اقامت دین اور حضرت موسیٰؑ

اسلام اللہ کے آگے مکمل خودسپردگی اور فرماں برداری کا دین ہے۔ انسان اپنی زندگی کے ہر معاملے میں انفرادی واجتماعی معاملات کے نظم وانتظام میں اللہ ہی کے احکام و ہدایات پرعمل کرنے کاپابند ہے۔ اس سلسلے میں ایک انسان کو یہ آزادی حاصل ہے اور اسی میں اس کا امتحان بھی ہے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے صرف اور صرف اللہ کے دین کواختیار کرکے رضاکارانہ طورپر یہ پابندی قبول کرتاہے یا مختلف طریقے اور ادیان کو اختیار کرتا پھرتا ہے۔ اوّل الذکر رویہ ہی اسلام یا توحید پر مبنی دین اختیارکرنا کہلاتاہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ شرک، الحاد، باطل، ناحق، ظلم، طاغوت اور جاہلیت کے سوا کچھ اور نہیں لہٰذا کفر ہے۔

جولوگ اللہ کی فرماں برداری اختیارکرتے ہیں وہ ماننے والے ﴿مومن﴾ اور فرماں بردار ﴿مسلم﴾ کہلاتے ہیں اور ان سے یہ مطالبہ ہوتاہے کہ یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃ ﴿اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ﴾ اسلام میں جو فرائض و واجبات ہیں وہ ہمیشہ سے ہیں اورحضرت آدمؑ سے حضرت محمدﷺ تک تمام انبیاء کے ذریعے اپنے اپنے وقت کے مسلمانوں کو ان کی پابندی اور عملی زندگی کے ذریعے ان کے اظہار کی تاکید وتلقین کی جاتی رہی ہے۔ ایسا ہی ایک اجتماعی فرض اقامت دین کاہے، جس کے بارے میں فرمایاگیاہے:

’ہم نے دین کے معاملے میں تمہارے لیے بھی وہی بات مشروع کی ہے جس کی وصیت ہم نے پہلے نوحؑ کو بھی کی تھی اور اب جسے ہم تمہاری طرف وحی کررہے ہیں اور اسی کی وصیت ہم نے ابراہیم و موسیٰؑ و عیسیٰؑ کو بھی کی تھی کہ اس دین کو قائم کرو اور اس معاملے میں تفرق نہ کربیٹھنا۔ بڑی سخت گزرتی ہے مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف تم انھیں دعوت دیتے ہو، مگر اللہ تو جسے چاہتاہے اپنا کرلیتاہے اور ہدایت اسی کو دیتاہے جو اس کی طرف دل سے لپک پڑنے کاجذبہ رکھتاہے۔‘ ﴿شوریٰ: ۱۳﴾

یہ تاکیدی حکم مکی دور کے ابتدائی حصّے ہی میں نازل ہوچکاتھا اور اسی بات پر بالیقین کہاجائے گاکہ یہ ہمیشہ سے اللہ کی سنت رہی ہے کہ اپنے انبیاء کو ابتدا ہی سے دین کے تعلق سے آگاہ کرتارہاہے کہ اَقیموالدین ﴿دین کو قائم کرو﴾۔

واضح رہے کہ یہ ایک اجتماعی حکم ہے، جس طرح نماز کا یہ حکم کہ اقیموالصلوٰۃ ! یعنی ایسا نہیں کہ ’اس اصول کی روشنی میں جب نبوت اور کار نبوت کا مشترک پہلو تلاش کیاجائے تو وہ ایک ہی نکلتاہے۔ اعلان آخرت، ایک ایک فرد پر یہ کوشش کرناکہ وہ دنیا میں ربانی بن کر رہے۔ ورنہ آخرت میں اس کو ابدی عذاب کاسامنا کرناپڑے گا۔ یہی ایک بات ہے جو تمام نبیوں کے درمیان مشترک ہے۔ اب اگر آدمی اس ایک بات کو اپنی زندگی میں بخوبی پکڑے اور دوسروں کو اس کی طرف بلائے تو یہ اقامت دین ہے اور اگر وہ اس بات کے سوا کسی اور بات کو اِشو بناکر اس پر تحریک چلانے لگے تو یہ تفرق فی الدین ﴿الشوریٰ:۱۳﴾ ہوگا۔‘ ﴿الرسالہ:جولائی ۱۹۴۸ء، مضمون :‘اقامت دین’ ص:۳۲﴾ یا یہ کہ ’حکومت والے پہلو کے بارے میں یہ کہاجائے کہ تمام نبیوں کامقصد حکومت الٰہیہ کا قائم کرناتھا۔ البتہ کچھ انبیاء کوشش کے درجے میں رہ گئے اور کچھ آخری درجے تک پہنچے تو یہ بات واقعے کے مطابق نہ ہوگی۔ مثال کے طورپر حضرت موسیٰؑ کو لیجیے ۔اگر حضرت موسیٰؑ کامقصد یہی تھا تو فرعون کے لشکر کی غرقابی کے بعد مصر میں آپ کے لیے میدان صاف ہوچکاتھا اور وہاں حضرت موسیٰؑ اپنی ’قیادت و فرماں روائی کی غیرمعمولی قابلیت‘ کو کام میں لاکر مطلوبہ سیاسی نظام قائم کرسکتے تھے۔ مگر اس کے برعکس یہ ہواکہ حضرت موسیٰؑ مردہ فرعون کے ملک کو چھوڑکر صحرائے سینا میں چلے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبوت کے مشن کی یہ تعبیر سراسر بے بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قرآن سے کسی طرح ثابت نہیں ہوتی۔ ﴿ایضاً ص:۳۲﴾

اس مضمون کاآغاز قرآن کی دوآیات کے حوالے سے ہواہے۔ ایک أُوْلَ ئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ ﴿الانعام:۹۰﴾ اور ﴿الاحزاب:۸،۷﴾ اور پھر ان کی بنا پر ایک ’اصول‘ کی ساخت کی گئی ہے، جس کی بنیاد پر مذکور بالا اصطلاح ’کار نبوت کامشترکہ پہلو ‘ اختیارکی گئی ہے اور بتایاگیاہے کہ ’اس سے معلوم ہواکہ ایک ہی مشترکہ پیغمبرانہ مشن ہے‘ اور ’ہرنبی کے یہاں کچھ چیزیں مشترک ہیں اور کچھ چیزیں غیرمشترک۔‘ پھر کچھ انبیائ کی مثالوں کے بعد فرمایاگیاہے : ’انھی غیرمشترک چیزوں میں حکومت کاقیام بھی ہے۔ کیوں کہ وہ بعض پیغمبروں کے یہاں پایاجاتاہے، مگراکثرکے یہاں نہیںپایا جاتا۔‘﴿ص:۲۲﴾

اسی طرح ایک مضمون ’ذاتی عینک‘ میں شیعہ حضرات کی مثال دے کر کہاگیاہے : ’اسی طرح ہر آدمی کوئی نہ کوئی خیال اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہے۔ وہ جب قرآن کو پڑھتاہے تو اس کو اپنا خیال قرآن کے صفحات میں لکھاہوا نظرآتا ہے۔ قرآن میں لکھاہواہے : ’کرو‘ تو وہ اپنی طرف سے لفظ بڑھاکر سمجھ لیتاہے کہ فلاں کام کرو۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جن کے ذہن میں بساہوا ہے کہ اسلام کا مقصد اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ وہ قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ’دین قائم کرو‘ ﴿اقیموالدین﴾ ان کاذہن ان الفاظ سے فوراً یہ معنی نکال لیتاہے کہ دینی حکومت قائم کرو۔ حالاںکہ یہاں دین کالفظ اجتماعی نظام کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ انفرادی تقاضوں کے بارے میں ہے۔ اس کامطلب یہ ہے : ’ایمان اور اخلاص کی زندگی اختیار کرو۔ اپنی ذاتی زندگی میں خدا کی مرضی پر پوری طرح قائم ہوجاؤ۔‘﴿الرسالہ: فروری ۱۹۴۸ء، ص:۱۴﴾ والا مضمون پیش کیا۔ تاکہ ’دلائل‘ کے ساتھ بات سامنے آئے اور قارئین کو اس تعبیرو تاویل پر اطمینان قلب حاصل ہوجائے۔ اب ظاہر ہے کہ ہر قاری حوالوں کو ان کی اصل کتاب میں دیکھ دیکھ کر تو کوئی مضمون پڑھتا نہیں ہے۔ پھر ہمارے یہاں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے اور اس میں غورو فکر کرنے کابھی عام رواج نہیں ہے۔کہ ہمیں ڈرایاگیاہے کہ قرآن کو ترجمے سے پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے کی کوشش نہ کرو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے۔ اس لیے تمام قارئین نے مذکور بالا مضامین کو پڑھ کر بھی آمناوصدقنا ہی کہاہوگا۔

