گھر سے آگ کی لپیٹیں اٹھ رہی ہوں، والدین، بیوی بچے، بھائی بہن سب جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص دور محلے کے کسی گھر میں لگی آگ بجھانے میںمشغول ہوتو آپ اسے کیا کہیںگے؟ بیوقوفی؟ پاگل پن؟ جہالت؟ اب صورت حال ذرا بدل کر غور کرتے ہیں۔ گھر سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہوں، گھر والے جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص ملک بھر کے دورے کرکے آگ بجھانے کی ترکیبوں پر تقریریں کرتا پھرے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کاہلی؟ بزدلی؟ ذمے داری سے فرار؟ بلکہ اللہ مومنوںکو محفوظ رکھے کہ اس حرکت کے ڈانڈے تو منافقت سے جاملتے ہیں۔ یہ حرکت کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ نہ انجام دی جائے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص تہجد پڑھنے کے لیے فجر قضا کرنے کو اپنا معمول بنالے۔ یقینا ایسے شخص کو یہی مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ ہوسکے تو وہ تہجد اور فجر دونوں کو نبھالے یا پھر تہجد ترک کردے۔
دین حکمت
اسلام دینِ فطرت ہے جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہے۔ اس کی حکمتیں بے شمار ہیں۔ وحی الٰہی کی نگرانی میں آپﷺ کی دعوت میں ہمیں جو تدریج نظرآتی ہے وہ بھی حکمتوں سے لبریز ہے۔ خلعتِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد آپﷺ نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ پھر خاندان اور قبیلے والوں تک دین کا پیغام پہنچایا۔ پھر اہل مکہ کو عمومی دعوت دی۔ اس کے بعد مختلف قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ طائف کا سفر کیا۔ مدینہ میں اسلام کا پودا لگایا۔ ہجرت کے بعد دعوت کاپیغام جزیرۂ عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کااہتمام کیاگیا جس کے لیے متعدد عوتی سرایا بھیجے گئے۔ بالآخر دعوتی خطوط کے ذریعے عالمگیر پیمانے پروقت کی عظیم سلطنتوں کو اسلام کے سایۂ عاطفت میں آجانے کی تلقین کی گئی۔
جس طرح کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ آپﷺ نے کسی اسلامی ریاست کے قیام یا اسلامی نظام کی اقامت کے لیے شعوری کوشش نہیں کی تھیں بلکہ اقتدار بطور انعام خود بخود ’نازل‘ ہوگیاتھا، ٹھیک اسی نہج پرلوگ مندرجہ بالا تدریج کو بھی محض اتفاقی سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی حکمتوں پرغور کرنا انتہائی آسان ہے۔ مثال کے طورپر دعوت کی اس نبوی ترتیب کو الٹ دیاجائے مثلاً دعوت کی ابتدا مختلف بادشاہوں کو خطوط بھیجنے سے ہوتو اس کی مضحکہ خیزی پر شاید کسی کو تعجب نہ ہو۔ لیکن پتے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک مرحلے سے پہلے دوسرا آجائے تو یہ بھی کچھ کم نقصان دہ نہیں۔ مثال کے طورپر قریب ترین اور ہمراز لوگوں کو پیغام دینے سے پہلے اگر خاندان اور قبیلے والوں کو دعوت دی جاتی یا خاندان اور قبیلے والوں سے قبل سارے شہر مکہ کو، تو کیا ہوتا؟پہلی صورت میں داعیﷺ اس اخلاقی تعاون سے محروم ہوجاتے جو حضرت خدیجہؓ،ابوبکرؓ زیدؓاور علیؓکی صورت میں آپ کو ملا۔ پھر دنیا بھر کی مخالفتوں پر آپﷺ کے زخمی دل پر کون مرہم رکھتا؟ بھری محفل میں انتہائی دلگداز انداز میں یہ پوچھنے پر کہ ’کون میرا ساتھ دے گا؟‘ آخر کون اٹھتاکہ ’ہاں اللہ کے رسول میں آپ کاساتھ دوںگا۔‘
