پردہ قرآن و حدیث اور فقہاء کی نظر میں

 لغوی مفهوم

پردہ كو لغت عرب میں حجا ب کہا جا تا ہے ۔لفظ حجاب پہناوا اور پردہ دونوں مفہوم میں آیا ہے ، لیکن زیادہ تر پردے ہی کے مفہوم میں استعمال ہو تا ہے۔ اس لفظ کو پہنا وے کے مفہوم میں اس لئے لیا گیا ہے کہ پردہ پہناوے کا ذریعہ ہے اور اصل لغت کے اعتبار سے ہر پہنا وا حجاب نہیں، بلکہ وہی پہناوا حجاب ہوگا جو چہرے کو ڈھا نپ دے ۔حضرت سلیمان ؑ کے واقعے سے متعلق قرآن میںیہ ارشاد ہے کہ :حتی توارت بالحجاب  یہاں تک کہ سورج پس پردہ چھپ گیا    ۱؎

قلب وشکم کے درمیان واقع ہو نے والے پردے کو بھی حجاب کہا جا تاہے ۔حضرت امیر المو منین علی ؓ نے مالک اشتراکو جو دستو ر العمل دیا ہے اس میں فرما تے ہیں کہ :

فلا تطون احتجا بک عن رعیتک

زیادہ تر لوگوں کے درمیان رہو اور گھر بیٹھ کر اپنے آپ کو ان سے پو شیدہ نہ رکھو

دیکھو حاجب اور دربان تمہیں لوگوں سے جدا نہ کرے بلکہ تم خود ان کے درمیان جائو اور ان سے رابطہ رکھو تا کہ کمزور اور لاچار افراد اپنی ضرورتوں اور شکایتوں کو تم سے بیان کر سکیں اور تم ان سے بے خبر نہ رہو ۔۲؎

عورت کے پردے کے بارے میں لفظ حجاب کا استعمال نیا ہے ،  قدیم كے فقہاء میں لفظ ’’ ستر  ‘‘  پردے کے معنی میں آیاہے ۔کتا ب الصلوۃ ہو یا کتا ب النکاح فقہاء نے ہر جگہ پہنا وے کے مفہوم میں لفظ ’’ستر ‘‘ کو استعمال کیا ہے ۔

لفظ حجاب کا استعمال عام طور پر پر دے کے مفہوم میں ہو تا ہے ۔ یہی امراس بات کا سبب ہوا کہ بیشتر افراد یہ گمان کر یں کہ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ عورتیں پس پردہ اور گھروں میں مقیّد رہیں اور باہر نہ نکلیں۔اسلام نے عورتوں کے لئے جو پردہ واجب قرار دیا ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ باہر نہ نکلیں  ۔ ۳؎

اسلام میں عورت کا پردہ یہ ہیکہ جب وہ مر دوں کے سامنے ہوں یا کو ئی ایسی وجہ ہو جس کی وجہ سے سامنے جانا پڑے تو وہ اپنے بدن كی نما ئش نہ کریں ۔پردے سے متعلق آیت میں لفظ حجاب نہیں آیا ( سورہ نور، سورہ احزاب )

امہات المومنین

البته قرآن مجید میں ازواج رسول ؐ کے با رے میں خا ص احکا مات وارد ہو ئے ہیں:

ینساء النبی لستن کاحد من النسا ء

اے رسو ل ؐ کی بیویو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو    ۴؎

اسلام کی یہ خصو صیت ہے کہ ا س نے ازواج ِ پیغمبرؐ  کو آپ کی حیات مبارکہ میں یا آپ کی وفات کے بعد اپنے گھروں میں رہنے کی تا کید کی ہے ۔اور اس میں اجتما عی  مقا صد کا دخل رہا ہے  ۔

وقرن فی بیو تکن   ،اے ازواج رسول ؐ تم اپنے گھروں میں بیٹھی رہو  ۵؎

وہ آیت جس میں لفظ حجاب آیا ہےوہ یہ ہے :

واذا سالتمو ھن متاعا فاسئلو ھن من ورا ء حجاب

جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے با ہر سے ما نگو۔    ۶؎

سورہ نور میں ارشاد ہے :

