہیں۔
انسانی حقوق کی پاس داری کے لیے ضروری ہے کہ اس کا شعور بھی عام کیا جائے اور اسی کے ساتھ اس کے تحفظ کی کوششیں بھی مستقل جاری و ساری رکھی جائیں۔ فرد جس قدر انسانی حقوق کے سلسلے میں حساس ہوگا، معاشرہ اس کے تحفظ کے لیے جس قدر متحرک ہوگا اور ریاستی ادارے جس قدر عوامی دباؤ سے جواب دہ بنائے جائیں گے اسی قدر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کمی آتی جائے گی اور لوگ امن و سکون کی زندگی گزارنے کے لائق ہو سکیں گے۔
حقوق انسانی کی آفاقی قدریں
انسانی حقوق کی کچھ آفاقی قدریں ہیں جن کا احساس اللہ تعالی نے ہر انسان کو بخشا ہے۔ چناں چہ دنیا کی مختلف مذہبی تعلیمات میں انسانی حقوق کی پاسداری ایک اعلی اخلاقی قدر اور حسن عمل کے طور پر موجود ہے۔ لیکن اسلام نے، جو ہر دور میں آنے والی الہی ہدایت کا محافظ اور جامع ہے، اس بنیادی قدر کو انسانی طرز زندگی میں اس طرح گوندھ دیا ہے کہ وہ بندگئ رب، تزکیۂ نفس اور اخروی فلاح سے وابستہ و پیوستہ ہوگئی ہے۔ چناں چہ عملی کوتاہیوں کے باوجود حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا تصور امت میں ایک لازمی اور نمایاں خصوصیت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ قرآن اور نبوی تعلیمات میں ان حقوق کو جس اہمیت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں برتنے کی تاکید کی گئی ہے اس کی بنا پر مسلم فقہا نے باضابطہ حقوق العباد کے عنوان سے قانونی تقاضے مرتب کیے ہیں۔ اسی لیے زیر دست افراد کے حقوق، عورتوں بچوں بوڑھوں کے حقوق، پڑوسیوں، محتاجوں مسافروں کے حقوق، دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور اسی طرح مختلف کیٹیگری کے تعینات کے ساتھ حقوق کی تفصیل اور درجہ بندی اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت اور تقاضوں کا احاطہ کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ان حقوق کے سلسلے میں یقین کے باوجود جو حساسیت اور عمل آوری مطلوب ہے وہ مسلم ممالک میں کم ہی نظر آتی ہے اور بسا اوقات سیاسی مفادات، مادی حرص اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے بہت سارے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کا اجتماعی پہلو
انسان کے ان فطری حقوق کی پاسداری، جو اللہ تعالی کے ودیعت کردہ ہیں فرد، معاشرہ اور ریاست سب پر لازم ہے۔ کسی بھی صورت میں ان حقوق پر دست درازی جائز نہیں۔ تفصیلات سے قطع نظر اصولی طور پر اسلامی شریعت ان تمام حقوق کے تحفظ کی تاکید کرتی ہے جو انسانی جان، انسانی تکریم، انسانی مساوات، انسانی خود اختیاری اور انسانی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری فرد، معاشرہ اور ریاست تینوں پر عائد ہوتی ہے اور ان پہلوؤں سے جو بھی خلاف ورزی کرے گا اسے جواب دہی اور مواخذہ کا سامنا کرنا ہوگا- جواب دہی کے طور پر اس دنیا میں اور مواخذہ کے طور پر آخرت میں۔ انسانی حقوق کی ان قدروں کی پاسداری میں غفلت بھلے ہی مختلف انسانی گروہوں میں کم یا زیادہ پائی جاتی رہی ہے لیکن یہ قدریں آفاقی ہیں ہر انسانی گروہ انھیں خیر قرار دیتا رہا ہے۔
حقوق انسانی کی پامالی – فرد، معاشرہ اور ریاست
دور جدید میں قومی ریاستوں کی تشکیل اور ریاستی اداروں کی قوت قاہرہ کے پیش نظر انسانی حقوق کا معاملہ فرد اور ریاست کے درمیان تعلق کے نقطۂ نظر سے زیر بحث لایا گیا ہے۔ ریاست جیسے طاقتور اجتماعی ادارے میں فرد کے بنیادی حقوق کیا ہیں جن کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور جن کی خلاف ورزی پر عمال حکومت کو جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا؟ اس سوال پر نظریاتی اور قانونی مباحث کا سلسلہ شروع ہوا، عوامی انقلابات آئے، جمہوری جدوجہد شروع ہوئی اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد طویل غور و فکر کے نتیجے میں درج ذیل معرکہ آرا عالمی اعلامیے جاری کیے گئے:
(1) حقوق انسانی کا عالمی منشور 1948
(2) شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ 1966
(3)
مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر مذہبی عدم برداشت اور تفریق سے متعلق اقوام متحدہ کا اعلامیہ 1981
(4) وثیقہ ویانا 1989
(5) اقلیتوں سے متعلق اقوام متحدہ کا اعلامیہ 1992
