پس منظر
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔(الرعد:۱۱)
(حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔)
وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ۔(الرعد:۱۷)
( اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے۔ )
مشاہدے میں آیاہے کہ ہندوستان میں مسلمان بدلتے ہوئے حالات سے پیداہونے والی صورت حال پر ’ردّعمل‘ کا طرزِ عمل اپناتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ پیش آمدہ تبدیلیوں کا پہلے سے ادراک کرتے ہوئے ممکنہ مستقبل کے لیے ’پیش بندی‘کاکرداراداکریں۔
ایسے میں انڈیا2047ء کے لیے مسلمانوں کے کردار پر یہ بحث، ہندوستان میں مسلم قوم کے بدلتے ہوے ذہنی رویےکی ایک خوش آئند علامت ہے۔ آگے کی سطروں میں انڈیا2047ء کے لیے مسلمانوں کی حکمتِ عملی اور کردار پر گفتگو کی گئی ہے۔
تنوع پر مبنی حکمتِ عملیاں
جامع حکمت عملیوں اور واضح راہِ عمل (روڈ میپ)تیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان کی منفرد خصوصیات کو سمجھیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہم رنگی اور یکسانیت کا حامل ملک نہیں ہے۔ یہ ایک کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے جس کا رقبہ اور آبادی بہت زیادہ ہے۔ یہ ’ریاستوں کی یونین ‘ ہے۔ یعنی ہر ریاست کی اپنی علاقائی زبان، ثقافت، روایات اور کھانے پینے کی عادات ہیں۔ اردو تمام ہندوستانی مسلمانوں کی زبان نہیں ہے، بلکہ ملک کے تقریبًا 45%مسلمان ملیالم، تمل ، تلگو،آسامی، بنگالی وغیرہ بولتے ہیں۔ لہٰذا تمام مسلمانوں پر یکساں اور ’شمالی ہندوستانی اردو داں طبقے کے لیے مخصوص‘طریقۂ کار کا اطلاق نہیں کیاجا سکتا۔
اس لیے تجویز ہے کہ ہندوستان کے مستقبل میں حصہ ڈالنے کی حکمتِ عملی تنوع کے اصول پر مبنی ہونی چاہیے۔
دستور ہند حقوق کا محافظ
دستور ہند 26جنوری 1950ء کو اختیار کیاگیا۔ دستور کے دیباچے میں عہد کیاگیا کہ ہندوستان کے عوام ایک خود مختار، سوشلسٹ، سیکولرملک تشکیل دیں گے اوراپنے تمام شہریوں کے لیے درجِ ذیل امور کو یقینی بنائیں گے:
انصاف سماجی، معاشی اور سیاسی
سوچ، اظہار، عقیدے، مذہب اور عبادت کی آزادی
حیثیت اورمواقع کی برابری اورانھیں سب کے لیے فروغ دینا
فرد کے وقار اور قوم کے اتحاد اور سا لمیت کو یقینی بنانے والا بھائی چارہ
دستور ہنداپنے نفاذ کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے رہ نما اور محافظ کے طورپر کام کررہاہے اور یہ مستقبل میں بھی یوں ہی کام کرتارہے گا۔ یہ مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دستور کی حفاظت کریں اور دستور کے حقوق وفرائض کو جانیں۔ خاص طورپر علما اور دانش وروں کو دستور اور اس کی دفعات کا مکمل مطالعہ کرناہوگا۔ مسلمانوں کو دستورِ ہند کے مثبت پہلوؤں اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں اس کے کردار سے آگاہ کیاجانا چاہیے۔ اگر کوئی رکاوٹ اور چیلنج درپیش ہوتو ایسی قانونی دفعات کا حل حدود کے اندر کیاجانا چاہیے اور دستور کی روشنی میں ان کے مذہب اور آزادی کے تحفظ کو یقینی بناناچاہیے۔
مقاصد شریعہ اور فقہ الاقلیات کی روشنی میں طرزِ عمل
