تقسیم ہند سے قبل برٹش انڈیا میں بھی ہندو برادران کی اکثریت تھی لیکن حکومت برطانیہ سمجھتی تھی کہ ہند کا تاج اُس نے مسلمانوں سے چھینا ہے اس لیے اس کے أصل نشانے پر کسی اور سے زیادہ مسلم ملت تھی ان کا مذہب وثقافت‘ان کی تہذ یب وتمدن اور ان کی جاگیریں اور مملکتیں نگاہ میں کھٹک رہی تھیں۔ اس کے برعکس برطانوی راج سے مستفید ہونے والوں میں برادران وطن ہوشیار و چالاک طبقہ رہا ہے۔ مسلمانوں کے ظلم و ستم اور مصائب و آزمائشوں کا دورانیہ برٹش ایمپائر سے لے کر دور حاضر تک جاری رہا۔ سنبھلنے کاکچھ موقع ملا تو آزاد ہندستان کی تیسری نسل کو۔۔۔ جب کہ عربی وخلیجی ملازمتوں کے عوض حاصل ہونے والے سرمایہ سے ایک حد تک فارغ البالی حاصل ہوئی ۔ علاوہ ازیںملک میں پہلی دفعہ غیر کانگریسی حکومتوں کے قیام سے ملت اسلامیہ کو بھی زاویہ فکر و عمل کی تبدیلی کا موقع ملا۔
جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان ایک طرف کرہ ارض کی دو عظیم طاقتوں روس و چین کی ہمسائیگی میں ہے یہی وہ خطہ ارضی ہے جہاں اسلا م کی حامل نسل انسانی کی عظیم آبادی رہتی بستی ہے اور تجربات و مشاہدات شاہد ہیں کہ اپنے داخل کے اعتبار سے یہ اُمت بڑی سخت جاں واقع ہوئی ہے۔ایشیامیں وہ مسلم مملکتیں بھی ہیں جن سے لوہا لینے میںنام نہاد سوپر پاور امریکہ اور روس کو پاپڑ بیلنے پڑے۔ملت کی اس سخت جانی کے باوجود المیہ یہ بھی ہے کہ دین کے فہم سے دوری اور قومیت کے نظریہ بد مادیت کے فروغ نے امت مسلمۃ کے جسم کو لہولہان کیا ہے امت مرحوم کی از سرنو نشاۃ ثانیہ کوئی آسان معاملہ نہیںرہا ۔ اس سب کے باوجود تاریخی و جغرافیائی وجود کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے اوراس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے حقوق کی پائمالی ‘بقا و تحفظ کا معاملہ‘ ظلم و ستم اورفسادات کی یورشوں نے سوچنے سمجھنے کی قوتوں وصلاحیتوں کو گویا منجمد کرکے رکھ دیا اس مرحلے سے نکلنے میں تین چار عشرےلگے۔سیکولرزم کی نام لیواکانگریس پارٹی اور اس کی مختلف قیادتوں کے ادوار میں مسلم سماج مظلوم رہا۔آزاد ہند نے مولانا آزاد کی بے بسی کا دور دیکھا۔ قیادت مصنوعی نے مفاداتِ حاصلہ کومسلم لیڈر شپ کا مکھوٹا پہنا نے کی کوشش کی اورہر سیاسی پارٹی امت پر مسلط کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک اوروں کی طرح مسلمانوں کا بھی ہے جویہیں پیدا ہوئے ہیں‘ ٹیکس ادا کرتےہیں‘ پابند قانون ہیں۔یہ وہ قانونی پس منظر ہے جس میں مسلم سماج کی سیاسی‘سماجی وتعلیمی منصوبہ بندی ترتیب پانی چاہیے۔ لائحہ فکر و عمل کی تنظیم ہونی چاہیے۔ اس موضوع پر غور و فکر ایک اہم فریضہ ہے ۔ ملت کے ہر فرد بشر کو اس کا احساس ہونا چاہیے اور اس کا م میں حصہ لینا چاہیے۔
وفاقی مملکت میں مسلم سماج کی اپنی حیثیت و وزن کو محسوس کرانے اور حقوق کے حاصل کرنے کے لیے بھی مناسب حکمت عمل در کار ہے۔ نیشنل پارٹیوں کے علی الرغم ریاستی پارٹیوں کا مضبوط وجوداب حقیقت بن گیا ہے ۔ پامالی عدل و انصاف کے فقدان وحقوق کی وجہ سے موجودہ بھارت کا ماحول عوام کے لیے عذاب بن گیا ہے۔ باہمی محبت و الفت کے برعکس اکھنڈیک رنگی خود ملک کی بقا کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔اس امکان کو اہمیت دینی چاہیے کہ چھوٹی ریاستیں عوام کی راحت و توجہ کا باعث بن سکتی ہیں۔ ممکنہ مسائل کا بلا تاخیر حل کیا جا سکتا ہے۔مسلم امت بھی اپنے وجود کا احساس اور ا ہمیت کا اظہار کرسکتی ہے اس لئے کہ وہ تشکیل حکومت میں اہم وفعال عنصر بن جاتی ہے۔دلّی و بہاراور مہاراشٹرا اور آسام کے سیاسی نتائج کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
ہندو سماج اور تہذیب و ثقافت میں رواداری کی روایت بھی موجودہے۔ تنوع کے اعتبار سے یہ قطعہ ارضی ساری دنیا میں منفردہے۔ اختلاف و تنوع سے مانوس فضا میں‘برداشت وتحمل‘ ترجمانی و آزادی کے جو مواقع یہاں پائے جاتے ہیں۔ یہاں ہر سو پچاس میل پر ایک نیا بھارت سانس لیتا نظر آتا ہے۔ ایک نئی زندگی کا احساس دیتا محسوس ہوتا ہے۔ تنگ نظرہندوتو کے علمبرداروں کے یک رنگی جنون کی وجہ سے اس فضا کی بربادی کے امکانات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس تنظیمی قوت اور زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرنے والی ذیلی تنظیموں کے ذریعے فسطائی فکر و نظر کے حامل افراد کو میدان میں لارہی ہے۔
ابنائے آدم کا انبوہ عظیم ارضِ مشرق کے ممالک میں رہتا بستا ہے۔ روم و فارس ویونان کی طرح ہندستان کی ایک قدیم تاریخ وتہذیب ہے۔ معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ راہِ فطرت سے لاعلمی ‘ نے غلط اور ناپسندیدہ نتائج کو ضرور جنم دیا ہے لیکن اس ملک کی طاقتور روادار روایت نے آس و امید کے دامن زرخیز کو تازہ و مضبوط بھی کیا ہے۔چنانچہ’’فطرت شناس گروہ انسانی‘‘کو چاہیے کہ اپنی اصل فکر کو مشکوک وآلودہ کیے بغیر دلسوزی و یکسوئی سے اس ملک کے سامنے راہِ حق کو پیش کرے۔ذہن وفکر کی آبیاری‘نیزابلاغ وترسیل کے استعمال میں صابروا و رابطوا کی تلقین یاد رکھے۔ اذہان کے شک و ریب‘غلطیوں و غلط فہمیوں کے داغ دھبوں کو دھوتے ہی رہنا ہے‘تاکہ سفید و اجلے رنگ پھولوں کی مہک و تازگی ‘ دنیا کے سامنے آتی رہے‘ذہنوں اور دلوں کو گرماتی رہے ؛ انفرادی واجتماعی زندگیو ں میں عظیم انقلابی فیصلے کرنے کی ضـرورت ہے۔اس کارِ عظیم کے ساتھ ملک کے سماجی تہذیبی و سیاسی مزاج ِ ترکیبی کے پیش نظر….. سیاسی سرزمین سے بھی ربط رکھنا چاہیے۔ بدنام دنیا سیاست کے موجودہ مزاج کو پہنچانا ضروری ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ بیں نہ بن کر کسی نہ کسی درجہ میںربط تورکھ سکتے ہیں تاریخ اپنے صفحات میںرہنمائی و رہبری کے مختلف اطوار سموئے ہوئے ہے جس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
ہندوستانی جمہوریت بنام الیکشن پارلیمانی‘ریاستی اسمبلی اور لوکل باڈیز کے انتخابات پر مشتمل ہے۔ عام طور پر ان کا ایجنڈہ بھی مختلف ہوتا ہے اور ایجنڈہ کے تنوع واختلاف کے سیاسی پارٹیاں ان میں سرگرم ہوتی ہیں۔ مسلم سوسائٹی اپنے مسائل کےحل کے لئے اس سسٹم سے فائدہ اُٹھانے میں کامیاب نہ ہوسکی ہے۔ مثلاً تعلیم‘روزگار‘ اور ہر سطح پر تناسبی حصہ داری وغیرہ….بنیادی حل طلب مسائل موجود ہیں ہندی مسلمان اپنے ووٹ کے عوض سیاسی پارٹیوں سے بات منوانے میں کامیاب نہ ہوئے۔کسی گروپ یا ادارہ سے میمورنڈم پر دستخط کروانا سادہ لوحی ہے۔ یہ عمل کامیاب ہوسکتا ہے بشرطیکہ اجتماعی طور پرکسی سسٹم کے ذریعہ سے مسلم ملت کا نقطہ نظر سامنے آئے تاکہ سیاسی پارٹیوں کو محسوس ہو کہ مسلم ووٹ کی قدر وقیمت کیا ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ ملت کی کوئی قیادت موجود نہیںجو اس معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ملت کی بات منواسکے۔ملت کو سیاست کے اسرار نہاں کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر پانچ سال ملنے والے موقع کو منافع میںتبدیل کیا جاسکے۔
ماضی و حال میں مسلم تشخص رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی کا رکردگی ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔سر دست اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ان سے ہندو فسطائیت کو ناکام بنانے کا کام ضرور انجام دیا جا سکتا ہے۔ہندستانی مسلمان اس سبق کو یادکریں تو اپنی آنیوالی نسلوںپران کا احسان ہوگا بے شعوری کے ساتھ سیاست سے ملت اسلامیہ کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے ۔آزادی کے بعدنصف صدی میں دکن کی مسلم آبادی کے حالات و مسائل ہنوز برقرار ہیں؛ سمجھایہ جانے لگا کہ اس علاقہ بالخصوص حیدرآباد کی مسلم آبادی کو جذبات کے ماحول میں رہنے کی لت پڑگئی ہے۔
گزرے ہوئے جنرل الیکشن نے فسطائیت کے لیے جو راہیں کھولی تھیں اس کا سدِباب آنے والے پارلیمانی الیکشن ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ مودی کے مسمیرزم سے بڑی حد تک آزادہوا ہے حالیہ پانچ ریاستی اسمبلی الیکشن میں آسام کے سوانتائج اُن کے حق میں نہیں۔ بہار نے بی جے پی‘آرایس ایس اور مودی کو اُن کی حقیقت دکھا دی ہےاور سیکولر قیادت سےروشناس کرایا ہے ۔ ملت کو متوقع ریاستی انتخابات میں ہوش و منصوبہ بندی سے کام لینے کی ضرورت ہے؛فسطائی عناصر کا مقابلہ فراست و دانشمندی سے کرناہو گا ۔ اس ضمن میں غیر فسطائی قوتوں سے ربط نا گزیر ہے۔ہمہ رخی مقابلے کے انتشاری نقصانات سے بچنے کا اہتمام کرنے کے لیے ملت کی اجتماعی منصوبہ بندی کافروری 2019 کے جنرل الیکشن کو ملّی ایجنڈہ فراہم کرنا ضروری ہے۔:جس میں اولین ترجیح ہندو تو کے مقابلے کی ہو۔پھرسے ملت کے معاشی حقوق اور تعلیم و روزگارمیں تحفظات کی مضبوط گیارنٹی حاصل کی جائے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2016