افسوس کہ اجنبی تصورات کے زیر اثر ہندوستان کے بسنے والے سیکولرزم کے اس تصور سے مرعوب ہوجاتے ہیں جو مغرب کی مخصوص فضا کا پروردہ ہے، جسے مشرق کے دینی تجربات اور اس کی تاریخ سے کوئی مناسبت نہیں۔ بالکل غلط طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے ایک سیکولر اسٹیٹ ہونے کا تقاضا ہے کہ یہاں دین ومذہب کی بات نہ کی جائے، انسانوں کو بندگی رب کی طرف نہ بلایا جائے اور خدا کی ان ہدایات کا ذکر نہ کیا جائے جو اس نے معاشی اور سیاسی زندگی سے متعلق دی ہیں۔ ہندوستان صرف ان معنی میں ایک سیکولر اسٹیٹ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے درمیان مذہب کی بنا پر کوئی تفریق وامتیاز نہ برتے گی۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کے بعض لیڈروں نے مشرق کے دینی ورثہ سے غافل ہونے اور مغربی افکار کے پروردہ ہونے کے سبب ہندوستان کو سیکولرزم کے کسی وسیع تر جارحانہ تصور کا سبق سکھانا چاہا ہو، لیکن ان انفرادی رایوں کا ہندوستان کے دستور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کسی بندۂ خدا سے اس کا یہ فطری حق نہیں سلب کیا جاسکتا کہ وہ بندگان ِخدا کو اللہ کی بندگی کی طرف اور اس بندگی میں یک سوئی کی طرف بلائے۔ اسی طرح کسی کو اس دعوت کے قبول کرنے میں اس بنا پر کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ ایسا کرنا ملک کے سیکولر کردار کے منافی ہوگا۔ اپنے ضمیر کی آواز کو مصنوعی تصورات سے مرعوب ہو کر نہیں دبائیے۔ خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ جس طریقے میں آپ ملک اور اہل ملک کی بھلائی دیکھتے ہوں اسی کی طرف سب کو بلائیے۔ ایک جمہوری ملک میں اختلاف رائے پر کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ بات البتہ تشویش کی موجب ہوگی کہ کچھ لوگ اپنی رائے کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہیں۔ اس بارے میں ہم اپنا موقف، اسلام کا موقف آپ پر واضح کرچکے ہیں، دین کے معاملہ میں جبر واکراہ نہیں۔ پھر کشیدگی اور تصادم کا اندیشہ کس بات سے ہے؟ یہ اندیشہ تو ان لوگوں کی طرف سے ہونا چاہیے جو سیکولرزم کے مذہب دشمن جارحانہ تصور کو زبردستی ہمارے سر تھوپنا چاہتے ہیں اور اس سے اختلاف کے اظہار کو قوم دشمنی اور تخریب کاری سے تعبیر کرتے ہیں۔
(تحریکِ اسلامی عصر حاضر میں)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2020