ماضی میں مسلمان یاتو مسلم اکثریتی ممالک میں رہ رہے تھے یا غیرمسلم ممالک میں اقلیت کی حیثیت سے ایسے باشندے تھے جن کے حقوق نہ ہونے کے برابر تھے۔ تاہم ہندوستان میں صورت حال مختلف ہے۔ دستور ہند تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتاہے۔ مسلمان ہندوستان میں حکم رانی میں برابر کے حصے دار ہیں۔ لہٰذا ہندوستان کے مستقبل میں مسلمانوں کا کردار غیرفعال نہیں ہوسکتا۔ مسلمان دستور اور شریعت سے رہ نمائی حاصل کرکے ہندوستان کے مستقبل میں فعال کردار اداکرسکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ ، حبشہ ہجرت کرنے والے صحابہ کرام اور وہاں ایک انصاف پسند حکم راں نجاشی کے تحت ان کا قیام، میثاق مدینہ کا دوسروں کے ساتھ مل کر نظامِ حکم رانی قائم کرنا، نیز رسول اللہﷺ کا معاشرے کے کم زور طبقوں کی حمایت اور عدل وانصاف کو قائم رکھنے کے لیے معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہونا اوراسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا، بعض ایسی مثالیں ہیں جن سے اس تناظر میں رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
خاص طورپر مسلم علما کو روایتی فقہ کے ساتھ ساتھ ہندوستانی قانونی نظام سے لیس ہونا چاہیے، تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی کی جاسکے۔ کیرالا میں سنی گروپ کے مرکز نے مدرسوں کے علما کے لیے ایک لاء کالج قائم کیاہے اور وہاں سے کچھ فارغین(Batch) نکلے ہیں، جو کیرالا کے عدالتی نظام میں مصروفِ کار ہیں۔ اس طرح کے اقدامات پورے ہندوستان کے دیگر مدرسوں کے ذریعے بھی انجام دیے جائیں۔
یونی فارم سِول کوڈ جیسے مسائل سے نمٹنے اورملک میں مسلمانوں کے فعال کردار کے لیے راہ ہم وار کرنے کے لیے ’فقہ الاقلیات‘ (اقلیتوں کے لیے فقہ) اور ’مقاصد شریعت ‘ سے رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
دینی وعصری تعلیم
وقت کی ضرورت ہے کہ موجودہ دوہرے نظامِ تعلیم، یعنی روایتی اور سیکولر نظام تعلیم کو اختیار کیاجائے اوردینی اور سیکولر علوم کو یکجاکرنے والے تعلیمی نظام کو اپنایاجائے۔ اس طرح کی تبدیلی سیکھنے والوں کو بااختیار (empower)بنائے گی، اورانھیں دینی تعلیمات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ عصرِ نو کے تقاضوں کی تکمیل کے قابل بنائے گی۔
مغلیہ عہد کے مشہور صوفی حضرت مجدد الف ثانیؒ ، تاج محل بنانے والے معمار احمد اور مغل سپہ سالار سعادت اللہ خان نے انھی مدرسوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر مختلف شعبوں میں مزید اختصاص وتنوع پیدا کیاتھا۔ تیونس کی فاطمہ الفہری نے دنیا کی پہلی یونی ورسٹی جامعة القرویین قائم کی تھی، جہاں پر نہ صرف عربی اور اسلامی علوم پڑھائے جاتے تھے، بلکہ جغرافیہ، فلکیات، طب وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسی جامعہ سے ابن خلدون اور ابن رشد جیسے نابغہ روزگار شخصیات نے تعلیم حاصل کی۔ یہاں تک کہ یورپی طالب علم بھی آئے جنھوں نے علمی دنیامیں نام کمایا۔
عربی زبان جو دنیابھر میں بہت اہمیت کی حامل رہی ہے اورمسلمانوں کے لیے قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی لٹریچر سے براہ راست جوڑنے والی زبان ہے، اسے بھی جدید انداز میں ایک زندہ زبان کے طورپر پڑھایاجانا چاہیے۔ اس کی ایک بہترین مثال مدینہ یونی ورسٹی کے ڈاکٹر وی عبدالرحیمؒ کے ذریعے تیار کردہ دروس اللغۃ العربیۃ لغیرالناطقین بھا ہے۔
نہ صرف پورے ملک میں ہندی بلکہ تمل ، بنگالی، ملیالم جیسی علاقائی زبانوں کو ریاستوں میں پڑھایاجانا چاہیے اور ان میں مہارت حاصل کی جانی چاہیے۔ فارسی کی بجائے انگریزی کو بول چال اور تحریری دونوں شکلوں میں لسانی نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہندو مذہب اور اس کی اخلاقیات وثقافت سے واقفیت حاصل کرنے اور دوسرے ہم مذہبوں کے ساتھ پُل بنانے کے لیے سنسکرت اور پالی زبانوں کو سیکھنا چاہیے۔
معاشی سرگرمیاں اور انٹرپرینیورشپ
معاشی ترقی کے جدید فلسفے نے’’خوش حالی کے بہت کم جزیرے جب کہ غربت کے بسیط سمندر‘‘ تخلیق کیے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی میں جہاں عالمی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، وہیں غربت وعدمِ مساوات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایس اینڈ پی گلوبل کے مطابق، اندازہ لگایاگیاہے کہ ہندوستان 2030ء تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ لیکن آکسفیم انڈیا کی ’ہندوستان میں عدم مساوات‘ سے متعلق رپورٹ سے پتا چلتاہے کہ صرف 5% ہندوستانیوں کے پاس ملک کی 60%سے زیادہ دولت ہے،جب کہ نچلے درجے کی 50%آبادی کے پاس محض 3%دولت ہے۔
مسلمانوں کی حالت اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ مارکیٹ میں مختلف اقتصادی سروے دست یاب ہیں، جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے اثاثے اور کھپت کی سطح بڑے مذہبی گروہوں میں سب سے کم ہے، اور وہ ملک کا سب سے غریب مذہبی گروہ ہے۔ نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ اِن انڈیا‘ کے مطابق 31% ہندوستانی مسلمان خطِ غربت سےنیچے ہیں، جب کہ دیگر پس ماندہ برادریوں کے معاملے میں یہ شرح 26%ہے۔ امرتیہ سین کی ایس این اے پی رپورٹ اور کرسٹو فرجیفرلوٹ کی حالیہ رپورٹ سے پتا چلتاہے کہ 18-25سال کی عمر کے 31%مسلمان غیرتعلیم یافتہ اور بے روزگار ہیں۔ ’’جہاں مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے حالات میں کافی فرق پایاہے، وہیں یہ کمیونٹی ترقی کے تقریبًا تمام پہلوؤں میں کمیوں اور محرومیوں سے عبارت ہے‘‘۔ (سچرکمیٹی رپورٹ، باب12، ص273)
اس صورت حال سے مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے نمٹا جاسکتاہے:
دولت کی تخلیق : ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقیؒ کے مطابق گزشتہ تین صدیوں سے کسی بھی مسلم گروہ نے دولت کی تخلیق کے لیے کوئی تحریک شروع نہیں کی۔ ان کے خیال میں وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی کمیونٹی کے دولت پیداکرنے والوں کو پہچانیں اوران کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر دولت پیدا نہ کی جائے تو دولت تقسیم نہیں کی جاسکتی اور اگر دولت تقسیم نہیں کی جاتی تو ہمارے معاشرے کے غریب طبقے ترقی نہیں کرسکتے۔
انٹرپرینیورشپ: اسلام کو انٹرپرینیورشپ کا مذہب بھی کہاجاتاہے۔ اس کی وضاحت قرآن مجید کی آیات اور سنت رسول ﷺ سے کی گئی ہے، جن میں کاروباری افراد کی سرگرمیوں کو بہ نظرِ استحسان دیکھاگیا اوران کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مواقع کا استعمال کرنے، خطرہ مول لینے اور تمام مسلمان مرد وخواتین کو جدید طریقوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
نبی اکرم ﷺخود ایک تاجر اور کاروباری شخصیت تھے، اورآپ کے اصحاب خاص طورپر عشرہ مبشرہ آج کے معیار کے مطابق ارب پتی تھے۔ آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ پورے قریش قبیلے کے آدھے کاروبار کو سنبھالنے والی ایک معروف کاروباری خاتون تھیں۔ نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ مدینہ مارکیٹ ایک روشن مثال ہے، جسے مسلمانوں نے اپنایا۔ مدینہ مارکیٹ میں کوئی ٹیکس نہیں تھا اور خواتین کے لیے بھی کاروبار کرنے کے لیے الگ حصہ متعین کیاگیاتھا۔ اہلِ علم کا خیال ہے کہ قریش کے قبائل کے یمن اور شام (موجودہ سیریا)کے درمیان چلنے والے تجارتی قافلے آج کی مشترکہ اسٹاک کمپنیوں کی مثل تھے، جن میں معاشرے کے تمام طبقات قافلے کی تجارت میں بڑی اور چھوٹی مقدار میں حصہ لیتے تھے۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ روایتی ہنرمند کاری گروں کی طرح نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلم کاروباری افراد کی رہ نمائی اور مالی اعانت کی جانی چاہیے۔ ملک سے بہت سے سرمایہ کار اس طرح کے کاروباری اداروں کی مدد کے لیے آگے آسکتے ہیں ، مثلا : مضاربہ اور مشارکہ جیسے شراکتی فینانس طریقوں کے ذریعے۔ اس تناظر میں حکومتِ ہند کے اقدامات کا بھی استعمال کیاجانا چاہیے۔
فینانسنگ اور سرمایہ کاری
بی ایس ای اوراین ایس ای میں شامل کل اسٹاک کا تقریبًا 20%شریعت کے مطابق (shariah compliant)ہے۔ بدقسمتی سے مسلم کمیونٹی کیپٹل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی بجاے لالچ ، مالی نا خواندگی اور کاروباری اخلاقیات کی عدمِ موجودگی کی وجہ سے آئی ایم اے ، ہیراگولڈ جیسی پونزی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔ جب کہ جین جیسی برادریاں شریعہ کمپلائنٹ اسٹاک سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ مسلمانوں میں شریعہ کمپلائنٹ سرمایہ کاری کے بارے میں بیداری پیدا کی جانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں شراکتی سود سے پاک فنانس اور بینکنگ متعارف کرانے کی کوششیں جاری ہیں اورجلد ہی ان کی منظوری ملنے کا قومی امکان ہے۔ اسی طرح کی کوششیں باہمی اور کوآپٹریٹوانشورنس متعارف کرانے کے لیے کی جانی چاہئیں، جسے ’’تکافل‘‘ کہاجاتاہے۔ اس کے علاوہ غیربینکاری مالیاتی کمپنیاں (این بی ایف سی)جیسے چیرامن فنانشل سروسز، کیرالا میں متبادل سرمایہ کاری اور کریڈٹ لمیٹڈ (اے آئی سی ایل) کو ملک کے دیگر حصوں میں قائم کرنا ہوگا۔
اسٹیٹ اینڈ ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مختلف ریاستوں میں: سہولت، جن سیوا، سنگھمم اور خدمت جیسی کریڈٹ سوسائٹیاں کام یابی سے اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر برادریوں کی مائیکروفینانس ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان کے تمام اضلاع میں ایسے ادارے قائم کیے جانے چاہئیں۔
مرکز کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کی موجودہ حکومتیں بیرونِ ملک سے سوورین فنڈ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اور بہت سے اعلیٰ نیٹ ورتھ کے حامل غیرمقیم ہندوستانی ابھرتے ہوئے ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، جن کو ایکسپلور کیے جانے کی ضرورت ہے۔
مسلم خواتین کا کردار
مختلف رپورٹوں کے مطابق ہندوستان میں مسلم خواتین نسبتًاکم بااختیار (disempowered)ہیں۔ مطالعے سے پتاچلتاہے کہ تعلیم کے حصول اور روزگار تک رسائی کے معاملے میں ہندوستان کی تمام بڑی برادریوں میں مسلمانوں میں صنفی تفریق سب سے زیادہ ہے۔ خواتین کی گھریلو فیصلہ سازی کی طاقت اور نقل وحرکت کی آزادی کے بارے میں معلومات سے یہ بھی پتاچلتاہے کہ مسلم خواتین دوطریقوں سے سب سے کم بااختیار اور معاشرے کے پس ماندہ طبقات میں سے ایک ہیں۔ ایک عورت کے طورپر اور دوسرے اقلیتی برادری کے رکن کے طورپر، جو خود تعلیمی ومعاشی لحاظ سے پس ماندہ اور قدامت پسند ہے۔ لہٰذا خواتین کو تعلیم، معاشی سرگرمی، سماجی اور سیاسی سرگرمی تک رسائی فراہم کرکے انھیں بااختیار بنانے کے لیے پروگرام تیار کیاجائے۔
زکوٰة کا اجتماعی نظام
اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ توحید، نماز، زکوٰة، روزہ اور حج۔ زکوٰة بنیاد کے دیگر اجزا میں سیمنٹ کی طرح ہے، جس کے بغیر یہ مضبوط اورمستحکم نہیں ہوسکتی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ جہاں توحید، نماز، روزہ اور حج جیسی دیگر ذمہ داریاں بڑے پیمانے پر معروف اور متعارف ہیں اور ہندوستانی مسلمان ان پر بڑی حد تک عمل کرتے ہیں، وہیں زکوٰة کو یکسر نظرانداز کردیاجاتاہے۔
ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلز کی جانب سے چند سال قبل کیے گئے ایک سروے کے مطابق30%مسلمانوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ زکوٰة کیاہوتی ہے۔ 40%نہیں جانتے کہ اس کا حساب کیسے لگایاجائے۔ 60%مسلمان زکوٰة انھی افراد کو دیتے ہیں جن کو وہ ہر سال دیاکرتے تھے، تاہم 80% زکوٰة کے اجتماعی نظام کے حق میں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اور پھر خلفائے راشدین کے عہد میں زکوٰة کا اجتماعی نظام نافذ تھا، جس کی وجہ سے معاشرے میں ایسی خوش حالی آئی کہ زکوٰة دینے والے تو تھے مگر زکوٰة لینے والا کوئی نہیں ملتاتھا۔ اس کے علاوہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں غیرمسلموں کو زکوٰة دی جاتی تھی۔
آج ملیشیا، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ میں اجتماعی زکوٰة کے نظام کی مثالیں موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ میں2%مسلم آبادی جی ڈی پی میں 10%حصہ شامل کر رہی ہے۔ ساؤتھ افریقن نیشنل زکوٰة فاؤنڈیشن(سنزاف) کو کام یابی کے ساتھ دو خواتین فیروزہ محمد اور یاسمینہ فرینکی چلارہی ہیں، جس کا 52%عملہ صرف خواتین پر مشتمل ہے۔
سیاست اور حکم رانی
گورننس میں متناسب نمائندگی(proprotoional representation) اختیار ہوسکتی ہے، اور اگر ممکن ہوتو ہمیں ایک خاکہ تیار کرناہوگا، اور بامعنیٰ نمائندگی کے لیے اس کی بھرپور وکالت کرنی ہوگی۔
سیاست اور حکم رانی کے موجودہ نظام میں کچھ مسائل ہیں۔ ان میں سب سے اہم فیصلوں کااوپر سے نیچے بہاؤ ہے۔ لہٰذا فیصلہ سازی کے عمل میں خطوں ، ریاستوں اورمقامی لوگوں کی شمولیت کو بڑھانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ پنچایت کی سطح پر انتخابات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور مقامی سطح پر الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ خاص طورپر خواتین کے ریزرویشن کو ٹا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جذبے اورمہارت کی حامل مسلم خواتین کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ کردار اداکرنا ہوگا۔ جہاں مسلمانوں کو موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی مخالفت اوراحتجاج کرنا چاہیے، وہیں ڈیجیٹلائزیشن ، فنڈز کی براہ راست منتقلی، گاؤں میں بیت الخلا وغیرہ جیسی مثبت اور نتیجہ خیز پالیسیوں کی ستایش کرنا بھی اتناہی ضروری ہے۔
میڈیا ایکٹیوزم
میڈیا رائے عامہ کو ہموار کرنے اور عوام کی سمجھ کی تشکیل کرنے یا ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کا سب سے مؤثر چینل ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمان اس میدان میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہندی میں ایک بھی اخبار یاالکٹرانک چینل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اردو اور علاقائی زبانیں بھی(مادھیمم کیرالاڈیلی اور میڈیا ون کو چھوڑ کر) کوئی مثالی کام یابی کی نظیر پیش نہیں کرسکی ہیں۔ لہٰذا اس پہلو پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں معروف صحافیوں نے اپنا پیغام لاکھوں افراد تک پہنچانے کے لیے یوٹیوب کا انتخاب کیاہے۔ مسلمان صحافی بھی اس کی پیروی کرسکتے ہیں۔ شارٹ فلمیں فیس بک ، یوٹیوب اور انسٹاگرام وغیرہ پر جاری کی جاسکتی ہیں۔
مسلم معاشرے میں سماجی اصلاحات
اس وقت اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں موجود ہیں۔ یہ غورکرنے کا مقام ہے کہ آیا یہ مسلمانوں کے ذریعے اسلام کی غلط نمائندگی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟
ایک طرف تو ہندوستانی مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اور دوسری طرف مہنگے ہوٹلوں اور ضیافتوں، مہنگی شادیوں ، دیگر سماجی رسوم وغیرہ پر اسراف اور فضول خرچی کے مظاہرے بہت عام ہیں۔ علما اور رائے عامہ پر کام کرنے والے افراد کو اس طرح کے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔یہ بتانا ضروری ہے کہ زندگی میں ایک بار حج فرض ہے۔دیگر حقوق کو اداکیے بغیر باربار حج اور بار بار عمرہ کرنا دین میں ترجیحات سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے۔ اس کے علاوہ نکاح کی سادہ تقریبات جس طرح نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہوتی تھیں، ان کی حوصلہ افزائی اورستایش کی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ بڑے بڑے انفراسٹرکچر اورمہنگی عمارتیں بنانے کے بجائے مذہبی مقاصد کے لیے بھی یہ مشورہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
ہمارا ملک سب سے کم عمر باشندوں والا ملک ہے، جس کی 65%آبادی 35سال سے کم عمر ہے، جس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس نوجوان نسل کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، روزگار اور باوقار زندگی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
مساجد کے دائرہ کار میں توسیع
نبی کریم ﷺکی زندگی میں مسجد صرف نماز یاعبادت کا نہیں بلکہ مختلف سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ آج بھی مغربی ممالک میں بہت سی مساجد عبادت، تربیت اورخدمت کا مرکز ہیں، جہاں لائبریریاں، ہیلتھ کلینک،میرج کونسلنگ سنٹر، بزرگوں کے آرام کے لیے کمرے، بچوں کے کھیلوں کی جگہ اور تمام برادریوں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ اس نوع کی مساجد ملک کے بڑے قصبوں اور شہروں میں تعمیر کی جاتی ہیں۔
جمعہ کے خطبات کو مسجد میں آنے والے لوگوں کی تعلیم اور انھیں معاشرے میں تبدیلی کا رہ نما بناکر مزید موثر بنایاجائے۔ اس کے علاوہ خواتین کو بھی مسجد میں داخلے کی اجازت ہونی چاہیے اور انھیں سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے، جس طرح رسول اللہ ﷺ کے عہد میں عورتوں کو اس کی اجازت تھی۔
اختتامیہ
آخر میں ہندوستانی مسلمانوں کو 2047ء کا ایک نیاروڈ میپ تیار کرنے کے لیے دو اقدامات کرنے ہوں گے۔
شق انگیزجدت طرازی (disruptive innovation) اور بالواسطہ شمولیت (lateral entry)ڈسرپیٹوانوویشن وہ آلہ اور تکنیک ہے جس کے ذریعے ماضی میں دستیاب بہت سی چیزوں یاہر چیز سے قطع نظر کرتے ہوئےحال سے مستقبل کی طرف جست کی جاتی ہے۔
شقاق(disruptions)کے تین مرحلے ہیں: اختراع، انکیوبیشن [موافق حالات پیداکرنا] اور اسکیلنگ [متناسب توسیع]۔ پہلے ہمیں 2047ء کے لیے اپنے روڈ میپ کا آئیڈیا تشکیل دینا ہوگا، اورپھر اس کو توسیع دینے کی کوشش کرنی ہوگی۔
لیٹرل اینٹری مستقبل کی کارروائی کی اس اہم دستاویز کی تشکیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ لیٹرل اینٹری کامطلب ہے دوسرے گروہوں سے ایسے ماہرین اور دانش وروں سے مشاورت کرنا اوران کی شمولیت کرانا جو ہمارے دائرہ کار میں دستیاب نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمانوں نے بہت سے ایسے ماہرین اور دانش وروں سے ربط پیدانہیں کیا، جو قومی اور عالمی سطح کے ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مشق کو شروع کیاجائے۔
ہمارے رول ماڈل حضرت محمدﷺ نے فرمایا:
’’لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔‘‘
اس بڑے ملک میں ہندوستانی مسلمانوں کا اپنے سلسلے میں یہی اصول ہونا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025






