اسلام اور مذہبی رواداری

فلاح الدین فلاحی

آج ملک عزیز سمیت پوری دنیا میںعدم رواداری اور رواداری پر بحث ہو رہی ہے ۔بطور خاص اسلام کی رواداری پر بھی سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے، بلکہ دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ اسلام میں رواداری کا کیا مقام ہے ۔ایسے حالات میں اسلام اور مذہبی رواداری کو چیلنج کیا جا رہا ہے اس لئے دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام مذہبی رواداری، اعتدال اور عدم تشدد کاحامل دنیاکاپہلا مذہب ہے۔ جس نے ہمیشہ نہ صرف یہود ونصاریٰ کے ساتھ بلکہ مجوس ومشرکین کے ساتھ بھی رواداری کا سلوک برتاہے۔ بدقسمتی سے اہل مغرب نے ہمیشہ اسلام اور ہادی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بے جا الزامات کے ذریعہ بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔حال ہی میںملک عزیز ہندوستان میں بھی یو پی کے ایک شخص کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کا واقعہ پیش آیا اور متعدد مقامات پر اس کے خلاف مظاہرہ و احتجاج بھی کیا گیا ۔جس کو لیکر ملکی میڈیا میں کافی بحث و تکرار کا ماحول بھی دیکھا گیا ۔جبکہ رواداری کا سب زیادہ اسلام نے خیال رکھا ہے اسلام وہ مذہب ہے جس نے جنگ کے اصول مقرر کئے۔ ورنہ اسلام سے قبل مفتوحہ اقوام پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے تھے اس کی کچھ جھلکیاں ہم آج عراق،افغانستان ،شام میں دیکھ سکتے ہیں ۔ماضی میں تو بہت سارے مثال مل جائیں گے لیکن ہم آج کے ماحول میں اس کا اندازہ با آسانی لگا سکتے ہیں ۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے وغیرہ اسی کی مثال ہیں جہاں شہید ہونے والے عام انسان ،عورتیں اور بچے ہیں ۔کس طرح وہاں ڈرون مسلم آبادی پر گرائے جاتے ہیںجس کی وجہ سے ہر طر ف چتھڑے بکھرے ملتے ہیں ،چیخ وپکار ہے جسے کوئی سننے والا نہیں ،روس اور فرانس کی ملک شام میںحالیہ بم باری سے دنیا نے مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح آئی ایس کے نام پر وہاں نسل کشی کی جاری ہے ۔بد قسمتی سے آج کچھ مسلم حکمراں بھی اس کے حامی ہو گئے ہیں اور وہ بھی ٹھنڈے پیٹھ ان کے ظلم کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ جاہلیت کے تمام وحشیانہ جنگی طریقوں کو منسوخ کردیا اور ایسے قوانین نافذ فرمائے جو احترام آدمیت کا درس دیتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق جنگ کے دوران عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے قتل، عبادت گاہوں اور فصلوں کی تباہی وبربادی اور دشمنوں کے ہاتھ، ناک کان وغیرہ کاٹنے پر پابندی لگادی گئی۔

دشمنانِ اسلام، اسلام کے بارے میں یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ حالانکہ اسلام بلنداخلاق وکردار اور دل کو موہ لینے والے انسانی اقدار کے ذریعہ پھیلا ہے۔ تاریخ میں کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ اسلام کو کسی پر زبردستی ٹھوپاگیاہو۔ اس کے بالمقابل عیسائیت کے بزورِ بازو پھیلانے کے شواہد موجود ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب’’ نصرانیت -قرآن کی روشنی میں‘‘میں تفصیل سے لکھاہے کہ عیسائی بادشاہ تھیوڈوسیوس نے غیرمسیحی عبادت کو موجبِ سزائے موت قرار دیاتھا۔ ان کی جائداد ضبط کرنے اور عبادت کے سامانوں کو توڑنے کا حکم دیاتھا۔ مصر کے آرچ بشپ تھیوفیلوس نے خاندانِ بطالسہ کا عظیم الشان کتب خانہ نذرِ آتش کردیاتھا۔ اس کے بعد مولانا مودودی لکھتے ہیں:

’’ان مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بت پرست رعایا نے تلوار کے خوف سے اس مذہب کو قبول کرلیا جس کو وہ دل سے پسند نہیں کرتی تھی۔ بددل اور بے اعتقاد پیروؤں سے مسیحی کلیسا بھرگئے۔ ۸۳ برس کے اندر روم کی عظیم الشان سلطنت سے وثنیت (بت پرستی) کا نام ونشان مٹ گیا اوریورپ،افریقہ اور شرقِ اردن میں تلوار کے زور سے مسیحیت پھیل گئی۔‘‘

اس کے بالمقابل ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے “The Preaching of Islam” میں کھلے دل سے اعتراف کیاہے کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اخلاق وکردار کے زور سے پھیلا ہے۔ نیز مسلمانوں نے غیرمذہب والوں کو ہر جگہ مذہبی آزادی دی ہے۔ انھوں نے تفصیلاً لکھا ہے کہ کس کس جگہ عیسائی اقلیت میں اورمسلمانوں کے زیر دست تھے۔ جنہیں بڑی آسانی سے بزورِ بازو مسلمان بنایاجاسکتاتھا مگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگرکسی جگہ بادشاہوں نے اس کا ارادہ بھی کیا تو مسلمان مفتیوں نے ان کو اس ارادے سے باز رکھا۔‘‘

وہ مزید اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ اعتراف کرتا ہے:

’’کوئی مذہب اسلام کی طرح روادار اور صلح کل نہیں ملے گا جس نے دوسروں کو اس طرح مذہبی آزادی دی ہو — رواداری مسلمانوں کی طبیعت کا ایک محکم خاصہ اورمکمل مذہبی آزادی ان کے مذہب کا دستورالعمل رہا ہے۔‘‘

اسلام مذہبی رواداری میں یقین رکھتا ہے۔اسلام ہی دین حق ہے، ساری دنیا کی نجات صرف اسلام میں ہے۔ اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذاہب ہیں ناکامی کے راستے پر لے جانے والے ہیں، کامیابی وفلاح کا دروازہ صرف اسلام ہے، یہ ہے اسلام کا ایسا ٹھوس عقیدہ جس میں وہ کسی بھی طرح سے سمجھوتے کا قائل نہیں۔اس عقیدے کے سلسلے میں بعض لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ عقیدہ تو عدم رواداری پر منحصر ہے، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ رواداری کا مفہوم صرف اتنا نہیں ہے کہ دوسروں کوبرداشت کیا جائے بلکہ اس کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دوسروںکے مذہبی عقائدو اقدار، جذبات، تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں  رویہ اختیار نہ کیاجائے کہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ اس طرح مذہبی روادی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ معیاری انسانی برتائو کا نام ہے۔  مذہبی رواداری کے حوالے سے قرآن وسنت میں صریح ہدایات موجود ہیں۔ اسلام عقیدہ توحید میں بے لچک موقف رکھتا ہے اوراس میں کسی سمجھوتے کا قائل نہیں، لیکن قرآن میں واضح اصول کے طور پر باطل معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے روک دیا گیا ہے۔ (الانعام :۸۰۱)اس لیے کہ اس سے جذبات مجروح ہوں گے۔ سامع کے مزاج میں اشتعال پیداہوگا اور وہ عین جواب میں معبودِ حقیقی کو بھی برا بھلا کہنے لگیں گے۔ اسلام میں غلط موقف کو رد کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے، وہ خوب صورت اسلوب میں کی جانے والی بحث ہے نہ کہ طنز و تشنیع اور نزاع پیداکرنے والا طرز۔

کیا اسلام اپنا نظام زبردستی لوگوں پر تھوپتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، یہ بڑی غلط فہمی ہے جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ : دین میں کوئی جبر نہیں۔ (البقرہ:۶۵۲) یہ انسان کی آزادی فکر و عقیدہ کا اعلان ہے۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ فکر و عقیدہ کو دوسروں پر بہ جبر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس نظریے کو چاہے اختیار کرے اور جسے چاہے رد کردے۔ اس کا محاسبہ کرنے والی ذات خدا کی ذات ہے، وہ قیامت کے دن اس کا محاسبہ کرے گا۔ دنیا میں اس بنیاد پر ایسے شخص کے ساتھ غیر منصفانہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ اسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہیںکیا جاسکتا۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’اس لیے اے نبی تم اس دین کی طرف دعوت دو اور ثابت قدم رہوجیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور ان لوگو ں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور کہو کہ اللہ نے جو کتاب اتار ی ہے اس پر میں ایمان لایا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔اللہ ہی ہمار ااور تمہار ارب ہے۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ہمارے اور تمہارے درمیان کو ئی جھگڑا نہیں ہے۔اللہ ہم سب کو جمع کریگا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔(الشوری:۵۱) حضرت عمرؓ کا ایک رومی غلام حضرت عمرؓکی وفات تک ان کے پاس رہا۔ حضرت عمرؓ چاہتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرلے تو وہ اسے کسی اہم عہدے پر فائز کردیں لیکن اس نے اسلام قبول نہیں کیا اپنی وفات کے وقت حضرت عمرؓ نے اسے آزاد کردیا۔ انسانی رواداری کا ایک اہم نمونہ یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ  غیر مسلم کے جنازے کے اس کے احترام میں بھی کھڑے ہوجاتے تھے۔ (بخاری) ہجرت کے بعد ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے تحت مذہبی رواداری پر مبنی جو حقوق غیر مسلم فریقوں کو حاصل ہوئے ان میں سے دو یہ تھے :

ایک یہ کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مذہبی و سیاسی سطح پر وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ دوسرے یہ کہ دونوں فریق مل کر دشمنوں سے اس امت متحدہ کی حفاظت کریں گے۔ دونوں مل کر دفاعی اخراجات کی ذمہ داریاں اٹھائیں گے۔اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کامل داخلی خود مختاری دی گئی ہے۔

عہدِ نبوی میں خود مختاری آبادی کے ہر گروہ کو مل گئی تھی۔ جس طرح مسلمان اپنے دین عبادت قانونی معاملات اور دیگر امور میں مکمل طور پر آزاد تھے، اسی طرح دوسرے مذاہب و ملت کے لوگوں کو بھی کامل آزادی حاصل تھی۔‘‘ (ص:۸۱۴) چنانچہ فقہ میں یہ بات مسلّم ہے کہ اسلامی مملکت کے غیر مسلم شہریوں کو اس بات کی اجازت حاصل ہوگی کہ وہ اپنی پسند کے کھانے استعمال کرسکیں۔ ان پر اس سلسلے میں پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی تاریخ میں مذہبی رواداری کی قابلِ رشک مثالیں ملتی ہیں۔دمشق کی مسجد کبیر کی توسیع کے لیے ولید بن عبدالملک نے ایک چرچ کے کچھ حصے کو اس میں شامل کر لیا جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو انھوں نے مسجد کے اس حصے کو توڑ کر چرچ کو واپس کردیا۔یہ مثالیں قرآن میں مذہبی رواداری کے تصور اور تلقین کے عین مطابق ہیں۔ قرآن میں کہا گیا ہے: ’’تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف کا رویہ اختیار نہ کرو، انصاف کرو۔‘‘ (المائدہ :۸) ارشاد ہے:اگر اللہ تعالی ایک گروہ کو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہتا تو عبادت خانے ،گرجے مسجدیں ،اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھادی جاتیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔(سورہ حج:۰۴)

لیکن کیا رواداری کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی پہچان کھودے؟ نہیں اور بالکل نہیں، مذہبی رواداری کے نام پر غیرمسلموں کا طریقہ اپنانا حرام ہے، کسی باطل عقیدے اور مشرکانہ تہواروں کی تائید کرنا کفر ہے، غیرمسلم کو اپنے مذہب پر چلنے کا پورا اختیار ہے لیکن مسلمان اگر ان کے عقیدے کی تائید کریں تو خود ان کا اسلام ہی باقی نہیں رہے گا۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے ، مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں عقائد، عبادات، معاملات تمام امور میں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی پابندی کریں۔ اسی لیے سنن ابی داؤد کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔  (صحیح ابوداؤد)آج ہندوستان میں رواداری کا مفہوم بدل گیا ہے ۔بعض مسلم سیاسی لیڈران اور خود ساختہ رہنما برادران وطن کے مذہبی تیوہاروں میں شریک ہوتے ہیں اوربسا اوقات وہ افعال انجام دیتے ہیں جن کے کرنے سے ایک مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ،اسے وہ مذہبی رواداری کا نام دیتے ہیں یہ سراسر غلط ہی نہیں بلکہ شرک ہے ۔مذہبی رواداری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اہلِ کفر کی مشابہت اختیار کریں ،اور نہ یہ ہے کہ ہم ان کے تیوہاروں میں حصہ لیں ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آج دنیا میں مساوات، امدادِ باہمی، علمی جدوجہد اور نوع انسانی کے ساتھ ہمدردی کی جو تحریکیں جاری ہیں وہ سب کی سب اسلام ہی سے مستعار لی گئی ہیں۔ اسلام نے جلوہ گر ہوکر حکومتی نظاموں کا ڈھانچہ بدل دیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں انقلاب برپا کردیا۔ اسلام نے ایک ایسا مکمل نظامِ حیات پیش کیا جو مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ایک رحمت ثابت ہوا۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جن کا اعتراف ہر انصاف پسندانسان کو کرنا چاہیے۔

مذہبی رواداری کے تعلق سے ہمیں صرف اصولی قوم ہی نہیں بلکہ عملی قوم بھی ہونا چاہیے۔ مذہبی راوداری کی روشن مثالیں جو ماضی میں ملتی ہیں گرچہ حال میں کم ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصول و نظریات کے حوالے سے مثالیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، توہم عموماً ماضی سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ماضی میں ہماری ذہنیت دین کی اصولی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں تشکیل پائی تھی۔ حال میں ہمارا ذہن موجودہ رحجانات سے متاثر ہے۔ بسا اوقات رویہ ایسا ہوتاہے کہ جو تمہارے ساتھ جیسے کرے تم بھی اس کے ساتھ ویساہی کرو۔ حالانکہ رسول اللہ ؐ کی تعلیم یہ ہے کہ :’’تم موقعہ پرست مت بنو کہ کہنے لگو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کریں گے تو ہم ان کے ساتھ اچھا معاملہ کریں گے اور اگر وہ ہمارے ساتھ برا معاملہ کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ برا معاملہ کریں گے، بلکہ تم خود کو اس بات کا عادی بناو کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کے ساتھ پیش آئے تو تم بھلائی کے ساتھ پیش آو۔‘‘ قرآن کا ارشاد ہے : ’’تم برائی کوبھلائی سے دفع کرو۔ جب تم ایسا کروگے تم دیکھوکہ تمہارا کٹّر دشمن بھی تمہارا گہرا دوست ہوگیا۔‘‘ (فصلت: ۴۳) حضرت علیؓ کا قول ہے کہ نیکی خود اپنا انعام ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم جو نیکی کررہے ہوں دنیا میں ہمیں اس کی متوقع اورپسندیدہ جزا بھی ملے۔اس وقت اسلامی اصولوں پر محض فخر کی بجائے ان کو برت کر دکھا نے کی ضرورت ہے۔ایک داعی قوم کی حیثیت سے ہمار ا یہ فریضہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ وسیع النظری  اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔اس سے قطع نظر کہ دوسروں کا معاملہ ہمارے ساتھ کیا ہے۔یہی رسولؐ کا اسوہ اور اصحاب رسولؐ کا طریقہ ہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau