انانیت کے لفظی معنی خود بینی، میں پن ، خود ستائی، خود پرستی، پندار اور غرور کے ہیں۔ کہاجاتاہے انانیت پسندegoist مطلق العنان،ہر شخص کے اندر ’’انا‘‘عزت نفس اور اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ عزت نفس پاکیزہ جذبہ ہے اس کو علامہ اقبال نے خودی سے تعبیر کیاہے۔یہ ایک محمود صفت ہے ۔ انسان اپنے آپ کو خدا کا باعزت بندہ سمجھے اور یہ سمجھے کہ مجھے عزت و وقار کے ساتھ اپنا معاملہ کرناچاہیے۔اس کے برعکس انانیت خود کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔ اپنی بڑائی میں حق و صداقت کا منکر ہوجانا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انانیت تکبر و غرور کے ہم معنی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے جب معلوم کیاگیا:کہ ہر شخص چاہتاہے کہ اس کے لباس اچھے ہوں اور جوتے اچھے ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ خود خوبصورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتاہے۔ انانیت کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: بطر الحق وغمط الناس۔ حق کے سامنے اکڑجانا اور اپنے سامنے کے لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ یعنی اپنے اقتدار، دولت، حسن جمال، علم و آگہی کے پندار میں آکر حق بات کو ٹھوکر ماردینا اور دوسروں کو حقیر اور بے وقعت سمجھنا انانیت ہے۔
بچوں میں انانیت
چھوٹے بچے میں انانیت یہ ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچے۔ صرف اپنی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل پر بضد رہے۔اپنی چیزوں میں دوسروں کی شرکت سے نفرت کرے۔ انانیت کے شکاربچے خود اپنی ذات کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں اور اپنے بارے میں بھی الجھائو کے شکار رہتے ہیں۔ دوسرے بچوں کے تئیں حقارت اور نفرت اور منفی جذبات ان کے اندر ہوتے ہیں ۔ اجتماعیت سے اپنے کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے ہم عمر ساتھیوں سے دوری بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔
انانیت کے اسباب
خوف: بچوں میں انانیت پروان چڑھنے کا ایک بڑا سبب خوف ہے۔ انہیں اپنی محبوب چیزوں سے محروم ہوجانے کا خوف ستاتارہتاہے۔اپنے مطالبات کے بارے میںدوسروں کے انکار کردینے کا ڈر لگا رہتاہے۔کسی چیز کے نہ دینے کا خوف اور اندیشہ بھی رہتاہے۔ غصے اور ڈر کا شدید احساس ان کے اندر ہوتاہے ۔ اسی وجہ سے ان کے رویہ میں شدت اور انانیت پیداہوجاتی ہے۔ ان بچوں کے اندر اپنی ذات کی سلامتی اور اپنی خوشی کی فکر ہوتی ہے اس لیے اپنی خواہش کو ہر حال میں پوری کرنا چاہتے ہیں اپنی بات منوانے کے لیے شدت اختیار کرتے ہیں اور تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اپنی زندگی اور رویے میں کسی طرح کی تبدیلی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ ہروقت خوف کی وجہ سے الجھن اوربے چینی رہتی ہے۔
جسمانی اور نفسیاتی کم زوری
بعض بچے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے فطری طور پر کم زور ہوتے ہیں،یا پرورش میں ناہمواری اور بے توجہی کی وجہ سے کم زور ہوتے ہیں۔ سماج اور گھر اور اسکول میں ان کے بارے میں حقارت یا بے توجہی پائی جاتی ہے۔چنانچہ بچے خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں ایسے میں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے، اپنی اہمیت اور قدر و قیمت ظاہر کرنے کے لیے، اپنی ذات میں مگن ہوجاتے ہیں۔ دوسروں سے نفرت پیداہوجاتی ہے خود کو بڑا بنانے کے لیے انانیت اور شدت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
ضرورت سے زیادہ لاڈ و پیار
بعض والدین اور سرپرست الجھن سے بچنے کے لیے بچے کی ہر خواہش پوری کردینا ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ا س طرح وہ بچے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت اور لاڈ و پیار دے کر اس کی حمایت اور حفاظت میں کھڑے رہتے ہیں ۔ بچے کی پرورش و پرداخت ایسے ماحول میں ہوتی ہے جس میں بچے کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ابھرتاہے۔ صبر و تحمل کے جذبات کی پرورش نہیں ہوپاتی ہے۔ گھر کے دوسرے بچوں اور ساتھیوں سے مشارکت(shairing)اور ہمدردانہ جذبہ پیداہونے کے بجائے انانیت، خود پسندی کا جذبہ پیداہوتاہے۔
گھر کا ماحول
بچے ’’انانیت گھر سے سیکھتے ہیں۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انانیت اور خود غرضی والے گھر میں انانیت پسندبچے پرورش پاتے ہیں۔ والدین اور سرپرست ہی غیر محسوس طور پر انانیت کی تعلیم دینے والے ہوتے ہیں۔باپ اپنی ذات اپنے کاروبار اور مسائل میں مصروف رہتا ہے۔ رات میں دیر سے آتاہے اور صبح پہلے ہی نکل جاتاہے۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھے، ان کے ساتھ کھیلے ان کے کھلونوں اور ضروریات میں دل چسپی لے۔ ماں اپنی ذات میں مشغول رہتی ہے ملاقاتوں ،رشتہ داریوں کو نبھانے میں اور بڑا وقت ٹی وی اور نیٹ کے نذر ہوجاتاہے۔ اسے فرصت نہیں ہے کہ بچے کے کارٹون ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے، ان کے ساتھ شیر کرے۔اس کا موقع نہیں ہوتاہے کہ اپنے بچوں کو کہانیاں سنا سکے،اپنی زبان سے محبت کی لوریاں سناسکے۔اس طرح کے ماحول میں جب بچہ پرورش پاتاہے تو وہ یہی سوچتاہے کہ یہ دنیا ایسی ہی ہے کہ ہر کوئی اپنے بارے میں سوچے اپنے مفاد کے لیے کوشش کرے۔ انانیت اس کے دل دماغ میں بیٹھ جاتی ہے وہ اپنی خواہشات کا غلام بن جاتاہے۔
انانیت کا علاج
بچوں میں انانیت کی صفت پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بیماری سے محفوظ رہیں گے۔
مامون اور محفوظ ہونے کا احساس پیداکرنا
بچے کے اندر سے محرومی یا چیزوں کی عدم دست یابی کا خوف ختم کرنا چاہیے۔ اس کو اعتماد میں لانا چاہیے کہ وہ مامون ہے کسی طرح کا خطرہ یا گزند نہیں لاحق ہوگا دوسرے بچوں کے ساتھ شیر کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ اس طرح کا ماحول بنانا چاہیے کہ دوسروں کی خوشی میں خوش ہو، دوسروں کی پریشانی اور مصیبت میںاس کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیداہو۔ والدین کو خود اس باب میں اسوہ اور نمونہ ہونا چاہیے۔ انہیں اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کی خوشی میں شریک ہونا چاہیے اور ان کی پریشانی اور مصیبت میں ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔عزیز واقارب سے محبت و ہمدردی کا رویہ اختیار کرنے سے بچوں کے اندر بھی یہ جذبہ پیداہوگااور وہ انانیت سے محفوظ رہیں گے۔
انانیت اور تسلط سے نفرت
طاقت ور بچے کم زوروں پر حاوی رہتے ہیں اور ان پر اپنا تسلط جماکر رکھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دوسرے بچوں کی عزت اور احترام کی تعلیم دیں۔مل جل کررہنے اور آپس میں نرمی و محبت کے ساتھ معاملہ کرنے پر آمادہ کریں۔ کم زوروں کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا جذبہ ان کے اندر ابھاریں۔ بچے کو اس بات پر امادہ کریںکہ وہ اپنے بعض کھلونے ساتھیوں کوگفٹ کردیاکریں۔ عام طور پر والدین جب رشتہ داروں کے بچے آنے والے ہوتے ہیں تو اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ کھلونوں کو چھپادیں اور اگر بچے نے کھلونوں کو ان بچوں کے سامنے ظاہر کردیا اور ٹوٹ گیا تو ان کے جانے کے بعد بچے کو سزا دیتے ہیں کہ تم نے کیوں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اس سے بچے کے اندر بخل عدم مشارکت کی تعلیم ملتی ہے۔ والدین کو نہ صرف اپنے کھلونوں کے ساتھ شیر کرنے کی ترغیب دینی چاہیے بلکہ اگر رشتے دار کے بچے اس کے لیے ضد کریں تو گفٹ کردینے کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ اس سے بچے کے اندر فیاضی ، سخاوت اور ہمدردی کے جذبات پرورش پائیں گے۔
ذمہ دارانہ روش
بعض والدین بچے کا ہر کام خود کرتے ہیں یہاں تک کہ بچے بڑے ہوجاتے ہیں وہ خود سے کھانا نہیں کھاتے خود سے کپڑے نہیں پہن سکتے اپنے جوتے کا فیتا نہیں باندھ پاتے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین خود سے بڑھ کر یہ خدمت انجام دیتے ہیں اور بچے کوان کاموں کے لیے آمادہ نہیں کرتے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کو دھیرے دھیرے اپنا کام خود کرنے کا عادی بنائیں ۔ شروع میں بچے کو خود کرنے دیں اس کی مدد کریں اورجب وہ کام انجام دے لے تو اس کی ہمت افزائی کریں کہ اب تو خود سے یہ کام کرلیتاہے۔ اس طرح بچوں کے اندر اعتماد پیداہوگا۔ اور ذمہ دارانہ روش پیداہوگی۔ اس سے اس کے اندر تواضع پیدا ہوگا اور انانیت کا جذبہ ختم ہوگا۔
تنقید قبول کرنے کا حوصلہ
بچے کی ایسی تربیت ہونی چاہیے کہ کھلے دل و دماغ سے دوسروں کی باتوں کو سنے اور احترام کرے۔ اپنی ذات کے بارے میں کوئی تبصرہ اور تنقید سنے تو ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرے دوسروں کی باتوں کو سن کر جذباتی نہ ہوجائے، اگر حقیقت پر مبنی ہوتو اپنی اصلاح کے لیے آمادہ ہوجائے۔بلکہ احترام و عزت کی نظر سے تنقید کرنے والوں کو دیکھے۔
گھر کے اندر اسلامی اور ایمانی فضا
گھر میں اسلامی ماحول اور ایمانی فضا سے بھی بچوں میںا نانیت ختم ہوجاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سخاوت ، محبت ، جود و کرم، فیاضی، رحم دلی اور ہمدردی کو بہت اونچا مقام حاصل ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بخل اور ایمان اکٹھا نہیں ہوسکتے(کنز العمال) ۔قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:اپنی حاجت اور ضرورت کے باوجود مومنین دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔( الحشر:۹ ) جس دل میں زندہ ایمان ہوگا، اس کا اخلاق بہت بلند ہوگا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دینا چاہیے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے مہمان کی ضیافت کرنی چاہیے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے بھلائی کی بات کرنی چاہیے یا خاموش رہنا چاہیے۔ اس طرح گھر کا ماحول اگر اسلامی ہے تو بچے کے لیے گھر تربیت گاہ ثابت ہوگی اور انانیت کے بجائے تواضع اور خاکساری جیسی صفات پیدا ہوں گی‘‘۔( متفق علیہ)
مشمولہ: شمارہ مئی 2018