انسانی زندگی کو منضبط کرنے والے دیگر تمام بنیادی اصول وقوانین کی طرح اسلام میں انسان کے بنیادی حقوق بھی اسی اللہ نے مقرر فرمادیے ہیں ۔ جواس کائنات کا خالق اور واحد مقتدر اعلی ہے ۔ یہ حقوق چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمائے ہیں ۔ کسی بادشاد یاقانون ساز ادارہ نے نہیں ۔ اس لیے یہ مستقل اور دائمی وابدی ہے ۔ ان میں کسی قسم کے تغّیر و تبدّل یا ترمیم وتنسیخ کی گنجائش نہیں ہر مسلمان کے لیے ان کو تسلیم کرنا ان کا احترام کرنا اورانہیں نافذ کرنا لازم ہے جو لوگ انہیں نافذ کرنے میں ناکام ہیں یا اللہ کے عطا کردہ حقوق دینے سے انکار کریں یا ان میں تغّیر وتبدّل کریں قرآن انہیں کافر، ظالم اور فاسق قرار دیتاہے ۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۴۴ ( المائدہ۔۴۴)
’’جولوگ اللہ کے نافذ کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ‘‘
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۴۵( المائدہ۔۴۵)
’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۴۷( المائدہ۔۴۷)
’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں‘‘۔
قرآن مجید میں مزید ارشاد ہوتاہے ۔
’’وہ (حضرت محمد ؐ) انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں ، بدی سے روکتے ہیں ۔ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرنا ہے ، اوران پر سے وہ بوجھ اتا رنا ہے ، جوان پر لائے ہوئے تھے، اوروہ بندشیں کھولنا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ۔
قرآن مجید کے یہ الفاظ صرف مومنین کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کے مخاطب دنیا کے تمام لوگ ہیں اسلام نے جوحقوق عطا کیے ہیں وہ پوری بنی نوع انسان کے لیے ہیں۔
(۱) جان کا حق:۔ انسان کی جان اور اس کا خون قابل احترام ہے۔
انسان پر لازم ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی دوسرے انسان کی جان لینے کے جرم کا ارتکاب نہ کرے انسانی جان کے احترام کی اہمیت قرآن پاک کی آیت سے واضح ہوجاتی ہے ۔مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا(سورہ المائدہ ۳۲)
’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سواکسی اور وجہ سے قتل کیا۔ اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کردیا‘‘۔
ان آیات کو قرآن مجید میں ایک مقام پر دہرایا گیا ہے۔
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ(الانعام۔ ۱۵۱)
’’اورکسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ‘‘
بنی کریمؐ کا ارشاد ہے :۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک اورانسانوںکا قتل عام کرنا عظیم ترین گناہ ہیں ‘‘۔
(۲)تحفظ جان:۔ ہر انسان کے لیے تحفظ ہونا چاہیے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے ۔
وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا(المائدہ۔ ۳۲)
’’اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ کسی کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اس کے مرض یا زخم کا علاج کریں۔ اگر وہ بھوک سے مررہاہے تو آپ کا فرض ہے اسے کھانا فراہم کرکے موت کے منھ سے بچائیں۔
نبی کریمؐ فرماتے ہیں۔
’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔ اہل ِ زمین پر رحم کرو وہ جوآسمانوں میں ہے تمہاری مدد کرے گا‘‘۔
قرآن کریم میں آگے چل کر واضح طورپر فرمایاگیاہے ۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹(الذّٰریٰت ۱۹)
’’اور ان کے مالوں میں حق ہے مسائل اور محروم کے لیے ‘‘
اس آیت کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص جو مدد کے لیے پکارے یا جو محروم ہو جو مسلمانوں کی جائیداد اور دولت میں حق رکھتاہے ۔ اور اگر کوئی ضرورت مندمدد کے لیے پکارے ، یا آپ کو معلوم ہو جائے کہ وہ ضرورت مند ہے تواس کی مدد کرنا آپ کا فرض ہے ۔
ملکیت جائیداد کا حق
جان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اسلام نے اسی وضاحت اور تعین کے ساتھ ملکیت جائیداد کے تحفظ کا حق بھی دیا ہے۔ اسلام لوگوں کی ملکیت یا جائیداد کو غصب کرنے کی اجازت نہیں دیتا، الاّ یہ کہ اسے قانون خدا وندی کے مطابق جائز ذریعہ سے حاصل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ غیر مبہم الفاظ میں اعلان فرماتا ہے ۔
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ(بقرہ ۔۱۸۸)
’’اور تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے ناکھاؤ‘‘
