آٹھویں عشرے کی پھٹکار، کیا زوال اسرائیل کا حتمی مقدر ہے؟

دنیا کے سامنے اسرائیل کی بہت سی تصویریں ہیں، لیکن اسرائیل کے اپنے پاس اپنی ایک ہی تصویر ہے۔ ایک ایسی قوم کی تصویر جو زوال اور خاتمے کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔ (یہودی فلسفی شمعون رافيدوفيتش 1869-1957)

اسرائیلی اخبار يديعوت احرونوت کی سات مئی 2022 کی اشاعت میں سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے غاصب ریاست کے متوقع زوال کے بارے میں اپنے اندیشوں کا کھل کر اظہار کیا۔ اپنے اندیشوں کا سبب اس نے یہودی تاریخ کی سنت کو قرار دیا۔ یہودی روایتوں کے مطابق وہ سنت یہ ہے کہ اس سے پہلے کی تمام ہی یہودی ریاستیں اسّی سال سے زیادہ نہیں رہ سکیں۔ دو زمانے اس سے مستثنی ہیں، ایک بادشاہ داود کا اور دوسرا حشمونی سلطنت کا، ان دونوں میں بھی آٹھویں عشرے میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی تھی۔ باراک نے یہ بھی بتایا کہ دیگر ملکوں اور ریاستوں پر بھی آٹھویں عشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کی مار پڑی۔ امریکہ میں اس کی عمر کی آٹھویں دہائی میں خانہ جنگی بھڑک اٹھی تھی، جب کہ اٹلی فاشسٹ ملک میں اور جرمنی نازی ملک میں تبدیل ہوگیا تھا اور کمیونسٹ انقلاب کی آٹھویں دہائی میں ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔

یہ اندیشے صرف ایہود باراک کے نہیں ہیں، بہت سے صیہونی سیاست داں، تاریخ نگار اور قلم کار حالیہ دہائیوں میں اس ڈسکورس کو پیش کررہے ہیں۔ خاص طور سے 1987 میں شروع ہونے والے پہلے انتقاضہ کے بعد سے، جو فسلطین میں آباد صیہونی سماج کے لیے حقیقی خطرہ بن گیا۔

آج جب کہ غاصب اسرائیل غزہ کے ساتھ چار جنگیں کرچکا ہے اور سات اکتوبر کو اس نے طوفان اقصی کی کارروائی کا گہرا زخم کھایا ہے، یہ اندیشے دوبارہ سر اٹھارہے ہیں، خاص طور سے جب کہ اس کارروائی کے فوراً بعد بڑی تعداد میں نو آبادوں نے بیرون ملک کی طرف راہ فرار اختیار کرنا شروع کردی۔ اب صیہونی ریاست کے اہل اقتدار ایک حقیقی خطرے کو محسوس کررہے ہیں۔ اس خطرے کے خدوخال کیا ہیں؟ ایسا کیا ہوا کہ یہودی تاریخ کی بدشگونی سے بات آگے بڑھ گئی اور غاصب ریاست کی بقا کو درپیش حقیقی چیلنج برے انجام کی خبر دینے لگے؟

فلسطینی ہمیں نگل لیں گے

2019 میں اسرائیلی اخبار هاریتز میں انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی مورخ بيني موريس نے صیہونی منصوبے کے خاتمے کے خدوخال کھینچ دیے۔ اس نے کہا کہ یہودی ریاست کی حیثیت سے اسرائیل کی بقا کا کوئی ایک راستہ بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ اس نے بتائی کہ عربوں کی آبادی یہودیوں کے مقابلے میں واضح طور سے بڑھ گئی ہے، اس کے ساتھ غاصب ریاست عربوں کے حقوق بھی سلب کیے ہوئے ہے۔ اس نے کہا کہ ایک مقبوضہ قوم کے حقوق سلب کرکے اس کے اوپر حکومت کرنا ایسی حالت نہیں ہے جو اکیسویں صدی کی دنیا میں باقی رہ سکے، اور پھر جیسے ہی اس قوم کو حقوق حاصل ہوں گے ریاست پھر یہودی نہیں رہ سکے گی۔