قل للمومنین یغضو من ابصارھم ،وقل للمومنات یغضضن من اابصارھن

سورہ احزاب میں ارشاد ربانی ہے :

یدنین علیھن من جلا بیھن

اسلام میںپردے کا مسئلہ محکم اصولوں پر استوار ہے اسلام چاہتا ہے کہ جنسی تعلق ازدواجی قانون کے دائرہ میں محدود رهے۔

مردوں کو توصرف نگاہیں پست رکھنے کی تا کیدکی گئی ،اور فوا حش سے اپنے اخلاق کی حفاظت کا حکم صادر ہوا ، مگر عورتوں کو مزید ہدا یتیں بھی دی گئیں ۔اس سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ ان کے اخلاق کی حفاظت کے لئے صرف غضِّ بصر اور حفظ فروج کی کوشش کا فی نہیں  ،بلکہ کچھ اور ضوابط کی بھی ضرورت ہے ۔

غض بصر

سب سے پہلا حکم جو قرآن میں مردوں اور عو رتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ غض بصر کرو ۔اس کا تر جمہ ہے ’’ نظریں نیچی رکھو ‘‘ یا ’’نگاہیں پست رکھو ‘‘۔ مگر اس سے پورا مفہوم واضح نہیں ہو تا ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہو ، کبھی اوپر نظر نہ کر و ۔ اصل مقصد یہ ہے کہ اس چیز سے پر ہیز کرو جس کو حدیث میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے ، اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہو نا فتنے کا موجب ہے ۔ فساد کی ابتداء طبعاًو عادتاً یہیں سے ہو تی ہے ۔اس لئے سب سے پہلے اسی دروازے کو بند کیا گیا ہے ،اور یہی ’’ غصِّ بصر ‘‘ کی بنیاد ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ جب انسان آنکھ کھول کر دنیا میں رہیگا تو ہر چیز پر اس کی نگاہ پڑے گی  ایسا نا ممکن ہوگا کہ مر د یا عورت کی نگاہ ایک دوسرے پر پڑے ہی نہیں، اس لئے نبیؐ نے فر مایا : کہ اچانک نظر پڑ جائے تو معاف ہے ، البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک نگاہ میں جہاں تم کو حسن محسوس ہو وہاں دوبارہ نظر ڈالو اور اسے گھورنے کی کو شش کرو۔

حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے پو چھا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ نظر پھیر لو   ۱۰؎

نبیﷺ نے فرمایا جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن پر شہوت کی نظر ڈالے گا، قیامت کے روز اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جا ئیگا۔۱۱؎

جائز ضرورتیں

بعض دفعہ ایسے حالات آتے ہیں جہاں اجنبی کو دیکھنا ضروری ہو جا تا ہے مثلاً:مریض اور ڈاکٹر ، یا کوئی عورت کسی مقدمہ میں قا ضی کے سامنے گواہ کی حیثیت سے پیش ہو ، یا کوئی عورت کسی آتشزدہ مقام میں گھر گئی ہو ،یا اس کی جان یا آبرو کسی خطرے میں مبتلا ہو تو ایسی صورت میں چہرہ تو درکنار حسب ضرورت ستر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔جسم کو ہاتھ بھی لگایا جا سکتا ہے ، بلکہ ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی عورت کو گود میں اٹھاکر لانا بھی صرف جائز نہیں ، فرض ہے ۔

ایسی صورت میں جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت کو پاک رکھو ، لیکن اقتضاء بشریت سے اگر جذبات میں کوئی خفیف سی تحریک پیدا ہو جا ئے تب بھی کوئی گناہ نہیں ۔کیونکہ ایسی نظراور ایسے لمس کے لئے ضرورت داعی ہوئی ہے اور فطرت کے مقتضیات کو بالکل روک دینے پر انسان قادر نہیں ہے ۔۱۲؎

اسی طرح سے نکاح کے لئے بھی اجنبی عورت کو دیکھنا جا ئز ہے ، بلکہ احا دیث میں اس کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔

مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا ،نبیؐﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس کو دیکھ لو۔

کیونکہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت و اتفاق پیدا کر نے کے لئے منا سب تر ہوگا ۔  ۱۳؎