دوسری صورت پر غور کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ رشتے داروں میں بھی عام طورپر دیکھاگیاہے کہ شادی کارڈ نہ پہنچنے پرباوجود ہر جانکاری کے لوگ شریک نہیں ہوتے کہ بھئی ہمیں تو دعوت نہیں دی گئی۔ دین کامعاملہ خصوصاً خاندان کے معاملے میں یہی ہے۔ جب مکہ بھر میں اسلام کاآواز ہ گونج اٹھنا اور بیرونی ذرائع سے ﴿نہ کہ آپﷺ کے ذریعے﴾ آپﷺ کے خاندان کو اس کی خبر لگتی تو ایک ابولہب کو نہیں بلکہ خاندان بھر کو شکایت ہوتی کہ یہ کیسی اجنبی صدا ہم سن رہے ہیں، آپﷺ نے ہمیں تو اس کے بارے میں کبھی بتایا نہیں، ہمیں بھروسے میں کیوں نہیں لیا؟ پھر قریش کی دست درازی سے پناہ دینے والا ابوطالب کہاں سے آتا؟ پھرشعب ابی طالب میں ہاشمی خاندان بھلا کیونکر ساتھ نبھاتا؟ باقی صورتوں میں بھی اسی پر قیاس کرلیجیے۔
آپﷺ کے اسوے پر چل کر دنیا میں شہادتِ حق کا فریضہ انجام دینے والوں اوراقامتِ دین کا خواب دیکھنے والوں کے لیے تو اس اسوے پر چلنا ناگزیرہے۔ جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بات عرض کرتاچلوں کہ مراحل کی یہ تقسیم ہوا بند ڈبوں کی سی تقسیم نہیں ہے بلکہ ان میںتسلسل پایا جاتاہے۔ عام الفاظ میں ایسا نہیں ہے کہ داعی قسم کھائے کہ ’جب تک خاندان والوں سے قبولِ حق نہ کروالوں باہر اعلانِ حق کروںگا ہی نہیں۔‘ معاملہ یہ ہے کہ فرد خاندان کے تئیں اپنی ذمے داریوں کونظرانداز نہ کرے بلکہ اس کو وہی اہمیت دے، جو فی الواقع اسے حاصل ہے۔
قرآن میں ایک نہیں متعدد مقامات پر اہلِ ایمان کو اپنے خاندان کی اصلاح کی طرف متوجہ کیاگیا ہے اور کہیں کہیں اندازِ بیان اتنا خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتاہے۔
‘‘اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈراؤ۔’’ ﴿الشعراء:۲۱۴﴾
احادیث کامطالعہ بتاتاہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو جمع کرکے خطاب فرمایا: ’اے بنی عبدالمطلب! اے عباس، اے صفیہ ﴿آپﷺ کی پھوپھی﴾ اور اے فاطمہ بنت محمدﷺ تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو، میںخدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچاسکتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم جو چاہو مانگ سکتے ہو۔‘‘ پھر کوہ صفاپر، یاصباہ حاہ’’ کی صدا لگائی اور قریش کے ہر قبیلے کو نام بنام آواز دی۔ جب سب جمع ہوگئے تو دریافت کیاکہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو کیا تم یقین کروگے؟ لوگوں نے یک زبان ہوکر کہاکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے پایا ہے۔ ان سے یہ اقرار کرالینے کے بعد آپﷺ نے کہا: ’اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمھارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتے دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہوکہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکاروگے یا محمدﷺ، مگر میں مجبور ہوںگا کہ تمھاری طرف سے منہ پھیرلوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمھارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمھارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروںگا۔‘
‘‘اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔’’ طہٰ:۱۳۲﴾
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔’’ ﴿التحریم: ۶﴾