موریس کے مطابق چوں کہ فلسطینی ہر چیز کو بڑے زاویے اور لمبی مدت کے تناظر میں دیکھتے ہیں اس لیے ساٹھ لاکھ یہودیوں کے کروڑوں عربوں کے درمیان میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ تیس سے چالیس برسوں کے درمیان فتح ان کا مقدر ہوگی۔ اسرائیل کے سابق وزیر دفاع بيني گینٹز کو بھی یہ اندیشے لاحق ہوئے تھے اور اس نے خبردار کیا تھا کہ نقب اور جلیل کے علاقوں میں فلسطینیوں کی آبادی کا پلڑا بھاری ہونے کی وجہ سے اسرائیلی بالادستی ختم ہوسکتی ہے۔

اگر شماریات کو سامنے رکھیں تو وہ ان پیشین گوئیوں کی تائید کرتی ہیں۔ تل ابیب کے مرکزی آفس برائے شماریات میں یہ بات درج ہے کہ غاصب ریاست کی آبادی 2022 میں 9.6 ملین ہوگئی ہے۔ ان میں دو ملین عرب ہیں جو اسرائیل کے اندر آباد ہیں۔ جب کہ 513 ہزار وہ ہیں جن کی شہریت متعین نہیں ہوئی ہے۔ اس سال پیدا ہونے والے یہودی بچوں کی تعداد 133 ہزار ہے یعنی 1.87% کا اضافہ جب کہ عرب بچوں کی تعداد 42 ہزار ہے، یعنی 2.1% کا اضافہ۔

اس طرح خود غاصب اسرائیل میں آباد عربوں کو شرح پیدائش میں برتری حاصل ہے، طویل مدت میں اس کے اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔ لیکن غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی تعداد کو دیکھیں تو وہ 2023 میں 5.48 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ فلسطینی شماریات کے مرکزی ادارے کے مطابق تمام فلسطینیوں کی تعداد جن میں بیرونی ممالک میں سکونت پذیر رفیوجی بھی شامل ہیں 14.5 ہوگئی ہے، یعنی موریس جس ایک ریاست کی بات کررہا ہے اس میں عربوں کی تعداد دوتہائی زیادہ ہوگی۔ اس طرح وہ عرب اکثریت والی ریاست ہوگی۔

یہودی نقل مکانی کا ریکارڈ اس آبادیاتی بحران کی پیچیدگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اسرائیل کی وزارت برائے نقل مکانی اور یہودی ایجنسی کے ریکارڈ کے مطابق یوروپ اور امریکہ سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی میں 2023 کے پہلے نصف میں بڑی کمی نوٹ کی گئی۔ گو کہ یہودی ایجنسی اس پر نازاں ہے کہ مقبوضہ علاقے میں اس سال ستّر ہزار افراد نے قدم رکھا جو حالیہ عشرے کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ تعداد روس اور یوکرین سے آئی ہے جن کے درمیان جنگ جاری ہے۔

یہ نمبرات اسرائیلی حکومت کے لیے زیادہ خوش آئند نہیں ہیں، کیوں کہ یوکرین میں دو لاکھ یہودی اور روس میں پانچ لاکھ یہودی ابھی بھی فلسطین جاکر رہنے کے بجائے اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مزید برآں روس سے آنے والوں میں سے ایک تہائی تعداد اسرائیلی پاسپورٹ ملتے ہی واپس روس لوٹ گئی۔ اس کے علاوہ گذشتہ سال کے مقابلے میں امریکہ اور باقی یوروپ سے آنے والوں کی تعداد بیس فی صد گھٹ گئی۔ لیکن غاصب ریاست کے لیے اس سے بھی بڑی مصیبت یہودیوں کی واپسی کی صورت حال ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اسرائیل سے تعلق کس قدر کم زور ہے۔

