اللہ تعالیٰ نے کائنات اور زمین کو اپنی تمام جاندار مخلوقات کی ساری جسمانی اور مادّی ضروریات کے لیے رزق اور جملہ وسائل حیات سے معمور کردیاہے۔ ان مخلوقات میں ایک ذی عقل مخلوق ‘انسان’ ہے، جس کی ضروریات مادی وجسمانی ضروریات کے ساتھ روحانی اور اخلاقی ضروریات بھی شامل ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس خصوصی خلقت کی مناسبت سے اوّل تو اس کی سرشت اور فطرت میں ہی روحانی واخلاقی داعیات پیدا کردیے، ساتھ ہی انبیا و رُسل اور ان پر نازل ہونے والے الوہی کلام کے ذریعے، الگ سے بھی، انسان کی ذاتی و سماجی اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے سارے میدانوں، نیز تمام گوشوں میں مفیداور منفعت بخش رہ نمائی کا انتظام فرمایا۔ کسب و صَرف اور معاشیات و اقتصادی انسانی زندگی کا نہایت اہم حصہ ہے اور اس کا دائرہ زندگی کے دوسرے میدانوں تک بھی پھیلاہواہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی واقتصادی معاملے میں عام انسانوں کے لیے پوری رہ رنمائی اور مومنین کے لیے منصوص اور واضح احکام و تعلیمات کے ذریعے ضروری ہدایت فرمائی ہے۔ سودی معیشت واقتصاد کئی صدیوں سے ہزاروں سال سے انسانی معاشرے میں رائج رہاہے۔ سودی معیشت کو عموماً لوگ غیرمتوازن نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس میں انھیں صرف ‘‘فائدہ’’ نظرآتاہے۔ خود غرضی کی نفسیات، سود کی قباحتیں اور وسیع تر نقصانات دیکھنے پر انھیں آمادہ نہیں ہونے دیتی۔ اسلام ایک نظامِ عدل و رحمت اور ایک عظیم نجات دہندہ تحریک ہے۔ لہٰذا اس نے سود کے مسئلے کو نہایت سنجیدگی اور باریکی کے ساتھ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اللہ نے نوعِ انسانی کی قطعی، حتمی اور آخری ہدایت کے طورپر سود کو بالکل حرام قرار دے دیا۔
قرآن مجید میں حُرمت سود
قرآن مجید میں چھے آیات میں سود سے متعلق تعلیمات اور احکام ہیں:
﴿۱﴾ جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔ ﴿الروم:۳۹﴾
﴿۲﴾ جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کاسا ہوتاہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہو اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ‘تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے۔’ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اُس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سودخوری سے باز رہ جائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا، سو کھاچکا۔ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو ﴿اس کے حکم کے بعدپھر﴾ اسی حرکت کااعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ ﴿البقرہ:۲۷۵﴾
﴿۳﴾ اللہ تعالیٰ سودکو مٹاتاہے اور صدقہ کو بڑھاتاہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔﴿البقرہ: ۲۷۶﴾
﴿۴﴾ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑدو۔﴿البقرہ:۲۷۸﴾
﴿۵﴾ لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو ﴿اور سود چھوڑدو﴾ تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیاجائے۔ ﴿البقرہ:۲۷۹﴾
﴿۶﴾ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتااور چڑھتاسود کھانا چھوڑدو اور اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچو تاکہ فلاح پائو۔ ﴿آل عمران: ۱۳۰﴾
