نقاب کشا فرقان

اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ایمان والوں کو فرقان عطا کرے گا۔ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ یجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَیكَفِّرْ عَنكُمْ سَیئَاتِكُمْ وَیغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ(اے ایمان لانے والو، اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمھارے لیے فرقان نمایاں کردے گا اور تم سے تمھارے گناہ جھاڑ دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔الانفال: 29) ایک مفسر قرآن نے فرقان کی بڑی ایمان افروز اور بصیرت افزا تشریح کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’فرقان ایک کسوٹی ہے۔ کسوٹی کا کام کھرے اور کھوٹے کو الگ کرکے بتانا ہے۔۔ ۔۔ (اہل ایمان) کے اجتماعی فیصلے، باطل قوتوں سے ان کا تصادم اور مفسد طاقتوں سے ان کی لڑائی، بجائے خودفرقان بن جاتی ہے۔ ان کا وجود باقی امتوں کے لیے فرقان ہوتا ہے۔ ان کے کارنامے تاریخ کے لیے فرقان بن جاتے ہیں۔ ان کی جنگیں حق و باطل میں فرقان ہوتی ہیں۔ تاریخ ہمیشہ ان کے وجود اور ان کے کارناموں سے استدلال کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے کہ یہی کچھ فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم نے اپنے اندر تقویٰ کی صلاحیت پیدا کرلی تو ہم تمھارے اندر ایک ایسا نور روشن کردیں گے جو کسوٹی کا کام دے گا اور تمھاری حیثیت دوسری قوموں کے لیے ایک مثال بن جائے گی اور تمھارے کارنامے حق و باطل کی تمیز میں مینارہ نور بن جائیں گے۔[1] ‘‘

اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ فلسطینی جدوجہد آزادی نےہمارے زمانے کے لیے ایک ’فرقان کبیر‘ کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس نے اس پرفریب دنیا میں تہذیب و شائستگی کے طاقت ور دعوے داروں کو جس طرح سے بے نقاب کیا ہے،اس کی کوئی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

یہ فلسطینی مزاحمت ہی ہے جس نے جدید مغربی مقتدرہ کے چہرے سے حقوق انسانی، آزادی، مساوات اور جمہوریت کا دل کش اور حسین و جمیل ماسک اتارپھینکا ہے اور اندر سے اُسی نسل پرست،ظالم و خوں خوار وحشی کو عریاں کرکے دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے جو سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک اس کرہ ارض کو اپنے خونی پنجوں سے لہو لہان کرتا رہا، لاکھوں انسانوں کو غلام بناکر بیچتا رہا اور جس نے ساری دنیا پر قبضہ کرکے وسائل کی بے پناہ لوٹ مچا رکھی تھی۔ فلسطینی مزاحمت نے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ جدید مغربی مقتدرہ اخلاقی حس سے عاری ایک حیوانی وجود ہے جس کی کوئی پائیدار تہذیبی اساس نہیں ہے۔آزادی اور جمہوریت کے بلند بانگ دعووں کےشور میں دبا ہوا اس کے دل کا یہ چور فلسطینی مزاحمت نے پکڑ کر دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے کہ اس مقتدرہ کے نزدیک ایشیائی اور افریقی عوام آج بھی اس کی رعایا اور غلام ہیں اور ان کی زمینوں اور وسائل کو وہ اپنی ایسی ملکیت سمجھتا ہے جسے وہ جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔مولانا علی میاں ندویؒ نے برسوں پہلے متنبہ کیا تھا:

’’یہ دنیا شکارگاہ بنی ہوئی ہے۔ شکاری نکلتے ہیں ہتھیارلے کر اور قوموں کا شکار کھیلتے چلے جاتے ہیں، قوموں کو پامال کرتے چلے جاتے ہیں، آج جو بڑی طاقتیں ہیں ان کے نزدیک مشرقی اقوام کی قیمت اتنی ہے کہ وہاں سے کچا مال (raw material) ان کو ملے، پٹرول ان کو پہنچتا رہے اور اگر کوئی جنگ ہو تو یہ ان کے ذریعے سے اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکیں ،ان کو اپنا سپاہی بنا سکیں، یہ گویا ایندھن ہیں ان کے باورچی خانہ کا،بس اس کے سوا کوئی قیمت نہیں۔۔۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ قوموں کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں آئی ہے، انھوں نے انسانوں کے ساتھ جانوروں کا، بلکہ جمادات کا سلوک کر رکھا ہے اور آج کوئی طاقت نہیں جو ان کا مقابلہ کر سکے،سب اپنی طاقت اور اپنا جوہر کھو چکے ہیں، سب اپنا پیغام بھول چکے ہیں، سب اپنا کردار چھوڑ چکے ہیں، سب میدان سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔[2] ‘‘

یہ ہیں وہ تباہ کن حالات جن میں فلسطینی اپنے‘جوہر‘ اور اپنے ’کردار‘ کے ساتھ ’میدان ’میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان وحشیوں کا ’ایندھن‘ بننے سے نہ صرف انکار کررہے ہیں بلکہ تیسری دنیا کو ایندھن بنانے کے اس عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔وہ نہ صرف ’فرقان کبیر‘ ہیں بلکہ ’سدِّ عظیم ’بھی ہیں اور مغربی مقتدرہ کے وحشت ناک سیلاب بلاخیز کے آگے ’سدِّ ذوالقرنین ’ بن کر ساری دنیا کی حفاظت کررہے ہیں۔وہ نہ ہوتے تو یہ عین ممکن تھا کہ اکیسویں صدی کی خوں خوار سرمایہ داری، تیسری دنیا میں نوآبادیت کی ایک اور نئی لہر شروع کردیتی۔ وہ ساری تیسری دنیا کے محسن ہیں۔ دنیا کی تمام کم زور اقوام کے نجات دہندہ ہیں بلکہ سارا عالمِ انسانیت ان کا مقروض ہے۔ ذیل کی سطروں میں ہم اُن چند بڑی بڑی مکاریوں کو زیر بحث لائیں گے جو ہمارے عہد کے اس فرقان کبیر کے نتیجے میں یعنی فلسطینی مزاحمت کے باعث بے نقاب ہوئی ہیں اور جن کی شر انگیزیوں کے سامنے وہ سد عظیم بن کر کھڑے ہیں۔

 صیہونیت، ہمارے عہد کی بدترین نسل پرستی ہے

مغربی مقتدرہ اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ انسانی برابری کا علم بردار ہے اور دنیا بھر میں نسل پرستی کو ختم کرنا اس کا مطمح نظر ہے۔ وہ مختلف ممالک اور معاشروں پر نسل پرستی کے الزام لگاتا رہتا ہے۔ 1966میں اقوام متحدہ نے ’ نسلی تفریق کی تمام شکلوں کو ختم کرنے والا بین الاقوامی قانون(International Convention on the Elimination of All Forms of Racial Discrimination) منظور کیا تھا[3]۔ اس کے بعد سے اس مقتدرہ نے، خود ساختہ اخلاقی برتری کے احساس کے ساتھ اس قانون کو تیسری دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف استعمال کیا۔ لیکن فلسطینی مزاحمت نے دنیا پر یہ حقیقت بے نقاب کی ہے کہ اس کرہ ارض پر سب سے بڑانسل پرست گروہ صیہونیت اور اس کے حامی ہیں۔

نسل پرستی، اسرائیل کے وجود کی اساس اور اس کی اہم ترین بنیاد ہے۔ وہ اس وقت کرہ ارض پر واحد ملک ہے جس کے دستور (Basic Law)میں نسل کو شہریت کی اساس قرار دیا گیا ہے۔اسرائیل کا بدنام زمانہ قانون واپسی (Law of Return)ان قوانین (Basic Laws)میں شامل ہے جنھیں ایک طرح کے دستور کی حیثیت حاصل ہے[4]۔  چناں چہ یہ وہ واحد ملک ہے جو نسل کی بنیاد پر قوانین بناتا ہے۔ نسل کی اساس پر اپنے شہریوں میں تفریق کرتا ہے اورنسل کی بنیاد پر اس نے جگہ جگہ تفریق کی دیواریں (apartheid)کھڑی کر رکھی ہیں۔ (تفصیل آگے آرہی ہے)

یہ نسل پرستی صرف یہودی نسل یا مزعومہ بنی اسرائیل کے حق میں عصبیت تک محدود نہیں ہے۔ مغرب کی تاریخ سفید فام نسل پرستی کی تاریخ ہے اور حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود اور اس کی حمایت اسی سفید فام نسل پرستی کا تسلسل ہے۔چناں چہ یہ بات کھلے عام کہی جاتی ہے کہ اسرائیل جغرافیائی لحاظ سے ضرور ایشیا میں ہے لیکن ’تہذیبی ’ لحاظ( اصل بات نسلی لحاظ سے) سے یورپ کا حصہ ہے[5]۔بلکہ اسی بنیاد پر وہ یورپی یونین کی رکنیت کا دعوے دار ہے اور اس کا دعویٰ سنجیدگی سے زیرغور ہے[6]۔  متعدد یورپی تنظیموں کا وہ پہلے ہی سے رکن ہے[7]۔

یہ بات دنیا کے لوگ نہیں جانتے کہ جنھیں اسرائیل بنی اسرائیل کہتا ہے اور جنھیں شہریت دے کر دنیا کے مختلف خطوں سے لاکر فلسطین کی سرزمین میں بسایا گیا ہے، ان میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ شامل ہیں۔تقریباً 32فیصد سفید فام، نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے اشکینازی (Ashkenazi) ہیں جو یورپی نسل سے تعلق رکھنے والے ہیں[8]۔(امریکی یہودیوں میں عظیم اکثریت انھی کی ہے اور دنیا بھر کے یہودیوں میں وہ تقریباً پچہتر فی صد ہیں)۔تقریباً45فیصد مزراحی (Mizrahi) ہیں[9]۔ یہ وہ یہودی ہیں جو یا تو پہلے سے فلسطین میں آباد تھے یا مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے علاقوں میں آباد تھے اور صیہونی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے۔ رنگ اور نسل کے اعتبار سے یہ دیگر عرب باشندوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بیتا اسرائیل (Beta Israel) سیاہ فام افریقی نسل کے لوگ ہیں[10]  جن کی آبادی اسرائیلی یہودیوں میں تقریباً تین فی صد ہے۔ بینے اسرائیل (Bene Israel)یا شنی وار تیلی،وہ یہودی ہیں جو ہندوستا ن کے مختلف علاقوں (مہاراشٹر،شمال مشرق وغیرہ ) سے وہاں جاکر آباد ہوئے ہیں[11]۔

اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسرائیل کی ساری مکاریوں کا اصل ہدف، دراصل سفیدفام اشکینازیوں کے مفادات کا تحفظ ہے[12]۔ انھی سفید فام ہم نسلوں کے مفادات کی خاطر یورپ و امریکہ کا مقتدرہ اپنے تمام اخلاقی مزعومات کو خاک میں ملانے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔اس سفید فام نسل کے ایک آدمی کے تحفظ کی خاطر سیکڑوں عربوں بلکہ عربوں کی آبادیوں کی آبادیاں قربان کردینا مغربی مقتدرہ کے نزدیک کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔اسرائیل کی لڑائی لڑنے کی خاطر بھی پر خطر مہمات میں مزراحیوں، بیتا اسرائیلوں یا شنی وار تیلیوں کو آگے رکھا جاتا ہے[13]۔ ہمارے ملک کے ذات پات کے نظام کی طرح ان ’کم نسل یہودیوں‘ سے شادیوں کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔[14] اسکولوں وغیرہ میں ان کی علیحدہ نشستوں کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں[15]۔ ان کے خلاف فسادات ہوتے رہتے ہیں[16]۔ ہندوستانی یہودی خاص طور پر نسل پرستی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔[17]

اسرائیل میں آباد یہودیوں کے درمیان اس نسل پرستی کا، سرکردہ صیہونی قائدین کی جانب سے متعدد دفعہ اعتراف ہوچکا ہے۔ مغربی لیڈروں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے وقتاً فوقتاً سابقہ جرائم کی معافی مانگتے رہتے ہیں۔ اسی کی اتباع میں اسرائیلی وزیر اعظم یہود بارک، نسل پرستی کے لیے ’مشرقی یہودیوں‘ سے ’معافی‘ مانگ چکے ہیں[18]۔اسرائیل کے سابق صدر ریوون ریولن (Reuven Rivlin دور صدارت 2014-2021)، لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک انتہا پسند دانش ور قائد سمجھے جاتے ہیں لیکن انھوں نے بھی صدارت سنبھالنے کے بعد اسرائیل میں موجود نسل پرستی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسرائیلی سماج ایک بیمار سماج ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بیماری کا علاج کریں۔‘‘[19]

مغربی مقتدرہ نے نازی جرمنی کی سیاسی اور فوجی قیادت کے خلاف اس کی نسل پرستی کو بنیاد بناکر سخت ترین سزائیں نافذ کیں۔اور آج تک نازی ازم کو ایک بڑی برائی بناکر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں، مجبوراً ہی سہی، وہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست پالیسیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں (اگرچہ جنوبی افریقہ کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات میں رکاوٹیں پیدا کرکے اس نسل پرستی کی حمایت کے داغ بھی ان کے دامن پر لگے ہوئے ہیں)لیکن اب اسرائیل کے معاملے میں تو وہ پوری طرح عریاں ہوچکے ہیں اور کھلم کھلا اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ذیل کے چارٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی افریقہ سے کہیں زیادہ بدترین نسل پرستی اس وقت اسرائیل میں رائج ہے۔

پالیسی

جنوبی افریقہ
(1948-1994)

اسرائیل
(1948 تا حال)

نسلی بنیادوں پر آبادی کی درج بندی

قانونی طور پر سفید فام نسل اعلیٰ ترین گروہ تھا، پھر ہندوستانی، پھر سیاہ فام۔ اسی کے اعتبار سے حقوق متعین تھے

غزہ اور مغربی کنارےمیں رہنے والوں پر اسرائیل عملاً حکومت کرتا ہے لیکن انھیں بہت سے قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔[20] عملاً اشکینازی یہودیوں کو وہی حیثیت حاصل ہے جو جنوبی افریقہ میں سفید فام آبادی کو حاصل تھی۔ اس کے بعد دیگر یہودی، پھر اسرائیل کے حدود میں رہنے والے عرب اور آخری درجے میں مغربی کنارے اور غزہ کے مسلمان ہیں جن کی حیثیت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جو نسل پرست جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کی تھی۔

عوامی جگہوں پر علیحدگی، نقل وحرکت پر پابندیاں

بسوں، ریستورانوں وغیرہ میں سیاہ فام لوگوں کو الگ کیا جاتا تھا۔ سیاہ فام لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں تھیں اور انھیں اپنے ’ہوم لینڈ‘ میں محصور ہوکر رہنا پڑتا تھا۔

ٹھیک اسی طرح عوامی جگہوں پر فلسطینیوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔مغربی کنارے کے‘فلسطینی علاقوں‘ کو چھوٹے چھوٹے غیر مربوط حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانا بھی عملاً مشکل ہے۔ قدم قدم پر چیک پوائنٹ نے بیشتر حصوں میں ان کی نقل و حرکت کو عملاً ناممکن بنادیا ہے۔ اور وہ اپنے چھوٹے دیہاتوں میں محصور ہیں۔[21]

وسائل سے محرومی

سیاہ فام لوگو ں کی زمین، پانی اور تعلیم و صحت سے متعلق سہولتوں تک رسائی محدود تھی۔

یہی معاملہ فلسطین میں بھی ہے۔ فلسطینیوں کی کئی نسلیں محدود زمین، محدود پانی، محدود وسائل کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہیں۔ ان محدود وسائل کو بھی دن بدن کم کیا جارہا ہے۔ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو نئی زمینیں خریدنے یا لیز پر لینے پر پابندیاں ہیں جب کہ یہودی سیٹلمنٹ ہر جگہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے 1967کی جنگ کے بعد سے فلسطینیوں کی ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زمین ہتھیا لی ہے۔[22]

قوانین میں تفریق

سفید فام باشندوں کے لیے قوانین الگ تھے جو ان کو زیادہ سے زیادہ آسانی اور سہولت فراہم کرنے والے تھے اور سیاہ فاموں کے لیے الگ تھے جو ان کی زندگیاں اجیرن کرنے والے تھے۔

ٹھیک یہی معاملہ اسرائیل میں بھی ہے۔ قوانین الگ الگ ہیں[23]۔ اسرائیل کا بنیادی قانون (Basic Law) یا دستورجو اسرائیل کو ’یہودی نسل کے افراد کا قومی وطن ’ قرار دیتا ہے، تمام مسلمہ پیمانوں کے مطابق نسل پرست دستور ہے[24]۔ اس کے علاوہ ’ حق واپسی کا قانون‘ (right to return) ہے۔ ہزاروں سال پہلے اسرائیلوں کی ہجرت کے مفروضے کو بنیاد بناکر دنیا کے ہر یہودی کو اسرائیل کی فوری شہریت کا قانونی حق دیا گیا ہے اور 1948کے بعد مہذب دنیا کی نگاہوں کے سامنے بے گھر کی گئی فلسطینیوں کی نصف آبادی کو جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پناہ گزین کی زندگی گزاررہی ہے، صرف نسل کی بنیاد پر اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔[25]

تفریق کی دیواریں

سیاہ فام لوگوں کو الگ تھلگ کرنے اور ان کی نقل و حرکت کو سفید فام لوگوں سے الگ کرنے کے لیے شہروں میں جگہ جگہ دیواریں تعمیر کی گئی تھیں۔

 

مغربی کنارے میں اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار، جسے اسرائیل سیکوریٹی فینس (Security Fence) کہتا ہے، اسی طرح کی نسلی تفریق کی دیوار (Apartheid Wall) ہے۔یہ چھبیس فٹ اونچی اور سات سو کلومیٹر طویل دیوار ہے جو فلسطینی علاقوں کو الگ کرتی ہے[26]۔

 

اتنی واضح شہادتوں کے ہوتے ہوئے اسرائیل کی نسل پرستی کو جھٹلانا اب ممکن ہی نہیں رہا۔ چناں چہ متعدد بین الاقوامی ادارے اسےنسل پرست قرار دے چکے ہیں۔ دو سال قبل حقوق انسانی کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے خصوصی رپورٹ جاری کرکے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ساری حدیں پار کردی ہیں اور وہ واضح طور پر نسل پرستی (Apartheid)کا مجرم ہے[27]۔ اسی طرح کی رپورٹ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی جاری کی ہے۔ خود اسرائیل کے اندر موجود دو بااثر تنظیموں یش دن[28] (Yesh Din)اور بیت سیلم (B‘Tselem) نے[29] اسرائیلی حکم رانوں کو نسل پرستی کا مجرم قرار دے دیا ہے۔ گذشتہ سال اقوام متحدہ کی قائم کردہ ایک خصوصی کمیٹی نے اسرائیل کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ میں واضح طور پر یہ فیصلہ درج کیا تھا (جس سے اسرائیل میں بڑا ہنگامہ برپا ہوگیا تھا) کہ اسرائیل کا پچپن سالہ قبضہ منصوبہ بندطریقے سے (By Design) مخصوص نسل کے لوگوں کے مفادات کے تحفظ اور دوسری نسلوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہے اور یہ نسلی تفریق (Apartheid) ہے[30]۔ اس مضمون کی تحریر کے دوران کمیٹی کی ایک اور تازہ ترین رپورٹ کا ابتدائی ورژن آگیا ہے۔ اس میں بھی اسرائیل کے متعدد نسل پرست جرائم گنائے گئے ہیں۔[31]

اگر مغربی مقتدرہ میں نسل پرستی کے خلاف ذرہ برابر بھی ایمان داری ہوتی تو اسرائیل کے ساتھ اس کا سلوک کم سے کم ویساہوتا جیسا 1990 سے پہلے جنوبی افریقہ کے ساتھ تھا۔ لیکن ہمارے عہد کی اس بدترین نسل پرستی کی مخالفت تو کجا، امریکہ و انگلستان کی حکومتیں اسرائیل کی سب سے بڑے حامی، ہر محاذ پراس کی طاقتور پشت پناہ اور اس کی حرکتوں کی کھلی حمایتی ہیں۔ اس لیے اس کی نسل پرستی میں برابر کے شریک ہیں۔

 صیہونی مقتدرہ ہمارے عہد کی سب سے بڑی دہشت گرد قوت ہے

امریکہ، برطانیہ اور مغربی مقتدرہ کے دیگر ارکان کے مکمل اخلاقی، نظریاتی، فوجی اور مالی تعاون کے ساتھ، اسرائیل مسلسل انسانی حقوق کی بدترین پامالی کررہا ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرنے کی اس وقت ضرورت بھی نہیں ہے اس لیے کہ اکتوبر 2023 سے ساری دنیا کے لوگ ان وحشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کےمقبوضہ علاقوں کی سرحدوں کے اندر بھی مظالم کی وہ ساری قسمیں روزانہ جاری ہیں جن کے ایشیائی یا افریقی ممالک میں کبھی کبھار ارتکاب پر بھی بے پناہ شور مچایا جاتا ہے۔ مثلاً[32]

ماورائے عدالت قتل، عام شہریوں کا، عورتوں کا حتی کہ معصوم بچوں کا سیکوریٹی اہل کاروں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل۔[33]

بم باری، آبادیوں پر، بازاروں اور رہائشی علاقوں پر حتی کہ اسکولوں اور اسپتالوں پر ہسٹریائی انداز میں وحشیانہ بم باری، جس کی کوئی نظیر جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی بلکہ بعض پہلوؤں سےجو ہیروشیما اور ناگاساکی کی بم باری سے زیادہ وحشیانہ ہے۔ [34]

بے قصور لوگوں کی بلاکسی مقدمے کے مہینوں اور برسوں گرفتاری۔ ان گرفتار شدگان میں بھی عورتیں اور بچے شامل ہیں۔[35]

ٹارچر اور قید خانوں میں مظالم۔[36]

گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کردینا۔ اکثر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اور متبادل رہائش فراہم کیے بغیر۔[37] (یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون جو آٹھ سال کوما میں رہنے کے بعد 2014میں فوت ہوگئے تھے، بلڈوزر شیرون کہلاتے تھے)[38]

فلسطینی شہریوں پر پانی کی فراہمی روک دینا اور آبادیوں کو پانی سے محروم کردینا۔[39]

اسرائیل کا قیام ہی ہماری تاریخ کے ایک وحشیانہ قتل عام کا مرہون منت ہے۔ 1948میں متعدد فلسطینی دیہاتوں اور شہروں کو قتل عام کے ذریعے خالی کرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کی آدھی آبادی ہجرت کرنے اور پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئی۔ اسے ’نکبہ‘ nakba کہتے ہیں۔[40]  اس کے بعد سے قتل عام کے یہ سلسلے برابر جاری ہیں۔ 1956کاکفر قاسم[41] اور خان یونس قتل عام، 1982میں لبنان میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں صابرہ اور شتیلا کا قتل عام[42]، 1994کا ابراہیمی مسجد(ہیبرون) قتل عام[43]، 2000کے بعد سے غزہ کے متعدد قتل عام یہ سب اسرائیل کی پیشانی پر دہشت گردی کے نمایاں ترین تمغے تھے لیکن2023کے غزہ قتل عام نے تو دہشت گردی کے سارے ریکارڈ توڑدیے ہیں[44]۔ گیارہ ستمبر کے واقعے میں مرنے والوں کی تعداد کے چار گنا لوگ ابھی تک ہلاک ہوچکے ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں معصوم بچے اس دہشت گردی میں ہلاک ہوئے ہیں اس کی کوئی نظیر جدید تاریخ تو کجا، شاید عہد متوسط اور عہد قدیم میں بھی ملنا مشکل ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی سے زیادہ بارود برس چکا ہے۔ کئی شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔اسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کے ریلیف سینٹروں کی عمارتیں تک ٹارگیٹیڈ بم باری کی شکار ہوچکی ہیں۔