پردے پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں جس میں ایک یہ ہے کہ پردہ مسلمان عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہےاس نے ان کی آزادی کو سلب کر لیا ہے ۔

انسان كا احترام

کہا جا تا ہیکہ  ہرانسان ، وہ مرد ہو یا عورت ، سفید ہو یا سیاہ ، صا حبِ احترام اور آزاد ہے ۔عورت کو پردے کے لئے مجبور کرنا ، اس کے حق آزادی سے انکار ہےاور اس کی انسانی حیثیت کی توہین و تذلیل ہے، دوسرے لفظوں میں یہ عورت پر ظلم ہے  ۔

اس اعتراض كے جواب میں  یہ بتانا ضروری ہے کہ عورت کی گھر میں اسیری الگ چیز هے اور بیگانہ مرد کے سا منے برقعہ یا چادر اوڑھ لینا الگ بات ہے ۔اسلام میں عورت کے لئے پردہ قید نہیںہے،بلکہ اس هدایت كا نام هے کہ مردوں کے سامنے جانے سے پہلے پوشاک میں ایک خاص وضع کا لحاظ رکھے ۔

دنیا کے متمدن ممالک میں آج بھی مردوں پر اس طرح کی پا بندیاں عائد ہیںکہ وہ برہنہ یاسونے کے لباس میں باہر نہیں آسکتے ،بلکہ اگر وہ پا ئجامہ کے ساتھ باہر نکلیں تو وہ پولس کی گرفت میںآجاتے ہیں۔کہ انھوں نے معاشرتی اصول کا خیال نہیں رکھا ،یعنی اخلاقی اور اجتماعی مصلحتیں افراد کو مجبور کر تی ہیں کہ وہ رہن سہن کے طریقوں میں خاص اسلوب کے پا بند رہیں ۔مثلاً : مکمل لباس کے ساتھ باہر آئیں تو یہ چیز غلامی نہ ہو گی ، نہ اسیری، نہ ہم اسے انسانی حیثیت اور آزادی کے خلاف کہہ سکتے ہیں نہ یہ عمل ظلم و زیادتی ہوگا اور نہ عقل کے منافی ہوگا۔

چنانچہ اس کے پیش نظر اسلام کے بتائے ہوئے حدود میں عورت کا ڈھکا چھپا رہنا اس کی شخصیت اور احترام میں اضافے کا با عث ہوتا ہے کیونکہ وہ اسے بد اخلاق لوگوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

شریفانه رویّہ

عورت کی شرافت اسی میں ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے تو نہایت سادگی سےاور باوقار ہو کر۔ اپنی چال ڈھال اور لباس میں وہ طرز اختیار کرے جس سے کسی کی نگاہوں کا مرکز نہ بنے ۔وہ اپنی حرکت سے کسی مرد کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے ، پر کشش لباس سے اجتناب کرے ، معنی خیز میں انداز میں گفتگو نہ کرے کہ کوئی مائل ہو جائے۔

کیا عورت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ دلربائی کا انداز اختیار کر ے ۔اگر وہ شہوت آمیز نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ نہ ہو نے دے تو کیا یہ مصالح کے خلاف ہے ،یا اس سے کسی کی آزادی سلب  ہو تی ہے ۔؟

البته اگر ایسا ہو کہ عورت کو گھر کی چاردیواری میں مقید کر دیاجائے، اس پر باہر آنے جانے کے راستے بند کر دیے جائیں، تو ایسا کرنا عورت کی فطری آزادی اور انسانی حقوق کے منافی هوگا۔ مگر اسلامی پردہ میں نہ پہلےیه پابندی تھی اور نہ اب ہے ۔

عورت حسبِ ضرورت گھر سے باہر جا سکتی ہے ،حتی کہ مر د سے لین دین بھی کر سکتی ہے ، شرط یہ ہے کہ کوئی ایسا لباس یا کوئی ایسی حرکت نہ ہو جو مر د کو متوجہ کر ے ۔

