وابستگان جماعت اسلامی کی درجہ بندی ایک تنظیمی ضرورت ہے یہ درجے متفق، کارکن اور رکن کی حیثیت میں کئے جاتے ہیں ان میں رکنیت کی اساسی اہمیت ہے۔ رکن کے معنی ستون کے ہیں ایک اصولی، نظریاتی و انقلابی تحریک کا رکن ہو نا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ جماعت نے اس کو چند شرائط ‘ ذمہ داریوں اور معیار مطلوب کا تابع کر رکھا ہے۔ شرائط رکنیت کے مطابق کوئی فرد اس کے عقیدہ ‘ نصب العین ‘ طریق کار سے کامل اتفاق اور نظم جماعت کی پابندی کا عہد نہ کرے تووہ اس کے قافلے میں بحیثیت رکن شامل نہیں ہو سکتا۔ شمولیت کے ساتھ رکن پرچند اہم ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں جنکا پورا کرنا مذکورہ عہد کا لازمی تقاضہ ہے۔ یہ ذمہ داریاں درج ذیل ہیںفرائض دینی کو جملہ شرعی پابندیوں کے ساتھ ادا کرنا‘ کبائر سے اجتناب ‘ ذریعہ معاش اور فی الجملہ اپنی ساری معیشت کو حرام سے پاک رکھنا ‘ حرام مال یا جائیداد سے دستبردار ہوجانا ‘ مال و جائیدادمیں کسی حقدار کا حق شامل ہوتو اُس کی ادائیگی ‘ غیر الٰہی نظام حکومت کے کلیدی مناصب اور نظام عدالت میں فصل مقدمات کے عہد ے سے دست برداری ضروری ہے (البتہ وہ کسی مجلس قانون ساز کا رکن ہو سکتا ہے بشرطیکہ شرعی حدود میں کام کرے۔ آخری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق بندگان خدا کو تحریک کے عقیدے اور نصب العین کی طرف دعوت دے اور جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انہیں اقامت دین کی اجتماعی جد و جہد پر آمادہ کرے۔ رکنیت کی یہ ذمہ داریاں تحریکی سفر کی دوسری منزل ہیں ۔یہ اس کی نظر یاتی اساس کے ساتھ فکر ی و عملی یگانگت کے اظہار کی علامت ہیں۔
تحریک کے تنظیمی وجود کو ایک بلند و بالاعمارت سے تعبیر کریں تو اسکی پہلی منزل (شرائط) اور دوسری منزل (ذمہ داریاں) ہیں۔ ان میں ایک منزل طے نہ ہوتو دوسری کی سمت سفر متاثر ہو جاتا ہے اس خلا ء کو چھلا نگ لگا کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ معیار مطلوب ان دونوں منازل سے آگے عروج و ارتقاء کی تیسری منزل ہے ۔ معیار مطلوب کے نکات یہ ہیں اسلام اور جاہلیت کے فرق اور حدود اللہ سے واقفیت یعنی علم صحیح ،تعلق باللہ کی مضبوطی، معاملات دنیوی میں رضائے الٰہی کو اساس بنانا،رسوم جاہلیت سے پاکی، فساق و فجار سے قطع تعلق، غیر الٰہی نظام کا آلہ کار ہونے سے انکار ، اضطرار کے بغیر غیر اسلامی عدالتوں سے گریز ، تمام معا ملات کا تقوی پر قیام،زندگی کی ساری سرگرمی کوا قامت دین پر مرکوز کرنایہ منزل تربیت ِ فکر و عمل اور صلاحیت کو پروان چڑھانے کا تحریکی پیمانہ ہے جس کو عبور کر نا فرد کی شخصیت کی تکمیل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تحریک اسلامی میں مناصب ‘ عہدہ اور مختلف تنظیمی ذمہ داریوں کو تفویض کر نے کا جو عمل ہے اور جو درکاراوصاف ہیں وہ اسی معیار مطلوب سے جنم لیتے ہیں۔ تحریک میں کسی فروتر معیار کے حامل صاحب عہدہ و منصب کا تصور نہیں کیا جاسکتا ان منازل کو طئے کئے بغیر سفرزوال کی علامت ہے ۔
معیار مطلوب :
دستورِجماعت میں رکن جماعت کی ذمہ داریوں کے بیان کے بعد ’’ معیار مطلوب‘‘ کا عنوان درج ہے۔ اس میں چند اہم امور کی نشاندہی کی گئی ہے ۔مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم جماعتی دانشوروں کے سرخیل اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے رفقائے کار میں سے تھے آپ تحریکی فکر و نظر کے مستند شارحین میں شمار کیے جاتے ہیں آپ نے ’ ’ معیار مطلوب ‘‘ کی متذکرہ دفعہ کو کسی رکن جماعت کی ذہنی و فکری‘ دینی و تحریکی تربیت کا مطلوبہ معیار قرار دیا ہے۔