کچھ لوگ سود لینے اور سود دینے میں فرق کرتے ہیں۔ لیکن سود لینا اور دینا، ایک ہی عمل کے دو لازم و ملزوم پہلو ہیں۔ کسی کے لیے سود لینا اسی وقت ممکن ہے، جب کوئی دوسرا اسے سود دے۔ یہ دو فریقوں کے درمیان ایک ملا جلا غیرمنفک معاملہ ار ایک نظام ہے جسے چلانے، قائم رکھنے اور فروغ و استحکام دینے میں دونوں کابرابر حصہ ہوتاہے، اگرچہ کیفیتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ مزید برآں قرآن کے بہت سے احکام مجمل اور مختصر ، محض اشاروں میں ہوتے ہیں، جن کی تفصیل حضور کی سنت ، آپﷺ کے اقوال مبارکہ ﴿احادیث﴾ اور آپ کے عملی نمونے اور اسوہ سے ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت کا ماخذ صرف قرآن نہیں، بل کہ قرآن اور سنت دونوں ہیں۔
احادیث میں حرمت سود
﴿۱﴾حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ سود لینے اور کھانے والے پر، سود کھلانے والے اور دینے والے پر، دستاویز سود لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر حضورﷺ نے لعنت فرمائی ہے اور فرمایاہے کہ ’’وہ سب ﴿اصل گناہ کی شرکت میں برابر ہیں۔‘‘﴿مسلم شریف﴾
﴿۲﴾ سود کا ایک درہم بھی، جس کو آدمی جان بوجھ کر کھائے، چھتیس دفعہ زنا کرنے سے بڑھ کر سنگین جرم ہے۔ ﴿احمد،دارقطنی، عن عبداللہ بن حنظلہ﴾
سنت نبویﷺ اور سود کاسدباب
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں ۹ذی الحجہ کو میدان عرفات میں جو جامع خطبہ ارشاد فرمایاتھا، اس میں آپﷺ نے فرمایا:
’’لوگو! میری بات سن لو، کیوں کہ میں نہیں جانتاکہ اس سال کے بعد اس مقام پر تم سے کبھی مل سکوںگا۔ جاہلیت کا سود ختم کردیاگیا اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کاسارا سود ختم ہے۔‘‘ ﴿ابن جریر، جلد:۳، صفحہ:۱۷﴾
سود کے ’’جواز‘‘ کے دلائل
سود کو جائز قرار دینے کے عموماً دو دلائل دیے جاتے ہیں:
﴿۱﴾ دارالحرب میں غیرمسلم سے سودی لین دین جائز ہے۔ ورنہ مسلمان غیر مسلمانوں سے معاشی طورپر کمزور اور پسماندہ رہ جائیں گے۔
﴿۲﴾ سود کی حرمت کاروباری قرض کے سود کے لیے نہیں، صرف غیرکاروباری سودی قرض کے لیے ہے۔ کیوں کہ سود کی حرمت کا حکم آیاتھا تو عرب میں کاروباری قرض کا رواج نہ تھا، اس وجہ سے ایسے سود کو حرام قرار دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتاتھا۔
دارالحرب میں سود
سودکو قرآن اور حدیث کے ذریعے مطلقاً حرام قرار دیاگیاہے۔ دارالحرب اور دارالامن کی بحث اور شرط کہیںبھی مذکور نہیں ہے۔ یہ بعد کے دور کااجتہادی نکتہ ہے اور علما اور فقہا میں دارالحرب کی دلیل پر اجماع نہیں ہے۔
جدید دور میں بالعموم دارالحرب اور دارالاسلام کی بحث غیرمتعلق ہوچکی ہے۔ علاوہ ازیں علماے اسلام نے باضابطہ اجتہاد کرکے بہ اجماع آج کے ہندستان کو دارالحرب قرار دے دیا ہو، ایسا نہیں ہے۔ اس لیے دارالحرب کی دلیل یہاں مسلمانوں پر لاگو نہیں ہوتی اور پھر معاشی پسماندگی یا خوش حالی کے ضمن میں دو ایسی قوموں کاموازنہ کرنا سراسر غلط ہے، جن میں سے ایک کے ہاں حرام اور حلال معیشت کاکوئی واضح و متعین تصور نہ ہو، جب کہ دوسری قوم کے عقیدہ و ایمان میں حرام وحلال کی تمیز کو لازمی مقام حاصل ہو۔
کاروباری قرض پر سود
قرآن اور حادیث میں سود کی حرمت بیان کرتے وقت کاروباری اور غیرکاروباری میں فرق نہیں کیاگیاہے۔ بل کہ سود کو بہ جاے خود حرام قرار دیاگیاہے۔ یہ بات غلط ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سود پر کاروباری قرض کا رواج عرب میں نہیں تھا۔ یہ رواج صدیوں پہلے سے عرب میں چلاآرہاتھا، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھا۔ یہ بات اُس دور کی تاریخ کے مطالعے سے ثابت ہوجاتی ہے۔ مزید برآں سورہ بقرہ:۸۷۲ ‘جو کچھ سود تمھارا لوگوں پر باقی رہ گیاہے، اسے چھوڑدو’ کی تفسیرکرتے ہوئے ضحاک لکھتے ہیں:
’یہ وہ سود تھا، جس کے ساتھ ﴿ایّامِ﴾ جاہلیت میں لوگ خریدوفروخت کرتے تھے۔‘ ﴿سود، مولانا مودودیؒ ص:۲۶۲بہ حوالہ:ابن جریر، جلد۳، ص:۷۱،﴾
قتادہ بھی اس کی تفسیر تجارتی سود سے ہی کرتے ہیں۔ ﴿بہ حوالہ ابن جریر، جلد:۳، ص:۶۷﴾
سُدّی لکھتے ہیں:
’’یہ آیت عباس بن عبدالمطلب اور بنی المغیرہ کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ان دونوں نے باہم شریک ہوکر لوگوں کو سودی قرض پر مال دے رکھاتھا۔ جب اسلام آیاتو ان دونوں کا بڑا سرمایہ سود میں لگاہواتھا۔‘‘ ﴿بہ حوالہ:ایضاً، ص:۲۶۳،ابن جریر، جلد۳، ص:۷۱،﴾
تجارت کے منافع اور سود میں فرق
جیساکہ اوپر گزرچکا ﴿البقرۃ:۲۷۵ میں﴾ اللہ تعالیٰ نے تجارت کے منافع اور سود کی رقم کو یکساں ہونے کو رد فرمایاہے۔ پھر تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیاہے۔ تجارت اور سود میں فرق کی واضح شکل یہ ہے :
تجارت میں نفع بھی ہوسکتاہے اور نقصان بھی جب کہ سود لینے والے کو صرف فائدہ ہی فائدہ کی ضمانت ہوتی ہے۔
کاروبار میں لگاہوا پیسہ ڈوب بھی سکتاہے جب کہ سودی معاملے میں اصل سرمایہ محفوظ رہتاہے۔ نقصان ہونے یا سرمایہ ڈوب جانے کاخطرہ (Risk)نہیں ہوتا۔
تجارت میں منافع متعین نہیں ہوتا۔ یہ کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ جب کہ سود کی رقم طے ہوتی ہے، کم زیادہ نہیں ہواکرتی۔
کاروبارمیں ایسا بھی ہوسکتاہے کہ ’ نہ منافع ہو، نہ نقصان‘ (No loss, No Profit)لیکن کاروباری سودی قرض میں تو قرض دینے والے کا یقینی منافع ہے اور لینے والے کا یقینی نقصان۔ اس صورت میں کہ اسے ہر حال میں سود کی رقم اپنے پاس سے نکالنی ہے۔ تجارت میں فائدہ ہوتو اپنے فائدے کی رقم میں سے، اور نقصان ہوتو اپنی جیب سے اور ایسی جیب سے جو پہلے سے ہی مقروض ہے۔ لہٰذا تجارت کا منافع بالکل الگ چیز ہے اور سود بالکل الگ چیز۔ اس میں قرض لینے والے قرض دینے والے کے ذریعے بہرحال استحصال ہوتاہے۔ اِسی وجہ سے اللہ نے سود اور تجارت کے منافع میں فرق کرکے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیاہے۔
آج کے عملی اِشوز
مسلمان عام طورپر سود کو حرام ہی سمجھتے ہیں۔ یہ خوشی، اطمینان اور اللہ کے شکر کا مقام ہے۔ لیکن کچھ مسائل اور اِشوز ہیں جن میں بہت کنفیوژن پایاجاتاہے۔ مثلا:
۱﴾بینک کا سود
بینک میں حفاظت کے لیے یا چیک /ڈرافٹ وغیرہ سے لین دین کرنے کے لیے رقم رکھنا آج کی ضرورت بن گیاہے۔ اس رقم ﴿سیونگ اکائونٹ﴾ پربینک سود دیتاہے۔ اس سلسلے میں سود کو جائز قرار دینے کے دو دلائل دیے جاتے ہیں:
یہ ’ رقم جمع کرنا، ایک طرح سے بینک کے ساتھ اکائونٹ ہولڈر کا کاروبار ہے اور بینک سے جو سود ملتاہے اس کی حیثیت کاروباری منافع کی ہے۔‘ لیکن یہ دلیل غلط ہے۔
بینک کے ساتھ پہلے مرحلے میں ڈپازیٹر کا معاملہ کسی بھی طرح سے کاروباری نوعیت کانہیں ہوتا۔ دونوں کے درمیان لین دین، نفع و نقصان میں دونوں کی شراکت داری اوردیگر متعلقہ شرائط کے ساتھ نہیں ہوتا۔
دوسرے مرحلے میں جب کہ بینک ڈپازیٹرکاپیسہ کسی کو قرض دیتاہے تو یہ لین دین بھی کاروباری طریقے پر نفع و نقصان دونو ں میں شراکت داری کی شرط اور معاہدے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ رقم ہوتی تو ہے ڈپازیٹر کی ، لیکن اسی رقم کو جب بینک آگے کسی کو قرض پر دیتاہے تو اس لین دین میں ڈپازیٹر کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
بینک ڈپازیٹر کی رقم کو کاروبار میں لگانے کے بجائے بڑی سود کی در ﴿مثلاً ۰۲فیصد﴾ پر دوسرے کو قرض دے دیتاہے اور اسی سود کی رقم میں سے معمولی سا حصہ ﴿مثلاً ۴ فیصد﴾ ڈپازیٹر کو بطور سودا ادا کردیتا ہے۔
کاروبار میں فائدہ کم یا زیادہ ہوسکتا ہے جب کہ بینک ، ڈپازیٹر کو ’منافع سمجھاجانے والا‘ جو سود دیتاہے وہ پہلے سے ایک طے شدہ فیصد رقم ہوتی ہے۔
’بینک سے سود مانگا نہیں جاتا، وہ خود دیتاہے اور خوشی سے دیتاہے، اس میں اس کا استحصال نہیں ہوتا، جب کہ سود کی حرمت، استحصال کی وجہ سے ہے‘ یہ دلیل بھی غلط ہے۔