سب سے پہلے ہم لفظ اقیموپر غورکرناچاہیں گے۔ اقیموالصلوٰۃ کے بارے میں ایک مضمون آیندہ بہ عنوان اقدام سے پہلے میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ یہاں ہاتھ روکو اور نماز قائم کرو کے فقرے میں جو حکم دیاگیاہے، اس کو لفظ بدل کر کہاجائے تو وہ یہ ہوگا… ’خارجی اقدام سے رکو اور داخلی تیاری کرو‘ نماز کی اصل حقیقت اگرچہ اللہ کی یاد ہے ﴿اقم الصلوٰۃ لذکری﴾ مگر اس کانظام اس طرح مقرر کیاگیاہے۔ کہ اہل ایمان کی پوری زندگی کی اصلاح کا ایک مکمل کورس بن گیاہے۔‘‘ ﴿الرسالہ: جون ۱۹۶۸ء، ص:۹﴾ یہ مضمون تفسیر ابن کثیر سے حاصل کردہ ایک حدیث اور سورۂ نساء کی آیت ۷۷ کے حوالے سے لکھاگیاہے، جس میں بتایاگیاہے : ’اپنے ہاتھوں کو روکو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘ مگر حیرت کی بات ہے کہ اس میں نماز کے بارے میں تو تفصیل سے لکھاگیاہے کہ ایسی ایسی نماز قائم ہونی چاہیے۔’مسلمان اگر اس نماز پر اپنے آپ کو پوری طرح قائم کرلینے سے پہلے جہاد کی باتیں کریں تو وہ سراسر باطل ہوگا۔ اس کا خدا اور رسول کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں۔‘﴿ص:۱۰﴾ مگر اس میں زکوٰۃ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ کہ وہ کیسی کیسی زکوٰۃ ہونی چاہیے اور اس کاکوئی نظام ہے یا نہیں اور جب تک ایسی زکوٰۃ کی ادائی نہیں ہوجاتی یا اس کے نظام پر اپنے آپ کو پوری طرح قائم نہیں کرلیتے، جہاد کی باتیں سراسر باطل ہوںگی اور ان کا خدا اور سول کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ وہ لوگوں کو ایک ایسے دین کی طرف بلانے والے لوگوں کی باتیں ہیں جس کو انھوں نے خود گھڑا ہے۔

سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ جب اقیموالصلوٰۃ میں نظام ہے اور اس کا نظام مقرر کیاگیا ہے تو اقیموالدین میں نظام کیوں نہیں اور کیا اللہ اور اس کے رسول کے ذریعے کوئی نظام مقرر نہیں کیاگیاہے اور زندگی کاکوئی دینی اجتماعی نظام ایسا نہیں ہے جس کا نام اسلام ہے؟ آخر اس کی کیا دلیل ہے؟ پھر جب ہم قرآن میں ’مشترکہ پہلو‘ کو تلاش کرتے ہیں تو ہماری نظر اس آیت پر ٹک کر رہ جاتی ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت﴿نحل:۳۶﴾

’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے اس حکم کے ساتھ کہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب برتیں۔‘

اور دوسری مذکورہ بالا سورۂ شوریٰ کی آیت ۱۳ہے، جس میں اقامت دین کو انبیائی مشن کے مشترکہ پہلو کی حیثیت سے ظاہر کیاگیاہے، جس میں مثال کے طورپر چار سابق انبیا کا نام خصوصی طورپر لیاگیاہے، جن میں حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کانام بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے ۔ کہ اللہ کی، مکمل زندگی میں بندگی و غلامی اور اطاعت وعبادت کے ساتھ طاغوت کی مکمل طورپر بندگی وعبادت سے پرہیز و اجتناب و انکار سوائے اس کے ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ کے دین کو مکمل طورپر قائم وغالب اور نافذ کیاجائے۔ طاغوت، کفرو ظلم، ناحق و باطل اور شرک والحاد سب بے اثر واقتدار ہوکر رہ جائیں۔ ختم ہوجائیں یا ان کے ماننے والے ذمی بن کر رہیں۔

