اسلام نسلی مذہب نہیں

عموماً جو اجتماعی تحریکیں مسلمانوں میں پھیل رہی ہیں وہ اسلامی نقطۂ نظر سے غلط ہیں۔ ان کے مقاصد میں غلطی ہے، ان کے طریقۂ کار میں غلطی ہے، ان کی قیادت میں غلطی ہے اور ان کی روحی کیفیت میں غلطی ہے۔ بہت سے لوگوں کو بے شعوری کی وجہ سے اس غلطی کا احساس نہیں ہوتا اس لیے وہ جوش و خروش کے ساتھ ان تحریکوں کو چلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی تحریک کے درست ہونے کے لیے بس یہی بات کافی ہے کہ اس میں ’’مسلمانوں کا فائدہ‘‘ ہے، یحسبون انھم یحسنون صنعاً اور بہت سے لوگ جن کو غلطی کا احساس ہے وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی کمزوری کے باعث ان تحریکوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے نفس نے انھیں یہ دھوکا دے رکھا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کے درمیان ایک بین بین راہ چلنے ہی میں سلامتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور جاہلیت کے درمیان کوئی بیچ کی راہ نہیں ہے اور ایسی کسی راہ پر چل کر مسلمان کہیں کے بھی نہیں رہتے۔

اگر آپ کو اسلام سے واقعی محبت ہے اور حقیقت میں آپ مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام یہودیت اور ہندو ازم کی طرح ایک نسلی مذہب نہیں ہے جو ایک نسلی قومیت بناتا ہو بلکہ وہ تمام نوع انسانی کے لیے ایک اخلاقی و اجتماعی مسلک ہے۔ یک جہانی نظریہ (world theory) اور ایک عالمی تصور (universal idea) ہے، وہ ایک ایسی جماعت پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس مسلک، اس نظریہ، اس تصور کو لے کر اٹھے اور دنیا کے سامنے عملاً اس کا نقشہ پیش کرے اور جس جس قوم کے جو جو لوگ اس کو قبول کرتے جائیں انھیں اپنی جماعت میں شامل کرتی چلی جائے، یہاں تک کہ قوموں کے درمیان تفریق کی دیواریں مسمار ہو جائیں۔

(اسلامی سیاست، حصہ سوم)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2020

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau