مسلمانوں کے فرائض کا جامع عنوان ’’اقامتِ دین‘‘ ہے۔ اس اصطلاح کا ماخذ یہ آیات ہیں:
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِن شَیْْئٍ فَحُکْمُہُ اِلَی اللّٰہِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْْہِ أُنِیْبُo فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجاً یَذْرَؤُکُمْ فِیْہِ لَیْْسَ کَمِثْلِہٰ شَیْْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُo لَہُ مَقَالِیْدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَآئُ وَیَقْدِرُ اِنَّہ، بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیْمٌo شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٰ نُوْحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْْنَا اِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا بِہٰ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسیٰ وَعِیْسیٰ أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْْہٰ اللّٰہُ یَجْتَبِیْ اِلَیْْہٰ مَنْ یَشَآئُ وَیَہْدِیْ اِلَیْْہِ مَنْ یُنِیْبُo ﴿الشوریٰ:۱۰-۱۳﴾
’’تمہارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو، اُس کافیصلہ کرنااللہ کا کام ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتاہوں۔ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، اور اسی طرح جانوروں میں بھی ﴿انہی کے ہم جنس﴾ جوڑے بنائے، اور اِس طریقے سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اُس کے مشابہ نہیں، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں۔ جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے، اُسے ہر چیز کا علم ہے۔اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جسے ﴿اے محمد ﷺ ﴾ اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ ’’قائم کرو اِس دین کو اور اِس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔‘‘ یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے، جو اُس کی طرف رجوع کرے۔‘‘
اِن آیات میں بہت سے اہم حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے، اُن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
﴿الف﴾ دین قائم کرنے کی ہدایت صرف محمد ﷺ کو نہیں دی گئی بلکہ آپ سے پہلے کے انبیائ علیہم السلام کو بھی دی گئی تھی۔ اُن میں نمایاں ترین انبیائ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔
﴿ب﴾ انسانوں کے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو اُس کا فیصلہ کرنااللہ کاکام ہے۔ چنانچہ اُس کانازل کردہ دین جن ہدایات پر مشتمل ہے اُن کا تعلق حیاتِ انسانی کے محض کسی ایک پہلو سے نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ اس لیے کہ انسانوں کے درمیان اختلافات زندگی کے ہر معاملے میں ہوتے رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
﴿ج﴾ دین کو قائم کرنے کی ہدایت مشرکین کو ناگوار گزرتی ہے۔ ﴿یہی بات سورہ صف میں بھی فرمائی گئی ہے۔﴾ یہ ناگواری اس بنا پر ہے کہ مشرکین اللہ کی ہدایت کے بجائے اپنے آبائ واجداد کی غلط روایات کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔
﴿د﴾ دین کو قائم کرنے کی اس ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق انہی انسانوں کو ملتی ہے جو صدق دل سے طالبِ ہدایت ہوں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔
اقامتِ دین کے معنی
قرآنِ مجید کا یہ ارشاد کہ ’’تمہارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔‘‘ اس امر میں کوئی شبہ نہیں چھوڑتا کہ دین کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ چنانچہ دین کو قائم کرنے کے بدیہی معنی یہ ہیں کہ پوری زندگی کو اور اس کی تمام سرگرمیوں کو ہدایتِ الٰہی کے مطابق منظم کیا جائے۔ دستورِ جماعت اسلامی ہند میں ’’اقامتِ دین‘‘ کی اصطلاح کی یہی تشریح بیان کی گئی ہے۔ دستورِ جماعت کے الفاظ یہ ہیں:
’’اقامتِ دین میں لفظ دین سے مراد وہ دینِ حق ہے جسے اللہ رب العالمین اپنے تمام انبیائ کے ذریعے مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں بھیجتا رہا ہے اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعے نازل فرمایا، اور جو اَب دنیا میں ایک ہی مستند، محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے اور جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔‘‘
یہ دین انسان کے ظاہر و باطن اور اُس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے، جو اس دائرے سے خارج ہو۔
یہ دین جس طرح رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لیے بہترین نظامِ زندگی بھی ہے، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح اور ترقی پذیر تعمیر صرف اسی کے قیام سے ممکن ہے۔
اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا اِرتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو۔‘‘ ﴿دستورِ جماعت اسلامی ہند، دفعہ:۴﴾
مندرجہ بالا جامع تشریح کارِ اقامتِ دین کے متنّوع تقاضوں کو واضح کرتی ہے۔ ان تقاضوں میں نمایاں ترین تقاضے فرد کے ارتقائ، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سے متعلق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی ہدایت پر انسانی زندگی کے ہر گوشے میں اُسی وقت مکمل طور پر عمل کیا جاسکتا ہے جب ایک ایسی ریاست وجود میں آجائے جو احکامِ الٰہی کی مخلصانہ پیروی اور اُن کے نفاذ کا ارادہ رکھتی ہو۔ چنانچہ اسلامی ریاست کا قیام اقامتِ دین کے نصب العین کا لازمی جز ہے۔
اسلامی ریاست کی غیر موجودگی میں
’’اسلامی ریاست موجود نہ ہوتو مسلمان کیاکریں۔‘‘ اس سلسلے میں سورہ الشوریٰ میں رہنمائی ملتی ہے۔ سورہ شوریٰ مکّی سورت ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اندازے کے مطابق اس کا زمانہ نزول سورہ حٰم سجدہ سے متصل معلوم ہوتا ہے اور سورہ حٰم سجدہ کے نزول کا زمانہ حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر کے ایمان لانے سے پہلے ہے۔ سورہ شوریٰ میں مکّہ کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی تصویر پیش کی گئی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ اسلامی ریاست کی غیر موجودگی میں بھی مسلمانوں کو منظم اجتماعی زندگی گزارنی چاہیے اور اُن کے نظم وضبط کا معیار ایسا ہونا چاہیے جو ایک ریاست کا ہوا کرتا ہے:
فَمَا أُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْْرٌ وَأَبْقَی لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَo وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَأَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَأَمْرُہُمْ شُوْریٰ بَیْْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَo وَالَّذِیْنَ اِذَا أَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنْتَصِرُوْنَo وَجَزَائُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَo وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٰ فَأُوْلٰئِکَ مَا عَلَیْْہِم مِّنْ سَبِیْلٍ o اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِیْ الْأَرْضِ بِغَیْْرِ الْحَقِّ أُوْلٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌo وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِo ﴿الشوریٰ: ۳۶-۳۴﴾
’’جو کچھ تم کو ملا ہے وہ دنیا کی ﴿چند روزہ﴾ زندگی کا سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پا س ہے وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ ﴿آخرت کا یہ انجام﴾ اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رَب کی پکار پر لبیک کہا جو نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اِن لوگوں کی صفت یہ ہے کہ جب اِن پر زیادتی کی جائے تو اُس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کابدلہ ایسی ہی برائی ہے البتّہ جو معاف کردے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذِمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ جو کوئی ظلم کیے جانے کے بعد بدلہ لے تو اُس پر کچھ الزام نہیں۔ الزام تو اُن لوگوں پر ہے جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں۔ اُن کے لیے دردناک عذاب ہے، البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یہ بلاشبہ اوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات میں چند اہم امور بیان ہوئے ہیں:
﴿الف﴾مسلمان معاشرے کا اللہ سے تعلق ﴿ب﴾مطلوبہ اخلاقی صفات﴿ج﴾شورائیت﴿د﴾ظلم و زیادتی کا مقابلہ۔
اِن امور کے سیاق میں ایک ایسے مسلمان معاشرے کی شبیہ ہمارے سامنے آتی ہے جو منظم ہے اور اپنی مستقل اجتماعی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی فکر اور تصورات کے لحاظ سے بھی آس پاس کے جاہلی معاشرے سے جدا ہے اور اپنی اجتماعی ہیئت و خصوصیات کے اعتبار سے بھی ممتاز ہے۔ ایسا منظم معاشرہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ جب حالات ساز گار ہوں تو بالکل فطری انداز میں وہ ایک ریاست کی شکل اختیار کرلے۔ اس کے مقابلے میں شعور اور اجتماعیت سے محروم کوئی سماج محض ایک بھیڑ کی مانند ہوتا ہے اور خواہ اُسے کتنے ہی سازگار حالات میسر آئیں، وہ اقتدار اور فرماں روائی کے مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ مکّی زندگی کی یہ تصویر آج دنیا کے اُن تمام خطوں کے مسلمانوں کو دعوتِ غور وفکر دیتی ہے جہاں وہ غیر اسلامی ریاستوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
مسلمان معاشرے کا اللہ سے تعلق
مسلمان معاشرے کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اُس کے افراد اللہ سے زندہ اور گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اِس تعلق کی بنیاد ایمان ہے اور ایمان کا پہلا مظہر اللہ کی پکار پر لبیک کہنا ہے۔ اہلِ ایمان کی اِس خوبی کا ذکر سورہ آلِ عمران میںکیا گیا ہے:
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلاِیْمَانِ أَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِo رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلاَ تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادo ﴿آل عمران۱۹۳،۱۹۴﴾
’’﴿اہلِ خرد کہتے ہیں﴾ اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کی پکار سنی جو کہتا تھا کہ اپنے آپ پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے، ہماری برائیاں ہم سے دور کردے اور ہمارا انجام نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ اے ہمارے رب! ہم کو وہ کچھ عطا کر جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں سے کیا ہے اور ہم کو قیامت کے دن رُسوا نہ کر۔ بے شک تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘
ایمان کا ایک اور مظہر اللہ پر بھروسہ کرنا ہے۔ اسی توکل کی ہدایت بنی اسرائیل کو گئی تھی:
وَآتَیْْنَا مُوسٰی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ہُدًی لِّبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاًo ﴿بنی اسرائیل:۲﴾
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا، اِس تلقین کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو وکیل اور کارساز نہ بنانا۔‘‘
توکل کے معنیٰ یہ ہیں کہ تدابیر اختیار کرتے وقت ناجائز امور سے بچا جائے اور صرف جائز تدابیر اختیار کی جائیں، اور یہ بھی کہ بھروسہ خدا پر کیا جائے نہ کہ اپنی تدابیر پر۔
ایمان کا ایک مظہر یہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے۔ سورہ بقرہ میں ہے:
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَائ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ أَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَاِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo ﴿البقرۃ: ۲۶۵﴾
’’وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اپنے دلوں کو ثابت رکھ کر، اُن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ بلند زمین پر ہو اور اُس پر زور کی بارش ہو، چنانچہ وہ دوگنا پھل لائے اور اگر ﴿زور کی بارش نہ ہو بلکہ﴾ محض پھوار ہی ہو تووہ بھی اُس باغ ﴿کی شادابی﴾ کے لیے کافی ہے۔ اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھتا ہے۔‘‘
لَّیْْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عَاہَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولٰ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَأُولً ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ o ﴿البقرۃ: ۱۷۷﴾
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف بلکہ ﴿فی الحقیقت﴾ نیکی یہ ہے کہ ایک شخص اللہ پر اور یومِ آخر، ملائکہ، کتابوں اور نبیوں پر ایمان لائے اور اللہ کی محبت میں مال کو خرچ کرے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کو چھڑانے کے لیے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔ تنگی اور مرض میں اور حق و باطل کی جنگ کے موقع پر صبر کریں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔‘‘
ایمان کا سب سے نمایاں مظہر اقامتِ صلوٰۃ ہے۔ جو سوسائٹی اقامتِ صلوٰۃ کا اہتمام نہ کرے وہ اسلامی سوسائٹی نہیں کہلاسکتی اور جس سماج کے اندر محض دَس فیصد افراد نماز کا اہتمام کرتے ہوں اور باقی اُس سے غافل ہوں وہ یقینا باشعور اسلامی سماج نہیں ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے زوال کو عروج سے بدلنے کے لیے اور اُن کے اندر زندگی پیدا کرنے کے لیے اُن کو اقامتِ صلوٰۃ کی ہدایت کی گئی تھی:
وَقَالَ مُوسٰی یَا قَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْْہِ تَوَکَّلُوْا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَo فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَo وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَo وَأَوْحَیْْنَا اِلٰی مُوسٰی وَأَخِیْہِ أَنْ تَبَوَّئَ ا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتاً وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَأَقِیْمُوْا الصَّلاَۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo ﴿یونس: ۸۴تا ۸۷﴾
’’اور موسیٰ نے ﴿بنی اسرائیل کو﴾ ہدایت کی کہ اے میری قوم کے لوگو! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اُسی پر بھروسہ کرو اگر تم اُس کے فرماں بردار ہو۔ تب انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب! ہم کو ظالموں کے گروہ کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم کے غلبے سے نجات دے۔‘‘ پھر ہم نے موسیٰ اور اُس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر مقرر کرلو اور اپنے گھروں کو قبلہ رو بناؤ اور نماز قائم کرو اور اہلِ ایمان کو خوش خبری دے دو۔‘‘
اسی اقامتِ صلوٰۃ کی ہدایت نبی ﷺ کو کی گئی:
اُتْلُ مَا أُوْحِیَ اِلَیْْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ اِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ أَکْبَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ o ﴿عنکبوت: ۵۴﴾
’’تمہارے رب کی جانب سے جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اُس کو پڑھو اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی کے کاموں سے اور منکر سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد سب سے بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
مطلوب اخلاقی صفات
اللہ سے زندہ، شعوری اور گہرے تعلق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان معاشرے میں بلند اخلاقی صفات پروان چڑھیں۔ اہلِ ایمان کے کردار کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں۔ بڑے گناہوں سے پرہیز کا تذکرہ سورہ فرقان میں کیا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلَہاً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَاماًo یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَاناًo اِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُوْلٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماًo وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَاِنَّہُ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَاباً o وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً o ﴿الفرقان: ۶۸ تا ۶۷﴾
’’اور ﴿رحمان کے بندوں کی صفت یہ ہے کہ﴾ وہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور نہ زِنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو کوئی یہ کام کرے وہ بڑے گناہ میں پڑگیا۔ قیامت کے روز اُس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ پڑا رہے گا اُس میں خوار ہوکر۔ البتہ جو توبہ کرلے ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کے برے کاموں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ جو کوئی توبہ کرے اور نیک کام کرے تو وہ اللہ کی طرف پھِر آتا ہے پورے طور پر۔ اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور جب اُن کا گزر لغو کاموں پر ہوتا ہے تو شریف انسانوں کی طرح گزرجاتے ہیں۔‘‘
سورہ اعراف میں نمایاں اخلاقی خرابیوں کا تذکرہ اِن الفاظ میں ہے:
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٰ سُلْطَاناً وَأَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَo ﴿الاعراف: ۳۳﴾
’’﴿لوگوں کو﴾ بتادو کہ اللہ نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں: بے حیائی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے، گناہ اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسے معبود کو شریک کرو جس کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے اور تم اللہ کی طرف منسوب کرکے ایسی بات کہو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔‘‘
اہلِ ایمان کی ایک اور نمایاں صفت یہ ہے کہ غصہ آئے تو وہ اُس کو پی جاتے ہیں اور انسانوں کو معاف کردیتے ہیں۔ اُن کا معاشرہ ایسا نہیں ہوتا جہاں افراد اور گروہ بہر صورت ایک دوسرے سے انتقام لینے پر تُلے ہوں، بلکہ وہاں عفو و درگزر کا عام رواج ہوتا ہے۔ اس معاشرے کے لوگ اپنے جذبات پر کنٹرول کرتے ہیں اور بے قابو نہیں ہوتے۔ اُن کے اقدامات سنجیدہ غوروفکر کے بعد ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اُن کے سینوں میں دھڑکتے ہوئے دل نہ ہوں یا دلوں میں جذبات نہ ہوں لیکن وہ جذبات کو عقل کے تابع رکھتے ہیں اور عقل کو شریعتِ الٰہی کے تابع رکھتے ہیں۔ اُن کے غیظ و غضب کا اظہار اگر ہوتا ہے تو رضائے الٰہی کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ اظہار حدودِ الٰہی کا تابع ہوتا ہے، حدود نا آشنا نہیں ہوتا۔
شورائیت
مسلمان معاشرے کے سیاق میں شورائیت کی صفت کا ذکر یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ یہ معاشرہ ایک منظم معاشرہ ہے جس میں نظامِ سمع و طاعت موجود ہے۔ اس معاشرے میں اجتماعی امور کو طے کرنے کے لیے جو طریقِ کار بتایا گیا ہے وہ شورائیت کا طریقِ کار ہے۔ شورائیت کی اسپرٹ اور اُس کے عملی نظام کا قیام مسلمان معاشرے کو اسلامی ریاست کی خصوصیات سے عملاً آشنا کراتا ہے اور افرادِ معاشرہ کی تربیت کرتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’مشورے سے کام کرنا اللہ کو پسند ہے ﴿خواہ﴾ دین کا ﴿کام﴾ ہو یا دنیا کا۔ نبی کریم ﷺ مہماتِ امور میں برابر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرماتے تھے۔ اور صحابہ آپس میں مشورہ کرتے تھے۔ حروب وغیرہ کے متعلق بھی اور بعض مسائل و احکام کی نسبت بھی۔ بلکہ خلافتِ راشدہ کی بنیاد ہی شوریٰ پر قائم تھی۔‘‘
شورائیت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کی مشورے کے عمل میں بِلاواسطہ یا بالواسطہ شرکت ہو۔ جنگِ اُحد میں جن اصحاب سے کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں، اُن کی لغزش کے باوجود نبی ﷺ کو اللہ نے ہدایت دی کہ اُن سے بدستور مشورہ لیتے رہیے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo ﴿آلِ عمران: ۱۵۹﴾
’’یہ محض اللہ کی رحمت ہے کہ تم اُن ﴿اہلِ ایمان﴾ کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو۔ اگر کہیں تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے پاس سے چھَٹ جاتے پس ان کو معاف کردو، ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرو اور ان سے امور میں مشورہ لو۔ پھر جب تم ﴿کسی رائے پر﴾ عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’﴿اللہ نے نبی ﷺ سے فرمایا کہ﴾ حق تعالیٰ نے آپ کو نرم دل اور نرم خو بنایا۔ آپ اصلاح کے ساتھ اُن کی کوتاہیوں سے اغماض کرتے رہتے ہیں۔ سو یہ کوتاہی بھی ﴿جو جنگ احد میں بعض اصحاب سے ہوئی﴾ معاف کردیجیے اور گو خدا اپنا حق معاف کرچکا ہے تاہم ان ﴿مسلمانوں﴾ کی مزید دلجوئی اور تطییبِ خاطرکے لیے ہم سے بھی اُن کے لیے معافی طلب کریں، تاکہ یہ شکستہ دل آپ کی خوشنودی اور انبساط محسوس کرکے بالکل مطمئن و منشرح ہوجائیں۔ اور یہ صرف معاف کردینا ہی کافی نہیں ﴿بلکہ﴾ آئندہ بدستور ان سے معاملات میں مشورہ لیا کریں۔‘‘
شورائیت کے اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امتِ مسلمہ کی تاریخ میں جو طریقے اپنائے گئے ہیں، آج کے دور کے مسلمان اُن سے استفادہ کرسکتے ہیں اور دنیا کے دوسرے معاشروں کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہر صورت مطلوب یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی غیر موجودگی میں بھی مسلمان معاشرہ منظم اجتماعی زندگی گزارے اور اس اجتماعی زندگی کی تنظیم شورائیت کے اصول پر قائم کی جائے۔
ظلم و زیادتی کا مقابلہ
اہلِ ایمان کے منظم معاشرے کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان پر زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ زیادتی کے لیے اصل لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ ’’بغی‘‘ ہے۔ یہ اُن مذموم صفات میں سے ہے جن سے اللہ نے روکا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo﴿النحل: ۹۰﴾
’’بے شک اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی سے، منکر سے اور سرکشی ﴿بغی﴾ سے منع کرتا ہے۔ وہ تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘
’’بغی‘‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
’’﴿بغی کے معنی ہیں﴾ سرکشی کرکے حد سے نکل جانا، ظلم و تعدّی پر کمر بستہ ہوکر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو وغیرہ لینے کے واسطے ناحق دست درازی کرنا۔‘‘
سیاقِ کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورہ شوریٰ میں ’’بغی‘‘ سے مراد وہ زیادتی ہے جو مسلمان معاشرے کے خلاف، بحیثیتِ مجموعی، کی جائے۔ اگر پورے مسلمان معاشرے کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہو تو مسلمانوں کی یہ ذمّہ داری بیان کی گئی ہے کہ وہ اُس زیادتی کامقابلہ کریں۔ اُس کے بعد اگلی آیت میں افراد کے لیے اس بات کو پسند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اوپر ﴿انفرادی حیثیت میں﴾ ہونے والی زیادتیوں کو معاف کردیں بشرطیکہ درگزر کے اِس روےّے کے نتیجے میں وہ اِصلاح کی توقع رکھتے ہوں۔ یہ عفو و درگزر کا رویہ اُن کو اجرِ الٰہی کا مستحق بنائے گا۔ بہر صورت افراد کے لیے بھی عفو و درگزر کو لازم نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ اُن کو اجازت دی گئی ہے کہ زیادتی ہونے کی صورت میں، وہ چاہیں تو انتقام لے سکتے ہیں لیکن انتقام لینے میں وہ حدِّ استحقاق سے تجاوز نہیں کرسکتے۔
اپنے اوپر ہونے والی زیادتوں کا مقابلہ کرنا اور اپنا دِفاع کرنا ایک فرد کا حق ہے اور دنیا کے ہر نظامِ قانون میں اِس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید بتاتا ہے کہ اہلِ ایمان معاشرے کو بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے بلکہ اُس کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اُن زیادتیوں کا مقابلہ کرے جو پورے معاشرے پر کی جارہی ہوں۔ اگر کوئی معاشرہ ایسی زیادتیوں کا مقابلہ نہیں کرتا تو اُسے بے حس کہا جائے گا۔ وہ کوئی باشعور اور زندہ معاشرہ نہیں ہوسکتا۔ البتہ زیادتیوں کا مقابلہ کرنے اور اپنا دفاع کرنے میں مسلمان معاشرہ شرعی حدود کا پابند ہوگا اور قانون شکنی سے مجتنب رہے گا۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2011