جنگ عظیم دوم کے بعد پہلے مرحلے میں انسانی حقوق کے اعلامیوں اور دوسرے مرحلے میں اس کے نفاذ کے لیے قومی ریاستوں میں قانون سازی کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن یہ دونوں ہی مرحلے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ناکافی ثابت ہوئے۔ تیسرا مرحلہ جو زیادہ توجہ چاہتا ہے وہ ہے معاشرے میں انسانی حقوق کے کلچر کا فروغ۔ چناں چہ اس پہلو سے پوری دنیا میں بیداری کی سگبگاہٹ شروع ہوئی جس میں اسلامی تحریکیں اور ان کے مفکرین بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے عوامی بیداری، سماجی سرگرمی اور ریاستی اداروں کی جواب دہی کے لیے عالمی سطح پر جو کوششیں جاری ہیں ان میں تحریک اسلامی کے افراد کی سرگرمیاں بہت نمایاں نہیں ہیں حالاں کہ حکومتوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کا ایک بڑا ہدف خود اسلامی تحریکوں کے افراد رہے ہیں۔ شاید رسمی مذہبیت میں اسے کم تر ترجیح کا سمجھنے کی وجہ سے دیندار طبقے میں اس کے لیے بہت ہی کم فعالیت نظر آتی ہے حالاں کہ مذہبی مفکرین اور تحریکی دانش ور اس کی دینی اہمیت اجاگر کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں۔ خود مولانا مودودیؒ نے آج سے ساٹھ سال قبل اس موضوع کی دینی حیثیت اور انسانی حقوق کی اسلامی علمبرداری پر مدلل و مؤثر انداز میں روشنی ڈالی تھی اور تقسیم ملک کے بعد ان کی اجتماعی جدوجہد میں اس پر بھرپور توجہ نظر آتی ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی کئی میقاتوں کی پالیسی میں بھی اسے اہم سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔
حقوق انسانی کی ادارہ جاتی شکلیں
ریاستی قوت کے بالمقابل فرد کی بے چارگی کا تصور آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ جمہوری اور آمرانہ دونوں ہی طرح کی حکومت میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور کھلی پامالیوں کے خلاف منظم جدوجہد کے لیے تقریباً تمام ملکوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا آغاز ہوا اور کئی عالمی ادارے بھی صرف اسی کاز کے لیے وجود میں آئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، وغیرہ۔ ہندوستان میں بھی کئی ادارے اور گروپ مختلف النوع حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ خود تحریک اسلامی کی پہل سے وجود میں آنے والی تنظیم انجمن برائے تحفظ شہری حقوق (APCR) نے گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں سے ملک کے مختلف حصوں میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے اور محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن تحفظ حقوق کی دیگر تنظیموں اور افراد سے مل کر اپنی آواز بھی بلند کی ہے اور قانونی طریقوں سے متاثرین کی مدد بھی کی ہے۔ اے پی سی آر اور اس جیسی دیگر انجمنوں سے وابستہ کارکنوں کے سامنے حکومتی اہلکاروں کی طرف سے انسانی اور شہری حقوق کی پامالی کے خلاف سینہ سپر ہونا بڑے حوصلے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ایسی مؤثر تدابیر کا بھی تقاضا کرتا ہے جو ایک طرف حکومتی اہل کاروں کی ذہن سازی اور حقوق انسانی کے لیے ان کی حساسیت کو بیدار کر سکے اور دوسری طرح سیاسی اور قانونی ایڈووکیسی کے ذریعے حکومتی اہلکاروں کو حقوق انسانی کا خیال رکھنے کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود شہری اور انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات رونما ہوں گے۔ اس لیے ایک اہم محاذ مشترکہ عوامی بیداری اور جدوجہد کا ہے، تاکہ معاشرہ زیادہ سے زیادہ اس طرح کے معاملات میں حق کی آواز بن سکے اور ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری سے ان کوششوں کو بار آور ہونے کا موقع ملے۔
حقوق انسانی اور تحفظ ملت میں ربط و تعلق
تحفظ ملت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ملت خود داخلی طور پر اپنی کم زوریوں کو دور کرے۔ مختلف اسباب سے اخلاقی، تعلیمی، معاشی گراوٹ نے بحیثیت مجموعی ملت کو ملک کی دیگر آبادی کے مقابلے میں پسماندہ کر دیا ہے۔ داخلی کم زوری پر قابو پائے بغیر ملت کی ترقی کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا۔ لیکن اسی کے ساتھ ملت کی یہ بھی ضرورت ہے کہ بحیثیت ملت اس کی حق تلفیوں کو دور کرنے میں جہاں جہاں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے اس پر رائے عامہ کے دباؤ، وکالت اور قانونی طریقے اختیار کیے جائیں۔ اگر ملت خود اپنی حق تلفیوں کے سلسلے میں بیدار نہ ہو اور جمہوری نظام حکومت میں ان حق تلفیوں کے ازالے کے لیے معقول اور مؤثر اقدامات سے غافل رہے تو اس کی توقع شاید ہی کی جا سکتی ہے کہ از خود حکومت اس کی طرف متوجہ ہو۔