چھ سال قبل میڈگم نامی ادارے نے اسرائیل کے پبلک اوپینین کا ایک سروے کرایا تھا، اس میں پایا گیا کہ اسرائیل کے یہودیوں میں صرف چوالیس فی صد اسرائیلی شناخت سے اپنا تعارف کراتے ہیں، جب کہ دیگر ستائیس فی صد نے اسرائیل چھوڑنے کی خواہش ظاہر کی، ان میں تیئیس سے انتیس سال کے نوجوان زیادہ ہیں۔ حالیہ برس میں طوفان اقصی کی کارروائی سے کچھ ماہ پہلے یعنی جولائی میں انسٹی ٹیوٹ برائے اقتصادی ریسرچ (ERI) نے ایک اسٹڈی کرائی جو بتاتی ہے کہ اٹھارہ سے چوالیس سال کے بیچ کے چھپن فی صد نوجوان اسرائیل چھوڑنے کے سلسلے میں واقعی سوچ رہے ہیں۔ گذشتہ سال ے مقابلے میں یہ شرح بارہ فی صد بڑھی ہے۔ جب کہ يديعوت احرونوت نامی اسرائیلی اخبار نے ایک اسرائیلی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق جو لوگ اسرائیل چھوڑ کر گئے ہیں ان میں سے سینتالیس فی صد واپس آنا نہیں چاہتے۔

اسی اثنا میں ادھر کچھ مہینوں سے ایک نئی تحریک پروان چڑھی ہے جس کا نام ہے ’مل کر ملک چھوڑتے ہیں‘ اس کا مقصد ہے کہ یہودیوں کو ملک سے باہر نکلنے پر آمادہ کیا جائے، پہلے ہی مرحلے میں یہ تحریک قریب دس ہزار یہودی کو امریکہ بھیجنے میں کام یاب ہوگئی۔ اس کا عجیب پہلو یہ ہے کہ اس تحریک کا ایک لیڈر اسرائیلی سرمایہ دار مردخاي كاهانا ہے جو اس سے پہلے پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین کی طرف لانے میں پیش پیش تھا۔ اس الٹی نقل مکانی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے اسرائیلی پارٹی Peace Now Bloc کا ترجمان آدم کلیر کہتا ہے کہ پہلے نقل مکانی کی وجہ بے روزگاری کا بڑھنا اور معاشی حالات کی تنگی ہوا کرتی تھی۔ تاہم نقل مکانی کے موجودہ اسباب کا تعلق اسرائیل کی شناخت کو لے کر خود یہودیوں کے بیچ داخلی کشمکش سے ہے، اس پر مزید یہ کہ فلسطینیوں کے ساتھ معرکہ آرائی میں شدت آجانے اور مستقبل میں کسی سمجھوتے کے دروازے بند نظر آنے کے باعث خوف اور عدم تحفظ کا احساس مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔

ٹکڑے ٹکڑے ہوتا وجود

غاصب ریاست کے قیام کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں، تاہم اسرائیلی سماج ایسے افتراق اور ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے جو کسی بھی مستحکم سماج یا ملک کو کم زوری و اضطراب سے دوچار کردینے کے لیے کافی ہے۔ یہ صورت حال واضح طور پر اسرائیلی سوسائٹی کے عناصر کے درمیان شدید قسم کے گروہی تضاد کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خواہ وہ سیاسی سطح پر ہو یا مذہبی اور نسلی حوالے سے ہو۔