اسرائیل پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) کے الزامات لگانے والے صرف فلسطینی یا مسلمان یا بائیں بازو کے جہد کار نہیں ہیں بلکہ مسلمہ بین الاقوامی ادارے ان جرائم میں اسرائیل کو ماخوذ کرچکے ہیں۔[45]  خود اسرائیل میں موجود تنظیمیں تفصیلی شواہد کے ساتھ ان جرائم کو ثابت کرچکی ہیں[46]۔ بین الاقوامی عدالت (International criminal Court ICC) میں اسرائیل کی مسلح افواج اور سیاسی قیادت پر باقاعدہ جنگی جرائم کے مقدمات قائم ہوچکے ہیں۔عالمی عدالت کی استغاثہ کے سربراہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ ’’ہم اس بات کے قائل ہوچکے ہیں کہ مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔‘‘[47]

ان سب کے بعد کیا اس بات میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے کہ صیہونی مقتدرہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی دہشت گرد قوت ہے؟مغربی طاقتوں کے دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے دعوے، عراق اور افغانستان میں بے نقاب ہونے کے بعد اب فلسطینیوں کے ہاتھوں بری طرح سے بے نقاب ہورہے ہیں۔اگر فلسطینی مزاحمت نہ ہوتی تو شاید دنیا اس بات سے بے خبر ہوتی کہ مغربی مقتدرہ نہ نفاذ قانون کی دیانت دار ایجنسی ہے اور نہ قانون کی حکومت کے سلسلے میں سنجیدہ ہے بلکہ عالمی قانون اس کے لیے محض اپنے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ جہاں عالمی قانون اس کے مفاد کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے امریکہ و برطانیہ کے سربراہان مملکت اور ان کے پالیسی ساز ادارے بھی وہی کردار ادا کرنے لگتے ہیں جس کے لیے بعض پسماندہ ملکوں کے رشوت خور عہدیداران بدنام ہیں۔

استعمار، توسیع پسندی اور نوآبادیت

استعمار اورنو آبادیت کی وحشیانہ تاریخ جدید مغرب کے چہرے پر سب سے بدنما داغ ہے۔ وقتاً فوقتاً اس تاریخ پر اظہار ندامت اور ’معافی‘ طلب کرکے ان داغوں کو دھونے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اسرائیل کی توسیع پسندی اور اس میں مغربی مقتدرہ کا مکمل تعاون، اس حقیقت کی مضبوط شہادت ہے کہ مغربی مقتدرہ کے مکروہ توسیع پسندانہ عزائم آج بھی زندہ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کا پورا پروجیکٹ وہ ہے جسے جدید اصطلاح میں ’آبادکار استعماریت‘ (settler colonialism)کہا جاتا ہے[48]۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بیرون سے کچھ لوگ آتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر مقامی باشندوں کا قتل عام کرکے یا ان کو زبردستی گھروں سے بھگاکر، ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور ان کے علاقوں کو خالی کرکے وہاں اپنے ہم قوم باشندوں کو لاکر آباد کردیتے ہیں۔اس طرح کی استعماریت کی مغربی اقوام کی پوری تاریخ رہی ہے اور انھوں نے شمالی امریکہ (ریڈ انڈینس کا قتل عام)، لاطینی امریکہ، آسٹریلیااور جنوبی افریقہ کی مقامی آبادیوں پر یہ ظلم ڈھایا ہے۔ استعماریت کی اس قسم کو سب سے زیادہ ظالمانہ اور وحشیانہ قسم مانا جاتا ہے۔(واضح رہے کہ ہندوستان اور دیگر ایشیائی ملکوں میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی یوروپی ممالک کی استعماریت ’آبادکار استعماریت‘ یا ’سیٹلرکو لونیلزم‘ نہیں تھی اس لیے کہ یہاں آبادیاں بے دخل نہیں کی گئی تھیں، محض ملک کی حکومت اور اس کے وسائل پر قبضہ کیا گیا تھا)۔اکیسویں صدی کی ’مہذب‘ دنیا کے لیے یہ نہایت شرم کا مقام ہے کہ آج بھی اسرائیل پوری ڈھٹائی سے سیٹلر کولونیلزم کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کے مغربی آقا اس میں اس کی مدد کررہے ہیں۔

انیسویں صدی کے اواخر سے فلسطین کے زرخیز و شادا ب علاقوں میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا۔ ان یہودیوں کے سلسلے میں یہ کہا گیا کہ یہ ہزاروں سال پہلے اسی علاقے میں آباد تھے۔ موجودہ اسرائیلی یہودیوں میں حقیقی بنی اسرائیل کتنے ہیں اور یورپ کے سفید فام آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے غیر متعلق لوگ،جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف مفادات کی وجہ سے یہودیت اختیار کرلی ہے،وہ کتنے ہیں، یہ خود بحث کا موضوع ہے۔ خود یہودی مورخین اب یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ موجودہ یہودیوں میں بنی اسرائیل بہت کم ہیں۔[49] اس بحث سے فی الحال قطع نظر کرتے ہوئے جہاں تک حقیقی بنی اسرائیل کا سوال ہے، ان کے سلسلے میں بھی اس سرزمین پر ان کا استحقاق کسی بھی مسلمہ پیمانے سے ثابت نہیں ہوسکتا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام (جن کی اولاد میں بنی اسرائیل اور عرب سب شامل ہیں) عراق سے فلسطین تشریف لائے، جہاں سے ان کے پوتے یعقوب علیہ السلام، اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کے دور اقتدار میں اپنے خاندان کے ساتھ مصر منتقل ہوگئے۔ انھی کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ بنی اسرائیل مصر میں طویل غلامی کے بعد، سیدنا موسی علیہ السلام کی قیادت میں فلسطین واپسی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ چالیس سال کی صحرا نوردی کے بعد یہ قافلہ شرق اردن پہنچا جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے۔ موسیٰ علیہ السلام کے جانشین،یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل پہلی دفعہ فلسطین میں داخل ہونے میں کام یاب ہوئے۔ ایک لمبی مدت گزارکر طالوت کی قیادت میں جنگ جیتنے کے بعد(1047ق م) پہلی دفعہ اس علاقے پر انھیں تسلط حاصل ہوا [50]  اور سیدنا داود علیہ السلام کی حکومت قائم ہوئی جسے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہد میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی او ر پھر بابل کی جنگ میں بخت نصر (NebuchadnezzarII) نے (587ق م ) یروشلم کو تاراج کرکے یہودیوں کو قید کرلیا اور انھیں بابل منتقل کردیا جہاں سے وہ دنیا میں تتر بتر ہوگئے۔[51]  دوسری طرف، فلسطینی، ایک قوم کی حیثیت سے اپنے جداگانہ تہذیبی تشخص اور امتیازی تمدنی خصوصیات کے ساتھ ان چار ہزار برسوں میں مسلسل فلسطین میں آباد رہے ہیں۔[52]

اس طرح بنی اسرائیل باہر سے آکر فلسطین میں آباد ہوئے تھے اور تین ہزار سال پہلے محض چارسو سال ان کا فلسطین میں قیام اور تسلط رہا۔ اس بنیاد پر اگرآج ملک پر ان کا استحقاق تسلیم کرلیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب قریبی زمانے میں اور معلوم و معروف تاریخ میں اپنے قیام اور حکومت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر اپنا استحقاق اور’حق واپسی ‘جتانے لگیں یا فرانس، اٹلی، ہالینڈ، پر تگال، اسپین، روس وغیرہ سب اپنی سابقہ کالونیوں پر دوبارہ قابض ہونے کی فکر شروع کردیں۔

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق  ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟

اس طرح اس قدر کم زور بنیاد پر، فلسطین میں ہزاروں سال سے آباد فلسطینی باشندوں کو بے دخل کرکے اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی۔ فلسطین کی آدھی آبادی کو اسرائیل کے قیام کے فوری بعد ملک سے بے دخل کردیا گیا، جو ہنوز اردن، شام، مصر، وغیرہ ملکوں میں پناہ گزین ہے۔

اسرائیل کے قیام کے بعد بھی آبادکار استعماریت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ گذشتہ پچہتر برسوں میں،اسرائیل مسلسل اپنے علاقے میں توسیع کیے جارہا ہے۔ کسی عالمی قانون یا اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کی نہ وہ پروا کرتا ہے اور نہ مغربی مقتدرہ کو اس سے کوئی دل چسپی ہے کہ اس سے ان قوانین کی پابندی کرائے۔[53]    فلسطینیوں کی مکمل آبادی یہودی آبادکاروں کی آبادی کے دو گنا سے زیادہ ہے جس کا تقریباََ نصف حصہ بیرون ملک پناہ گزین ہے۔ جو آبادی فلسطین کے حدود میں ہے وہ بھی یہودی آبادی سے زیادہ ہے۔ اس آبادی کو دو چھوٹے اور ایک دوسرے سے علیحدہ خطوں(غزہ اور مغربی کنارہ یا West Bank) میں قید کرکے رکھا گیا ہے۔ اس میں بھی ایک خطے یعنی مغربی کنارے کو چھوٹے چھوٹے غیر مربوط خطوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک فلسطینی دیہات ہے تو اس کے چاروں طرف ’اسرائیلی سیٹلمنٹ ’ ہیں۔ مغربی کنارے کے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لیے اسرائیلی آبادیوں سے گزرنا ہوتا ہے جس کی صعوبتیں ناقابل بیان ہیں۔[54]اس ظالمانہ تقسیم کو اوسلومعاہدے نے زونA,B,C بناکر جواز دے دیا ہے۔[55] لیکن اس ظلم پر بھی اسرائیل مکتفی نہیں ہے۔ بلکہ جو علاقے اوسلو معاہدے میں فلسطینی علاقے قرار دیے گئے تھے ان میں بھی نئے سیٹلمنٹ بناکر مسلسل توسیع کیے جارہا ہے۔[56] اس توسیع کا خاص نشانہ مشرقی یروشلم ہے جہاں بیت المقدس واقع ہے۔

اسرائیل اس مسلسل توسیع سے کیا چاہتا ہے؟ اس کا مکمل دعوی کیا ہے؟ یہ بات باقاعدہ طور پر کبھی واضح نہیں کی گئی ہے۔ لیکن اسرائیل کی سیاسی جماعتوں، مذہبی اشرافیہ اور علمی حلقوں میں عظیم تر اسرائیل (Eretz Yisrael) کا خواب اور تصور ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ عظیم تر اسرائیل کا کیا مطلب ہے؟ اسے بھی کبھی واضح نہیں کیا گیا۔ اس کا سب سے چھوٹا اور کم سے کم تصور، بحر متوسط (Mediterranean Sea)سے دریائے اردن تک (From the River to the Sea)، یعنی تاریخی فلسطین کی مکمل سرزمین ہے یعنی اسرائیل کا تسلیم شدہ علاقہ، مغربی کنارہ، یروشلم اور غازہ [57]۔ یہ بائبل میں مذکور بنی اسرائیل کی زمین ’دان سے بئر سبع تک(From Dan to Be‘er Sheva) کا علاقہ ہے[58]۔ دان اور بئر سبع موجودہ اسرائیل کے بالترتیب آخری شمالی اور جنوبی شہر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں سے ان کی رہی سہی معمولی زمینیں اور ان پر ان کے نہایت محدود تسلط کو بھی مکمل طور پر ختم کرکے اس پورے علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ قدیم فلسطین کے مذکورہ مکمل علاقے کے علاوہ، اردن کے کچھ علاقے، جزیرہ نمائےسینا اور شام کی گولان پہاڑیاں بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہیں۔[59] اسرائیل ان علاقوں پر قبضے کی کوششیں کرتا رہا ہے اور ان پر قابض بھی رہا ہے۔تیسرا تصور نیل سے فرات تک (From Nile to Euphrates)کا تصور ہے اور یہ سب سے زیادہ مشہور تصور ہے۔ اس کے سلسلے میں بھی بائبل کا حوالہ دیا جاتا ہے۔[60]اس کے مطابق مکمل فلسطین کے علاوہ، مکمل اردن، مکمل لبنان، شام کا بیشتر علاقہ، جزیرہ نمائے سینا کے علاوہ بحر متوسط کے کنارے مصر کا طویل مشرقی ساحلی علاقہ، عراق کا نصف سے زیادہ حصہ (بشمول، بصرہ، نجف اور کربلا)،ترکی کا کچھ حصہ اور سعودی عرب کا بڑا حصہ شامل ہے (جس میں بعض روایتوں کے مطابق مدینہ بھی آتا ہے)یہ پورا علاقہ گریٹر اسرائیل کے تصور میں شامل ہے۔نقشہ ملاحظہ ہو، گریٹر اسرائیل کی مزعومہ سرحدوں کو نشان زد کیا گیا ہے۔

اس کی شہادتیں موجود ہیں کہ صیہونی تحریک کے قائدین کے ذہنوں میں ابتدا میں یہی تصور تھا۔[61] یاسرعرفات کے مطابق اسرائیل کے پرچم میں دو نیلی پٹیاں، دریائے نیل اور دریائے فرات کی نمائندگی کرتی ہیں[62] اور یہ کہ اسرائیل کے 100شیکل کے پرانے سکے میں (تصویرملاحظہ ہو) جو نقشے کی شکل کا اسکیچ ہے وہ بھی اسی وژن کی نمائندگی کرتا ہے۔[63] اسرائیل کے بدنام زمانہ وزیر دفاع، موشے دیان سے یہ بیان بھی منسوب ہے کہ’’ہم نے یروشلم حاصل کرلیا ہے اور اب ہم مدینہ اور بابل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘[64]

یہ صرف جذباتی تقریروں یا نظریاتی تخیلات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اپنے قیام کے بعد سے اسرائیل مسلسل توسیع پسندانہ منصوبوں کو پوری رعونت کے ساتھ روبعمل لارہا ہے۔ ہر سال اس کے زیر کنٹرول علاقوں اور یہودی سیٹلمنٹ کے رقبے میں اضافہ ہورہا ہے[65]۔ ان توسیعات کے لیے اسرائیل پوری دنیا کی مذمتوں کو قبول کرلیتا ہے۔ بڑی بڑی جنگوں کا خطرہ مول لیتا ہے اور اپنی آبادی کو طرح طرح کے خطرات اور نقصانات سے دو چار کرنا برداشت کرلیتا ہے لیکن توسیعات سے باز نہیں آتا۔ اس رویے کی وجہ سے بھی مذکورہ بالا تخیلات کو دنیا ایک سیریس خفیہ منصوبہ سمجھتی ہے جس پر اسرائیل خاموشی سے عمل پیرا ہے۔

طاقت و قوت کا مصنوعی رعب اور ’یہودی سازش‘ کا غبارہ

فلسطین کی مزاحمتی جدوجہد کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کی قوت و طاقت، اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم اور ’ طاقت ور اور ہمہ گیر کنٹرول کی حامل ’یہودی سازش‘ کا بھرم بری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ ہم نے اس سے قبل لکھا تھا:

’’ سازشی نظریات اللہ کے نافرمان شرپسندوں اور فتنہ پردازوں کو بہت طاقت ور اور غیر معمولی قوت اور صلاحیت کے حامل باور کراتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی ہمہ گیر قوت کے مالک ہیں کہ ان کی مرضی اور منصوبہ بندی سے دنیا کے سارے واقعات انجام پاتے ہیں، گویا انھیں قادر مطلق (Omnipotent) اور عالم کل (Omniscient) مانا جاتا ہے۔ الیومیناٹی، فری میسن، صیہونیت وغیرہ کے سلسلے میں یہ تصورات موجود ہیں کہ ہر چھوٹا بڑا واقعہ انھی کی مرضی اور پلاننگ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ سیاسی و معاشی امور سے لے کر سماوی آفات تک اور سائنسی وعلمی تحقیقات سے لے کر، اخلاقی و تہذیبی تصورات کے چلن تک، انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اُن کی مرضی کے بغیر کچھ ہورہا ہو۔ وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے اور نہ کبھی کوئی پتہ ان کی مرضی کے خلاف ہل پاتا ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور دنیا کا ہر چھوٹا بڑا معاملہ، ان کے منصوبہ کے مطابق ہو بہو انجام پاتا ہے۔۔۔۔۔ یہ نظریات شدید قسم کی مایوسی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور مایوسی وقنوطیت کو اور فروغ دیتے ہیں۔ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ اس کے معاملات مکمل طور پر ایک ایسے اَن دیکھے دشمن کے کنٹرول میں ہیں جو دنیا کے تمام امور پر کنٹرول رکھتا ہے، تو وہ کس لیے جدوجہد کرے گا؟ عام طور پر یہ واقعات وحوادث ہی ہوتے ہیں جو تحقیق وتفتیش، اختراع و اپج اور جہد وسرگرمی کے لیے مضبوط محرک فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کے ذہن پر سازشی نظریات چھائے ہوئے ہوں تو وہ کیوں مسئلہ کے (حقیقی) ظاہری اسباب کے پیچھے پڑے گا؟ وہ اسے ایک سازش سمجھے گا اور سازشیوں کو کوسنے کے سوا کوئی اور کام اس کے پاس نہیں بچے گا۔۔ [66]‘‘

فلسطینی مزاحمت کایہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے ان بزدلانہ تصورات کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اور قرآن کے اس اعلان کے حق میں ناقابل تردید واقعاتی شہادت فراہم کردی ہے کہ إِنَّ كَیدَ الشَّیطَانِ كَانَ ضَعِیفًا (یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کم زور ہیں۔النساء: 76)

لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل ایک چھوٹا سا نو زائیدہ ملک ہوکر بھی اپنی غیر معمولی طاقت کی وجہ سے تمام عربوں پر غالب ہے۔ بے شک عربوں کی کوتاہی، کم زوری اور بزدلی بھی اس صورت حال کا ایک اہم سبب ہے لیکن اسرائیل کو بڑی طاقت اور ناقابل تسخیر قوت سمجھنا بھی کم فہمی ہے۔ فلسطینیوں سے اسرائیل اکیلا نہیں لڑرہا ہے۔اس کی پشت پر ساری عالمی طاقتیں ہیں۔

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ اسرائیل کو امریکہ کا جو معاشی اور فوجی تعاون حاصل ہے اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ا س وقت امریکہ صرف فوجی مقاصد کے لیے اسرائیل کو سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی مدد دیتا ہے۔[67]یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی موجود ہے کہ اس مدد کا مقصد پڑوسیوں کے مقابلے میں اسرائیل کو ’فوجی برتری‘ (qualititative military edge) فراہم کرنا ہے۔[68] ان کے علاوہ جرمنی، انگلستان، فرانس، اسپین وغیرہ متعدد ممالک ہیں جو اسرائیل کی پچہتر برسوں سے مسلسل مالی مدد کررہے ہیں۔

مدد صرف مالی نہیں ہے۔ یہ بڑی طاقتیں اسرائیل کو اعلیٰ ترین ترقی یافتہ اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ دفاعی ٹکنالوجی فراہم کرتے ہیں۔ اس کی فوجوں کو دفاعی ٹریننگ دیتے ہیں۔جوائنٹ آپریشن کرتے ہیں۔ اس کی مدد کے لیے آس پاس فوجی دستے تعنیات رکھتے ہیں۔ صرف اسرائیل کی مدد کے لیے مغربی ایشا میں امریکہ کے متعدد فوجی اڈے ہیں۔امریکہ اور یورپی ملکوں کی مشرق وسطی میں مکمل خارجہ اور دفاعی پالیسی اسرائیل کو بنیاد بناکر بنائی جاتی ہے۔ اسرائیل کی مدد ان سب ملکوں کا سب سے بڑا دفاعی پروجیکٹ ہے۔

یہ طاقتیں صرف مالی اور دفاعی محاذ پر ہی نہیں بلکہ سیاسی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر بھی ہر دم اسرائیل کی پشت پناہ بنی رہتی ہیں۔اسرائیل کے مظالم پر روک لانے کے لیے ساری دنیا ایک زبان ہوجاتی ہے لیکن بڑی طاقتیں ’ویٹو ‘کردیتی ہیں۔ اب تک کی تاریخ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے جملہ 82دفعہ ویٹو کے اختیار کا استعمال کیا ہے جن میں 46دفعہ (نصف سے زیادہ) اسرائیل کو بچانے کے لیے کیا ہے۔ برطانیہ نے 29 کے من جملہ 13 اور فرانس نے 18 کے من جملہ 11 دفعہ اسرائیل کی مذمت اور اس کی سزاؤں کو روکنے کے لیے ویٹو کا استعمال کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی طاقتوں کو یہ غیر جمہوری، ظالمانہ اور غیر مہذب اختیار محض اسرائیل کی حفاظت کے لیے دیا گیا ہے۔[69]

ان حقائق کی موجودگی میں کون یہ کہہ سکتا ہے کہ فلسطین کے نہتے مزاحمت کارمحض اسرائیل کے خلاف لڑرہے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ وہ ساری بڑی عالمی طاقتوں کی جارحیت کا مقابلہ کررہے ہیں۔ انسانی تاریخ کے سب سے طاقتور اوربے پناہ قوت و طاقت سے لیس گٹھ بندھن کو روکے ہوئے ہیں۔

ہمارے عہد کی یہ بے مثال مزاحمت اب دنیا کو بدل رہی ہے۔ دنیا کی رائے عامہ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف بیدار ہورہی ہے۔ ہم نے اس مضمون میں جان بوجھ کر مجرموں کے لیے‘مغربی مقتدرہ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دنیا کی ہر قوم میں خیر کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔مغربی ممالک کے عوام کو ان کی حکومتوں اور میڈیا نے جھوٹ اور پروپگنڈے کے ذریعے غافل رکھا تھا۔ اب وہ حقائق کو جان رہے ہیں تو صورت حال یہ ہے کہ اس وقت اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلم ممالک سے کہیں زیادہ مغربی ملکوں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ کناڈا، برطانیہ وغیرہ کے وزرائے اعظم کو جگہ جگہ لوگ گھیر کر سوالات کررہے ہیں۔بہت سے اسرائیلی جرنلوں اور سیاست دانوں کے لیے برطانیہ کا دورہ ناممکن ہوگیا ہے کیوں کہ وہاں کی عدالتیں (حکم رانوں کی مرضی کے خلاف) برطانیہ کے یونیورسل جیورسڈیکشن قانون کے تحت ان کے خلاف گرفتاری کے احکام جاری کررہی ہیں۔ [70]  عوامی رائے کا دباؤ اس قدر شدید ہے کہ فرانس جیسے ملک کو اسرائیلی آبادکاروں کی مذمت کرنی پڑی[71] اور اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دینا پڑا۔ [72] جگہ جگہ عوامی غم و غصے کا سامنا کرنے کے بعد کناڈا کے وزیر اعظم کو کہنا پڑا:

’’ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ ٹی وی پر، سوشل میڈیا پر۔ ہم واقعات کی گواہیاں سن رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی، (مقتولین کے) ارکان خاندان کی، بچ جانے والوں کی، مرنے والوں کے معصوم بچوں کی۔ عورتوں، بچوں اور شیر خواروں کا یہ قتل ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس کا فوری رک جانا ضروری ہے۔‘‘[73]