ہمارا لائحہ عمل اور اس کے تقاضے
انسانی حقوق کا تحفظ اور تحفظ ملت ایک دوسرے کے ساتھ دو پہلوؤں سے مربوط ہیں : اوّل تحفظ ملت کا تعلق اس بات سے ہے کہ سیاسی حکم رانوں اور انتظامی اہل کاروں کو شہریوں کے حقوق کے سلسلے میں رابطہ کاری اور قانونی اقدامات کے ذریعے حساس اور جواب دہ بنایا جائے، دوم عوام کے اندر خود اپنے حقوق کے تحفظ کا جذبہ بیدار کیا جائے اور اس کے لیے انھیں سرگرم کار کیا جائے۔ ان دونوں سرگرمیوں کا تقاضا ہے کہ اس کام کو تمام انصاف پسند اور انسانیت دوست افراد اور گروہوں کے ساتھ مشترکہ طور پر انجام دیا جائے۔
جہاں تک عام انسانی اور شہری حقوق کا معاملہ ہے تو اس محاذ پر ملت کی نمائندگی ناقابل لحاظ ہے۔ اس نمائندگی کو عددی اور فعالیت دونوں اعتبار سے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ملت کے سرگرم افراد اور بااثر شخصیات کو متوجہ بھی کریں اور انھیں اے پی سی آر سے وابستہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ ایک تنظیمی نیٹ ورک ہندوستان گیر سطح پر قائم ہو سکے۔ یہی نیٹ ورک حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں کے ساتھ اشتراک عمل کرنے میں مؤثر ثابت ہوگا۔ ملت کے درمیان سے کچھ ایسے افراد کو نظریاتی، قانونی اور عملی اعتبار سے تربیت دینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ کام کی اہمیت اور میدان عمل میں پیش آنے والی مشکلات کو مہارت سے حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں زیادتی کے شکار افراد اور خاندانوں سے رابطہ، مقامی سطح پر سماج کو متحرک کرنا، پیروی کاری اور قانونی طور طریقوں کے جانکاروں سے ربط و تعلق اور میڈیا کے ذریعے ظلم و زیادتی کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری جیسے گوناں گوں کام ہیں جو ظاہر ہے صرف تحریک کی افرادی قوت کے بل بوتے سے انجام نہیں پا سکتے اور نہ ہی یہ مطلوب ہے۔
رہا معاملہ تحفظ ملت کا تو اس سلسلے میں بھی ہمارا کام اصلا ملت کو متحرک کرنا اور ان کے درمیان سے باصلاحیت اور پروفیشنل افراد کو ڈھونڈھ کر سرگرم کار کرنا ہے۔ ہم آغاز کریں اور انھیں اوقاف کے تحفظ و ترقی، حکومت کی تعلیم، صحت، معاشی ترقی اور دیگر رفاہی اسکیموں سے متعلق پلیٹ فارم اور سہولت کاری مہیا کرنے کی کوشش کریں۔ ہماری کوششوں کا زیادہ زور بنیادی طور پر ملت کے افراد کی حوصلہ افزائی اور ان کی سرگرمیوں کو مستقل طور پر جاری رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ہمارے درمیان اگر کچھ ایسے باصلاحیت افراد ہوں جو تحفظ ملت کے میدان میں سرگرم لوگوں کی مناسب رہ نمائی کرسکیں تو انھیں اس محاذ کی ذمہ داری دینی چاہیے۔
اس راہ کی دشواریاں
اب تک کے تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اس طرح کی کوششوں میں کئی طرح کی عملی دشواریوں، قانونی پیچیدگیوں، اور کبھی کبھی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک طرف تحفظ ملت کے لیے سرگرم کار افراد کو بیدار مغز بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رخ دینے والوں کے ہتھکنڈوں سے بچا سکیں اور اس کا بروقت تدارک کرنے میں چوکس ہوں۔ دوسری طرف مقامی سطح پر مشاورت اور قانونی مدد کا میکنزم بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت مناسب قانونی اقدامات کیے جا سکیں۔ ایک اہم مسئلہ جو اس طرح کی سرگرمیوں میں سامنے آتا ہے وہ سماجی کارکنوں کے کسی مشکل میں پڑ جانے پر ان کے اہل خانہ کی ضروریات کی تکمیل سے متعلق ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کی پشتیبانی کے لیے سماج اور ملت سے وسائل فراہم کیے جائیں۔
عوامی بیداری، سماجی روابط، قانونی جانکاری، سیاسی وکالت اور مالی پشتیبانی کے سلسلے میں جتنی چوکسی اور تائید حاصل ہوگی اسی قدر اس محاذ پر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی جدوجہد کو کام یابی حاصل ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2022