سیاسی سطح پر غاصب ریاست میں گذشتہ چار برسوں کے دوران پانچ بار پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں۔ اس تقسیم کے نتیجے میں جو کسی ایک پارٹی کو اکثریت تک پہنچنے نہیں دیتی۔ اسی لیے غاصب ریاست کے اندر کی اعلی سطحی ذمے داروں کی طرف سے بار بار خبردار کیا جارہا ہے۔ عبرانی ٹیلی ویژن چینل 12 نے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کا خط نشر کیا جس میں اس نے مستعفی ہونے سے پہلے کہا: ’’یہ ملک ایک حقیقی امتحان اور تاریخ کے اہم دوراہے سے گزر رہا ہے۔ کار حکومت جاری رہے ورنہ پھر انارکی کا انجام سامنے ہے۔ کیوں کہ ملک شکست و ریخت کے دہانے پر ہے، اس سے پہلے یہ صورت حال کبھی نہیں تھی، اس سے پہلے بھی اسرائیل کا شیرازہ دوبارہ بکھر چکا ہے، اندرونی کشمکشوں کی وجہ سے، اور اب ہم تیسرے دور سے گزر رہے ہیں اور جیسے جیسے وہ مرحلہ آٹھویں دہائی سے قریب ہورہا ہے، اسرائیل اب تک کے اپنے زوال و انحطاط کے ایک سنگین ترین لمحے سے قریب ہو رہا ہے۔

ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کا سب سے بڑے منصب پر بیٹھا ہوا شخص آٹھویں دہائی کے اندیشے کو دہرارہا ہے۔ وہ اس کا سبب بھی بتاتا ہے کہ ’’ایک طرف اس کے عناصر میں ہم آہنگی نہیں ہے دوسری طرف دایاں بازوں کی اپوزیشن حکومت گرانے کے درپے ہے۔‘‘ اس کے بعد کچھ دنوں بعد ہی حکومت واقعی گر گئی اور نتنیاہو کی قیادت میں دایاں بازو کے عناصر حکومت تک پہنچ گئے۔ پھر نتنیاہو نے خود اس احساس کو صاف لفظوں میں بیان کردیا، اس نے کہا: ’’میں پوری کوشش کروں گا کہ اسرائیل سو سال کی سال گرہ تک پہنچ جائے، کیوں کہ ہمارے وجود کا مسئلہ از خود سمجھ میں آنا والا یا بدیہی نوعیت کا نہیں ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہودی قوم کی ریاست اسّی سال سے زیادہ آباد نہیں رہی ہے۔‘‘

سیاسی ٹوٹ پھوٹ سے خبردار کرنے والوں میں موساد کا سابق صدر تامر پارڈو بھی شامل ہے، اس نے نتانیا کالج میں لیکچر دیتے ہوئے اس پر زور دیا کہ اسرائیل کے اوپر چکر کاٹنے والا سب سے بڑا خطرہ خود اسرائیلیوں کی شکل میں ہے، کیوں کہ خود کو تباہ کرنے کے طریقوں میں گذشتہ برسوں میں اچھی طرح مہارت حاصل کرلی گئی ہے۔ اس نے زور دے کر کہا کہ اس تباہ کن پیش رفت کو روکا جائے قبل اس کے کہ واپسی کوئی راستہ نہ بچے۔ اسرائیل اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا ہے۔‘‘ اسی حوالے سے معاشیات میں نوبل انعام یافتہ پروفیسر ڈینئیل کہنیمن اپنے ملک کے سلسلے میں اکتوبر 1973 کی جنگ سے زیادہ بے چینی کا اظہار کیا، اس کی وجہ عدلیہ کا تختہ پلٹنے کی کارروائی ہے جس میں نتنیاہو پیش پیش ہے۔ جب کہ مسلسل خبردار کیا جارہا ہے کہ عدلیہ کی خود مختاری کو ختم کرکے اسے انتظامیہ کے مفاد کا غلام بنانے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ کانمان نے مزید کہا:  ’’یہ ملک جس میں میں پلا بڑھا ہوں، یہ وہ ملک نہیں ہے جس میں میرے پوتے رہنا پسند کریں گے۔ جب انتظامیہ عدلیہ پر چڑھائی کردے گی، تو پھر کوئی ایک پارٹی ہمیشہ کے لیے اقتدار پر قابض ہوجائے گی۔ یہ بلاشبہ جمہوریت کا خاتمہ ہوگا۔‘‘

غاصب ریاست کے اندر ایک طرف تو یہ سیاسی تناؤ ہے دوسری طرف وہ تاریخی ٹوٹ بھوٹ بھی زیادہ کھل کر سامنے آرہی ہے، جو کبھی رکی نہیں تھی۔ ایک مذہبی تناؤ ہے مذہبیت پسندوں اور سیکولر طبقوں میں، جب کہ دوسرا نسلی تناؤ ہے اشکینازی (یوروپ کے یہودی) سفاردی (مشرق کے یہودی) اور فلاش مورا (ایتھوپیا کے یہودی) وغیرہ مختلف گروہوں کے درمیان۔ بنیاد پرست یہودیت اور صیہونیت کے درمیان کشمکش تو صیہونی تحریک کی ابتدا سے ہی چھڑ گئی تھی۔ اسی وقت مذہبیت پسند یہودیوں نے یہ فیصلہ سنادیا تھا کہ صیہونی تحریک یہودی مذہب کی رو سے ایک کافر تحریک ہے جو یہودیوں کے لیے ایک سلطنت قائم کرکے توریت کی تعلیمات کی خلاف ورزی کررہی ہے، جب کہ ان مذہبیت پسند یہودیوں کے مطابق یہودیت میں یہ بات طے شدہ ہے کہ یہودیوں کو مختلف علاقوں میں منتشر ہوکر رہنا ہے، تا وقت یہ کہ آخری زمانے میں مسیح کی آمد ہو اور وہ ان کے لیے ریاست قائم کریں۔

مذہبیت پسند یہودی (انھیں حریدی بھی کہا جاتا ہے) جیسے ہی فلسطین کی سرزمین پر آکر آباد ہوئے، اسرائیلی سماج میں کشمکش برپا ہوئی اور سماج میں خلیج پیدا کردی۔ دو جماعتوں ایک ساطمر (Satmar) اور دوسری ناطوری کارتا (Neturei Karta) نے صیہونیت سے دشمنی کا محاذ کھول دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یوئیل تتلباوم نے جو ساطمر تحریک کا روحانی رہ نما ہے یہاں تک کہہ دیا کہ ہولوکاسٹ یہودی قوم پر اللہ کا عذاب تھا اس پاداش میں کہ اس نے صیہونی تحریک کے زیر اثر اللہ کی ہدایات سے روگردانی کی تھی۔ اسی رخ پر ناطوری کارتا نامی جماعت بھی صیہونیت سے سخت دشمنی کا اظہار کرتی ہے، یہاں تک کہ اس کے پیروکار ملک کے نظام الاوقات اور میڈیا کا پوری طرح بائیکاٹ کرتے ہیں (ماسوا ریڈیو پر دینی پروگرام کے) ان کا خاص نظام الاوقات ہے جس میں دن کا آغاز نصف النہار سے ہوتا ہے، ان کا اپنا اخبار ہے جو صیہونیت کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آتا، لازمی عسکری تربیت کو وہ مسترد کرتے ہیں، اس حوالے سے یہودی ربی ہیرتش کہتا ہے: ’’وہ ہمیں فوجی تربیت دینے کی کیوں فکر کرتے ہیں، عربوں کو فوجی تربیت کیوں نہیں دیتے؟ ہم تو عربوں سے زیادہ ان صیہونیوں سے نفرت کرتے ہیں، اگر وہ ہمیں ہتھیار دیں گے تو ہم انھیں پر چلائیں گے۔‘‘