آگے بڑھنے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام والے معاملے پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے ان دو مقامات کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے، جن کے حوالوں سے ’کارمشترک‘ کے تعین کے لیے ’اصول ‘ کی ساخت کی گئی ہے:

أُوْلٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ      ﴿انعام: ۹۰﴾

’یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت بخشی اس لیے تم انھی کی راہ کی اقتدا کرو۔‘

وَاِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَہُمْ وَمِنکَ وَمِن نُّوحٍ وَاِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَأَخَذْنَا مِنْہُم مِّیْثَاقاً غَلِیْظاًo لِیَسْأَلَ الصَّادِقِیْنَ عَن صِدْقِہِمْ وَأَعَدَّ لِلْکَافِرِیْنَ عَذَاباً أَلِیْماً          ﴿احزاب:۷،۸﴾

’اے نبی ! یادرکھو اس عہدوپیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروںسے لیاہے، تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔ تاکہ سچے لوگوں سے تمہارا رب ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے اور کافروں کے لیے تو اس نے دردناک عذاب مہیا کرہی رکھاہے۔‘

قرآن میں ایسی آیات بھی ہیںجن میں فرمایاگیاہے کہ تمام انبیاء ایک ہی دین کے داعی، ایک راہ کے راہی اور ایک سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سب کا دین ایک ہی رہاہے اور حضرت محمدﷺ اسی دین کے ماننے والے اور دعوت دینے والے ہیں۔ اسی طرح میثاق کا تذکرہ بھی اس کے علاوہ سورہ بقرہ:۸۳، سورہ آل عمران:۱۸۷، سورۂ مائدہ ۷، سورہ اعراف: ۱۴۹ تا ۱۷۱ اور سورہ شوریٰ ۱۳ میں ہے۔ بہرحال مذکوربالا دونوں مقامات کی آیات کو سورہ نحل اور سورہ شوریٰ کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو یہی معلوم ہوتاہے کہ دین کو غالب و قائم اور نافذ کرنے کا کام ہی مشترکہ پہلو ہے کارِ نبوت کا۔ لہٰذا سورہ شوریٰ کی آیت ۱۳ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکل کر صحراے سینا میں چلے جانے کے واقعے میں الرسالہ کے مضمون کاالحاد اور کتمان حق بالکل واضح ہے۔ اب آتے ہیں ہم حضرت موسیٰؑ والے اعتراض کی طرف۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت دی تھی۔ اگر وہ قبول کرلیتاتو اسے یہ شرف بھی حاصل ہوجاتاکہ اس کے ذریعے ہی حضرت موسیٰ کی قیادت و رہنمائی میں دین کی اقامت کا کام انجام پاتا۔ مگر اس نے اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو مسلسل تختۂ مشق ستم بنائے رکھا۔ بالآخر ایک طویل جدوجہد اور کشمکش کے بعد اللہ نے حکم دیاکہ تمام مسلمانوں کو ساتھ لے کر مصر سے ہجرت کرجائو اور فلسطین پہنچو ،جہاں تم بہ آسانی غالب آجائوگے اور قامت دین کافریضہ انجام دے سکوگے۔ اب چوں کہ ان کا مصر سے یہ نکلنا یا یہ خروج خدائی منصوبے کے تحت تھا ، اس لیے وہ فرعون کے مرنے کے بعد بھی مصر واپس نہیں جاسکتے تھے اور انھیں فلسطین پہنچ کر ہی اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنی تھی۔ قرآن میں حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کاتذکرہ دیگر گزشتہ انبیاء واقوام سے زیادہ اور بہت تفصیل سے بیان ہواہے۔ انھیں ایک معمولی شخص بھی صرف ترجمے سے پڑھ کر ہی اس بات کو بہ آسانی سمجھ سکتاہے۔ لہٰذا فرعون کے مرنے اور مصر کا میدان صاف ہوجانے کے بعد بھی ان کا واپس مصر جاکر حکومت سازی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔

یہ تو ہوئی قرآن کی بات۔ ہم اگر خود بنی اسرائیل یا یہود کی مرتب کردہ کتاب دیکھیں تو اس میں بھی اقامت دین اور حکومت سازی کے واضح احکام وہدایات موجودہیں۔ملاحظہ فرمائیں:

۱-       ’اور تو فرعون سے کہناکہ خدا وندیوں فرماتاہے کہ اسرائیل میرا بیٹاپہلوٹھاہے اور میں تجھ سے کہہ چکاہوں کہ میرے بیٹے کو جانے دے ۔تاکہ وہ میری عبادت کرے۔‘ ﴿بائبل: رسالہ خروج، باب:۴، آیات۲۲،۲۳، باب:۵، آیت:۱، باب:۷، آیت:۱ اور۲۰، باب:۹، آیات:۱ اور ۱۳، باب:۱۰، آیات:۳ اور ۷﴾

۲-       ’اور جب اس ملک میں جو خداوند تم کو اپنے وعدے کے مطابق دے گا، داخل ہوجائو تو اس کی عبادت کو برابر جاری رکھنا۔‘ ﴿خروج، باب :۱۲، آیت:۲۵﴾

۳-       ’میں خداوندہوں اور تم کو ملک مصر سے اسی لیے نکال کر لایاہوں کہ میں تمہارا خدا ٹھہروں۔‘﴿راسلہ احبار، باب:۱۱، آیت:۴۵﴾

۴-       ’بنی اسرائیل سے کہہ کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ تم ملک مصر کے سے کام نہ کرنا اور ملک کنعام کے سے کام بھی جہاں میں تمہیں لیے جاتاہوںنہ کرنا اور نہ ان کی رسموں پر چلنا۔ تم میرے حکموں پر عمل کرنا اور میرے آئین کو مان کر ان پر چلنا۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ سو تم میرے آئین اور احکام کو ماننا۔‘ ﴿احبار:باب:۱۸، آیت:۱ تا ۵﴾

آگے پڑھتے جائیں تو اقامت دین سے متعلق مزید وضاحتیں ملیں گی، جن سے یہ بھی معلوم ہوگاکہ اقامت دین میں اقامت شریعت بھی شامل ہے۔ ﴿باب:۱۸،آیت:۰۳۳۰، باب:۹۱، آیات۹۱ اور ۳۷، باب: ۲۰، آیت ۲۲، باب:۲۲،آیات:۳۳،۴۲ تا ۴۴، باب: ۲۵، آیات:۱-۲-۳۸-۴۲، باب:۲۶، آیت:۱تا ۱۳-۴۵﴾

اقامت دین دیسی پردیسی سب پر ہوگا۔ ﴿گنتی: باب:۹، آیت:۴۱، باب:۵۱، آیات:۹۲-۳۰-۴۱، باب:۱۹، آیات:۱۰﴾

شریعت میں کمی بیشی بھی نہ کرنا، مکمل شریعت کا نفاذ ہوناچاہیے۔ ﴿استثنا:باب:۱۶، آیات:۱۹-۲۰، باب:۷۱، آیات:۱۹-۲۰﴾ اس میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ اس سے سلطنت لمبی مدت تک قائم رہے گی۔ ﴿باب:۱۹،آیت:۹﴾

اقامت دین اقامت شرع ہی سے تعبیر ہے۔ ﴿یشوع: باب:۲۲، آیت:۵، باب:۲۳، آیات ۶ تا ۸، باب: ۲۴، آیات:۱۴ اور ۲۳﴾

بت پرستی کے خاتمے کے بغیر اقامت دین کی تکمیل نہیں اس لیے یہ بہت ضروری ہے اور اقامت دین کے بغیر نہ صرف یہ کہ مکمل دین پر عمل ناممکن ہے اور ملّت اسلامیہ کا شیرازہ بکھرجاتاہے، بلکہ گم راہی، ذلت و نکبت کے عذاب کا سبب بن جاتی ہے۔

’’ان دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہ تھا۔ اس لیے ہر شخص جو کچھ اس کی نظر میں اچھامعلوم ہوتاتھا وہی کرتاتھا۔‘‘ ﴿قضاۃ: باب:۱۷، آیت:۶﴾

ہم اگر غور کریں تو آج ہم بھی اسی صورت حال کاشکار ہیں۔ ہم پر ایسا کوئی حکمراں نہیں ہے جس نے اللہ کے دین کے مطابق حکومت کی تشکیل کی ہو اور ہمیں دین اسلام کے مطابق مکمل دین پر عمل کی آزادی بخشی ہو۔ سب نے غیراسلامی اور باطل نظامہاے حیات میں سے کسی نظام کے مطابق ہی اپنے ملک اور عوام کو غلام بنارکھاہے۔ دین اسلام اور مسلمان ہر جگہ مغلوب یا ذمی بناکر رکھے گئے ہیں اور ذمّی کے حقوق بھی انھیں نہیں دیے جارہے ہیں۔ پرسنل معاملات سے زیادہ دین پر عمل کی ہمیں اجازت نہیں ہیں۔ جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہاں تواور بھی زیادہ خراب صورت حال ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اقامت دین کے فریضے ہی کو بھلادیاہے اور اللہ کے دین کی ہماری نظر میںکوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ ایمان واسلام صرف زبانی دعووں کی شکل میں رہ گیاہے۔ اسلام کے غلبے اور اجتماعی زندگی کے نظام ہونے کا تصور ہم کھوبیٹھے ہیں۔ جب کہ مدینے میں بھی غلبہ اسلام کی تکمیل کرنے کااعلان ایک نہیں تین بار ان الفاظ میں کیاگیاہے:

ہُوَ الَّذِیْٓ أَرْسَلَ رَسُولَہ’ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ’ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونo

﴿توبہ:۳۳، صف:۹، فتح:۲۸میں آخری فقرہ ولوکرہ المشکرون کی جگہ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْداً ہے۔﴾

بائبل کی کتاب قضاۃ کو آخر تک پڑھ جائیں۔ اس میں دین حق کے غلبہ و قیام کے بغیر امت مسلمہ کاکیا حال ہوتاہے، اسی کی تصویر کشی نظرآئے گی۔ اوپر قضاۃ کی جس آیت کو آخر میں پیش کیاگیاہے، ایسی ہی ایک آیت ہمیں قرآن میں بھی ملتی ہے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

’’لہٰذا تم تو سب سے پھرکر اپنا رخ دین پر قائم کرو، اللہ کی فطرت کے مطابق دین جس پر انسانوں کو بنایاگیاہے اور اللہ کی اس خلقت میں تبدیلی نہ کروکہ یہی ہمیشہ قائم رہنے والا دین ﴿دین القیّم، سناتن دھرم ہے مگرزیادہ تر لوگ جانتے ہی نہیں ہیں﴾ توللہ ہی کی طرف پلٹنے والے بن کر اسی سے ڈرتے ہوئے نماز قائم کرنے والے بنو اور شرک کرنے والوں میں نہ شامل ہوجائو جو کہ ایسے لوگ ہیں کہ   اپنے دین میں فرق و تفریق اور تفرق وتفرقہ پیداکرڈالا اور شیعاشیعا ہوگئے۔ اب ہرگروہ اپنے اپنے طریقوں اور باتوں ہی میں مست و مگن اور مسرور شاداں ہے۔ ﴿سورہ روم:۳۰- ۳۲﴾

اقامت دین یا غلبہ ٔ دین کے فرض سے ہٹانے اور ذہن سے اسے محو کردینے کے لیے کیسے کیسے مغالطے دیے جاتے ہیں، غور طلب ہیں:

’’جو شخص مالدار نہ ہو اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ضرور اپنے کو مالدار بنائے اور مال کے بارے میں جو اسلامی احکام ہیں ان کی تعمیل کرے۔‘‘ ﴿الرسالہ: اگست ۸۶، ص:۱۱﴾

’’سیاست وحکومت کی حیثیت بھی اسلام میں مقصد کی نہیں ہے، بلکہ ذمّے داری کی ہے۔ یعنی سیاست و حکومت وہ چیز نہیں کہ ہر آدمی اس کو اپنانشانہ بناکر اس کے لیے جدوجہد کرے۔‘‘﴿ایضاً﴾

’’یہی وجہ ہے کہ قرآن میں سیاست وحکومت کے لیے جو الفاظ آئے ہیں وہ اس سے مختلف ہیں جو مقصدی نوعیت کے احکام کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔‘‘﴿ایضاً﴾