’’ تحریک اسلامی اپنے ارکان کو جس حد تک ’’ تربیت یافتہ‘‘ دیکھنا چاہتی ہے اور انکی تربیت کا اس کے نزدیک جو مطلوبہ معیار ہے ‘ وہ دو لفظوں میں یہ ہے کہ لوگ اس کے رنگ میں پوری طرح رنگ جائیں اور ان کا ایمان ‘ اخلاق ‘ طرز عمل ‘ طرز فکر ‘ ہر شئے ایسی بن جائے ‘ جیسی ایک سچے مومن اور مخلص داعی حق کی ہونی چاہیے۔ اس بات کو اس نے مبہم یا مجمل نہیں رہنے دیا ہے ‘ بلکہ اس نے پوری وضاحت بھی کر رکھی ہے اور اس وضاحت کو اپنے دستور میں جگہ دی ہے تاکہ وہ ہر رکن جماعت کی نگاہوں کے سامنے ہر وقت نمایاں رہے ‘‘۔ (تحریک اسلامی ہند ‘ باب ارکان کی تربیت‘ صفحہ ۸۱)
دستور جماعت دفعہ ۹ شق ۱ تا ۱۰ کو لفظاً لفظاً نقل کرنے کے بعد مولانا موصوف رقمطراز ہیں:
’’ ان تفصیلات سے فکرو عمل کی جو تصویر بنتی ہے وہی تربیت کا معیار مطلوب ہے۔ دین وایمان کے اسی مقام پر تحریک اپنے ارکان کو فائز دیکھنا چاہتی ہے اور اس کا پورا تربیتی نظام اپنے ارکان کو اسی مقام تک پہنچانے کی خاطر وضع کیا گیا ہے ‘‘۔
(تحریک اسلامی ہند ‘ باب ارکان کی تربیت‘ صفحہ۸۲)
جماعت کے میقاتی پروگرام (بابتہ ۲۰۱۱ء تا ۲۰۱۵ء ) میں تربیت کے ذیل میں ۲۲ نکاتی پروگرام درج ہے۔ہر رکن جماعت کو انفرادی طور پر اسے روبعمل لانا ہے یہ بڑی حدتک اسی ’’ معیار مطلوب ‘‘ کی شرح ہے ’’ معیار مطلوب‘‘ کی شق وار تفصیل درج ذیل ہے۔
اسلام اور جاہلیت کے فرق کو جاننا اور حدود اللہ سے آگاہ ہو جانا۔ یہ نہایت اہم فکری ‘ ایمانی و دینی تقاضہ ہے۔ اسلام اور جاہلیت کے موضوع پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اہم کتابچہ موجود ہے۔ اسلام وہ دین حق ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا ۔ اس کے برعکس انسانوں نے اپنے مشاہدہ حسی اور وہم و قیاس کے سہارے تخلیق انسان و کائنات پر غور و فکر کرکے نظریات بنائے اور انسان کو محض ایک سماجی حیوان قرار دے کر مختلف تصورات و فلسفے گھڑلئے ان کو جاہلیت کہا جاتا ہے۔ اس کی چند قسمیں ہیں۔ خالص جاہلیت (Pure Ignorance) شرک (Polytheism) رہبانیت (Monkery) او رہمہ اوست (وحدت الوجودکا نظریہMonism ) ۔ مولانا مودودیؒ نے اسلام کے صحیح فہم اور جاہلی افکار و اوہام سے واقفیت کو ارکان کے انفرادی اوصاف میں اولین حیثیت دی ہے ۔
’’ سب سے پہلی چیز اسلام کا صحیح فہم ہے۔ جو آدمی اسلامی نظام زندگی کو بر پا کرنا چاہتا ہو اسے پہلے خود اس چیز کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہیے جسے وہ برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس غرض کے لیے اسلام کا محض اجمالی علم کافی نہیں ہے بلکہ کم و بیش تفصیلی علم درکار ہے اور اس کی کمی وبیشی ہرشخص کی استعداد پر موقوف ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس راہ کا ہر راہ رو اور اس تحریک کا ہر رکن مفتی یا مجتہد ہو لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک اسلامی عقائد کو جاہلی افکار و اوہام سے اور اسلامی طرز عمل کو جاہلیت کے طور طریقوں سے ممیز کر کے جان لے اور اس بات سے واقف ہو جائے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام نے انسان کو کیا رہنمائی دی ہے۔ اس علم و واقفیت کے بغیر نہ آدمی خود صحیح راہ پر چل سکتا ہے نہ دوسروں کو راستہ دکھا سکتا ہے اور نہ تعمیر معاشرہ کے لیے کوئی کام صحیح خطوط پر کر سکتا ہے‘‘۔ (تحریک اور کارکن ‘ باب پنجم ‘ انفرادی اوصاف‘ صفحہ: ۱۸۳ از : مولانا مودودیؒ )
قرآن حکیم میں احکام خداوندی حُدُوْدُ اللہ بھی کہا گیا ہے۔صاحبِ ایمان کو حدود اللہ سے واقف ہو ناچاہئے جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہو تی ہے عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور رہے تا کہ بھولے سے بھی قدم اسکے پارنہ چلا جائے ‘ حدود اللہ کے بارے میں قرآن مجید کی درجِ ذیل آیات رہنمائی کرتی ہیں:
اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۱۱۲ (سورہ التوبہ آیت : ۱۱۲)
فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَـاۗسَّا۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِـتِّيْنَ مِسْكِيْنًا۰ۭ ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۴ (سورہ المجادلہ ،آیت:۴)
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ رَبَّكُمْ۰ۚ لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِہِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَـيِّنَۃٍ۰ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۰ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا۱ (سورۃ الطلاق،آیت:۱)
(۲)تعلق باللہ کے لیے فرائض و نوافل عبادات اور تلاوت قرآن کا اہتمام ضروری ہے اس سلسلہ میں سید مودودیؒ کا ارشاد ہے :۔
’’ اولین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیاء اور خلفائے راشدین اور صلحائے امت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے ‘‘
’’ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اللہ سے دل کا لگائو مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب مقدم ہے اور فی الجملہ ہماری ساری زندگی ہی کی درستگی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑدھوپ اور سعی و جہد میں رضائے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو ‘‘۔
’’ تعلق باللہ سے مراد جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے یہ ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا اور اس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اللہ کے لیے ہوں:
اِنَّ صَلٰوَتِیْ وَنُسُکَیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ
اور وہ پوری طرح یکسو ہو کر اپنے دل کو بالکل اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کر ے۔
وَمَا اُمِرُ واِلَّا لِیُعَبدُوْ للّٰہِ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف مواقع پر اپنے ارشاد ات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرمادی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ حضور ﷺ کے بیانات کا تتبّع کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں کہ خَشْیَہُ اللّٰہ فِی السِّرِ وَ اْلعَلَانِیہَ۔ کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا ‘‘ الخ : (ایضاً۔ راہ حق کے لیے ضروری توشہ صفحہ: ۱۴۵۔ ۱۴۸)
(۳) تمام معاملات میں اپنے نقطہ نظر ‘ خیال اور عمل کو ہدایت الٰہی کے مطابق ڈھالنا۔ اپنی زندگی کے مقصد ‘ اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفا داریوں کے محور کو تبدیل کر کے رضائے الٰہی کے موافق بنانا اور اپنی خود سری اور نفس پرستی کے بت کو توڑ کر تابع امر رب بن جانا۔
’’ ضروری وصف جو اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں میں ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ نظام زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں وہ خود اس پر پختہ ایمان رکھتے ہوں۔ ان کا اپنا دل اس کے صحیح و برحق ہونے پر مطمئن ہو اور ان کا اپنا ذہن اس معاملے میں پوری طرح یکسوہو جائے۔ شک اور تذبذب اور تردّد لیے ہوئے کوئی شخص اس کام کو نہیں کر سکتا۔ دماغی الجھنیں اور نظر و فکر کی پراگندگیاں لے کر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی ایسا آدمی اس کام کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا جس کا دل ڈانواڈول ہو ‘ جس کا ذہن یکسو نہ ہو ‘ اور جسے خیال و عمل کی مختلف راہیں اپنی طرف کھینچ رہی ہوں یا کھینچ سکتی ہوں۔ یہ کام تو جسے بھی کرنا ہواُسے قطعی طور پر اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ خدا ہے اور انہی صفات سے متصف ‘ انہی اختیارات کا مالک اور انہی حقوق کا مستحق ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ آخرت ہے اور ٹھیک ویسی ہے جیسی قرآن میں بتائی گئی ہے۔ راہ راست صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھائی ہے ہر وہ چیز باطل ہے جو اس کے خلاف ہو یا اس سے موافقت نہ رکھتی ہو۔ جو خیال بھی کسی دوسرے نے پیش کیا اور جو طریقہ بھی دوسرے نے نکالا ہے اس کو جانچنے کی کسوٹی صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت۔ اس کسوٹی پر جو کھرا اُترے وہ کھرا ہے اور جو کھوٹا اترے وہ کھوٹا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کی تعمیر کے لیے ان حقیقتوں پر پختہ یقین درکار ہے ‘ دل کا پورا اطمینان درکار ہے۔ دماغ کی کامل یکسوئی درکار ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں ادنی تذبذب بھی رکھتے ہوں یا جن کی دلچسپیاں ابھی دوسری راہوں سے وابستہ ہوں انہیں اس عمارت کے معمار بن کر آنے سے پہلے اپنی اس کمزوری کا علاج کرانا چاہیے‘‘۔ (ایضاً: اسلام پر پختہ ایمان‘‘ صفحہ : ۱۸۵۔ ۱۸۴)
دینی تقاضوں کے سلسلہ میں کامل ذہنی یکسوئی کے بعد خود سری اور نفس پرستی کے عیوب سے پاک ہونا از بس ضروری ہے۔ مولانا موصوف فرماتے ہیں :۔
’’انسان کی کمزوریوں میں سب سے بڑی اور سخت فساد انگیز کمزوری’’ نفسانیت ‘ ‘ ہے۔ اس کی اصل توحبّ نفس کا وہ فطری جذبہ ہے جو بجائے خود بری چیز نہیں بلکہ اپنی حد کے اندر ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ انسان کی فطرت میں اس کی بھلائی کے لیے ودیعت فرمایا ہے تا کہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی فلاح و ترقی کے لیے کوششیں کرے لیکن جب یہی جذبہ شیطان کی اکساہٹ سے عشق نفس اور پرستش نفس اور خود مرکزیت میں تبدیل ہو جاتا ہے تو مصدر خیر ہونے کے بجائے منبع شر بن جاتا ہے اور پھر ہر درجہ ارتقاء میں اس سے عیوب کا ایک نیا سلسلہ وجود میں آتاچلا جاتا ہے ‘‘۔ (ایضاً : نقائص اعمال صفحہ : ۲۱۱)
’’ نفسانیت کے عیوب میں خود سری خود پسندی اور خود پرستی ‘ بغض و کینہ پروری ‘ چغل خوری و غیبت ‘ بدگمانی ‘ نجویٰ ہے جس کی وضاحت نہایت تفصیل سے کی گئی ہے ‘‘۔ (ایضاً : صفحہ ۲۱۱۔ ۲۲۲)
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2014