مولانا مودودیؒ اس آیت کے تفسیری نوٹ میں کہتے ہیں: ’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمے داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حداستطاعت تک ایسی تعلیم وتربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جارہے ہوں تو جہاں تک اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کاایندھن نہ بنیں۔‘‘ نعیم صدیقی نے اپنی کتاب ’تحریکی شعور‘ میں اس آیت سے ایک باریک نکتہ اخذ کیا ہے، فرماتے ہیں: ’قرآن کریم کے طالب علم کی توجہ اس امر پر بھی جانی چاہیے کہ یہ سورہ تحریم کی آیت تھی جس کے شروع میں ازواجِ مطہرات کی طرف سے ایک طرح کی محاذ آرائی کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کا ذکر ہے۔اسی واقعہ کو پس منظر میں رکھ کر مسلم سوسائٹی کو خصوصی توجہ دلائی گئی کہ اگرتم اپنے گھروں کی فضا کو دین کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہ کرلوگے تو تمھارے نظامِ معاشرت میں خلل آجائے گا اور تمھارے گھروں میں ہی مخالفانہ محاذ قائم ہوجائیں گے جو تمھاری قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے تمھیں اعدا و اشرار کی سرکوبی کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
‘‘جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں۔’’ ﴿الانفال:۲۸﴾
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیاررہو، تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔’’ ﴿تغابن:۱۴،۱۵﴾
ان آیات کی تفسیر میںمولانا مودودیؒ نے ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیاہے جو ہماری گفتگو کو موضوع ہے آپ فرماتے ہیں:
‘‘ہوتایہ ہے کہ شوہر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بدقسمتی سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ ان کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑکر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسااوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتاہے، جسے اس کی پابندی شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بدکرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفرو دین کی کشمکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے، طرح طرح کے خطرات مول لے، ملک چھوڑکر ہجرت کرجائے یا جہادمیں جاکر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل وعیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔’’
انبیاءؑ نے اپنے بیوی بچوں کو واقعی آزمائش سمجھاتھا اور ان کی اصلاح وتربیت سے چنداں غافل نہیں تھے۔ احساسِ ذمے داری و جواب دہی کی حد یہ تھی کہ بسترِ مرگ پر بھی انھیں چین نہ آتاتھا۔ ارشاد خداوندی ہے:
‘‘جب یعقوب کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بچوں سے پوچھا:بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے؟’’ ﴿البقرہ:۱۳۲﴾
قرآن میں اپنے بچوں کے لیے ابراہیمؑ کی یہ وصیت بھی محفوظ ہے:
‘‘میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کرلیا ہے۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔’’ ﴿البقرہ:۱۳۱﴾
اورلقمان حکیم کی یہ نصیحت بھی :
‘‘بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، وہ باریک بیں اورباخبر ہے۔ بیٹا! نماز قائم کر، نیکی کاحکم دے، بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی پڑے، اس پر صبر کر، لوگوں سے منھ پھیر کر باتیں نہ کر، نہ زمین میں اکڑکرچل، اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ۔’’ ﴿لقمان:۱۹۔۲۰﴾
خاندان میں دعوت کاکام واقعی کوئی کھیل نہیں، طرح طرح کی رکاوٹوں کاسامنا ہوسکتاہے۔ انسان کو تعلقات کے بگاڑ کااندیشہ ہوتاہے۔ پہلی بارکوئی نئی بات کرنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے، طعنوں کا خوف ہوتاہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس ذمّے داری سے فرار ممکن نہیں۔ مولانا سیّد جلال الدین عمری کہتے ہیں:
‘‘روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب آیت ﴿انذر عشیرتک الاقربین﴾ نازل ہوئی تو آپﷺ نے محسوس کیاکہ بڑی مشکل ذمّے داری آپﷺ پر آن پڑی ہے۔ خاندان کی طرف سے اور قریب ترین افراد کی طرف سے اس کی مخالفت ہوسکتی ہے، لیکن اللہ کے فرشتے جبرئیلؑ نے کہاکہ آپ کو اس حکم پر لازماً عمل کرنا ہوگا، ورنہ اللہ کے ہاں بازپرس ہوگی۔ اس حکم کے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر قبیلے کی مختلف شاخوں میں سے ایک ایک کا نام لے کر انھیں جمع ہونے کی دعوت دی۔’’ ﴿آخرت کے عذاب سے خاندان کو بچائیے﴾
ہمارا حال
اب تک جو باتیں کہی گئیں، ان کی روشنی میں اگر ہم اپناجائزہ لیں تو بہت کچھ کمیوں کا احساس ہوتاہے، جن سے صرفِ نظر کرنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ بلکہ تجربہ نقل کرنا شاید بے محل نہ ہو۔ ایک آدھ سال پہلے کی بات ہے: ایک شناسا سے سرِ راہ ملاقات ہوئی ۔ وہ تحریک اسلامی کے سرگرم بلکہ کئی زاویوں سے مثالی کارکن ہیں۔ اِدھر اُدھر کی بات چیت کے بعد میں نے انھیں بتایاکہ ایس آئی او کا ایک تزکیہ کیمپ ہونے والا ہے، اس میں وہ اپنے بیٹے کو ضرور بھیجیں۔ مجھ سے یہ سننا تھا کہ انھوںنے ہاتھ کھڑے کرلیے: ’آپ خود کیوں نہیں کہتے؟‘ انھوںنے مجھ ہی سے پوچھ لیا: ’میں نے کہاتھا‘ میں نے وضاحت کی ’لیکن مجھے یقین ہے ہر بار کی طرح صرف میرے کہنے پر وہ نہیں آئے گا، آپ اس کے ابّا ہیں، آپ کہیںگے تو وہ نہیں ٹالے گا۔‘ بھئی میں اس قسم کی باتیںاس سے نہیں کرتا،ایک نہ ایک دن اسے سمجھ آہی جائے گی۔ ویسے بھی دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی تو ہے نہیں۔ لااکراہ فی الدین۔‘ میں نے عرض کیا: میں زبردستی کرنے کو کہاں کہہ رہاہوں؟ میں تو کہہ رہاہوں کہ آپ صرف ایک بار اچھے سے کہہ کر دیکھیں‘اُن صاحب نے بات ٹال دی۔ میں کیک کاپیکٹ خرید رہاتھا۔ میں نے اخلاقاً ایک کیک نکال کر ان کی طرف بڑھایا۔ چکھ کر بولے:’خاصا لذیذ ہے،نا؟‘ پھر دکاندار سے مخاطب ہوئے، ’بھئی ایک پیکٹ ہمیں بھی دے دو۔‘ ’بیٹے کے لیے لے رہے ہیں؟‘‘ میں نے یونہی بات آگے بڑھائی۔‘ ’ہاں! مگر وہ تو کیک نہیں کھاتا‘ میں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ ’بچپن میں وہ سیب بھی نہیں کھاتاتھا‘ پیسے ادا کرتے ہوئے وہ مسکرائے۔ ’ایک دن پکڑکر زبردستی اس کے منہ میں ٹھونس دیا تب سے آج تک سیب اگر گھر میں نہ ہوتو ہنگامہ مچادیتاہے، بڑا نالائق لڑکا ہے‘مولانا اپنے تصورات میں گم تھے، ’دیکھنااب یہ کیک بھی نہیں لے گا، لیکن کم بخت لذت اور ذائقہ بھی ایسی چیز ہے، جیسے ہی میں کہہ سن کر ایک بار چکھادوں گا تو شرط باندھ لو کل تمھیں یہیں کھڑا نظر آئے گا۔‘ نہ جانے کیا ہواکہ میرے منہ سے اچانک نکلا: ’مولانا! کیا آپ کے خیال میں تحریک اس کیک سے بھی کم ’ذائقہ دار‘ ہے؟‘بولنے سے پہلے اگر میں نے اپنے فقرے کو تول لیاہوتا تو شاید یہ گستاخی نہیں ہوتی لیکن برجستگی میں یہ فقرہ نکل ہی گیا۔پھر اتنا ضرور ہواکہ بیٹے نے ﴿اپنے والد کے کہنے پر﴾ اس تزکیہ کیمپ میں شرکت کی اور اس کے بعد سے پابندی سے ہماری سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔
انذرعشیرتک الاقربین کے ضمن میں مولانا مودودیؒ کی یہ تفسیری نوٹ بھی نقل کرتاچلوں: ’معاملہ صرف اس حد تک نہیںتھاکہ قرآن میں انذر عشیرتک الاقربین کا حکم آیا اور آپﷺ نے اپنے رشتے داروں کو جمع کرکے بس اس کی تعمیل کردی۔ دراصل اس میں جواصول واضح کیاگیاتھا وہ یہ تھاکہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جو چیز زہر قاتل ہے وہ سب ہی کے لے قاتل ہے۔ نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے خود اس سے بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے۔ پھر ہر خاص و عام کو اس سے متنبہ کردے کہ جو بھی اسے کھائے گا، ہلاک ہوجائے گا اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے۔ نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے ۔تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے،بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے۔‘
ذہن نشین کرلینے کی بات یہ ہے کہ بچہ آرٹس لینا چاہتاہے اور والدین دھونس جماکر اسے سائنس دلادیتے ہیں اور اسے زبردستی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ زبردستی ہے، بچہ ٹیچر بننا چاہتاہے ، اسے آئی اے ایس میں بٹھادیتے ہیں اور اسے زبردستی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ زبردستی ہے، وہ اپنا بزنس کرنا چاہتاہے اسے ایم بی بی ایس میں گھسادیتے ہیں اور اسے زبردستی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ زبردستی ہے۔ لیکن جب وہ ہفتہ واری پروگرام میں نہیں آتا، دینی مطالعہ نہیں کرتا، نمازوں سے غفلت برتتا ہے تو اس پر ٹوکنے کے بدلے لااکراہ فی الدین کی چٹان کے پیچھے جاچھپتے ہیں۔ حالانکہ یہ زبردستی نہیں ان کا فریضہ ہے۔
ایک مسلمان اگر اسلام کے وسیع تصور کو ذہن میں اسلامی تحریک سے کسی بھی سطح پرقریب آتاہے تو تحریک اس سے بجاطورپر یہ توقع رکھتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے محلے،شہر اور ملک کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے سعی و جہد کررہاہے وہ خاندان سے بھی تغافل نہ برتے بلکہ اس پر خاص توجہ دے کہ اس جدوجہد میں اس کا خاندان اس کا دست و بازو ہو، اس کے پاؤں کی بیڑی نہیں، بلکہ اس کی حرکت و عمل کے لیے مہمیز ہو۔ ایک مومن کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ شیطان کا کوئی بھروسا نہیں، خدا نہ کرے کل کو اپنے ہی قدم صراطِ مسقیم سے بھٹکتے ہیں تو کم از کم بیوی ایسی ہو، بچے ایسے ہوں، ماں باپ ایسے ہوں کہ اس گم راہی کا خیرمقدم کرنے کے بجائے، ہاتھ پکڑکر دوبارہ صحیح راستے پر لے آئیں۔ حالت تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ ہم یہ تصور کرنے کے قابل ہوسکیں کہ مثال کے طورپر اگر ہندستان کی اسلامی تحریک سے پچاس ہزار لوگ وابستہ ہیں تو یہ صرف پچاس ہزار افراد نہیں جن کے اخلاق، کردار اور صالحیت کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ بلکہ پچاس ہزار خاندان ہیں۔ مگر افسوس کہ صورت حال ﴿الاماشائ اللہ﴾ ایسی نہیں ہے۔ کوئی نوجوان اگر آج کے پُرآشوب ماحول میں ایس آئی او کے پیغام سے متاثر ہوکر، اس کی جدوجہد کو حق جان کر، الٰہی ہدایات کے مطابق سماج کی تشکیلِ نو کے لیے نکلتاہے اور چار پانچ سال گزرنے پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بھائی بہنوں کو نہیںمعلوم کہ تحریک کس چڑیاکانام ہے، اس کے والدین نظم سے آزاد زندگی گزاررہے ہیں یاایک فرد جو اقامتِ دین کا سودا سر میں سموئے معاشرے کی اصلاح اور ریاست کی تشکیل کابیڑا اٹھاتا ہے، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو عار دلاتاہے کہ مسلمانوں نے قرآن جیسے نسخۂ کیمیا کو چھپارکھا ہے اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرتے وہ خود اپنے بیوی بچوں کو دین کے مکمل تصور سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت نہ سمجھے تو ایسی صورت میں دو میں سے صرف ایک بات کااحتمال ہوسکتا ہے: ﴿۱﴾ ان دونوں کو اپنے خاندان سے محبت نہیں ہے۔ ﴿۲﴾یا تحریک سے ان کا کمٹمنٹ جھوٹا ہے۔
اسلامی تحریکات عموما ًخاندان کی اصلاح کی اہمیت کے اس نکتے سے ناواقف نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے جماعت اسلامی ہند نے خاندان کی اصلاح کو موضوع بناکر کئی ملک گیر مہمات چھیڑی ہیں۔ زمینی سطح پر اگر کمیاں نظرآتی ہیں تو اس کے ذمے دار افراد ہیں نہ کہ تنظیم یا تحریک۔ ان خامیوں کے تدارک کے لیے ہر سطح پر فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ محلے میں جب لوگ دیکھتے ہیں کہ تحریک کا ایک مقبولِ عام فرد جسے دوسروں کے گھروں میں صلح صفائی کے لیے بلایا جاتاہے، خود اس کے چار بیٹے جائیداد کے لیے باہم دست و گریباں ہوجاتے ہیں یا ایس آئی او کاکوئی ممبر جو موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی کے اخلاقی استعمال پر زور دیتاہے، اسی کا بھائی کھلے عام تھیٹر جاکر ہر نئی فلم کا فرسٹ شو دیکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتاہے تو سماج کے عام لوگ اخلاق، کردار اور اقامتِ دین جیسی باتوں کو صرف زبانی جمع خرچ سمجھنے میں دیر نہیں لگاتے اورتحریک کا کام خاصا متاثر ہوتاہے۔
آخر میں صرف چند سوال: کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ آپ کی طرح زمانے کی تپش اور حق بات کہنے کاخمیازہ بھگت کرجب آپ گھر لوٹیں تو بیوی گھر میں نمک یا تیل نہ ہونے،گھر میںمہنگا فرنیچر نہ ہونے یاپڑوسن سے جھگڑا ہونے، بچوں کے آپس میں ہاتھاپائی کرنے کی شکایات سے دماغ خراب کرنے کی بہ جاے بالکل حضرت خدیجہؓکی طرح آپ کے زخمی دل پر مرہم رکھے، جس کی آغوش میں آپ ہر رنج و الم اور پریشانی بھلاسکیں، جس کی اطمینان بخش باتیں آپ کو اگلے دن کے ایسے ہی ناسازگار حالات کے لیے ریچارج کردیں؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ جب آپ اللہ کو اپنا سب کچھ’قرض‘ دے دیں تو بیوی آپ کی ’کم عقلی‘ پر ماتم کرنے کے بجائے بالکل ام دحداحؓکی طرح کہے: ’’ابودحداحؓ! یہ تو کافی نفع بخش تجارت رہی‘؟کیا آپ نہیں چاہتے کہ جب خداکی راہ میں نکلنے کا موقع آئے تو بجائے اس کے آپ کے والد اپنے بڑھاپے اور معذوری کا حوالہ دے کر آپ کو روکیں، حضرت عمروبن جموحؓکی طرح آپ ہی سے درخواست کریں کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو یا حضرت سعد بن خیثمہؓکے والد کی طرح قرعہ اندازی پر آمادہ ہوجائیں کہ کون پہلے جائے گا؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ زندگی میں اگر عزت و شہادت کی موت یا گیدڑوں کی زندگی میں سے کسی ایک کو چننے کا موقع آئے تو آپ کی بوڑھی والدہ آپ کے پاؤں کی زنجیر بننے کے بجائے حضرت اسمائؓکی طرح آپ کو ’زرہ بکتر‘ اتار پھینکنے پراکسائیں کہ یہ ’مردوں‘ کی شان سے فروتر ہے اور خنسائؓکی طرح آپ کو دشمن کی صفوں میں اندر تک گھس جانے کی تلقین کریں؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ جب شیطان آپ پر حاوی ہونے لگے، آپ سستی و بے عملی سے آج کاکام کل پر یا صبح کاکام شام پر ٹالنے لگیں تو آپ ہی کا لخت جگر بالکل حضرت عمر بن عبدالعزیزؓکے بیٹے کی طرح معصومیت سے کہے، ’ابا! کیاآپ کو یقین ہے کہ آپ شام تک زندہ رہیں گے؟