یہاں بنی کریمؐ کے خطبہ حجتہ الوداع کا حوالہ دیا جاسکتاہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’تمہاری جانیں، تمہارے اموال اور تمہاری عزت آج (حج ) کے دن قابل احترام ہیں‘‘
خواتین کی عصمت کا تحفظ
اسلام نے انسانی حقوق کا جو منشور عطا کیاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۳۲ (بنی اسرائیل۔ ۳۲)
’’زناکے قریب نہ بھٹکو ، وہ بہت برافعل ہے ۔ اور بڑا ہی بڑا راستہ ہے ‘‘۔
اس میں خواتین کی عزت وعصمت کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے ۔ کوئی عورت خواہ ہماری ہم مذہب ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتی ہو ، یا سرے سے لامذہب ہو، اس کی عصمت کی حفاظت واحترام ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ کوئی مسلمان کسی بھی حالت میں اسے پامال نہیں کرسکتا، بد کاری پر مبنی تعلقات کی ممانعت ہے ۔ خواہ کسی عورت کی حیثیت کوئی بھی ہو اور خواہ یہ تعلق اس کی مرضی سے ہو یا بالجبر ، اس جرم کی سزا تجویز کی گئی ہے ۔
انصاف
انصاف کا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ عام انسانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک کریں ۔اسلام اپنے پیروکاروں سے جس عدل کا مطالبہ کرتاہے ۔ اس کا دائرہ شہریوں کے اپنے وطن یا اپنے قبیلہ کے لوگوں، قوم یا نسل یا بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ تک محدود نہیں بلکہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کا احاطہ کرتاہے۔
مسلمانوں کا یہ لازمی فریضہ ہے کہ وہ ہر انسان کے ساتھ ہر جگہ عمدہ اور منصفانہ برتاؤ روارکھیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔
وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شناٰنُ قَوْمٍ عَلیٰ اَلاَّ تعدِلُوْا ، اِعْدِلو ھُوَ اَقْرَبُ لِلتّقَوٰی وَاتَّقُواللہ۔
’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ‘‘
عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے ‘‘
بلالحاظ اور کسی قسم کے اثرورسوخ سے متاثر ہوئے بغیر عدل وانصاف کے قیام پر قرآن مجید میں ایک اور جگہ زور دیا گیا ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۰ۚوَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۱۳۵ (النساء۔۱۳۵)
’’اے لوگوں !جوا یمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اورخدا واسطے کے گواہ بنو! اگرچہ تمہارے انصاف اورتمہاری گواہی کے زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور تمہارے رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کاخیر خواہ ہے ۔ لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میںعدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچا یاتو جان رکھو کہ جو تم کرتے ہو اللہ کواس کی خبر ہے ۔‘‘
مسلک کی آزادی
انسان کے اہم ترین بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جسے اسلام نے اپنی ریاست کے تمام شہریوں کے لیے منظور کیاہے ۔
احکام قرآنی یہ ہے ۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ(بقرہ ۔۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبر دستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی۔‘‘
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۔
’’اے محمدؐ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ۔ اب جس کاجی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے ‘‘ (کہف ۲۹)
جہاں تک اظہار رائے کی آزادی اور آزادی اجتماع کے حق کاتعلق ہے اسلام انہیں نہ صرف تسلیم کرتا اورعطا کرتا ہے ۔ بلکہ ان حقوق کو مسلمانوں پر فرض اور لازم کرتاہے ۔ وہ واضح طورپر حکم دیتاہے کہ تمام مسلمان انفرادی طورپر اس بات کے پابند ہیں کہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔
قرآن کریں میں ارشاد ہے ۔
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۰۴
’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘
اس سلسلہ میں حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے ’’ جابر سلطان کے آگے کلمۂ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے‘‘۔ (ابو داؤد۔ ترمذی)
یہ انسانی حقوق جواسلام میں ہر انسان کی پیدائش کے ساتھ اسے بنیادی طورپر حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس ناقابل تغّیر قانون کا حصہ ہیں جو اللہ نے بنایا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2015