اسلام نے چودہ صدیوں سے زائد عرصہ قبل انسانی حقوق کو واضح کردیاہے جب دنیا جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، اس پر بے رحم طاقتوں کی حکمرانی تھی، حق وانصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی پھر اسلام کا سورج طلوع ہوا تو جہالت کا خاتمہ ہوا عدل وانصاف کا بول بالا ہواا ور لوگ بت پرستی کو چھوڑکر توحید کی تعلیم سے روشناس ہوئے۔
اسلام نے انسان کے لئے ایسے حقوق متعین کئے کہ بیسوی صدی کے جدید قوانین ان کے قریب بھی نہ پہنچ سکے، انسان کی عزت وآبرو اور اس کے حقوق کی حفاظت کےلئے اسلام کے متعین کردہ اصول انسان کے وضع کردہ اصولوں سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہیں۔ اسلام کے عطاکردہ حقوق اور انسان کے ذریعے بنائے گئے حقوق کے درمیان موازنہ کرنے پر اس بات کا اعتراف کرنا پڑےگا کہ اسلام کے انسانی حقوق کہیں زیادہ منصفانہ اور برحق ہیں لہٰذا اس سلسلے میں شیخ محمد الغزالی فرماتے ہیں کہ انسان نے لوگوں کی تکریم کے لئے جو اصول وقواعد وضع کئے ہیں وہ اسلام کی ابتدائی تعلیمات ہیں۔ انسانی حقوق کے متعلق اقوام متحدہ کا عالمی اعلان ان گراں قدر وصیتوں کی صدائے بازگشت ہے جو مسلمانوں نے آخر ی پیغمبر حضرت محمد ﷺ سے اخذ کی ہیں۔ (حقوق الانسان فی الاسلام ص35)
قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں انسانی حقوق ، اقوام متحدہ کے اعلان سے چودہ صدیاں قبل ہی مدون ہوچکے ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے حج کے دوران عرفات کے میدان میں انسانی حقوق کے مبادیات بیان کرتے ہوئے فرمایا :’’اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہار باپ آدم بھی ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے‘‘۔(مسند احمد 22978)
اللہ تعالی نے انسان کی بڑی تکریم کی ہے ارشاد ربانی ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (سوره اسراء 70)
’’ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی،ان کوبحر و بر میں سواری دی ، پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی‘‘۔
الله کی طرف سے انسان کی تکریم کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو سب سے بہترین ساخت میں پیدا کیا اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ (سورہ انفطار7-8)
’’جس رب نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر برابر بنایا‘‘۔
اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا :
وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَ كُمْ وَإِلَيْهِ المَصِيرُ (سورہ تغابن۳)
’’اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے‘‘۔
انسان کی تکریم کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی جان، مال، عقل اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان کا ہر مسلمان پر اس کا خون، مال اور عزت حرام ہے‘‘۔ (مسلم 2546) اللہ تعالی نے ہر اس قول وعمل کو حرام کیا ہے جس سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے یہ انسان کی تکریم میں شامل ہے ارشار باری تعالی ہے:
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (سوره حجرات 12)
’’اے لوگو جو ایمان لائےہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتےہیں ۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
اللہ تعالی دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے‘ :
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (سوره حجرات 11)
’’اے لوگو جو ایمان لائےہو،نہ مرددوسرےمردوںکامذاقاڑائیں، ہوسکتاہے کہیں ان سےبہترہوں، اور نہ عورتیںدوسری عو رتوںکامذاقاڑائیں،ہوسکتاہےکہیںان سےبہترہوں آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں‘‘۔
انسان کی تکریم کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند فرمایااور اس کی تکمیل کی ۔ارشاد باری تعالی ہے:
اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا (سورہ مائدہ 3)
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا‘‘۔
اسلام اللہ کا آخری پیغام ہے جسے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ لےکر آئے یہ تاقیامت باقی رہنے والا دین ہے اور اس دین میں ہر قسم کے انسانی حقوق چودہ صدیوں سے زائد عرصہ قبل بیان ہوچکے ہیں۔ قرآن وسنت میں بیان شدہ انسانی حقوق ابدی ہیں وہ تراش خراش ، ترمیم وتنسیخ اور التوا کو قبول نہیں کرتے۔ اسلام میں انسانی حقوق اللہ تعالی کی طرف سے نازل کئے گئے ہیں،کسی بشر کو خواہ وہ کوئی بھی ہو یہ حق نہیں کہ اس میں تبدیلی کرے لہٰذا انسانی حقوق کو اسلامی مفہوم کے مطابق تسلیم کرنا ، صالح معاشرہ کے قیام کےلئے پیش خیمہ ہے۔
انسان کی تکریم کی خاطر اسلام میں بےشمار انسانی حقوق پائے جاتے ہیں جن میں سے چند حقوق کا میں یہاں ذکر کروں گا ان میں سے اہم حقوق جسے اسلام نے ضمانت دی ہے درج ذل ہیں:
۱- زندگی کا حق
انسانی زندگی اللہ کی امانت ہے اسلامی شریعت میں اس کی بڑ ی حفاظت کی گئی ہے کسی جانور کو ناحق قتل کرنا بھی اسلامی شریعت میں جرم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا۔ اس نے بلی کو پکڑے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی، پھر اسی بلی کی وجہ سے وہ جہنم میں گئی۔ جب اس نے بلی کو قید میں رکھا تو نہ کھانا دیا، نہ پانی اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھاتی ‘‘ (متفق علیہ) ايك دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا”ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ کیا جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔ (متفق علیہ) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی جانور کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے کوئی شخص جہنم کا مستحق ہو سکتا ہے اور اسی طرح ہمدردی کی خاطر کسی پیاسے جانور کو پانی پلانے کی وجہ سے کوئی شخص جنت میں جاسکتا ہے۔
قرآن کریم ناحق کسی کا خون بہانے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِى اِسْرَآئِيْلَ اَنَّهمَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (سورہ مائدہ32)
’’اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پرفرض کردیا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی‘‘۔
اسلام میں خودکشی حرام ہے کسی شخص کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی جان ہلاک کرے ارشاد باری تعالی ہے:وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (سورہ نساء 29)’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو اللہ تعالی بڑا مہربان ہے‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا‘‘۔(متفق علیہ)
ان قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی نے ہرشخص کو امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔
۲- مساوات كا حق
اسلام نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُم (سوره حجرات 13)
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم باہم ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرسکوبےشک تم میں سے عزت دار وہ ہے جو تم میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کا ڈر رکھنے والا ہو‘‘۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے یہاں برتری کا معیا ر خاندان ، قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جوکسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ معیار تقوی ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ واختیار میں ہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے جو بے نظیر خطبہ دیا، جسے انسانی حقوق کا اولین منشور کہیں تو بے جا نہ ہو گا، جس کا ذکر مضمون کے شروع میں ہوچکا ہے۔
ایک مرتبہ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی۔ یہ خاندان چونکہ قریش میں عزت اور وجاہت کا حامل تھا، اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے اور معاملہ کسی طرح ختم ہوجائے۔ حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ جو رسول اکرمﷺ کے منظور نظر تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس معاملے میں رسول اکرمﷺ سے معافی کی سفارش کیجیے۔ انہوں نے حضور اکرمؐﷺسے معافی کی درخواست کی۔ آپؐﷺنے ناراض ہو کر فرمایا: ’’ بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔(بخاری3475)۔
ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفار ی حضرت بلال بن رباح حبشی پر غصہ ہوئے اور انہیں کہہ بیٹھے ’’اے کالی ماں کے بیٹے‘‘ نبی کریم ﷺ یہ سن کر غضبناک ہوگئے اور فرمایا حد سے تجاوز کرچکے ہو حد سے تجاوز کرچکے ہو گوری ماں کے بیٹے کو کالی ماں کے بیٹے پر سوائے تقوی اور نیک کام کے کوئی برتری حاصل نہیں یہ سن کر حضرت ابوذ ر نے اپنا رخسار زمین پر رکھ دیا اور حضرت بلال سے گذارش کی کہ اٹھ اور میرے رخسار پر اپنا پاوں رکھدے (حقوق الانسان فی الاسلام ڈاکٹر محمد غامدی ص ۲۲)۔
اس واقعہ سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ اسلام کی نظر میں ہر خطہ کی انسانیت قدروقیمت کے اعتبار سے برابر ہے مذہب اسلام سفیدی اور سیاہی کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتا ، افریقی ا لنسل اور یوروپی النسل کے درمیان تفریق نہیں کرتاہے جبکہ انسانی حقوق کے عالمی اعلان پر فخر کرنے والی معاصر تہذیب کا معاملہ اس کے برعکس ہے اور اگر اسے رنگ، نسل اور قومیت کی تہذیب کا نام دیا جائے توغلط نہ ہوگاکیونکہ اس تہذیب کی بنیادپر بہت سی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ عالمی سلطنتوں میں کسی نہ کسی صورت میں نسلی تفریق موجود ہے۔
3- انصاف كا حق
اسلام نے عدل وانصاف پربہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ (سورہ مائدہ ۸) ’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جاؤ، درآں حال یہ کہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو‘‘۔ دوسری آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (سورہ نحل 90) ’’بےشک اللہ تمہیں عدل واحسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق و سچائی کے مطابق گواہی دینے کے متعلق یوں حکم فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواكُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيّاً أَوْ فَقِيراً فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيراً (سورہ نساء125)
’’اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ ۔اللہ (کی رضا) کے لیے (حق و سچ کے ساتھ) گواہی دو چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتے داروں کا، جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر، بہر حال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے، تو خواہش (نفس) کے پیچھے نہ پڑو کہ حق (عدل) سے الگ پڑو اور اگر تم (گواہی میں) ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘
اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق وسچائی کے مطابق گواہی دینے کی تاکید اور حکم فرما رہا ہے، اور فرمایا کہ چاہے تمہاری سچی گواہی کی وجہ سے تمہارے ماں باپ اوررشتے داروں کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے، گواہی ہر حال میں حق و سچ کے ساتھ ہونی چاہئے ۔قرآن کریم کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے پوری امت مسلمہ کو عدل و انصاف کی علم بردار کی حیثیت سے پیش کیا ہےعدل کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
4- ملکیت كا حق
اسلام نے ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کیا ہے بلکہ اس میں رغبت بھی دلائی گئی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ِ’’اے عمرو ! صالح مال صالح شخص کےلئے ہے‘‘(مسند احمد 17763) اور رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگتے تھے: ’’اے اللہ میں تم سے ہدایت ،تقوی، پاکدامنی اور دولت مانگتا ہوں‘‘۔ (مسلم 2721) اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَ لَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِيْهَا مَعَایِشَ (الاعراف۱۰) ’’ہم نے تمہیں زمین میں اقتدار دیا اور اس میں تمہارے لیے معاش کے ساما ن رکھ دیے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اس زمین میں جو اسبابِ معاش ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا ہر ایک کو حق ہے۔ ایک دوسري جگہ فرمایا: فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ (الملک۱۵)’’ زمین کے کناروں پر چلو اور اللہ نے اس میں جو رزق رکھا ہے اسے کھاؤ‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ زمین کے ہر گوشے پر تمہیں۔ پہنچنے اور اللہ نے جو رزق رکھا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے ۔
اسلام نے ذاتی ملکیت کی حفاظت فرمائی ہے ساتھ ہی ساتھ عوامی ملکیت بھی اسلامی شریعت میں محفوظ ہے بلکہ عوامی ملکیت کو نقصان پہنچانے پر زیادہ سزا کا سزاوار قرارا دیا گیا ہے کیونکہ عوامی ملکیت کونقصان پہنچانا امت کی خیانت کے باب میں شمارکیا گیا ہے ارشاد باری تعالی ہے:وَمَن يَغْلُلْ يَأتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ القِيَامَةِ(آل عمران ۱۶۱) ’’ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا‘‘۔
5- تعاون اور عدم تعاون کا اصول
اسلام نے اس باب میں ایک نہایت اہم اصول بیان کیا ہے کہ نیکی کے کام میں تعاون ومدد کی جائے اور برائی کے کام میں تعاون نہ کیا جائے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ۲) ’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو‘‘۔
6- آزادی کا حق
اسلام نے شخصی آزادی كا بہت خیال رکھا ہے اور کسی کو مجبور نہیں کیا ہے کہ وہ کسی خاص فلسفہ کو اپنائے یا کسی خاص نظریہ کے مطابق اپنی زندگی گزارے بلکہ اسلامی ملک میں ہر شخص کو مکمل آزادی ہے کہ وہ سوچے اور اپنی طرز زندگی اختیار کرے،اور اپنی رائے کا اظہا رکرے بشرطیکہ دوسروں کی آزادی اس کی وجہ سے متاثر نہ ہو۔دینی عقیدہ کے معاملہ میں اسلام نے اسلامی ملک کے لوگوں کو آزادی دی ہے کہ وہ کسی بھی عقیدہ کو اپنائیں، پس اسلامی ملک میں رہنے والے اہل کتاب کو حق ہے کہ وہ اپنے شعائر پر عمل کریں اور انہیں اس سے کوئی نہیں روکے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:لَاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ(البقرة: ٢٥٦)’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘’۔ اللہ تعالی دوسری جگہ فرماتا ہے:اَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (يونس: ٩٩) ’’پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن بن جائیں‘‘۔تاریخ کا بہت مشہور واقعہ ہےکہ عمرو بن عاص کے بیتے نے قبطی مصری سے مقابلہ کیا تو مصری نوجوان سبقت کرگیا جس پر عمرو بن عاص کے بیٹے نے اس کے پٹائی کردی۔ پھر اس مصری نوجوان نے مسلمانوں کے خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سے اس چیز کی شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو طلب کیا اور اس نوجوان کو حکم دیا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو باپ کے سامنے مارے اور اپنا بدلہ لے او ر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا ہے۔ اور اسلام نے بہت ساری دوسری آزادیاں بھی دی ہیں جیسے شہری آزادی جس میں انسان عہد کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آزاد ہے اور اسلام نے بچہ اور پاگل کو چھوڑ کر ہر شخص کو آزادی دی ہے اور انہیں آزادیوں میں سے سیاسی آزادی اور فکری آزادی ہے اسلام میں آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کے مبادی اور اصولوں سے نہ ٹکرائے اور نہ دوسروں کی آزادی کو ٹھیس پہنچے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں چند انسانی حقوق کو بیان کیا گیاجس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے جس کھوکھلے تصور تک اب پہنچا ہے اس سے کہیں زیادہ جامع اور واضح تصور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2018