جہاں تک نسلی تقسیم کی بات ہے، تو اس پر بہت سی رپورٹیں آچکی ہیں۔ سفاردی یہودی اور فلاش مورا یہودی اشکینازی یہودیوں کی طرف سے کھلی ہوئی نسل پرستی کا سامنا کررہے ہیں۔ کام کے مواقع، ملازمتوں اور تنخواہوں میں نسلی تفریق کھلے طور پر نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ یکساں اکیڈمک اور پروفیشنل سطح کے افراد کے درمیان بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ اشکینازی نسل پرستانہ جارحیت سے سفاردیوں کی مشرقی ثقافت اور فنی ذوق بھی محفوظ نہیں ہے۔ ریاست کی تشکیل کے بعد سے ہی اشکینازی اس سب کو کمتر کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ جہاں تک فلاش مورا یہودیوں کی بات ہے تو وہ اپنے رنگ کی وجہ سے اور زیادہ نسلی تفریق کا نشانہ بنتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ کبھی کبھی اسپتالوں میں ان کا دیا ہوا خون مسترد کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کی زیادتیاں الگ ہیں۔ 2019 میں ہونے والا حادثہ یاد دلانا کافی ہوگا جب ایک نوجوان سولومون تاکا کو ایک اسرائیلی سپاہی کی گولیوں نے ہلاک کردیا۔ اس کے بعد اس کے جنازے کو لے کر مظاہرے اور احتجاج شروع ہوئے، عربوں سے مدد کی مانگ کی گئی اور تل ابیب میں بڑے فسادات برپا ہوئے۔

دشمن کے گھر میں کب تک؟

ان داخلی بدامنیوں کے علاوہ فلسطینیوں کی مزاحمت جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، اسرائیلوں کو مسلسل خوف زدہ رکھتی ہے اس دشمن سے جس کے گھر میں وہ سات دہائیوں سے زیادہ مدت سے ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اسرائیلی سیاست داں اور کنیست کے سابق صدر ابراہام برگ نے 2003 میں گارجین اخبار میں مضمون لکھا تھا، اس کا عنوان تھا صیہونیت کا خاتمہ۔ اس نے اس میں لکھا تھا کہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ رویے کے خطرناک انجام خود کش حملوں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں، جو بہت تشویش ناک بات ہے۔ ’’فلسطینی ہمارے ریسٹورنٹ میں آکر اپنا خون بہادیتے ہیں تاکہ ہماری بھوک خراب کردیں، کیوں کہ ان گھر پر ان کے بچے بھوک اور ذلت کی زندگی جی رہے ہیں۔‘‘

اسرائیلی قانون داں اویگڈور فیلڈمین نے ناصرہ شہر میں مرکز برائے مساوات میں ہونے والے ایک سیمینار میں اس خیال پر زور دیا، اس نے کہا: ’’اسرائیل ایک بند مادہ پرست سوسائٹی ہے، یہ کم زور ہورہی ہے اور جہالت اس میں بتدریج بڑھتی جارہی ہے، ایسے سماج کا خاتمہ یقینی ہے۔‘‘ اس کے مطابق 1967 کے بعد سے مسلسل عسکری ناکامیوں کی یہی وجہ ہے۔

ایک طرف فلسطینیوں کے انقلاب کا اندیشہ دوسری طرف اسرائیلی سوسائٹی میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ، اس پر مزید یہ کہ ہر وحشیانہ کارروائی کے بعد اسرائیل کو عالمی رائے عامہ کا مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کمیونیکیشن اور میڈیا کے وسائل کی ترقی اور فروغ کے بعد اس میں بہت اضافہ ہوا۔ لندن، میڈرڈ، روٹرڈیم اور سان فرانسیسکو وغیرہ میں اسرائیلی بمباری اور غزہ کے ساتھ اظہار ہم دردی والے مظاہرے، صیہونی دماغ کے لیے بالکل نئے مناظر تھے، جو اس نے اتنے واضح طور پر نہ کبھی دیکھے تھے اور نہ سوچا تھا۔ اور یہ اچانک نہیں ہوگئے تھے، برطانیہ کے یوگوف (YouGov) سینٹر کے سروے میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ غاصب اسرائیل کی مقبولیت پورے یوروپ میں کم ہورہی ہے، اسرائیل کے سپورٹ میں چودہ پوائنٹ تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ برطانیا اور فرانس کو اسرائیل کی طرف کم جھکاؤ والے ملکوں میں سرفہرست پایا گیا۔