چنانچہ اس قسم کی باتوں کے لیے اِنْ مَکَّنّٰہُمْ فِی الارض جیسے حوالے تو دیے گئے مگرسورہ شوریٰ کی آیت :۱۳ یا سورۂ توبہ، سورہ صف اور سورہ فتح وغیرہ کی مذکوربالاآیتوں کو کبھی واضح طورپر پیش نہیں کیاگیا۔ طوالت سے بچنے کے لیے ایسا بھی نہیں کیاگیاکہ صرف ترجمہ ہی پیش کردیاجاتا۔ یہی نہیں دوسرے معاملات میں بھی ایسا ہی مغالطہ انگیزرویہ اختیارکیاگیاہے۔ مثلاً جہاد سے متعلق دومضامین قابل غور ہیں: ایک ‘‘جھوٹا نظریہ’’﴿اگست ۱۹۸۶،ص:۱۸﴾ جس میں سورہ محمد کی آیت:۳۵ کے بارے میں ‘ایک مفسر’ کے تفسیری نوٹ کو ‘نظریہ’ قرار دے کر اسے ‘جھوٹا نظریہ’ قرار دیاگیاہے۔ دوسرا ‘اقدام سے پہلے’﴿جون ۱۹۸۶ء، ص:۹﴾ جس میں ایک حدیث اور قرآن کی سورہ نساء کی آیت ۷۷ کے ساتھ جو سلوک کیاہے، وہ تو قابل غور ہے مگر بعد میں جو کچھ لکھاہے، وہ ایسی بات ہے جو شاید قیامت تک ممکن نہیں ۔ اوپرمختصراً تذکرہ آچکاہے۔ مدنی دور نبوت میں جو جہاد و غزوات انجام پائے اور خود موسیٰ علیہ السلام کے ہجرت اور فلسطین کی طرف عازم جہاد و اقامت دین ہونے کے واقعات سے مذکور دونوں مضامین میں پیش کردہ نظریات کی تردید ہوجاتی ہے۔ ’ایک مفسر‘ کا نظریہ تو خود سورۂ محمد کی آیت:۳۵ ہی سے صحیح ثابت ہوتاہے۔ اسے جھوٹا کہنے کامطلب یہ ہواکہ آیت ہی کو جھٹلادیاجائے اور یہ کام الرسالہ کے ذریعے کیاجاچکاہے۔

بہرحال اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ انبیاء ہمیشہ ہی اقامت دین کے لیے دعوت و تحریک کاباقاعدہ نظم کرکے مان لینے والوں کو ایک تحریک کی لڑی میں پروتے چلے جاتے تھے اور ان سب کی اجتماعی کوششوں سے جسے جب اور جہاں کہیں موقع ملتاجاتاتھا وہ وہاں اَقیموالدین کے حکم کو عملی شکل دے دیتاتھا۔ مدینہ پہنچ کر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی کیا۔ حضرت موسیٰ کے ذریعے بنی اسرائیل کو بھی یہی حکم دیاگیاتھا اور فلسطین کو ان کا مقام ہجرت قرار دے کر انھیں وہاں اقامت دین کے لیے مصر سے نکال کر لایاجارہاتھا۔ قرآن میں بیان کردہ حضرت موسیٰؑ کے واقعات کوسرسری نظر سے ہی دیکھ لینے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ اب اگر کوئی فرد وحید یہ کہنے کی جسارت کر بیٹھے کہ دین اسلام کوئی اجتماعی نظام حیات نہیں اور حکومت و سیاست سے اس کاکوئی تعلق نہیں، کیوں کہ انسان اللہ کاخلیفہ نہیں ،بلکہ خلیفۃ الجن ہے اور اگر دین میں حکومت الٰہیہ کاقیام ضروری ہے تو فرعون کی غرقابی کے بعد جب مصر کا میدان صاف ہوچکاتھا تو حضرت موسیٰؑ نے واپس جاکر اپنی ’قیادت و فرماں روائی کی غیرمعمولی قابلیت‘ کو کام میں لاکر مطلوبہ سیاسی نظام کو کیوں نہیں قائم کرلیا تو یہ دراصل آیات الٰہی کی تاویل و تعبیر کی غلطی ہوگی۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau