؍ ہجری کی بات ہے۔ موسم گرما کی خوشگوار شام کا وقت ہے۔ لوگ اپنی عادت کے مطابق مسجد اموی کے صحن کی طرف نکل گئے۔ وہاں پہنچ کراس میں دری بچھائی اور چراغ روشن کئے۔یہاں تک کہ مسجد سونے میں نہاگئی اورجگمگانے لگی۔ لوگ تنہا تنہا اورجوق در جوق مسجد کی طرف بڑھنے لگے،تاکہ نماز ادا کرکے اللہ کا حق ادا کریں اور ایک ساتھ جمع ہوکر، خیر کے کاموں میں تعاون کرکےایک دوسرے کا حق ادا کریں اور پھر اللہ سے اجر وثواب کی امیدلے کر، اطمینان قلب اور سکون دل کے ساتھ واپس لوٹیں۔
موسم گرما کی راتوں میں مسجد اموی کے صحن سے زیادہ نہ تودل کو کچھ بھاتا، اور نہ نگاہوں میںکچھ جچتا۔آدمی جس قدر چاہتاگھومتا پھرتا، پھولوں کی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہوتا، پرندوں کے نغمےسنتا، پہاڑوں پر چڑھتا جہاںچشمے ابل رہے ہوتے، باغوں میں داخل ہوتا جن کے نیچے نہریں بہتیں، مگر جب وہ واپس مسجد اموی لوٹ کر آتا تو اسے ان تمام چیزوں سے کہیں زیادہ خوبصورت پاتا اور جب اس میں بیٹھتا تو اپنے دل میں ایک سرمستی اور انسیت بخش خوشبو پاتا، جسے وہ اور کہیں نہیں پاتا۔اس شام تازہ اور خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔مسجد لوگوں سے بھر گئی تھی۔(مسجد کا منظر بڑا پیارا تھا)کچھ لوگ وضو بنانے کے لیے اپنا چادر اتار تے،مسجد کے سفید اورخوش کن پتھر پر رکھتے اور تیزی سے پانی کے شامیانے کی طرف بڑھتے،جو مسجد کے درمیانی حصے میں چھوٹا اور ہشت جہت تھا۔ یہ انوکھےسنگ مرمر سے نہایت محکم انداز میں بناہوا تھا۔اس کے نیچےلوہے کی ایک کھڑکی تھی جس کے درمیان میں تانبے کا ایک پائپ لگا ہوا تھا، جو پانی کو تیزی سےاوپر کی طرف لے جاتا، پانی اوپر جاتا اور پھر نیچے گرتا، ایسا لگتا کہ پانی کی یہ دھار چاندی کی چھڑی ہو۔یہ شامیانہ قندیلوں سے چاروں طرف سجا ہوا تھا۔
مسجد کی آبادی کا پوچھنا نہیں، کچھ لوگ نماز کے ارادے سے آتے، خشوع کے ساتھ ، اللہ کے سامنے کھڑے ہوجاتے،جس کا جلال انہیںمحو بندگی رکھتا، اور پیچھے چھوڑی ہوئی دنیا یکسر فراموش رہتی۔
کچھ لوگ بہت سارے حلقوں میں سے کسی حلقۂ درس میں بیٹھ جاتے، کسی محدث، کسی فقیہ یا کسی واعظ کی بات سنتےیا کسی قاری کوسننے کے لیے خاموش رہتے، کچھ لوگ ذکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ،کچھ لوگ کسی ستون سے ٹیک لگالیتے،اور کچھ کسی برآمدے میں بیٹھ کر کوئی صحیفہ پڑھتے،یا کسی کتاب میں منہمک ہوتے،یا اپنی انگلیوں پر تسبیح گنتے،یا کسی اہم معاملہ میں غور وفکر کرتے، یا نماز کا انتظار کرتے، نماز کا انتظار اس طرح کرتے گویا وہ نماز میں ہوں۔اس طرح وہ مسجد کی خوبصورتی اورخوشگوار ہوا کی لطافت سےمحظوظ ہوتے۔
