مسلم معاشرہ مسلمان افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اسلامی معاشرہ اسلامی اقدار سے تشکیل پاتا ہے۔ مسلم معاشرہ ایک صورت حال ہے جب کہ اسلامی معاشرہ معیارِ مطلوب ہے۔ انفرادی سطح پر ہر مسلمان اس معیارِ مطلوب تک پہنچنے کی کوشش کرے جہاں وہ مومنانہ اوصاف سے آراستہ ہوجائے، اسی طرح مسلم معاشرے کے تمام افراد مل جل کر اپنے معاشرے کو اس معیارِ مطلوب تک پہنچانے کی کوشش کریں جہاں مسلم معاشرہ اسلامی معاشرہ بن جائے۔
ضروری ہے کہ جس طرح فرد کا ارتقا دینِ اسلام کے مطابق ہو اسی طرح اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تعمیر بھی دینِ اسلام کے مطابق ہو۔ اقامتِ دین کی بازیافت کے لیے یہ دونوں کام ناگزیر ہیں۔
اسلامی معاشرے کی کچھ نمایاں علامتیں ہیں۔ یہ وہ معیارات ہیں جن سے کسی معاشرے کے اسلامی ہونے کو ناپا جاسکتا ہے۔ اسلامی معاشرے کے لیے اسلامی ریاست کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ معاشرہ کسی غیر مسلم اکثریت والے ملک میں مسلم اقلیت کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح سول سوسائٹی حکومت کی بیساکھی کے بغیر بھی تہذیب و تمدن کے تقاضے پورے کرتی ہے، اسی طرح اسلامی معاشرہ حکومت کے بغیر بھی اسلامی اجتماعیت کے بہت سے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔
موضوع بہت تفصیل طلب ہے، البتہ ہم یہاں اختصار کے ساتھ اسلامی معاشرے کے کچھ اہم معیارات پیش کریں گے۔
توحید کے لیے یکسوئی ہوتی ہے اور شرک کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ہے
توحید اسلامی معاشرے کی سب سے اہم بنیاد ہے۔ اس کے بغیر اسلامی معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ توحید خالص شرک کی تمام صورتوں کو رد کرتی ہے۔ بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرنا اسلامی معاشرہ قائم کرنے والوں کی پہلی منزل ہوتی ہے۔ معبودیت، مالکیت، رازقیت، حاکمیت، غرض کسی بھی پہلو سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ہر طرح کے شرک سے پاک ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد آزادی اور عزت کی زندگی گزارتا ہے۔ شرک کا راست منفی اثر معاشرے میں فرد کے مقام و حیثیت پر پڑتا ہے۔ شرک دنیا کو تنگ قید خانہ بنادیتا ہے جہاں عام انسانوں کا مقدر ظلم و تذلیل کی چکی میں پستے رہنا ہوتا ہے۔
انسانوں کے درمیان عدل و مساوات ہوتی ہے
توحید کا ایک اہم ثمرہ عدل و مساوات ہے۔ اگر معاشرے میں عدل و مساوات نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ توحید کے تصور میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ ظلم اپنے آپ میں نہایت قبیح صفت ہے، اس صفت کے علی الرغم اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔ ہر شخص کو اس کے حقوق ملیں، یہ عدل ہے۔ ہر شخص کو برابر کا انسان سمجھا جائے، یہ مساوات ہے جو عدل ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد اعلان کیا تھا: الضَّعِیفُ فِیكُمُ الْقَوِی عِنْدِی حَتَّى أُزِیحَ عَلَیهِ حَقَّهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَالْقَوِی فِیكُمُ الضَّعِیفُ عِنْدِی حَتَّى آخُذَ مِنْهُ الْحَقَّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ۔
‘‘تمھارے بیچ جو کم زور ہے وہ میرے نزدیک طاقت ور ہے جب تک کہ اس کا (چھینا گیا) حق اس تک پہنچا نہ دوں، ان شاء اللہ۔ اور تمھارے بیچ جو طاقت ور ہے وہ میرے نزدیک کم زور ہے جب تک کہ اس سے (چھینا ہوا) حق حاصل نہ کرلوں، ان شاء اللہ۔’’
اسلامی معاشرہ میں کسی قسم کا بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔ قانون کی نظر میں ہی نہیں، سماج کی نظر میں بھی سارے انسان برابر ہوتے ہیں۔
اسلامی معاشرہ ہمیشہ حق و انصاف کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، خواہ مقابل کتنا ہی قریبی ہو۔ حق تلفی اور زیادتی کرنے والا تنہا رہ جاتا ہے، اس کے اپنے بھی اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔
قرآن و سنت کو اجتماعی امور میں بھی بنیادی مرجع کی حیثیت حاصل رہتی ہے