یہ دیکھ کر ہمیں یاد آتا ہے کہ عبدالوہاب مسیری نے اپنی انسائیکلوپیڈیائی تصنیف ’’یہود، یہودیت اور صیہونیت‘‘ میں استعمالی (functional)گروہ کا ماڈل ذکر کیا ہے اور اسی حوالے سے صیہونی ریاست کی تشکیل کی توجیہ کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل محض ایک فنکشنل وجود ہے، جسے مغرب نے اس لیے قائم کیا ہے کہ اس کے ہاتھ خون میں رنگین نہ ہوں اور استعماری مفادات حاصل ہوتے رہیں۔ جیسے ہی یہ مقصد حاصل ہوجائے گا اور عالمی عوامی دباؤ بڑھے گا تو یہ وجود اپنے سرپرستوں کے یہاں اپنی اہمیت کھوچکا ہوگا، پھر وہ اس سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ ممکن ہے یہ واقعی ہوجائے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابھی نہیں ہو۔ لیکن لگتا ہے کہ آٹھویں دہائی کی لعنت کے سبب اسرائیلی اس منظرنامے کی طرف لاشعوری طور پر تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ وہ جب روزانہ سینکڑوں فلسطینیوں کا وحشیانہ طریقے سے قتل کرتے ہیں، کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا نے ایسے وحشیانہ قتل عام نہیں دیکھے تھے، اور یہ سب وہ ایسی اقوام کے سامنے کرتے ہیں جو فلسطین کے مسئلے سے بخوبی واقف ہیں، وہ اس بربریت کو برداشت نہ کرکے اپنے حکم رانوں سے چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ اسرائیل کے جرائم پر روک لگاؤَ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی غاصب ریاست کے خاتمے کا وقت یقینی طور پر نہیں بتاسکتا، لیکن لگتا ہے کہ بہت سے لوگ اس خاتمے کے حتمی ہونے کا یقین رکھتے ہیں، خاص طور سے جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی ساری شرطیں پوری ہورہی ہیں۔ مسیری نے ایک بار کہا تھا: استعماری علاقے دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو نسل کشی کرکے اصلی باشندوں کی راکھ پر قائم ہوتے ہیں، جیسا کہ امریکہ اور آسٹریلیا میں ہوا، دوسرے وہ ہوتے ہیں جس میں اصل قوم کی نسل کشی کے بغیر کوئی قوم جاکر اس کے گھر میں قابض ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس سرزمین کی اصل قوم کی طرف سے مسلسل سخت مزاحمت ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ استعماری قوم کے پرخچے اڑ جاتے ہیں، جیسا کہ جنوبی افریقہ کی مغربی کالونیوں کا حشر ہوا۔

ہم ایک ایسی ملک کے سامنے ہیں جسے اندر اور باہر سے گھن چاٹ رہے ہیں، مسلسل پریشانیوں سے بچنے کے لیے اس کے عوام نکل بھاگنے کے درپے ہیں، اس کے حکم راں ملک ڈوب جانے کے خوف کا شکار ہیں، اس کے افراد فوج میں بھرتی سے بھاگ رہے ہیں، مختلف سطحوں پر وہ ملک ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے۔ یہ ایک نسل پرستانہ سماج ہے، اس کے چاروں طرف زمین کے اصلی باشندے اپنی آبادی بڑھاکر اسے آبادی کے بحران سے خوف زدہ کیے ہوئے ہیں، اس سب کے ساتھ وہ دنیا کے سامنے یہ تصویر پیش کرنے میں لگا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر وجود ہے اور اسے غیر معمولی عسکری برتری حاصل ہے۔ وہ نہتے شہرہوں پر بم باری کرکے اور بجلی پانی اور زندگی کے اسباب کاٹ کر اپنے عضلات کی نمائش کررہا ہے، جب کہ اس کے سامنے چند ہزار مردان حر ہیں جو اس پر مسلسل ایسی ضربیں لگارہے ہیں کہ اس کی کم مائیگی دنیا کے سامنے اور خود اس کے سامنے بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔

مضمون میں محولہ مراجع کے لیے اصل مضمون دیکھیں:

https://www.aljazeera.net/midan/intellect/2023/11/15/

مشمولہ: شمارہ جنوری 2024

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223