‘ اس مثالی خاندان کا اگر آپ خواب دیکھتے ہیں تو کامیابی کا پہلا زینہ آپ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن خواب صرف دیکھ لینے سے سچ نہیں ہوتے۔ خواب تو شیخ چلی بھی دیکھتاتھا، ’خوابی پلاؤ‘ اسی وقت کام کے ہیں جب آپ اسے حقیقت کی دنیا میں بھی پکالینے کی ہمت رکھتے ہوں۔
۱۳/اکتوبر ۲۰۱۰کو ایک تربیتی پروگرام رکھاگیاتھا جس میں موقر مقررین کے ذریعے اقامتِ دین، عالمی تحریکاتِ اسلامی کا تعارف، سماج اور کیمپس میں ایک مثالی طالب علم کا رول وغیرہ بنیادی موضوعات پر گفتگورہی، فلم اسکریننگ کے ذریعے پروگرام کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی، شرکاء کو اظہارِرائے کا بھرپور موقع دیاگیا۔ منصوبہ بندطریقے سے وقتاً فوقتاًایسے پروگراموں کاانعقاد ایک بہت بڑے خلا کو پُر کرنے کا باعث بنے گا۔ اسی نہج پر اگر جماعت، ایس آئی او سے منسلک طلبا کے والدین کے لیے پروگرام بنائے، مختلف بہانوں سے قریب ہونے کی کوششیں ہوں تو نتائج حوصلہ افزا نکلیں گے۔ کم از کم گھر کے اس فرد کو جو تحریک سے وابستہ ہے ۔ تحریک کے تعلق سے باتیں کرنے کاایک موقع ملے گا۔ پھر یونٹوں کی طرح ہر گھر میںایک ہفتہ واری اجتماع کا انعقاد ہوسکتا ہے اور اِن شاء اللہ اگر اس میں کامیابی مل گئی تو باقی منزلیں بھی آسانی سے طے ہوجائیںگی۔ پہلے غلط فہمیاں دور ہوںگی، پھر قرب بڑھے گا، پھر سوالات ہوں گے، اخیر میں پورا خاندان پکے ہوئے پھل کی طرح تحریک کی جھولی میں آگرے گا۔
قاضی حسین احمد سابق امیرِ جماعت اسلامی پاکستان کے یہ الفاظ آبِ زر سے لکھے جانے لائق ہیں: ’ہمارا ایک اور اہم پروگرام اجتماعِ اہل خانہ ہے۔ یہ بیوی بچوں کی تربیت کی خاطر بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اگر ہفتے میں کم از کم ایک بار بھی اہلِ خانہ ایک دعوتی اجتماع کے لیے ایک آدھ گھنٹے کے لیے مل بیٹھیں تو پورے خاندان کی فضا پر بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ کاشکر ہے کہ اس وقت جماعتِ اسلامی میں پورے پورے خاندان،مرد، عورتیں، نوجوان، بچے بچیاں سب شریک ہیں۔ سب کی اپنی اپنی الگ الگ تنظیمیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ اگر گھر میں بھی دعوت دین کا ماحول پیداہوجائے تو یہ ایک مسلم گھرانہ قائم کرنے کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتاہے۔ اپنی انفرادی تربیت اور مطالعۂ قرآن و حدیث کے بعد اپنے خاندان کی تعلیم و تربیت ہمارا سب سے اولین کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں ہمیں اس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کیآگ سے بچاؤ۔ دعوت کی حکمت عملی کے اعتبار سے خاندان کی اصلاح خشتِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہوجائے تو پوری دیوار سیدھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور یہ کمزور یا ٹیڑھی رہے تو تاثر یا می رود دیوار کج۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کام کی تدریج یہ ہے کہ مسلم فرد کی تربیت ہو، مسلم گھرانے کی تعمیر ہو، مسلم معاشرے کی تعمیر ہو اور مسلم حکومت کے ذریعے سے ان سب کو قوت عطا ہو اور انسان تہذیب و تمدن خیر و صلاح کا گہوارہ بن جائے گا۔‘
مشمولہ: شمارہ نومبر 2011