اسلامی معاشرے میں حکام و عوام سب اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے پابند ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد کہا: أَطِیعُونِی مَا أَطَعْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِذَا عَصَیتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَلَا طَاعَةَ لِی عَلَیكُمْ۔ ‘‘جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں اس وقت تک تم میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تمھارے لیے میری اطاعت واجب نہیں ہے۔’’ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت اصل مرجع رہیں گے۔ اسلامی معاشرے میں پنپنے والے رجحانات و معمولات کے لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ تنازعات کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حرام و حلال کے سلسلے میں وہیں سے فیصلے حاصل کیے جاتے ہیں۔ غرض قرآن و سنت کے مقاصد ہی معاشرے کے مقاصد قرار پاتے ہیں۔
تمام اچھائیوں کو رواج کی حیثیت حاصل ہوتی ہے
کچھ افراد کا نیک ہوجانا، معاشرے میں کچھ نیکیوں کا پایا جانا یا کبھی کبھی نیک اعمال کا صادر ہونا اسلامی معاشرے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ اچھائیاں فروغ پاکر رواج کی حیثیت حاصل کرلیں اس طرح کہ وہ اچھائیاں معاشرے کا چہرہ بن جائیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جب اسلامی معاشرے کی تعمیر کی تو اس میں ہر اچھائی کو رواج دے دیا۔ صلہ رحمی، مہمان نوازی، غریبوں کی مدد، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت اور اس کی خاطر شادیاں، مظلوموں کی داد رسی، یہ اور ایسی بہت سی اچھائیاں اس معاشرے کا رواج تھیں۔ وہاں کوئی ایک فرد حاتم طائی نہیں تھا بلکہ پورا معاشرہ حاتم طائی بن گیا تھا، جہاں باہر سے آنے والا سفر کا مارا بھی نہال ہوجاتا۔
کسی برائی کو رواج کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔
اسلامی معاشرے میں افراد سے برائیوں کا صدور ہوسکتا ہے، لیکن ان برائیوں کی حیثیت واقعات کی ہوگی، سماجی معمولات کی نہیں ہوگی۔ جب تک کوئی ایک بھی برائی سماجی معمول ہوگی، معاشرہ اسلامی نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جب اسلامی معاشرے کی تعمیر کی تو ہر برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ برائی چوری چھپے کسی فرد کی زندگی میں تو داخل ہوجاتی لیکن معاشرے کی رگ و پے میں دوڑنے پھرنے کی اس میں جرأت نہیں تھی۔ دورِ جاہلیت میں شراب نوشی، جوا بازی، سود خوری اور زنا کاری وغیرہ کو بڑا رواج حاصل تھا، اسلامی معاشرے میں ایسی سبھی برائیوں کا قلع قمع ہوگیا۔
پہلے سے چلے آرہے غلط رواجوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے
ہر معاشرے میں بہت سے قدیم رواج ہوتے ہیں۔ ان رواجوں میں کچھ صحیح اور مفید ہوتے ہیں جب کہ کچھ غلط اور مضر ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں انسانوں کو مشقت میں ڈالنے والے غلط رواج نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس لیے جب کوئی معاشرہ اسلامی معاشرے میں تبدیل ہوتا ہے تو غلط رواجوں کے ازالے کا مرحلہ ضرور آتا ہے۔ یہ کام بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن ضروری ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر صاف اعلان کردیا تھا: أَلَا كُلُّ شَیءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِیةِ تَحْتَ قَدَمَی مَوْضُوعٌ۔ ‘‘سنو جاہلیت کے تمام رواج میرے قدموں کے نیچے روند دیے گئے ہیں’’(صحیح مسلم)۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاشرہ اسلامی ہو اور اس میں ایسے رواجوں کی حکم رانی ہو جو قرآن و سنت سے میل نہیں کھاتے ہوں۔
برائی کرنے والے کو برائی سے روکنے والوں کا ڈر ہوتا ہے
اسلامی معاشرے میں رائے عامہ برائیوں کے خلاف بیدار ہوتی ہے۔ کسی بھی طرح کی برائی کو دیکھ کر اس کے اندر بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ برائی سے روکنے (نہی عن المنکر) کو ہر شخص اپنی ذمے داری سمجھتا ہے اور اسے ادا کرتا ہے۔ اس لیے برائی کا ارتکاب آسان نہیں رہ جاتا۔ کسی کی حق تلفی کرنے والا شخص معاشرے کی نگاہ میں گرجاتا ہے۔ غرض برائی کرنے والے کو اس کا ضمیر ملامت کرے یا نہ کرے، معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسے شدید ملامت کرتا ہے۔ وہاں برائی کو ہاتھ سے روکنے والے، زبان سے روکنے والے اور دل سے برا سمجھنے والے ہی ہوتے ہیں، کوئی برائی کی تائید یا تاویل کرنے والا نہیں ہوتا۔
نیکی کرنے کے لیے حوصلہ افزا ماحول ہوتا ہے
اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے کو خیر و بھلائی کی تلقین کرنے (امر بالمعروف اور تواصی بالحق) کا ماحول ہوتا ہے۔ اس لیے خیر پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ خیر کے راستے میں رکاوٹیں بہت کم اور سہولتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر نکاح کرنا آسان اور زنا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ غیر اسلامی معاشرے میں برائی کے لیے سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں اور اچھائیوں کو مشکل بنادیا جاتا ہے۔ سادگی سے نکاح کرنے والے کو کنجوسی کے طعنے سہنے پڑنے ہیں اور اسراف سے بھرپور شادیوں کے حق میں تعریف کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں خیر کے کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے مددگار بنتے ہیں اور شر پسند کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
اجتماعی سطح پر بھی دین کا مفاد سب سے بالاتر رہتا ہے
ایک فردِ مومن جس طرح اپنی ذاتی زندگی میں دین کو دیگر تمام مصالح پر ترجیح دیتا ہے، اسی طرح معاشرے کی سطح پر بھی یہی اصول کارفرما رہتا ہے۔ اجتماعی سطح پر کوئی ایسا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا ہے جو دین کے لیے نقصان دہ ہو۔ معاشرے کے تمام لوگوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسلام کی خوب صورت تصویر پیش کی جائے اور ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے جو جائز ہونے کے باوجود اسلامی معاشرے کی شبیہ بگاڑتا ہو۔ مدینے میں منافقین کے جرائم بہت بڑھے ہوئے تھے اور ان کو سخت سزائیں دینے کا جواز بھی موجود تھا، لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے خلاف شدید اقدام اس لیے نہیں کیا کہ اس سے مدینے کے اسلامی معاشرے کی شبیہ خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔
عوام کا دینی شعور ان کی حفاظت کرتا ہے
اسلامی معاشرہ اسی وقت وجود میں آتا ہے جب لوگوں کا دین سے تعلق شعور و آگہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرہ العوام کالانعام سے عبارت نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ذی علم عوام کا معاشرہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرہ اپنے نظریاتی تحفظ کے لیے کچھ ذی علم افراد پر منحصر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں دینی شعور عام ہوتا ہے جس کے فیض سے پورے معاشرے کے اندر تحفظ کا مضبوط نظام قائم رہتا ہے۔ تحفظ کے اس عمومی نظام کے نتیجے میں باطل نظریات کو کہیں سے بھی رخنہ اندازی کی راہ نہیں ملتی۔ تحفظ کے اس داخلی نظام کے پیچھے قرآن مجید کی قوت ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں قرآن مجید سے تمام افراد کا راست سوچنے سمجھنے کا تعلق ہوتا ہے۔
اسلام علم و دانائی کا علم بردار ہے۔ قرآن و سنت سے عوام کی گہری علمی اور عقلی وابستگی بدعات و خرافات کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں چھوڑتی ہے۔ اگر کوئی دین میں کوئی اضافہ یا تحریف کرنا چاہے تو عوامی سطح پر ہی اس کی کوشش ناکام بنادی جاتی ہے۔ دین سے ناواقفیت بدعات کو راستہ دیتی ہے اور عقل سے دوری خرافات کے پنپنے کے لیے میدان چھوڑتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں عوام کے اندر دین کا علم بھی ہوتا ہے اور دانائی سے رشتہ بھی مضبوط ہوتا ہے، اس لیے وہ تہذیبی شب خون سے محفوظ رہتا ہے۔
مذکورہ بالا معیارات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ وہ معیار مطلوب سے کتنے فاصلے پر ہے اور ابھی کن پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023