مسجد کے مشرقی جانب میں زین العابدین کے گنبد کے سامنے پرانا کپڑاپہنےایک آدمی کھڑا تھا۔اس کے جسم پر پھٹے، پیوند لگے بوسیدہ کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔کبھی وہ لوگوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتا اور کبھی مسجد کی طرف۔مسجد دیکھ کر عظیم الشان تاریخ کا مطالعہ کرتا،وہ تاریخ کا مطالعہ اس شاندار گنبد کے ذریعے کرتا،وہی گنبدِ نسر جس کا شمار دنیا کی عجیب ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔تم جس طرف سے بھی شہر کارخ کرو، تمھیں آسمان کی بلندی چھوتا ہوا اورشہر کی تمام عمارتوں سے بلند وبالاگنبدِ نسر نظر آئے گا۔دمشق میں اس سے زیادہ شاندار اور خوش منظر کوئی چیز نہ تھی۔ یہی وہ بلندگنبد ہے جسے لوگ گنبدِ عیسیٰ کے نام سے جانتے ہیں، جس کی بلندی سےانھیں تعجب ہوتا ہے۔یہ گنبد مغربی سمت میں واقع ہے،اسے مسلمانوں نے تعمیر کیا ،اور اس میں عجیب وغریب فنکاری کامظاہرہ کیا ،اس میں کمال درجے کی خوبصورتی ،تراش خراش کی بے پناہ باریکی، حد درجہ پختگی اوربے حددرستگی جلوہ گر ہے۔اور شمالی سمت میں واقع گنبدخوبصورتی کی زینت بناہوا ہے،اس میں چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔گنبدکی وہ گیلری جوصحن کی جانب ہے،اس میں ٹائم کیپر کھڑا ہوتاہےتاکہ عشاء کا وقت ہوجانے کی اطلاع دے۔
ایک دیہاتی مسجد میں اپنا کوئی مسئلہ لیے داخل ہوا اورمفتیان کرام کی مجلس کے بارے میں دریافت کیا،معلوم ہوا کہ ان کی مجلس ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پا س ہے۔وہ آیا اور ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا،لیکن اس مسئلے کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں پایا۔پھر وہ فقہاء اور محدثین کا چکر لگاتا رہا اور ان سے پوچھتا رہا،لیکن ان سے بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہوا،توان سےمایوس ہوگیا اور مسجد سے نکلنے کا ارادہ کرلیا۔ فقیر اسے دیکھ رہا تھا ، اس کی ، مفتیوں کی اورفقہاء ومحدثین کی حالت پر تعجب کررہا تھا،اس پر یہ بات شاق گزری کہ سائل مایوس ہوکر لوٹے،تو اس نے اپنی طرف اشارہ کیا،وہ آیا تو فقیر نے اس سے کہا:اپنا مسئلہ میرے سامنے پیش کرو۔ یہ سن کر دیہاتی ہنس پڑا اور بلند آواز سے کہا:لوگو! ذرا اس مجنوں کو دیکھو ،یہ سمجھ رہا ہے کہ میرے سوال کا جواب دے گا جبکہ میں نے مفتیوں، فقیہوں اور محدثین کو عاجز کردیا ہے!لوگ آواز کی طرف متوجہ ہوگئے اور باتیں کرنے لگے،ایک شخص نے کہا:چھوڑو اسے، یہ پاگل ہے۔مگر دوسرے شخص نے کہا:اس سے پوچھنے میں کوئی حرج نہیں،شاید اس کے پاس علم ہو۔ایک تیسرے شخص نےکہا: اس سے پوچھو اور اس کا جواب مفتی حضرات کے پاس لے جاؤ اور دیکھو وہ کیا فرماتے ہیں۔
پھر یکایک لوگ خاموش ہوگئے اورمسجد میں موجود ہر کوئی خاموش ہوگیا،قارئین، مدرسین اور ذاکرین کی آواز بند ہوگئی۔ان میں کوئی ایسا نہ تھاجوبات کررہا ہو،کیونکہ اقامت کی صدا آرہی تھی،انھیں‘اللہ اکبر’کی صدا سنائی دی،یہ صدا مسجد کے گوشے گوشے میں گونج رہی تھی،میناروں سے ان تک پہنچ رہی تھی ،گویا وہ آسمان کی بلندی سے آرہی ہو،جس میں وحی کی شان وشوکت،دین کی عظمت اور ایمان کاحسن وجمال تھا۔مجلسیں سمٹ گئیں،صفیں آراستہ ہوگئیں اور کندھے سے کندھے مل گئے۔امام صاحب نے جیسے ہی کہا:‘اللہ اکبر’ دنیاان کےدلوں میں بے معنیٰ ہوگئی،خواہشات دلوں سے مٹ گئیں اور رغبتیں ختم ہوگئیں۔ کیونکہ کوئی بھی چیز خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہواللہ تو سب سے بڑا ہے۔
پھر جب نماز ختم ہوگئی تو لوگ دیہاتی کے پاس واپس آئے اور اس سے کہا:جاؤ اور اپنے ساتھی سے پوچھو۔بس وہ گیا اور کہا: اے فلاں!تیراخیال ہے کہ تو جواب دینے کی استطاعت رکھتا ہے،تو کیا تو اپنی بات پر جما ہے؟
فقیر:اللہ سے مدد چاہوں گا۔
دیہاتی:بات یہ ہے کہ میں نے مفتیوں کو بے بس اور حیرت زدہ کردیا ہے، تو کیا تو اس مسئلہ کا جواب دےگا؟
فقیر: اللہ سے مدد چاہوں گا۔
دیہاتی: مسئلہ اس اس طرح کاہے۔
فقیر: جواب اس اس طرح کا ہے۔
یہ کہہ کر فقیر تیزی سے دروازے کی طرف چلا گیا اورلوگ دیہاتی کے اردگرد جمع ہوگئے اور پوچھنے لگے:کیا اس نے تمھیں جواب دیا؟تمھیں کیا جواب دیا؟ ہمیں بتاؤ کیا جواب دیا؟
دیہاتی: میں تمھیں ایک حرف بھی نہ بتاؤں گا جب تک کہ میں مفتیوں سے ملاقات نہ کرلوں۔ وہ اور اس کے ساتھ لوگ بھی مفتیوں کی طرف تیزی سے بڑھے اوراپنی اپنی نشست سنبھال لی۔پھر اس نے پوچھا: کیا آپ لوگوں نے اس فقیر کو دیکھا ہے؟لوگوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: اس نے میرے مسئلے کا جواب دے دیا۔تو لوگ اس کی ڈھٹائی اور جہالت پر ہنس پڑے اور کہا: اس نے تمھیں کیا جواب دیا؟ اس نے کہا: اس اس طرح کا جواب دیاہے۔جب لوگوں نے اس کا جواب سنا توحد درجہ سنجیدہ ہوگئے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور حیران وپریشان ہوگئے۔نہیں معلوم وہ کس بات پر تعجب کریں۔آیا اس آدمی کی خستہ حالی کےباوجود اس کےکثیر علم پر یااس کے کثیر علم ہونےکے باجود اس کی خستہ حالی پر؟!پھر وہ سمجھ گئے اور کہا:تمہارا بھلا ہو، اس آدمی کو تلاش کرکے لاؤ،کیونکہ وہ بڑے رتبے والا ہے، ہمیں یقین ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو ہمیں علم کی حقیقت،فقرکی بلندی اور تواضع کی عظمت سے روشناس کرانے آئی ہے۔ اس آدمی کو جلدی ڈھونڈو!لوگوں نے کہا: وہ جاچکا ہے۔پھروہ کہنے لگے: تم میں سے کوئی نہیں ہے جو اسے پہچانتا ہو؟ لوگوں میں سے ایک نے کہا: بخدا ہم نے اسے صرف ‘خانقاہ سیمساطیہ’ میں دیکھا ہے،وہ وہاں کچھ دنوں پہلےآیا ہے،سیمساطیہ کے بیت الخلاء کی صفائی کرتا،دروازے کے پاس بیٹھتا یہاں تک کہ لوگوں نے اسے اندر جانے کی اجازت دےدی۔ہم نے اسے نماز کی طرف یکسواور ذکروتسبیح میں مشغول پایا ہے۔وہ کسی سے بات نہیں کرتا۔تب مفتیوں نے کہا:تمھارا بھلاہو، ہمیں اس کے پاس لے چلو۔جب لوگ اس کے پاس آئے تو کہا: تم کون ہو؟کہا: میں ایک آدمی ہوں۔لوگوں نے کہا: ہم تمھارا جواب سن چکے ہیں۔ ہم اس اللہ کی قسم کھا کر تم سے پوچھتے ہیں جس کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، اپنا نام تو بتاؤ۔کہا:إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ تم نے اللہ کا حوالہ دے کر پوچھا ہے تو سنو، میں ابو حامد الغزالی ہوں۔ یہ سنتے ہی لوگ پکار اٹھے: حجۃ الاسلام!پھر لپک کر گئے،ان کا ہاتھ چومنے لگے اوران سےاگلے روز سے ایک مجلس شروع کرنے کی درخواست کی اور واپس لوٹ گئے۔جب نیا دن طلوع ہوا تو لوگوں نے انھیں ڈھونڈا مگر شیخ دمشق چھوڑ کر جاچکے تھے!
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020