اس بیان میں عوامی رائے کا دباؤ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسپین کے نائب وزیر اعظم نے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔[74]  یہی مطالبہ بیلجیم کی وزیر نے بھی کردیا۔[75] امریکی وزارت خارجہ کے متعدد افسروں کی جانب سے پیش کیا گیا سخت اختلافی نوٹ بھی میڈیا میں زیر گفتگو رہا جس میں صدر بایڈن کی اسرائیل کی حمایت کی پالیسی سے نہ صرف اختلاف کیا گیا بلکہ صدر پر دروغ گوئی اور جنگی جرائم میں تعاون کے سنگین الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔[76] مزاحمت نے ساری دنیا میں یہ صورت حال پیدا کی ہے کہ انصاف پسند عوام اپنے حکم رانوں کی ظالمانہ، غیر انسانی اور غیر اخلاقی پالیسیوں کے بارے میں بیدار ہورہے ہیں۔ یہ بیداری ان شاء اللہ ضرور ٹھو س تبدیلی اور عالمی اخلاقی احیا کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اس بیداری میں دنیا کی مدد کریں۔ حقائق کو سامنے لائیں۔ عوامی رائے کو درست رخ دیں۔ فلسطینیوں کی قربانیوں کو ضائع ہونے نہ دیں اور حقیقی عدل و قسط کی پائیداراساس تلاش کرنے میں عالمی برادری کی مدد کریں۔

ہمارے ملک کی رائے عامہ کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ فلسطینی مظلومین کے لیے ہمارا حقیقی تعاون یہی ہوگا کہ یہاں کے عوام حقیقت حال سے واقف رہیں اور فلسطین کی حمایت میں ہندوستان کا تاریخی کردار بحال رہے۔  اس شمارے کا مقصد اسی مبارک کام میں قارئین کی مدد کرنا ہے۔

 

[1]  ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی؛ تفسیر روح القرآن؛ تشریح سورہ الانفال؛ آیت 29

[2]   سید ابوالحسن علی حسنی ندوی (2003) دعوت فکر و عمل ؛ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام’ لکھنو ص 100-101

[3]  عالمی معاہدے کا مکمل متن ملاحظہ ہو:

https://www.ohchr.org/sites/default/files/cerd.pdf; retrieved on 17-11-2023

[4] Suzie Navot(2014) The Constitution of Israel: A Contextual Analysis; Hart Publishing; Oregon; pages 72-79

[5]  ملاحظہ ہو اسرائیلی وزیر خارجہ کا بیان

Interfax News Agency “Israel Foreign Minister Wants Israel to be EU Member,” Interfax News Agency, 3 November 2010.

[6]  یورپی پارلیمان  میں کیا گیا سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:

https://www.europarl.europa.eu/doceo/document/E-6-2006-3701_EN.html

[7]  مثلاً ملاحظہ ہو:

https://news.sky.com/story/why-does-israels-football-team-play-in-europe-10359083

[8] Noah Lewin-Epstein ‘ Yinon Cohen (2018): Ethnic origin and identity in the Jewish population of Israel, Journal of Ethnic and Migration Studies, DOI: 10.1080/1369183X.2018.1492370

[9] ibid

[10] Teshome Wagaw (2018) For Our Soul: Ethiopian Jews in Israel. United States:  Wayne State University Press.

[11] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مضمون

https://www.britannica.com/topic/Bene-Israel

 [12] غیر سفید فام یہودیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہوتا ہے اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

Ein-Gil, E., ‘ Machover, M. (2009). Zionism and Oriental Jews: a dialectic of exploitation and co-optation. Race Class, 50(3), 62-76.

Joseph Massad; Mizrahi Jews in Israel faced decades of injustice..;https://www.middleeasteye.net/opinion/israel-ashkenazi-mizrahi-divide-still-extreme-right 

Hen Mazzig(2022) The Wrong Kind of Jew: A Mizrahi Manifesto;Wicked Son;

[13] Dana Kachtan (2012) ‘‘The Construction of Ethnic Identity in the Military—From the Bottom Up,” Israel Studies, Indiana University Press, vol. 17, no. 3, Fall 2012, pp. 150–175.

[14] S.Zalman Abramov (1976) Perpetual dilemma: Jewish religion in the Jewish State, Fairleigh Dickinson Univ Press, p. 277-278

[15] David Shasha(2010) “Sephardim, Ashkenazim, and Ultra-Orthodox Racism in Israel”; https://www.huffpost.com/entry/sephardim-ashkenazim-and_b_615692; retrieved on 15-11-2023

[16] Sheera Frenkel (2012) Violent Riots Target African Nationals Living in Israel; https://www.npr.org/2012/05/24/153634901/violent-riots-target-african-nationals-living-in-israel; retrieved on 15-11-2023

[17] Adrija Roychowdhury(2023)The first Indian Jews in Israel and the racism they faced;https://indianexpress.com/article/research/israel-first-indian-jews-racism-8976190/; retrieved 15-11-2023

[18] Zion Zohar(2005). Sephardic and Mizrahi Jewry: From the Golden Age of Spain to modern times. NYU Press. pp. 300–301

[19] Ben Sales(2014)”New president seeks to cure ’epidemic‘ of racism”; https://www.timesofisrael.com/new-president-seeks-to-cure-disease-of-racism/; retrieved on 15-11-2023

[20] Uri Davis(2004) Apartheid Israel: Possibilities for the Struggle Within. Zed Books, London

 [21]بی سیلم کی اس رپورٹ میں دیہاتوں اور چیک پوسٹوں کی مکمل تفصیل کے ساتھ اس بھانک صورت حال کی تفصیل موجود ہے جو نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے سلسلے میں پائی جاتی ہے

https://www.btselem.org/sites/default/files/publications/202101_this_is_apartheid_eng.pdf

[22]https://www.amnesty.org/en/latest/campaigns/2017/06/israel-occupation-50-years-of-dispossession/

 [23] اس ڈاٹا بیس میں اسرائیل کے 65 قوانین کا مکمل جائزہ موجود ہے جو نسل کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں۔
 https://www.adalah.org/en/content/view/7771

[24] UN Committee on Elimination of Racial Discrimination CERD (2020) Concluding observations on the combined seventeenth to nineteenth reports of Israel; (CERD/C/ISR/CO/17-19);para 14, page 3

[25] Ben-Youssef, Nadia; Tamari, Sandra (1 November 2018). “Enshrining Discrimination: Israel’s Nation-State Law”. Journal of Palestine Studies. 48 (1): 73–87

[26] Yehezkel Lein and Alon Cohen-Lifshitz (2005) UNDER THE GUISE OF SECURITY: Routing the Separation Barrier to Enable the Expansion of Israeli Settlements in the West Bank; B‘TSELEM report

[27] Human Rights Watch (2021) A Threshold Crossed: Israeli Authorities and the Crimes of Apartheid and Persecution; HRW, New York.

[28]  یش دن کی رپورٹ ملاحظہ ہو

Adv. Michael Sfard (2020)The Israeli Occupation of the West Bank and the Crime of Apartheid at s3-eu-west 1.amazonaws.com/files.yesh-din.org/Apartheid+2020/Apartheid+ENG.pdf; retrieved on 15-11-2023

[29]  بی سیلم کی رپورٹ اس اسرائیلی تنظیم کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

https://www.btselem.org/publications/fulltext/202101_this_is_apartheid; retrieved on 15-11-2023

[30] مکمل رپورٹ کا لنک
https://documents-dds-ny.un.org/doc/UNDOC/GEN/N22/610/71/pdf/N2261071.pdf?OpenElement

 [31] رپورٹ کے unedited vrsion کی msword فائل یہاں سے ڈاون لوڈ کی جاسکتی ہے۔

https://www.ohchr.org/en/documents/thematic-reports/a78553-report-special-committee-investigate-israeli-practices-affecting; retrieved on 15-11-2023

 [32] اسرائیل میں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر ملاحظہ ہو، درج ذیل چشم کشا رپورٹیں:

Amnesty International, The State of The World‘s Human Rights: Amnesty International Report 2022-23; pages 206-211

[33] https://www.btselem.org/firearms/20220310_extrajudicial_killing_of_3_nablus_residents_in_broad_daylight

[34] یورپی حقوق انسانی کی تنظیم کی یہ رپورٹ ملاحظہ ہو

https://euromedmonitor.org/en/article/5908/Israel-hits-Gaza-Strip-with-the-equivalent-of-two-nuclear-bombs