اصل سرمایہ پر زیادہ رقم لینا سود قرار دیاگیا تو اس کی علت یہ نہیں بیان کی گئی کہ سود دینے والا مجبوری کی حالت میں اور ناخوشی سے دے تب تو یہ حرام ہے اور خوشی سے دے تب حلال۔
کسی سرمایے پر زائد مال حاصل کرنے کے سود ہونے کی جو علّت اسلام بیان کرتاہے، وہ اگر موجود ہے تو وہ سود ہی ہوگا۔ خوشی یا ناخوشی سود کے سود ہونے کی وجوہ کو ساقط نہیں کرتی۔ مزید برآں، بینک، ڈپازیٹرس کے ہی پیسے سے لوگوں کو سود دیتا ہے۔ اس طرح سودی نظام کے چلنے میں ﴿اور اس کے ذریعے دوسرے ضرورت مند و پریشان حال لوگوں کااستحصال کرنے میں بالواسطہ﴾ ڈپازیٹرز کاہی اصل اور بنیادی رول ہوتاہے۔
بسااوقات بینک کے مقروض اشخاص کے مکانات ، جائداد، کارخانے ﴿جنھیں رہن رکھ کر انھیں بینک سود قرض دیتاہے﴾ قرض کرلیے جاتے ہیں۔ کسی کی مکمل تباہی واقع ہوتی ہے اور ڈپازیٹر کو اس تباہی کی رقم سے سود بھی ملتاہے اور اصل رقم بھی۔
۲﴾پراویڈنٹ فنڈکا سود
پی-ایف میں ایمپلائی کی رقم اور اس کے برابر ملائی گئی ایمپلائر کی رقم جائز ہے اور اس پر جو سود در سود ملتاہے وہ حرام ہے۔ لہٰذا پی-ایف کا فنڈ ملے تو حساب لگاکر سود اور ساتھ ہی سود در سود کی رقم معلوم کرنی چاہیے اور اسے نکال دینا چاہیے۔ یہ ایمپلائی کی اپنی رقم نہیں ہے۔ لہٰذا اسے اپنی ملکیت/استعمال میں لانے کے بجائے ہٹادینا چاہیے۔ کسی کو دیتے وقت کسی احسان، بھلائی، نیکی اور ثواب کاخیال بھی دل میں لانا جائز نہیں ہے۔ علما کہتے ہیں کہ کسی شدید ضرورت مند ﴿مفلس، محتاج، اپاہج، بیمار فرد﴾ کو جو بہت مجبور اور مستحق ہو یہ رقم دے دینی چاہیے۔ کچھ علما مسجد کے بیت الخلا وغیرہ کی تعمیر میں بھی ایسی رقم خرچ کرنے کو درست نہیں مانتے۔ یہ ایک بڑی رقم ہوتی ہے، لہٰذا اس کو نکال دینے کے لیے حرام سے نفرت، اللہ و سول کی نافرمانی سے بچنے کا جذبہ اور آخرت کے عذاب کا خوف شدید ہونا ضروری ہے۔ دنیا کے لیے آخرت کو تباہ کردینا اُس گھاٹے سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ گھاٹے کا سودا ہے، جو اِس عارضی زندگی میں ایک مومن کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
۳﴾ بیمۂ زندگی اور اس کا سود
بیمۂ زندگی ﴿لائف انشورنس﴾ کا رواج مسلمانوں میں کافی ہے۔ کچھ لوگ اس کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر جاننے کی پروا ہی نہیں کرتے، صرف اس کا فائدہ دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو کچھ تردد تو ہوتاہے پھر بھی اس کے فائدے کو دیکھ کر اسے اختیار کرلیتے ہیں۔ بیمہ میں دو بڑی قباحتیں ہیں۔
اوّل: اس کی حیثیت جوا ﴿قمار﴾ کے مشابہ ہے۔ پالیسی مے چیورہونے تک ایک شخص اگر زندہ رہتا ہے تو بیمے کی پوری رقم پاجاتاہے۔ اگر وہ پہلے ہی مرگیا تو ،مثلاًساٹھ ہزار کی پالیسی میں صرف دوچار ہزار کا ہی پریمیم اس نے جمع کیا ہوتو اُس کے ورثا کو ساٹھ ہزار ہی رقم ملتی ہے۔ دوچار ہزار لگاکر ساٹھ ہزارپانا جواہے۔
دوم: کمپنی، پالیسی ہولڈرز کی جمع کردہ رقم دوسروں کو سود پر دیتی ہے۔ اس طرح پالیسی ہولڈرایک بڑا سودی نظام چلانے میں بالواسطہ تعاون کرتاہے۔ کمپنی پالیسی ہولڈرز کے پیسے سے سود لے کر جو دولت کماتی ہے، اسی میں سے خسارہ بھی پورا کرلیتی ہے، جو کچھ پالیسی ہولڈرز کی پالیسی مے چیور ہونے اور سارے پریمیموں کی رقم ادا کرنے سے پہلے اُن کی موت ہوجانے پر بیمہ رقم پوری کی پوری ادا کرنے سے اُسے واقع ہوتاہے اور اسی دولت سے انشورنس کمپنیاں بغیر کوئی رِسک لیے اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ دار بن جاتی ہیں۔
زندگی بیمہ کو جائز قرار دینے کی دو دلیلیں دی جاتی ہیں:
۱- دارالحر ب میں مسلمانوں کے لیے شرعاً اِس بیمہ زندگی کی گنجائش نکلتی ہے، جس کی صورت سود اور جوا کی نہیںہے۔
۲- مسلم کش ﴿فرقہ وارانہ﴾ فسادات میں جان جانے کے بڑے نقصان کا خطرہ ہوتاہے۔ بیمہ سے جان ضائع ہوجانے کی بھرپائی (Compensation) ہوجاتاہے۔
پہلی دلیل تو اس لیے بالکل غلط ہے کہ جیساکہ اوپرلکھاجاچکاہے کہ علما نے تحقیق اور اجتہاد کرکے بہ اجماع ہندستان کو دارالحرب قرار نہیں دیاہے اور فی الواقع ہندستان ’دارالحرب‘ ہے بھی نہیں۔
دوسری دلیل اس لیے غلط ہے کہ جان جانے کا خطرہ محض محسوس کرکے اور یہ گمان کرکے فساد ضرور ہوگا اور میں ضرور ہی مارا جائوںگا، قرآن وسنت کے حرام کردہ سود و جوا کو اپنے لیے حلال بنالینا ایک بالکل نامعقول بات ہے۔ اِسے حلال کرنے کے لیے ’اضطراری حالت‘ کی دلیل دی جاتی ہے جس میں حرام چیزیں بھی شریعت میں مباح اور جائز ہوجاتی ہیں۔ لیکن اضطراری حالت کی دلیل بیمہ پر اس وجہ سے لاگو نہیں ہوتی کہ ایک شخص حالتِ اضطرار میں واقعتہً مبتلا ہوکر بیمہ نہیں کراتا ہے، بل کہ اسے حالت اضطرار میں مبتلاہونے کا محض اندیشہ لاحق ہوتاہے۔
حالت اضطرار میں کسی حرام چیز کے جائز ہوجانے کی لازمی اور واقعی نوعیت شرع میں یہ ہوتی ہے کہ آدمی بہت ناپسندیدگی، کراہت اور مجبوری محسوس کرتے ہوئے اسے اختیار کرے اور حالت اضطرار ختم ہوتے ہی بلاتاخیر و بلاتردد اسے ترک کردے۔ بیمۂ زندگی کے ساتھ ایسی کوئی بھی بات نہیںہوتی، بل کہ الٹے ہی آدمی نہایت شوق اور پوری پسندیدگی و آمادگی کے ساتھ زندگی کابیمہ کراتا ہے۔
کسی بیمہ کمپنی یا حکومت کے قانون کے ہاتھوں وہ بیمہ کرانے پر مجبور بھی نہیں کیاجاتا اور اس پر مستزاد یہ کہ بیمہ زندگی کرائے بغیر بھی اس کی معمول کی زندگی کے سارے معاملات و کاروبار جس طرح چل رہے ہوتے ہیں، چلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا حالت اضطرار اور مجبوری کی دلیل بیمۂ زندگی پر لاگو نہیں ہوتی۔
بیمۂ زندگی کی رقم، موت ہوجانے پر، پالیسی ہولڈر کے ترکہ کادرجہ رکھتی ہے، جسے شرعی قانون کے تحت اس کے سارے ورثا میں تقسیم ہونا چاہیے۔ جب کہ بیمہ کی رقم اس کے نامزد کردہ شخص (Nominee)کو ملتی ہے۔ اصل ورثا اس ترکے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بیمۂ زندگی میں یہ ایک بڑی شرعی قباحت ہے۔
کاروباری قرض پر سود
مسلمانوںمیں بینکوںیا پرائیویٹ و سرکاری مالیاتی اداروں سے سود پر قرض لے کر کاروبار کرنے یا صنعت و انڈسٹری لگانے کاخاصارواج ہے۔ یہاں تک کہ خالص اسلامی فکر رکھنے والے رسائل وجرائد میں بھی ایسے قرضے لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ترکیبیں اور تدبیریں بتائی جاتی ہیں۔ محکموں، مالیاتی اداروں کے پتے بتائے جاتے ہیں۔ اس سب کامحرک و مقصد یہ بتایا جاتاہے کہ اس سے مسلمانوں کی غربت اور معاشی پسماندگی دور ہوگی، ورنہ مسلمان ترقی و خوش حالی میں غیرمسلم معاشرے کے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ دلائل بادی النظر میں خواہ کتنے ہی اچھے اور معقول لگیں لیکن ہیں بہرحال خلافِ اسلام اور اسلام کے خلاف جاکر خوش حال اور ترقی یافتہ ہونا اسلام کو نہ تو مطلوب ہے، نہ گوارا۔ وہ ایسی نام نہاد خوش حالی اور نام نہاد ترقی کی اجازت نہیں دیتا جو حرام کو جائز وحلال قرار دے کر حاصل کی جائے۔ خوش حالی و ترقی غیرسودی کاروبار کرکے اور غیرسودی تجارت و صنعت کرکے لاکھوں کروڑوں مسلمان حاصل کررہے ہیں۔ ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ دوسری قوموں سے خوش حالی و ترقی کا مقابلہ ومسابقہ (Competition)کرتے وقت یہ حقیقت ملحوظ ضرور رکھنی چاہیے کہ اُن کے پاس خدائی ہدایت اور خدائی مجموعۂ قوانین نیز دنیا وآخرت میں آخرت کو ترجیح دینے کاکوئی تصور و عقیدہ نہیں ہے۔ جب کہ یہی سب کچھ مسلمانوں کا بنیادی سرمایہ اور ان کی شانِ امتیاز ہے۔ مدینے میں یہودی سودی دھندا کرکے بہت امیر، دولت مند اور خوش حال تھے۔ صحابۂ کرام نے نہایت غربت میں زندگیاں گزاریں۔ اوپر کی دلیل سے تو اسلام کو چاہیے تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیتاکہ تم سودی دھندا، یہود سے بھی آگے بڑھ کر دھوم دھام سے کرو تاکہ خوب خوش حال اور ساری قوموں میں زیادہ ترقی یافتہ ہوجائو۔ لیکن ایسے موقع پر اسلام الٹے ہی سود کو حرام قرار دے دیتاہے اور وہ بھی اتنی شدت کے ساتھ کہ سودی لین پر اللہ و رسول سے جنگ کااعلان کرتاہے۔
گھریلو قرض پر سود
کچھ اہل علم سود پر کاروباری/صنعتی قرض لینے دینے کو جواز دیتے ہوئے صرف گھریلو قرض پر سود کو ہی قرآن و حدیث میں بیان کردہ سود قرار دے کر اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ ’شدید ضرورت‘ کی حالت میں اسے بھی مباح اور جائز قرار دیتے ہیں۔ اسلامی شریعت میں اضطرار اور نہایت شدید مجبوری درپیش ہونے پر حرام کو مباح کادرجہ مل جاتاہے۔ اس اضطرار کی کوئی ایسی خاص متعینہ شکل یا مقدار مقرر کرنا عموماً محال ہے، جس کا ہر شخص اور اس کے ذاتی حالات پر اطلاق ہو۔ یہ انفرادی سطح پر کسی مخصوص شخص پر منحصر ہے کہ وہ اپنی کس ضرورت، کیفیت اور حالت کو شدید ضرورت اور حالتِ اضطرار مانتاہے۔ اس حالت کی سطح الگ الگ اشخاص میں الگ الگ ہوگی۔ اہلِ عزیمت میںکچھ اور اور اہلِ رخصت میں کچھ اور۔ اسلام میںمطلوب عزیمت ہے اور گنجایش رخصت کی بھی ہے۔ ہر شخص کو خود فیصلہ کرناہے کہ وہ عزیمت کی راہ پر چلے گا یا رخصت کی راہ اختیار کرے گا اور یہ کہ کون سی مجبوری اور ’شدید ضرورت‘ پر وہ سودی قرض لے سکتاہے۔ یا وہ سودی قرض نہیں لے گا خواہ کتنی ہی تکلیفیں، مصیبتیں اور مسائل جھیلنے پڑجائیں۔
سود کی اخلاقی قباحت
سود کی قباحت کو زندگی کے صرف مادّی پہلو سامنے رکھ کر ٹھیک سے اور آسانی سے سمجھ سکنا بہت ہی دشوار ہے۔ انسان کاوجود صرف جسمانی ومادّی ہی نہیں، غالب طورپر اخلاقی بھی ہے۔ سود انسان کو خود غرض، سخت دل اور بے رحم بناتاہے۔ اسے دولت اور دنیا کا حریص بناتا ہے۔ اُسے معاشرے کے پریشان حال لوگوں کے تئیں اپنی معروف اخلاقی ذمّے داریوں اور اسلامی تعلیمات سے بے نیاز اور بے حس بناتاہے۔ اُسے اپنے خول میں بند (Selpcentred) زندگی گزارنے کا داعیہ دیتاہے۔ اسلام کے نزدیک اس طرز کی بے اخلاق و خود غرض زندگی کاتصور نہیں ہے۔ یہ تصورِ حیات باطل کادیاہوا ہے۔
سود کی سماجی قباحت
اسلام نے سماج میں معاشی ناہمواری اور افرط و تفریط پیدا نہ ہونے دینے کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور زکوٰۃ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ﴿البقرہ:۶۷۲ اور الروم:۸۳ میں، میں جیساکہ شروع میںحوالہ دیا گیا، زکوٰۃ و صدقات کو سود کے مقابلے میں اور ایک طرح سے اس کے متبادل کے طورپر پیش کیاگیاہے۔ اس میں عقلمندوں اور مومنوں کے لیے غورو فکر کا بہت سامان ہے﴾ تاکہ مسلمانوں کی دولت چند مٹھیوںمیںبند، تجوریوں میں مقفول اور بینکوں ومالیاتی اداروں میں جاکر منجمد نہ ہوجائے۔ بل کہ سماج کے نچلے اور کمزورطبقوں تک گردش کرتی رہے۔ تجارت کے ذریعے بھی دولت اپنی وسیع تر پیداواری صفت کے ساتھ گردش کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے تجارت کو بہترین ذریعۂ کسب معاش قرار دیاہے۔ لیکن سود کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھالینے کی حرص میں لوگ فکسڈ ڈپازٹ کرکے اپنی فاضل دولت کو ﴿راست معاشرے میں گردش کرانے کے بجائے﴾ بینکوں میں منجمد (Blocked)کرادیتے ہیں۔ ایک سخت ضرورت مند، مصیبت زدہ پریشان حال شخص کو قرض دینے والے لوگ عموماً سماج میں نہیں ملتے کیوں کہ وہ سود پانے کے لیے اپنی دولت کو کہیں جمع کردیتے ہیں۔ بالواسطہ طورپر، اس طرح معاشرہ، مصیبت زدہ انسانوں کو بسااوقات سود پر قرض لینے اور سود در سود کے جال میں لمبے عرصے تک، کبھی کبھی پوری عمر، بل کہ کبھی تو اگلی نسل تک بھی پھنس جانے کے لیے لیے مجبور کردیتاہے۔ سود اور پھر سود درسود کانظام ایسا ہی بے رحم ہے۔ مجبور،کمزور، غریب، بے بس اور یاپھر بے وقوف شخص اپنے خونِ حیات کے قطرے قطرے کشید کرکے مہاجنوں، بینکوں اور سرمایہ داروں کے لیے دولت کی نہروں میں تبدیل کردیتاہے۔ معاشرے کی سطح پر جو کچھ مہاجن کرتاہے، ملک کی سطح پر وہی کچھ، بل کہ ا س سے بدرجہا زیادہ بڑے بڑے بینک کرتے ہیں۔ لوگوں کی وہ جائداد اور عمارتیں قرق کرلی جاتی ہیں جنھیں بینکوں کو رہنر کھ کر سود پر قرض لیاجاتاہے۔ عالمی سطح پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف یہی کام کرتاہے۔ ممالک کو زبردستی قرض لینے پر مجبور کرتاہے۔ ملکوں پر اربوں کھربوں روپے کا سود چڑھ جاتاہے، جس کی سال بہ سال ادائی کے لیے حکومتیں عوام پر بھاری ٹیکس لگاتی ہیں۔ عوام کا پیسہ معاشرے سے نچڑنچڑ کر حکومتوں کے پاس اور حکومتوں کے ہاتھ سے یہ اربوں روپے کے سود کی ادائی مغربی ممالک کے خزانوں میں جاکر جمع ہوجاتاہے جن کی پوری معیشت پر دنیا کے بڑے چھوٹے ہزاروں سود خور یہودیوں کاقبضہ و کنٹرول ہے۔ اس طرح اندرونِ معاشرہ کی ایک ایک رگ سے خون نچڑ نچڑ کر، ملکی اور عالمی سرمایہ داروں کی تحویل و تصرف میں چلاجاتاہے۔ بے تحاشہ بڑھتے ہوئے ٹیکس، افراط زر(Inflation)، بے تحاشہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، اضافہ پزیر غربت اور فالاس، غریب اور امیر کابڑھتا ہوا طبقاتی فرق، زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور حرام و حلال کی فکر نہ کرنے اور کمزور معاشی حالت میں پھنسے لوگوں سے بے نیاز ہوکر بس زیادہ سے زیادہ امیر بن جانے کی حرص میں بے ایمانی، ڈکیتی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت، غبن اور اسکام و گھوٹالوں کاایک لمبا شیطانی چکر(Vicious Circle) چلتاہے، جس میں معاشرے کا عام آدمی پستاچلا جاتاہے۔ یہ چکر بحیثیت مجموعی اسی سرمایہ دارانہ، خود غرضانہ اور مادّہ پرستانہ نظام کا بنایاہواہے جو عدل، انصاف اور عامۃ الناس کی خیرخواہی و بہبود کے اخلاقی تصور اور اخلاقی بنیادوں سے بالکل عاری ہے۔ اسلام اسی وجہ سے سود کو اتنی شدت کے ساتھ رد کرتاہے کہ بڑے سے بڑے گناہ جُرم، ظلم، استبداد اور استحصال کو بھی ’اللہ و رسول سے جنگ‘ نہیں کہتا، لیکن سود کو کہتاہے۔
پھرکیاہو؟
مسلمان سرمایہ پرستانہ اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کے اندر جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ انھیں اس نظام سے مفر نہیں۔ لیکن:
سب سے اہم اور پہلی بات مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اس نظام کو انگیزاور برداشت تو کریں، اسے پسندیدہ اور مطلوب سمجھنا چھوڑدیں۔
اہل عقل و دانش طبقہ اسلام کے عادلانہ معاشی نظام کے تعارف اور ابلاغ کی حتی المقدور کوشش کو اپنا دینی فریضہ سمجھے۔
اہل علم اور دینی و فکری قائدین مسلمانوں میں ایسی ذہنیت پھیلنے کو روکیںجس سے مسلم معاشرے میں سودی معیشت کے تئیں پسندیدگی و قبولیت کی حرص پیدا ہوتی ہو۔ اگر اسے مباح قرار دیں تو ساتھ ہی اس کی حرمت سے کراہت بھی ضرور پیدا کرائیں۔
مسلمان، جہاں تک ممکن ہوسکے، انفرادی سطح پر، پریشان حال اور مصیبت زدہ لوگوں کو غیر سودی قرض دینے کاجذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔ یہاں انھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو آخرت کا فائدہ تو ہے ہی اور اس سے سماج میں خیرخواہی، رحم، بے غرضی و بے لوثی کی اعلیٰ اخلاقی و روحانی قدروں کو رواج اور فروغ بھی ملتاہے۔
غیرسودی سوسائٹیاں قائم کی جائیں جو لوگوں کا فاضل پیسہ اکٹھاکریں اور ضرورت مندوں کو سیکورڈ قرضے دیں۔
زکوٰۃ کااجتماعی نظم قائم کریں۔ اگر ایسا مضبوط اچھا بااعتماد نظم قائم ہوجائے اور دولت مند مسلمان زکوٰۃ کو ’دینی ٹیکس‘ سمجھنے کے گناہ سے بچتے ہوئے اسے اسلام کا ایک بنیادی رکن اور عبادت سمجھیں تو اس سے مسلم معاشرے کے کافی معاشی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں اور اگر اس کا بہتر و معتبر نظم کیاجائے تو ضرورت مند مسلمان کو ’شدید گھریلو ضرورت‘ سے لے کر کاروباری ضروریات تک سود پر قرض لینے کی حاجت پیش نہیں آئے گی۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ضابطے میں پرائیویٹ بینک غیرسودی بنیاد پر قائم کرنے کی گنجایش تو نہیں ہے۔ البتہ ملکی قانون میں دیگر اقسام کے Non Bankingمالیاتی ادارے قائم کرنے کی گنجایش ہے۔ افسوس کہ ماضی میں ایسے کئی ادارے قائم کیے گئے اور مسلمانوں کے منجملہ اربوں روپے لے کر بندہوگئے۔ اس سے مسلمانان ہند کاایسے اداروں پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ اب اس کی کوئی اچھی ، بھروسا مند اور قابلِ اعتماد کوشش کی جاسکتی ہے جو ملکی قانون کے مطابق ہو، جس میں شفافیت (Tranparency)ہو۔ ڈپازیٹر کو نقصان کے خطرے کے پہلوئوں (Risk factor)سے باضابطہ آگاہ کیاجاتاہو اور وہ ’صرف یقینی فائدہ‘ کی وجہ سے سرمایہ کاری نہ کرے۔ کیوں کہ نقصان کا رِسک لیے بغیر صرف یقینی فائدہ سود کے حرام ہونے کی بنیادی علتوں میں سے ایک ہے۔
آخری بات
سود اور اس کی حرمت سے متعلق کچھ اصولی اور عملی باتیں ان سطور میں درج کی گئیں۔ ان پر عمل کرنا اس وقت آسان ہے جب مسلمان کو اسلام کے معنی، اسلام کا مزاج اور اسلام کے مطالبوں اور تقاضوں کاعلم واحساس ہو۔ اگر یہ کیفیت نہیں ہے توحیلوں، بہانوں اور تاویلوں کی کمی نہیں۔ اسلام کے معنی ہیں ’اللہ کے احکام کے تئیں بے چوں و چرا خودسپردگی (Submission)‘ ،’اللہ اور رسول کی بلاشرط مکمل اطاعت‘ اور ’بغیر قیل و قال کے اللہ و رسول کے سامنے سپرڈال دینا(Surrender)۔‘
موجودہ دور میں یقینا سود کے اسلامی احکام پر پوری طرح عمل کرنا ایک آزمایش سے بھراہوا کام ہے۔ نہ اسلامی نظام حکومت ہے، نہ مسلمانوں کی مضبوط و فعال اجتماعیت اور نہ مسلمانوں کا اپنا کوئی وسیع ومستحکماور قابلِ اعتماد معاشی نظام۔ قیمت زر میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ (Devaluation)کی وجہ سے کسی کو لمبی مدت کے لیے کوئی بڑی رقم بغیر سود کے قرض دینے میں سخت رکاوٹ ہے۔ کوئی اچھی صنعت قائم کرنے کے لیے بینکوں سے سود پر قرض نہ لینا، موجودہ سیکولر نظامِ معیشت نے نہایت دشوار بل کہ تقریباً ناممکن بنادیاہے۔ کوئی بڑی رقم بینک میںمحفوظ رکھ دی جائے اور چند برس گزر جانے پر بغیر سود کے بس اصل رقم ہی لی جائے تو اس رقم کی قیمت گرکر آدھی یا اس سے کچھ ہی کم یا زیادہ رہ جاتی ہے۔ یہ ساری دشواریاں، مزاحمتیں اور رکاوٹیں ہیں جو مسلمانوں کو سودی معیشت واقتصادسے نجات نہیں پانے دے رہی ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود امکان کی آخری حد تک سود لینے سے بچناچاہیے اور دینے سے بھی۔ اسلام کو اپنے ہی پیروکارمطلوب ہیں جو آخرت کو دنیاپرترجیح دیں۔ آزمائشوں میں جن کے پائے استقامت میں لڑکھڑاہٹ نہ آنے پائے۔ جن کی نگاہ میں فائدہ و نقصان اور منافع وخسارہ کے پیمانے، دوسری قوموں سے اعلیٰ وارفع ہوں جو سیلابِ وقت کے تیز دھارے میں بہنے نہ لگیں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010