بهت سے علماء کا یہ خیال ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ مستورات کا تما م جسم عورت ہے ، امام ابو حنیفہؒ  کا کہنا ہے کہ مستورات کے دونوں پائوں بھی ’’ عورت ‘‘ میں شامل نہیں ، لیکن ابو بکر بن عبدالرحمن بن ہشام کا کہنا ہے کہ مستورات کا تمام جسم بلاء استثناء عورت ہے ۔۱۵؎

شیخ جواد مغنیہ اپنی کتاب ’’ الفقہ علی المذاہب الخمسہ ‘‘ میں کہتے ہیں کہ:

’’   علماء اسلام اس بات پرمتفق ہیںکہ ہر عورت اور ہر مرد پر لازم ہے کہ جو حالت نماز چھپائے              جانے کا حکم رکھتے ہیں حالتِ نماز میں بھی ان کے وہی اعضاء پو شیدہ رہیں گے ۔اختلاف   اس بات میں ہے کہ نماز میں اس ستر عورت کے حدود بڑھ جاتے ہیں یا وہی رہتے ہیں ؟ عورتوں کے بارے میں گفتگو یہ ہے کہ کیا چہرے اور کلائیوں تک دونوں ہاتھ یا ان کا کچھ حصہ نماز چھپانا ضروری ہے یا نہیں ؟درآنحالیکہ عام حالات میں ضروری ہے اور مردوں کےبارے میں گفتگو یہ ہے کہ کیا ان کے لئے بوقت نماز ناف اور گھٹنوں سے بڑھ کر دیگر اعضاء کا چھپانا بھی ضروری ہے یا نہیں ‘‘

اس کے بعد کہتے ہیں :

’’ علمائے شیعہ امامیہ کے نزدیک عورت پر حالت نماز میں بس وہی ستر واجب ہے جو ایک

نا محرم کے سا منے جاتے ہوئے اس پر واجب ہے ۔‘‘ ۱۶؎

آیت اللہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی مرحوم ’’ عروۃ الثقی‘‘ میں نماز سے ہٹ کر ستر بدن کے باب میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’ عورت پرواجب ہے کہ وہ چہرے اور کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کے علاوہ اپنے تمام بدن

کو نا محرم سے چھپائے ۔‘‘

حوالہ جات:

۱؎ قرآن کریم ،  سورہ ص ، آیت ۳۲

۲؎ اسلام میں مسئلہ حجاب ، شہید مر تضی مطہری ، ایرانین آرٹ پرنٹرز دہلی ، ص  ۵۹

۳؎ ایضاً، ص ۶۰

۴؎ قرآن کریم ،  سورہ احزاب ، آیت  ۳۲

۵؎ قرآن کریم ، سورہ احزاب ، آیت  ۳۳

۶؎ قرآن کریم ، سورہ احزاب ، آیت  ۵۳

۷؎ صحیح مسلم ، (ج ۴)ص   ۱۴۸ ؍ ۱۵۱

۸؎ قرآن کریم ،  سورہ نور ، آیت   ۳۰؍ ۳۱

۹؎ قرآن کریم ، سورہ احزاب ، آیت  ۵۹

۱۰؎ ابو دائو د ، باب  ، ما یو مر بہ غض البصر  ،بحوالہ ،  پردہ   ، سید ابوالاعلی مودودی  ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی  ص  ، ۲۲۴

۱۱؎ تکملہ فتح القدیر   ،بحوالہ    ،  پردہ   ، سید ابوالاعلی مودودی  ، مر کزی مکتبہ اسلامی دہلی   ص  ،   ۲۲۵

۱۲؎ پردہ ،  حوالہ بالہ    ، ص   ۲۲۵

۱۳؎ ترمذی  ،  باب    ما جاء النظر الی المخطوبۃ

۱۴؎ اسلام میں مسئلہ حجاب ، حوالہ بالہ  ،ص     ۸۰

۱۵؎ بدایۃ المجتہد (ج  ،۱ )ص    ۱۱۱

۱۶؎ اسلام میں مسئلہ حجاب  ، حوالہ بالہ   ص   ،  ۲۲۷

۱۷؎  عروۃ الوثقی ، کتاب النکاح  ، مسئلہ  ۳۱          بحوالہ  اسلام مسئلہ حجاب  ص   ۲۳۰

مشمولہ: شمارہ اگست 2019

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223