[35] تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو اسرائیلی حقوق انسانی کی تنظیم بیت سیلم کی رپورٹ

https://www.btselem.org/administrative_detention

[36]Israel/OPT: Horrifying cases of torture and degrading treatment of Palestinian detainees amid spike in arbitrary arrests   – Amnesty International

[37] تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو اسرائیلی حقوق انسانی کی تنظیم بیت سیلم کا  House Demolition Database
https://statistics.btselem.org/en/demolitions/pretext-unlawful-construction?structureSensor=%5B%22residential%22,%22non-residential%22%5D‘tab=overview‘stateSensor=%22west-bank%22‘demoScopeSensor=%22false%22

[38] https://www.aljazeera.com/features/2014/1/11/the-legacy-of-ariel-the-bulldozer-sharon

[39] ملاحظہ ہو رونگٹے کھڑے کردینے والی رپورٹ:

Parched Israel‘s policy of water deprivation in the West Bank B‘Tselem report, April 2023; https://www.btselem.org/sites/default/files/publications/202305_parched_eng.pdf retrieved on 15-11-2023

[40] نکبہ کی تفصیل کے لیے درج ذیل کتابیں بے حد مفید ہیں۔
Salman Abu Sitta(2000) The Palestinian Nakba 1948: The Register of Depopulated Localities in Palestine. London: The Palestinian Return House OneWorld London

[41] Samia Halaby (2016) Drawing the Kafr Qasem Massacre.Schilt; Amsterdam

[42] Bayan Nuwayhed Al-Hout (2004) Sabra and Shatila: September 1982; Pluto Press; London

[43] https://www.nytimes.com/1994/03/16/world/that-day-hebron-special-report-soldier-fired-crowd-survivors-massacre-say.html?pagewanted=all

[44] غزہ میں اب تک (بیس نومبر) کی تباہیوں پر تفصیلی رپورٹ ملاحظہ ہو:

https://reliefweb.int/report/occupied-palestinian-territory/hostilities-gaza-strip-and-israel-flash-update-44

[45] عالمی عدالت میں اسرائیلی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر جاری مقدمے کی تفصیلات اور جنگی جرائم کی تفصیلی فہرست اور شواہد کے لیے ملاحظہ International Criminal Justice Series کی اکیسویں جلد
Saada Adem (2019)Palestine and the International Criminal Court; T.M.C. Asser Press; Germany

[46] ملاحظہ ہو بی سیلم کی متعدد محولہ بالا رپورٹیں

[47] لاحظہ ہو گارڈین کی رپورٹ

https://www.theguardian.com/law/2019/dec/20/icc-to-investigate-alleged-israeli-and-palestinian-war-crimes؛  retrieved on 17-11-2023

[48] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

Edward Cavanagh,, Lorenzo Veracini (2016). ‘‘Introduction’’. The Routledge Handbook of the History of Settler Colonialism. Taylor ‘ Francis. P. 29

[49] اس حقیقت پر تل ابیب یونیورسٹی کے ایک یہودی پروفیسر کی مدلل کتاب ملاحظہ ہو:

Shlomo Sand(2020)The Invention of the Jewish People;Verso Books;London

[50] Karel Van der Toorn(1993). ’’Saul and the rise of Israelite state religion‘‘. Vetus Testamentum. XLIII (4): 519–542

بائیبل میں یہ تذکرہ ملاحظہ ہو 1 Samuel 10: 17-24

[51] JOHN Allegro (2015)The chosen people: A study of Jewish history from the time of the exile until the revolt of Bar Kocheba; Andrews; London.

[52] فلسطینیوں کی تاریخ، چار ہزار برسوں میں ان کے تاریخی تسلسل، ان کی چار ہزار سالہ تاریخ، تمدنی خصوصیات وغیرہ پر تاریخی شواہد سے مدلل چشم کشا کتاب ملاحظہ ہو:

Nur Masalha(2018) Palestine: A Four Thousand Year History; Zed Books

[53] اقوام متحدہ کی اسرائیل کے خلاف منظور کی گئی قراردادوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اقوام متحدہ کی دستاویز

United Nation (2008) The Question of Palestine and United Nations; United Nations Organisation; New York

[54] https://www.btselem.org/sites/default/files/publications/202101_this_is_apartheid_eng.pdf

[55] اوسلو معاہدہ کی تفصیل اور اس کے نتائج و اثرات کے تجزیے پر مبنی اہم کتاب:

The Oslo Accords 1993–2013: A Critical Assessment (2013) (Edited Compilation); American University in Cairo Press; Cairo

[56] قوام متحدہ میں اس موضوع پر ہوئی بحث کی چشم کشا رپورٹ

https://press.un.org/en/2023/sc15424.doc.htm

[57] Ilan Pappe(2017)TEN MYTHS ABOUT ISRAEL; Vreso; London pp 92-100

[58] Bible; Judges 20: 1, Samuel 3: 20; 3: 10. 17: 11

[59] https://www.frontiersin.org/articles/10.3389/fpos.2022.963682/full

[60] Genesis 15: 18, Deuteronomy 11: 24

[61] مثلاً ملاحظہ ہو صیہونی تحریک کے بانی تھیورڈ ہرزل کی مطبوعہ ڈائری

Raphael Patai The Complete Diaries of Theodor Herzl, Vol.II, Herzl Press, New York Page 711,

[62] https://web.archive.org/web/20011015064546/http://www.geocities.com/Heartland/9766/arafat.htm

[63] شیفیلڈ یونیورسٹی کے پرووفیسر راولےکے محولہ ذیل مقالے نے اس حوالے سے بڑا ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس مقالے کو اقوام متحدہ میں بھی زیر بحث لایا تھا

Gwyn Rowley(1989) “Developing Perspectives upon the Areal Extent of Israel: An Outline Evaluation; GeoJournal 1989-09: Vol 19 Iss 2

[64] Sa`d al-Bazzaz (1989) Gulf War: The Israeli Connection, transl. Namir Abbas Mudhaffer;Dar al-Ma’mun; Baghdad

[65] سیٹلمنٹ کی مکمل تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بی سیلم کا ڈاٹا بیس

https://www.btselem.org/settlements

[66] سید سعادت اللہ حسینی (2020) اشارات؛ ماہنامہ زندگی نو؛ جون 2020

[67] https://www.bbc.com/news/57170576

[68]ملاحظہ ہو امریکی کانگریس کی رپورٹ

Congressional Research Service (2023) US Foreign Aid to Israel: CRS Report; pp 5

[69] اب تک ویٹو کے استعمال کا مکمل ریکارڈ ملاحظہ ہو:

https://research.un.org/en/docs/sc/quick

[70] اسرائیلی حکام کو کس طرح برطانیہ کی عدالتیں ان کے جنگی جرائم پر ماخوذ کررہی ہیں، ان کی گرفتاری کے احکام جاری کررہی ہیں، اور کس طرح برطانیہ میں داخلہ مشکل ہوتا جارہا ہے، اس کی تفصیل کے لیے درج ذیل خبریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:

https://www.theguardian.com/uk/2010/jan/05/israeli-military-uk-arrest-fears

https://www.theguardian.com/uk/2005/sep/12/  israelandthepalestinians.warcrimes

https://www.ynetnews.com/articles/0,7340, L-3221339,00.html

https://www.ynetnews.com/articles/0,7340,L-3883985,00.html

[71]https://www.jpost.com/breaking-news/article-773533

[72]https://onu.delegfrance.org/france-voted-in-favor-of-the-resolution-presented-on-behalf-of-the-arab-group

[73]https://www.thehindu.com/news/international/canadian-pm-tells-israel-killing-of-babies-must-stop/article67537556.ece

[74]https://www.middleeastmonitor.com/20231116-spanish-deputy-pm-calls-for-sanctions-and-arms-embargo-against-israel/

[75]https://www.euronews.com/2023/11/09/crimes-are-being-committed-belgium-deputy-pm-petra-de-sutter-calls-for-sanctions-against-i

[76]https://www.middleeastmonitor.com/20231113-internal-us-state-department-memo-biden-spreading-misinformation-israel-committing-war-crimes-in-gaza/

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223