زیرِ نظر کتاب جناب مولانا سید جلال الدین عمری کی اہم تصنیف ہے۔ موصوف ایک معروف عالم ہیں اور پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ آپ کی تحریروں کا نمایاں وصف، علم و فکر کی گہرائی، مطالعے کی وسعت اور اسلوبِ بیان کی سلاست ہے۔ زیرِ نظر کتاب اردو میں لکھی گئی پھر کئی علاقائی زبانوں میں اس کاترجمہ شائع ہوا۔ اب انگریزی ترجمہ، منظرِ عام پر آرہا ہے۔ یہ کتاب انسانی حقوق کے اسلامی تصور کی وضاحت کرتی ہے۔
اسلام اللہ کا مستند دین ہے اور انسانوں کے لیے موزوں ترین نظامِ فکر و عمل بھی ہے۔ اسلام کی صورت میں خالق کائنات نے انسانوں کو جامع رہنمائی فراہم کی ہے۔ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھا کر انسان سنگین سماجی مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ اسلام وہ اصول پیش کرتا ہے جو انسان کی فکر کو صحیح رخ دیتے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات میں اسے راہِ صواب پر قائم رکھتے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب کے مباحث میں اسلام کی یہ خصوصیات جھلکتی ہیں۔ ایک طرف اسلام، انسان کی اعلیٰ ترین مراتب کے حصول کی جانب رہنمائی کرتا ہے اور دوسری جانب فرد اور معاشرے کی جامع تربیت کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی نظامِ حیات میں انسانی حقوق کی معنویت دوچند ہوجاتی ہے۔ یہ حقوق محض سماجی آداب یا قانونی ہدایات کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ خدا سے تعلق کا ناگزیر تقاضا قرار پاتے ہیں۔ اس طرح انسانی حقوق کو اسلامی نظامِ اقدار میں اساسی پوزیشن حاصل ہوجاتی ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی محض قانون شکنی نہیں ہے بلکہ معصیت بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے اخلاقیات اور قانون کے معنوی ربط کو استحکام بخشا ہے۔ اس مربوط فہم سے حقوق کی قانونی حیثیت مجروح نہیں ہوتی بلکہ ان حقوق کی ادائیگی کا اہتمام، ایک عادل ریاست کی ناگزیر ذمہ داری قرار پاتا ہے۔
محترم مصنف نے اس عام غلط فہمی کو دور کیا ہے کہ انسانی حقوق کے تصور کی ابتداء یوروپ میں نشاۃ ثانیہ سے ہوئی۔ تاریخی اعتبار سے محض اتنی بات درست ہے کہ آج مغرب کے سیاسی غلبے کی بنا پر دورِ حاضر انسانی حقوق کو محض مغرب کی دَین تصور کرتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تمام الٰہی شریعتیں، انسانی حقوق کا احترام سکھاتی رہی ہیں۔ انسانوں کو روحانی ارتقاء اور اخلاقی بلندی کی راہیں دکھانے کے علاوہ، الٰہی ہدایت کا اہم موضوع، خلقِ خدا کے حقوق کی ادائیگی ہے مثلاً شریعت موسوی میں انسانی حقوق سے متعلق تعلیمات موجود ہیں۔ پیغمبرانہ تعلیمات کے تسلسل کے عین مطابق، اسلام نے انسانی حقوق کے سلسلے میں واضح رہنمائی فراہم کی ہے۔ یوروپ کی نشاۃ ثانیہ سے ایک ہزار سال قبل آخری نبی محمد ﷺ نے جو دین پیش کیا، وہ انسانی حقوق کے جامع تصور کا حامل تھا۔ زیرِ نظر کتاب میں مصنف نے مغرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تنقیدی نظر ڈالی ہے اور تاریخی احوال میں تبدیلی کے ساتھ مغربی تصورات میں تبدیلی کا بھی جائزہ لیا ہے۔ مغرب کی تحریکِ حقوق انسانی کے اہم پہلوؤں کا مصنف نے نوٹس لیا ہے اور اس تحریک کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔ مغرب کے بالمقابل انسانی حقوق کا اسلامی نظام زیادہ حقیقت پسندانہ اور جامع ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں قابلِ عمل ہے۔ فاضل مصنف کی بحث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
انسانی حقوق کے تاریخی پس منظر پر بحث کے بعد مصنف نے انسانی حقوق کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان حقوق کے احترام کی حقیقی اساس، قانونِ الٰہی ہے جو ان کو سند عطا کرتا ہے۔ حقوق کی ایک جامع فہرست پیش کرنے کے ساتھ، مصنف نے آیاتِ قرآنی اور احادیثِ رسول کا حوالہ دیا ہے جن سے حقوق اخذ کے گئے ہیں۔ ان نصوص کی تشریح میں علماء کرام کی تصریحات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اہم حقوق یہ ہیں: زندہ رہنے کا حق، حق مساوات اور حصولِ انصاف کا حق۔ مصنف نے اس امر پر زور دیا ہے کہ قانون کی حکمرانی، مہذب سماج کا اہم اصول ہے اور اسلامی ریاست، دین کے حوالے سے، اس اصول کی پابند ہے۔ ریاست سے اسلام یہ بھی توقع کرتا ہے کہ وہ تمام باشندوں کے حقوق کی حفاظت کرے گی۔ حتی کہ کسی مجرم کو بھی اسلامی ریاست میں قانونی سزا سے شدید تر سزا نہیں دی جاسکتی۔
زیرِ نظر کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں محترم مصنف نے حقوقِ انسانی کا تاریخی پس منظر اور نظریاتی اساس بیان کی ہے۔ پہلے تین ابواب ان ابتدائی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ پھر بحث کا رخ ان گوشوں کی طرف مڑتا ہے جہاں متعین سوالات کو زیرِ غور لایا گیا ہے۔ چنانچہ چوتھے باب میں بنیادی انسانی ضرورتوں کا تذکرہ ہے۔ گرچہ جدید دور کی رفاہی ریاست بھی انسانی ضروریات کو اہمیت دیتی ہے لیکن اس سلسلے میں ضروریاتِ انسانی کا اسلامی تصور زیادہ واضح اور جامع ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات میں غذا، لباس، رہائش اور سواری کو شامل کیا گیا ہے۔ ان ضروریات کی فراہمی میں ریاست کے کردار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام شہریوں کی اساسی ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام کرے۔ اس کے لیے درکار انتظامی ڈھانچے کی تشکیل، ریاست کا کام ہے۔ اسلامی تصورِ حیات اور نظامِ اقدار کا خطاب ریاست اور خوش حال شہریوں سے ہے۔ ان کو اسلام متوجہ کرتا ہے کہ اجتماعی اور انفرادی اقدامات کے ذریعے تمام باشندوں کی ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنائیں۔
کتاب کے پانچویں باب میں سماجی و معاشرتی حقوق پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں حریت فکر ونظر اور (اخلاقی حدود سے منضبط) اظہارِ خیال کی آزادی شامل ہے۔ ہر شخص کو حق ہے کہ باقاعدہ نکاح کی بنیاد پر خاندان کا آغاز کرے اور پرسکون ازدواجی زندگی گزارے۔ اسلام نجی زندگی کا احترام سکھاتا ہے اورافراد کے نجی معاملات میں غیر مناسب مداخلت کو روا نہیں رکھتا۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات میں وہ آداب سکھائے گئے ہیں جو گھروں میں داخل ہونے، ملاقات کرنے اور دعوتوں میں شریک ہونے سے متعلق ہیں۔ ایک اہم حق جو اسلام تسلیم کرتا ہے، سماج کے اجتماعی امور و معاملات میں حصہ لینے کا حق ہے۔ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ حکمرانوں کے اقدامات پر نگاہ رکھے، بوقتِ ضرورت ان پر گرفت اور تنقید کرے، ان کو مشورے دے اور اصلاحِ حال کی سعی کرے۔ افراد کا یہ سماجی رول اُن کی آزادی کا عین تقاضا ہے اور اسلام کے تصور مساوات کے مطابق ہے۔
کتاب کے آخری چار ابواب اُن موضوعات سے متعلق ہیں جن کو عموماً انسانی حقوق کی بحث میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ چھٹے و ساتویں باب میں کمزوروں و معذوروں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ قارئین اس بحث کی تفصیلات سے بآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسلامی نظام میں بڑی باریک بینی کے ساتھ کمزور افراد کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اگلا باب حقِ دفاع کے بارے میں ہے۔ اگر کسی شخص پر حملہ کیا جائے تو اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی اور اپنے متعلقین کی جان، مال، عزت و آبرو کو بچانے کے لیے، اس کو دفاع کا پورا موقع حاصل ہے۔ کتاب کے آخری باب کا موضوع مذہبی آزادی ہے۔ اسلام مذہب و اعتقاد کے سلسلے میں جبر کو روا نہیں رکھتا۔ اسلام کو ایسی فضا مطلوب ہے جہاں لوگ آزادانہ طرز پر سوچ سکیں، مختلف خیالات سے واقف ہوں اور علم کی روشنی میں اپنی زندگی کا راستہ متعین کریں۔
ہمیں یقین ہے کہ اسلام، آج کے دور کی ضرورت ہے۔ اس کانظامِ حیات، اخلاقی نقطہ نظر اور قدریں و تعلیمات، انسان کی فطرت کے مطالبات کا حقیقی جواب ہیں۔ آج کے انسان کو اسلام کے بارے میں درست واقفیت بہم پہنچانا ضروری ہے۔ یہ کتاب اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ جو مخلص افراد، تکریم انسانیت اور عدل کے قائل ہیں ان کو چاہیے کہ اسلام کے نظامِ حقوق انسانی کا بغور مطالعہ کریں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اسلام نے الجھنوں کو دور کرکے، وہ روشن راستہ دکھا دیا ہے جس پر چل کر انسانیت، عادلانہ نظام کی برکات سے بہرہ ور ہوسکتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2019